ٹڈّی دَل کا حملہ

بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بل کہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے۔

بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بل کہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز میں ٹڈّی دَل نے حملہ کیا جس کی وجہ سے باغات اور فصلیں تباہ ہوگئیں، اس سے ناصرف کسانوں کو نقصان ہوا، بل کہ ملک کی معیشت بھی خطرات سے دوچار ہے۔

بلاشبہ یہ عذاب الہٰی کی ایک شکل ہے، اسے محض تبصروں کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بل کہ ظاہری اقدامات کے ساتھ اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے باطنی اقدامات بھی کرنے چاہییں اور باطنی اقدامات میں سے سب سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے خالق اور مالک ہیں۔ خالق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم از خود نہیں بنے بل کہ اس ذات نے ہمیں وجود بخشا اور مالک کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں جس کام کا حکم دے اور جس بات سے رکنے کا کہے اس کی تمام باتوں کو ماننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ اﷲ تعالیٰ جن باتوں اور کاموں کا حکم دیتے ہیں ان میں خیر ہوتی ہے اور جن امور سے بچنے اور رکنے کا حکم دیتے ہیں ان میں شر ہوتا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر دیکھنے کے اعتبار سے اس کے برخلاف بھی نظر آئے۔ جب تک کوئی قوم اﷲ کے نازل کردہ احکامات پر چلتی رہتی ہے تب تک مجموعی طور اس پر تکالیف اور مصائب نہیں اترتیں، لیکن جب اسی قوم کی اکثریت اﷲ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہے تو خدا کی طرف سے مصائب و شدائد اس قوم کو گھیر لیتی ہیں۔ قرآن کریم میں سابقہ امّتُوں کی تباہی، بربادی اور ہلاکت کے اسباب مذکور ہیں کہ فلاں قوم نے فلاں خدائی حکم سے رُوگردانی کی تو اﷲ تعالیٰ نے اس قوم پر فلاں عذاب نازل فرمایا۔ قرآن کریم محض قصے کہانیوں کی کتاب نہیں، بل کہ یہ کتاب عبرت کا درس دیتی ہے، انسان کو سوچنے کی دعوت فکر دیتی ہے۔ قرآن کریم میں سابقہ امّتُوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو بتلایا گیا ہے، مفہوم: ''پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے (پانی میں) غرق کیا، اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے، بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (گناہ) کرتے تھے۔'' (سورۃ العنکبوت)

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بل کہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ اسی علاقے کے لوگوں کے گناہوں کا ہی وبال ہو۔ یہ تنبیہ ہوتی ہے کہ باقی لوگ گناہوں سے باز آجائیں۔

احکامات الہٰیہ پر عمل کی دعوت اور منہیات الہیہ سے رکنے کی فکر ہر نبیؑ نے اپنی قوم کو دی ہے، خصوصاً جناب نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے اپنی امّت کو اس کی بہت تلقین فرمائی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرامؓ نے امّت کو یہی تعلیم دی ہے۔ ''جب کسی قوم میں حرام مال عام ہو جائے، تو اﷲ رب العزت ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھا دیتے ہیں، اور جب کسی قوم میں زنا عام ہوجائے تو ان میں موت کی کثرت ہوجاتی ہے اور حادثاتی اموات پھیل جاتی ہیں، اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے رزق کو گھٹا دیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم ظلم و ناانصافی کرنے لگے تو ان میں قتل و قتال عام ہوجاتا ہے، اور جب کوئی قوم وعدہ خلافی کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو ان پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔


(موطا امام مالک)

