وفاقی بجٹ مشکل حالات اورجرأت مندانہ فیصلے حصہ اول
مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پُرتعیش گاڑیوں سمیت لگژری اشیا کی درآمد بند کردینی چاہیے۔
2018 میں تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو معاشی بدنظمی اور بدحالی ہولناک شکل اختیار کرچکی تھی اور کرپشن نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی۔ 2019کے اختتام تک معاشی بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ تجارتی خسارے میں غیر معمولی کمی آچکی تھی، مالی خسارے پر قابو پالیا گیا تھا، زرمبادلہ کی صورت حال تسلی بخش ہورہی تھی، کریڈٹ ریٹنگ اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کے حوالے سے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری آرہی تھی۔
درآمدات کم ہونے کی وجہ سے تجارتی خسارہ کم ہورہا تھا لیکن اس بہتری کے لیے معاشی ترقی کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ مالیاتی سطح پر بہتری کے آثار ترقیاتی بجٹ میں کمی کی وجہ سے نظر آرہے تھے آمدن میں اضافہ اس کا سبب نہیں تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی قابل ذکر نہیں تھی۔ 2020 کی ابتدا ہی میں کورونا وائرس وبا کے عالمی پھیلاؤ کے خدشات نے مقامی خطرے کی شکل اختیار کرلی تھی اور ملک گیر سطح پر ہونے والے لاک ڈاؤن اور وبا کی روک تھام کے لیے ہونے والے اقدامات کے نتیجے میں شدید معاشی بحران نے آن گھیرا۔
کورونا وبا کے پھیلاؤ سے قبل ہی پاکستان کا معاشی عدم استحکام آشکار ہوچکا تھا۔ حسب توقع اسے مزید مشکلات پیش آچکی ہیں مستقبل کی صورت حال بھی حوصلہ افزا نہیں۔ وبا کے بعد بھی معاشی اور مالیاتی سطح پر کوئی بنیادی تبدیلیاں نہیں آئیں۔ وبا سے پیدا ہونے والے حالات کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی معاشی کارکردگی گزشتہ 40سال کے مقابلے میں بدترین رہے گی۔ اگلی لہر کے سر اٹھاتے ہی اسپتالوں پر دباؤ بڑھ جائے گا اور اس کے بعد آنے والی معاشی تباہی صحت عامہ سے متعلق خطرات کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی۔
صنعتی پیداوار پہلے ہی کم ہوکرنصف رہ گئی ہے اور تعمیراتی شعبے پر طاری جمود کی وجہ سے فوری طور پر اس کی مکمل بحالی ممکن نظر نہیں آتی۔ تیل کی قیمتوںمیں کمی کے باعث ہماری ترسیلات زر بھی نصف رہ گئی ہیں۔ ماسوائے آئی ٹی کے خدمات کا شعبہ شدید دشواریوں کا شکار ہے اور صارفین کے رویوں میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔
پاکستانی قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ کے باوجود ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر غربت میں اضافہ ہوگا اور جب قومی خزانے پر سے اسٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اداروں کا بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تو بے روزگاری بھی بڑھے گی۔ وبا کی روک تھام کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن نے زرعی پیداوار کو بھی متاثر کیا ہے جس کے بعد خوراک کی قلت اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات پیداہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں افلاس مزید بڑھے گا۔
تحریک انصاف کی حکومت کا حالیہ بجٹ ناممکن کو ممکن بنانے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے جب کہ غریب افراد کی مدد کے لیے شروع کیے گئے احساس پروگرام کی مختص رقم بڑھا دی گئی ہے۔اس طوفان کو تھامنے کے لیے کئی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے بچی کچھی رقم بھی سپلائی لائن کو برقرار رکھنے میں صرف ہونی چاہیے۔
مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پُرتعیش گاڑیوں سمیت لگژری اشیا کی درآمد بند کردینی چاہیے۔ تمام ریاستی اداروں کے اخراجات میں کٹوتی ہونی چاہیے۔ سیکیورٹی بہت ضروری ہے تاہم سرکاری گاڑیوں کے کم استعمال سے ایندھن کی بچت اور بجلی وغیرہ کے اخراجات پر تو قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومتی اور انتظامی نظم و نسق اور نوکر شاہی کے کام کرنے کے طریقوں میں اصلاحات لا کر بھی بہت سی بچت ہوسکتی ہے۔ عوام کو میڈیا کے ذریعے واضح پیغام دینا چاہیے کہ ریاست جو حاصل کرتی ہے وہی لوگوں کو بھی دے سکتی ہے۔ صرف خرچے پورے کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کی روایت کو ختم ہونا چاہیے۔
