حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلے ہمارے گلے ڈال دیتی ہے چیف جسٹس
حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں، چیف جسٹس گلزار احمد
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلے ہمارے گلے ڈال دیتی ہے۔
سپریم کورٹ میں نجی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں ادویات سازوں کا بہت بڑا مافیا ہے، کیا وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کوئی فیصلہ کیا؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معاملہ کابینہ نہیں بلکہ ٹاسک فورس کو بھیجا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا لگتا ہے ٹاسک فورس فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے پر بیٹھ ہی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آخر کر کیا رہی ہے، حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے، وہ صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں، حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلے کرنے کیلئے معاملہ ہمارے گلے ڈال دیا جاتا ہے، ادویات کمپنیاں ہوں یا خریدار سب ہی غیر یقینی صورتحال میں رہتی ہیں، ادویہ ساز کمپنیاں خام مال خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی، ڈریپ کہتی ہے مُٹھی گرم کرو تو سارا کام ہوجائے گا، حکومت خود فیصلہ کرتی نہیں بس ہائی کورٹ کے فیصلے چیلنج کرتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نجی کمپنی نے باسکوپان نامی دوائی مارکیٹ سے غائب کر رکھی ہے، دوائی کی قیمت پوری نہ ملے تو مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے، نجی کمپنی نے آٹھ دوائیوں کی قیمت بڑھائی، ڈریپ نے ایکشن لیا تو سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈریپ بروقت فیصلہ نہ کرے تو مقررہ مدت کے بعد ازخود قیمت بڑھ جاتی ہے۔
نجی کمپنی کے وکیل دوسری عدالت میں مصروف ہونے کے باعث پیش نہیں ہوئے جس پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ میں نجی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں ادویات سازوں کا بہت بڑا مافیا ہے، کیا وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کوئی فیصلہ کیا؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معاملہ کابینہ نہیں بلکہ ٹاسک فورس کو بھیجا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا لگتا ہے ٹاسک فورس فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے پر بیٹھ ہی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آخر کر کیا رہی ہے، حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے، وہ صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں، حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلے کرنے کیلئے معاملہ ہمارے گلے ڈال دیا جاتا ہے، ادویات کمپنیاں ہوں یا خریدار سب ہی غیر یقینی صورتحال میں رہتی ہیں، ادویہ ساز کمپنیاں خام مال خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی، ڈریپ کہتی ہے مُٹھی گرم کرو تو سارا کام ہوجائے گا، حکومت خود فیصلہ کرتی نہیں بس ہائی کورٹ کے فیصلے چیلنج کرتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نجی کمپنی نے باسکوپان نامی دوائی مارکیٹ سے غائب کر رکھی ہے، دوائی کی قیمت پوری نہ ملے تو مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے، نجی کمپنی نے آٹھ دوائیوں کی قیمت بڑھائی، ڈریپ نے ایکشن لیا تو سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈریپ بروقت فیصلہ نہ کرے تو مقررہ مدت کے بعد ازخود قیمت بڑھ جاتی ہے۔
نجی کمپنی کے وکیل دوسری عدالت میں مصروف ہونے کے باعث پیش نہیں ہوئے جس پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