اس حدیث مبارک کو بار بار پڑھیں اور پھر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آج وہ کون سا جرم ہے جو ہم نہیں کر رہے؟ مال کمانے میں حلال حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے۔ سُود، رشوت، ناحق غصب، لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری، ڈکیتی اور دھوکا دہی عام ہے، ہر شخص دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے دل میں ڈر، مرعوبیت، خوف اور دہشت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ زنا تو ہمارے معاشرے کا ایک فیشن بن چکا ہے، زانی شخص اسے اپنے لیے فخر کی بات سمجھتا ہے، دوستوں میں بیٹھ کربڑی دیدہ دلیری سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے العیاذ باﷲ زنا کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر مصیبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتا ہے، ساری زندگی کے لیے اس کے خاندان کو کہیں منہ دکھانے کا نہیں چھوڑتا، اس کا مستقبل برباد کر دیتا ہے۔ کسی کی عزت کو داغ دار کرنا ہی بہت بڑا جرم ہے، خدا نہ خواستہ اگر کبھی عورت کے دل میں شیطان غلبہ پالے اور وہ باوجود پیکر عفت ہونے کے از خود اس گناہ کی دعوت دے تو شریعت کا حکم ہے اس وقت اس سے کہا جائے کہ میں اس بارے اﷲ سے ڈرتا ہوں۔ بہت صبر آزما مرحلہ ہے لیکن اس کی جزا بہت بڑی ہے۔ چناں چہ قیامت کے دن جب سورج بہت ہی قریب ہوگا اور روز حشر کی گرمی لوگوں کو جھلسا رہی ہوگی اس وقت اﷲ کریم ایسے شخص کو اپنے عرش کا سایہ فراہم کریں گے۔ زنا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسباب زنا چھوڑ دے، نامحرم کو دیکھنا، ملنا ملانا، پیغامات اور کال کرنا، میل ملاپ رکھنا، فلمیں، ڈرامے، موسیقی، گانے، غزلیں سننا اور دیکھنا۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے، اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور زنا جیسی لعنت سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ جب تک انسان بدنظری نہیں چھوڑتا زنا سے بچنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس گناہ کی نحوست اور لازمی نتیجہ کثرت سے اموات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ باہمی لڑائیاں، بیماریاں اور قدرتی آفات پھیل جاتی ہیں اور حادثاتی طور پر مرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

حرص و ہوس ایسا مرض ہے جو انسان کو گھٹیا کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ شروع میں یہ ایک نفسانی خواہش ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے وہ اس کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ اس کی طبیعت اور فطرت لالچ بن جاتی ہے۔ حدیث مبارک میں دراصل تاجروں کی ایک گندی خصلت کا تذکرہ ہے کہ وہ چند پیسوں کی خاطر ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، خرید و فروخت کے وقت جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں، دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں۔ مال تو بک جاتا ہے لیکن مال کے بکنے سے پہلے انسان کا ایمان بھی بک چکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے گھروں میں خیر باقی نہیں رہتی۔ مال کی کثرت کے باوجود اس میں برکت نظر نہیں آتی۔ اسباب تعیش کے باوجود راحت مقدر نہیں بن سکتی۔

ظلم اور ناانصافی اس وقت ہمارے پورے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ شمار کیا جاتا ہے۔ انسان میں ظلم و انصافی کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں مست ہو جاتا ہے اور خوف خدا اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ غلبے و دبدبے کا زعم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے۔ وہ مخلوق خدا کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ تو مخالفین کے ساتھ معاملات کے نازک مواقع پر بھی عدل کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن جب ظلم پل کر جوان ہوتا ہے تو وہ معاشرے سے امن و سکون، عدل و انصاف، راحت و سرور اور خوش حالی و ترقی کو نابود کردیتا ہے۔ اس کے دست ستم سے معاشرہ زخموں سے بُری طرح گھائل ہو جاتا ہے، قتل و قتال عام ہو جاتا ہے۔ بالخصوص جب کسی شخص کو فریقین کے درمیان قاضی یا جج بنایا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ انصاف اور عدل سے کام لے، ظلم و انصافی سے گریز کرے۔ ورنہ اس کا یہ جرم صرف اس کی ذات کی حد تک محدود نہیں رہے گا بل کہ اس کا وبال پورے معاشرے پر پڑے گا۔

آج کی دنیا انسانی تمدّن و اخلاقیات کو بھلائے جا رہی ہے، ستم یہ ہے کہ بدعہد شخص خود کو چالاک، شاطر اور چرب زبان سمجھ کر خوش ہوتا ہے، اپنی بات سے پھر جانا ایک معمول سا بنتا جا رہا ہے۔ انسانی اقدار اور اخلاقی قدریں اس قدر کھوکھلی ہو چکی ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے دین دار وضع قطع والے لوگ اس زوال کو اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ پوری امّت مسلمہ کو ہر طرح کے عذابوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی تمام باتوں سے محفوظ فرمائے جو بندے کو عذاب کا مستحق بنا دیتی ہیں۔ آمین
Load Next Story