کیا بھارت چین کے معاشی بائیکاٹ کا متحمل ہوسکتا ہے
موجودہ حالات میں بھارت کےلیے تناؤ کو بڑھانا یا چین کے ساتھ معاشی تعلقات کم کرنا غیر معقول ہے
15 جون کو وادی گالوان میں چین اور بھارت کی فوجوں کے سرحدی دستوں کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپ کے بعد بھارت تناؤ میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت کے اندر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک مہم چل رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکام بھی چین کے ساتھ تجارت کم کرنے یا روکنے پر غور کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو نقصان کس کو ہوگا؟ چین کو یا خود بھارت کو؟ آئیے اس سوال کا جواب حقائق کی روشنی میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھارت کی چین سے محاذ آرائی کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ اس وقت بھارت میں کووڈ۔19 کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ تصدیق شدہ کیسز کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق کیسز کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ دراصل بھارتی معیشت میں مزید لاک ڈاؤن برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ ایسے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اختیار کرکے وبا سے متعلق حکومت پر موجود دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاہ بھارتی سیاسی جماعتیں قوم پرستی کے جذبات ابھار کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے حوالے سے بھی خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں چین کے ساتھ محاذ آرائی میں شدت لانا اور طول دینا بھارتی معیشت کےلیے تباہ کن ہے۔
عالمی مالیاتی سپلائی چین کے تناظر میں، اگر بھارت چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتا ہے تو اس کے پاس بہت کم آپشن بچیں گے۔ ایسی صورت میں بھارت اپنی فرموں اور صارفین کےلیے زیادہ قیمتیں لائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ بھارتی صنعتی شعبوں کا چین سے سپلائی پر بہت انحصار ہے اور ان کے پاس چین سے تعاون کے علاہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھارتی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل میں پچھلے سال کے مقابلے میں درآمدات میں 48.3 فیصد جبکہ برآمدات میں 33.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ عالمی سطح پر معیشت کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے والے ٹریڈنگ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اپریل میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی شدید دھچکا لگا، جو کم ہوکر 1.37 بلین ڈالر رہ گئی، جس میں گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 52.5 فیصد کی کمی ہوئی۔
ان حالات میں بھارت کےلیے تناؤ کو بڑھانا یا چین کے ساتھ معاشی تعلقات کم کرنا غیر معقول ہے۔ کیوںکہ دونوں ملکو ں کی حیثیت میں واضح فرق ہے۔ چین برسوں سے ہندوستان کا ٹاپ تجارتی پارٹنر رہا ہے، جبکہ بھارت کو چین کی برآمدات اس کی کل برآمدات کا تقریباً 2 فیصد ہے۔ عالمی سطح پر ویلیو چینز کے تحت چین سے درآمدات یا سرمایہ کاری پر پابندی لگانا بھارت کےلیے آسان نہیں، کیونکہ مشرقی ایشیائی ممالک انتہائی مربوط صنعتی چین میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس طرح کی پابندیاں لامحالہ دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے تعاون میں رکاوٹ بنے گی اور طویل مدتی تناظر میں بھارت کے تجارتی ماحول کو خراب کرے گی۔ اس کے علاہ چین دنیا کے صنعتی چین کی سب سے مضبوط اور اہم کڑی ہے، لہٰذا چین پر پابندی لگا کر بھارت کبھی بھی ٹھوس صنعتی نظام کو فروغ نہیں دے سکے گا۔
بھارت کےلیے ایشیائی علاقائی معیشتوں کے باہمی تعاون کے راستے کو اختیار کرنا معقول انتخاب ہوگا۔ مثال کے طور پر ہندوستان اور چین کے درمیان بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں باہمی تعاون کےلیے کافی گنجائش موجود ہے، کیونکہ چین دنیا کو انتہائی مناسب قیمتوں پر مثالی منصوبے پیش کرسکتا ہے۔
اس کے برعکس ہندوستان اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کے مابین معاشی ہم آہنگی کمزور ہوچکی ہے، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک سے بڑی صنعتوں کی منتقلی کا کام مکمل ہوچکا ہے اور بھارت اپنے ناکافی انفرااسٹرکچر، کم مسابقتی لیبر اور اپنے نظام میں موجود نقائص کی وجہ سے چین یا جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی جگہ لینے کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکا۔
امریکا، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت بھارت کو مختلف ترغیبات دے رہا ہے۔ کبھی اس سال کے جی 7 سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دے کر تو کبھی ''جی 11'' تشکیل دے کر۔ اور کبھی ہند بحرالکاہل کی حکمت عملی میں اضافے کا کہہ کر ۔ دراصل امریکا بھارت کو چین مخالف گروہ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ حکمت عملی کارگرثابت ہوگی یا نہیں، یہ سارے اقدامات چین کی ترقی کو روکنے کےلیے امریکا کی سیاسی یا اسٹرٹیجک چالیں ہیں اور شاید ہی ان سے بھارت کو حقیقت پسندانہ فوائد حاصل ہوں۔
اگرچہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ بھرپور تعاون کے ذریعے بھارت کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن معاشی تعاون کےلیے لازم ہے کہ تعلقات میں ایک سلیقہ ہو، قرینہ ہو اور ایک دوسرے کےلیے احترام ہو۔ تاہم بھارت اس وقت ان سارے آداب اور پیمانوں کو سبوتاژ کررہا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ تباہی کے راستے پر چلنے سے بچنے کےلیے اپنی صلاحیت کے جامع جائزہ کی بنیاد پر معقول معاشی حکمت عملی وضع کرے۔ معاشی بائیکاٹ معاشی خودکشی کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بھارت کی چین سے محاذ آرائی کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ اس وقت بھارت میں کووڈ۔19 کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ تصدیق شدہ کیسز کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق کیسز کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ دراصل بھارتی معیشت میں مزید لاک ڈاؤن برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ ایسے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اختیار کرکے وبا سے متعلق حکومت پر موجود دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاہ بھارتی سیاسی جماعتیں قوم پرستی کے جذبات ابھار کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے حوالے سے بھی خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں چین کے ساتھ محاذ آرائی میں شدت لانا اور طول دینا بھارتی معیشت کےلیے تباہ کن ہے۔
عالمی مالیاتی سپلائی چین کے تناظر میں، اگر بھارت چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتا ہے تو اس کے پاس بہت کم آپشن بچیں گے۔ ایسی صورت میں بھارت اپنی فرموں اور صارفین کےلیے زیادہ قیمتیں لائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ بھارتی صنعتی شعبوں کا چین سے سپلائی پر بہت انحصار ہے اور ان کے پاس چین سے تعاون کے علاہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھارتی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل میں پچھلے سال کے مقابلے میں درآمدات میں 48.3 فیصد جبکہ برآمدات میں 33.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ عالمی سطح پر معیشت کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے والے ٹریڈنگ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اپریل میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی شدید دھچکا لگا، جو کم ہوکر 1.37 بلین ڈالر رہ گئی، جس میں گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 52.5 فیصد کی کمی ہوئی۔
ان حالات میں بھارت کےلیے تناؤ کو بڑھانا یا چین کے ساتھ معاشی تعلقات کم کرنا غیر معقول ہے۔ کیوںکہ دونوں ملکو ں کی حیثیت میں واضح فرق ہے۔ چین برسوں سے ہندوستان کا ٹاپ تجارتی پارٹنر رہا ہے، جبکہ بھارت کو چین کی برآمدات اس کی کل برآمدات کا تقریباً 2 فیصد ہے۔ عالمی سطح پر ویلیو چینز کے تحت چین سے درآمدات یا سرمایہ کاری پر پابندی لگانا بھارت کےلیے آسان نہیں، کیونکہ مشرقی ایشیائی ممالک انتہائی مربوط صنعتی چین میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس طرح کی پابندیاں لامحالہ دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے تعاون میں رکاوٹ بنے گی اور طویل مدتی تناظر میں بھارت کے تجارتی ماحول کو خراب کرے گی۔ اس کے علاہ چین دنیا کے صنعتی چین کی سب سے مضبوط اور اہم کڑی ہے، لہٰذا چین پر پابندی لگا کر بھارت کبھی بھی ٹھوس صنعتی نظام کو فروغ نہیں دے سکے گا۔
بھارت کےلیے ایشیائی علاقائی معیشتوں کے باہمی تعاون کے راستے کو اختیار کرنا معقول انتخاب ہوگا۔ مثال کے طور پر ہندوستان اور چین کے درمیان بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں باہمی تعاون کےلیے کافی گنجائش موجود ہے، کیونکہ چین دنیا کو انتہائی مناسب قیمتوں پر مثالی منصوبے پیش کرسکتا ہے۔
اس کے برعکس ہندوستان اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کے مابین معاشی ہم آہنگی کمزور ہوچکی ہے، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک سے بڑی صنعتوں کی منتقلی کا کام مکمل ہوچکا ہے اور بھارت اپنے ناکافی انفرااسٹرکچر، کم مسابقتی لیبر اور اپنے نظام میں موجود نقائص کی وجہ سے چین یا جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی جگہ لینے کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکا۔
امریکا، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت بھارت کو مختلف ترغیبات دے رہا ہے۔ کبھی اس سال کے جی 7 سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دے کر تو کبھی ''جی 11'' تشکیل دے کر۔ اور کبھی ہند بحرالکاہل کی حکمت عملی میں اضافے کا کہہ کر ۔ دراصل امریکا بھارت کو چین مخالف گروہ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ حکمت عملی کارگرثابت ہوگی یا نہیں، یہ سارے اقدامات چین کی ترقی کو روکنے کےلیے امریکا کی سیاسی یا اسٹرٹیجک چالیں ہیں اور شاید ہی ان سے بھارت کو حقیقت پسندانہ فوائد حاصل ہوں۔
اگرچہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ بھرپور تعاون کے ذریعے بھارت کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن معاشی تعاون کےلیے لازم ہے کہ تعلقات میں ایک سلیقہ ہو، قرینہ ہو اور ایک دوسرے کےلیے احترام ہو۔ تاہم بھارت اس وقت ان سارے آداب اور پیمانوں کو سبوتاژ کررہا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ تباہی کے راستے پر چلنے سے بچنے کےلیے اپنی صلاحیت کے جامع جائزہ کی بنیاد پر معقول معاشی حکمت عملی وضع کرے۔ معاشی بائیکاٹ معاشی خودکشی کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