کسی شہر زاد کی کہانی

ہم پاکستانی ان دنوں ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے ہیں کیونکہ ہر روز کوئی نیا الہام سننے کو مل جاتا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

اس ملک میں وہی کچھ ہو گا ،جو آج سے پہلے ہوتا رہا ہے یعنی ہم جو کچھ بھی سمجھ لیں بدلے کا کچھ بھی نہیں کیونکہ نئے پاکستان کو بھی پرانے پاکستان والے لوگ ہی چلا رہے ہیں اسی وجہ سے تبدیلی دوربین سے دیکھنے میں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ البتہ مجھے ایک ناول کا کردار یاد آرہا ہے یہ ناول دنیا کا پہلا ناول سمجھا جاتا ہے 'الف لیلہ ولیلہ 'یعنی ایک ہزار راتیں جس کی کہانی اس ناول کے دو مرکزی کرداروں کے گرد گھومتی ہے ۔ ہوا یوں کہ کہ شہر یار نام کا ایک اس قدر ظالم بادشاہ تھا کہ وہ اپنی رعایا میں سے ہر رات کے لیے ایک دلہن پسند کرتا تھا اور صبح اس کو قتل کرا دیتا تھا۔

ملک کی ہر خوبصورت لڑکی موت کے سائے میں زندہ تھی۔ بالآخر وزیر کی بیٹی شہر زاد نے کہا کہ وہ بادشاہ کو قابو کر لے گی ۔ یہ قصہ طویل اور ایک ہزار کہانیوں پر پھیلا ہوا ہے ۔ مختصراً یہ کہ شہرزاد ہر رات ایک نئی کہانی شروع کرتی اور پو پھٹے ہی شہرزاد کہانی ختم کرتی تو شہر یار پوچھتا کہ پھر کیا ہوا تو شہر زاد کہتی کہ یہ کل بتاؤں گی۔ اس طرح دنیا کے پہلے ناول کی کہانی جب ایک ہزار راتوں تک پھیل گئی تو اس دوران بادشاہ شہر یار انسان بن چکا تھا ۔ ڈاکٹر طٰ حسین نے اس ناول کا عجیب و غریب انداز میں خلاصہ کیا ہے۔

بہرکیف ہمیں اپنے ناول کا ذکر درکار ہے جس میں شہر یار کا کوئی کردار تو نہیں لیکن شہر زاد ضرور موجود ہے جس سے ہر روز ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے ۔ آپ شہر یار کے افسانوی کردار کو اپنے سیاسی کرداروں کی شکل میں دیکھ لیں جو شہر زاد کی طرح اپنے خوابوں کا سلسلہ دراز کیے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ چلائے جا رہے ہیں۔ لیکن ایک ہزار راتوں کی گنتی ابھی پوری نہیں ہوئی اس لیے شاید کہانی ابھی جاری ہے اگر ایک ہزار راتیں مکمل ہو چکی ہوتیں تو شاید کہانی بھی ختم ہو گئی ہوتی، اب معلوم یوں ہوتا ہے کہ ایک ہزار راتوں کا انتظار کرنا پڑے گا اور اس کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ شہر یار بدل گیا ہے یا نہیں۔

مجھے یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے نظریاتی ملک کوبنانے میں جتنی قربانیاں دی گئیں اور اس کے وجود کو برقرار رکھنے میں جن مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس دوران کئی یادگار زمانہ لوگ بھی ہم سے جدا ہو گئے ۔

یہ ملک آج نیم بزرگ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اس کو بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں اور ان بزرگوں کی طفلانہ سوچ کے نتائج قوم کے سامنے ہیں۔ پیروکاروں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کس گلی میں صبح کریں اور کس میں شام ۔ مرزا پر بھی ایک دفعہ ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی تھی ۔ ہم لوگوں کی تو مجال نہیں کہ مرزا پر گزرنے والی کسی کیفیت کا ہلکا سا تصور بھی ذہن میں لا سکیں ۔ غالب بس غالب ہی ہے یہی کہہ کر رہ جاتے ہیں ، حضرت مرزا نے نہ جانے کس کیفیت میں یہ حیران کن شعر کہہ دیا تھا۔


وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو

آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا

ہم پاکستانی ان دنوں ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے ہیں کیونکہ ہر روز کوئی نیا الہام سننے کو مل جاتا ہے۔ سائنسی وزیر فواد چوہدری نے عیدالاضحی کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد تازہ اعلان یہ کیا ہے کہ حکومت کی صفوں میں سب اچھا نہیں ہے اور کئی ایک وزیر ایسے ہیں جو وزیر اعظم بننے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔

ابھی تو حکومت کی الف لیلہ کی داستان کا آغاز ہے لیکن سازشوں کی باز گشت سنائی دینا شروع ہو گئی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب حکومت کے رخصت ہونے کے دن ہوتے ہیں ابھی ہماری حکومت تو نوزائیدگی سے گزر رہی ہے مجھے محسوس یوں ہوتا ہے کہ حکومت کو کسی باہر کی طاقت سے کوئی خطرہ نہیں اس کو جو بھی خطرات لاحق ہیں وہ اندرونی خطرات ہیں یعنی اپنی پارٹی سے ہی خطرہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے جن کی وجہ سے اب حکومت کے اپنے وزیر بھی بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر اپنے وزراء کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے اورکہا ہے کہ وزراء اپنے باہمی اختلافات کو جگ ہنسائی کا سبب نہ بنائیں ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ لیڈر کی سوچ ہی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتی ہے، قومیں اور ملک تب بدلتے ہیں جب لیڈروں کے کردار بدلتے ہیں، وہ کردار جس کی شعائیں قوموں کے دلوں کو چکا چوند کر دیتی ہیں ۔ مجھے انتہائی دکھ ہوتا ہے جب میں ایک بری حکومت کے بعد موجودہ حکمرانوں کو دیکھتا ہوں جن کو قوم نے بڑے لاڈوں سے اقتدار کی مسند پر بٹھایا تھا کیونکہ وہ ماضی کی حکومتوں کی کھلے عام خرابیوں کی وجہ سے بر سر اقتدار آنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ حکمران بھی عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ مسائل اور غربت کی ماری قوم دیوانہ وار اس لیڈر کے پیچھے نہیں چل رہی بلکہ اپنے گوناگوں مسائل کے پیچھے چل رہی ہے، ان کے پاس بلوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں ہے اور دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی بھی مشکل بنا دی گئی ہے ۔

کیا ہم نے نئے حکمران اپنے اوپر مزید غربت تقسیم کرنے کے لیے مسلط کیے تھے ،کیا ہمارا نظریاتی ملک غربت تقسیم کرنے کے لیے بنا تھا، اس کے مقابلے میں جب ہم اپنے لیڈروں اور حکمرانوں کو دیکھتے ہیں جو اربوں کی جائیدادوںمیں قیام کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ یہ سب پاکستان کے مال سے بنائی گئی ہیںتو ہماری جو حالت ہوتی ہے وہ کسی حد تک عوام کی حالت سے عیاں ہے جو پاکستان میں ہرروز کسی شہرزاد کی کہانی میں گم دکھائی دیتے ہیں اور کسی وہم کے پیچھے، کسی دعوے کے پیچھے ، کسی سراب کے پیچھے رواں دواں ہیں۔
Load Next Story