گزشتہ مالی سال میں کوئی ایک بھی کلیدی اقتصادی ہدف پورا نہیں کیا جاسکا اس لیے آیندہ بھی حالات میں بہتری دکھائی نہیں دیتی۔پاکستان کے قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ کسی ترقی پذیر ملک کے لیے اسے اٹھانا ممکن نہیں۔ حکومت کو ایک بارپھر آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رجوع کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی خصوصی اسکیم کے تحت پاکستان 1.4ارب ڈالر پہلے ہی حاصل کرچکا ہے۔
عالمی بینک اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے اندازوں کے مطابق معاشی بحران کے باعث پاکستان میں غربت میں اضافہ ہوگا۔ معاشی بدحالی کا بوجھ دیہاڑی دار مزدور اور غیر روایتی شعبوں کو اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وبا سے بچاؤ کے احتیاط کے ساتھ روزگار کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ خطرات میں گھرے کاروباری و صنعتی اداروں کو بچانے کے لیے 1.2کھرب روپے کا معاونتی پیکیج بھی دیا گیا ہے۔ تعمیراتی شعبے کو دی گئی مراعات کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ اس سے متعلقہ 70دیگر صنعتیں بھی فعال ہوجائیں گی اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ سی پیک کا تسلسل انتہائی اہم ہے کیوں کہ اس کے تحت انفرااسٹرکچر، خصوصی اقتصادی زونز اور صنعتی پارک کا براہ راست تعلق پاکستان کے مستقبل سے ہے۔
(جاری ہے)
درآمدات کم ہونے کی وجہ سے تجارتی خسارہ کم ہورہا تھا لیکن اس بہتری کے لیے معاشی ترقی کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ مالیاتی سطح پر بہتری کے آثار ترقیاتی بجٹ میں کمی کی وجہ سے نظر آرہے تھے آمدن میں اضافہ اس کا سبب نہیں تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی قابل ذکر نہیں تھی۔ 2020 کی ابتدا ہی میں کورونا وائرس وبا کے عالمی پھیلاؤ کے خدشات نے مقامی خطرے کی شکل اختیار کرلی تھی اور ملک گیر سطح پر ہونے والے لاک ڈاؤن اور وبا کی روک تھام کے لیے ہونے والے اقدامات کے نتیجے میں شدید معاشی بحران نے آن گھیرا۔
کورونا وبا کے پھیلاؤ سے قبل ہی پاکستان کا معاشی عدم استحکام آشکار ہوچکا تھا۔ حسب توقع اسے مزید مشکلات پیش آچکی ہیں مستقبل کی صورت حال بھی حوصلہ افزا نہیں۔ وبا کے بعد بھی معاشی اور مالیاتی سطح پر کوئی بنیادی تبدیلیاں نہیں آئیں۔ وبا سے پیدا ہونے والے حالات کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی معاشی کارکردگی گزشتہ 40سال کے مقابلے میں بدترین رہے گی۔ اگلی لہر کے سر اٹھاتے ہی اسپتالوں پر دباؤ بڑھ جائے گا اور اس کے بعد آنے والی معاشی تباہی صحت عامہ سے متعلق خطرات کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی۔
صنعتی پیداوار پہلے ہی کم ہوکرنصف رہ گئی ہے اور تعمیراتی شعبے پر طاری جمود کی وجہ سے فوری طور پر اس کی مکمل بحالی ممکن نظر نہیں آتی۔ تیل کی قیمتوںمیں کمی کے باعث ہماری ترسیلات زر بھی نصف رہ گئی ہیں۔ ماسوائے آئی ٹی کے خدمات کا شعبہ شدید دشواریوں کا شکار ہے اور صارفین کے رویوں میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔
پاکستانی قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ کے باوجود ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر غربت میں اضافہ ہوگا اور جب قومی خزانے پر سے اسٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اداروں کا بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تو بے روزگاری بھی بڑھے گی۔ وبا کی روک تھام کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن نے زرعی پیداوار کو بھی متاثر کیا ہے جس کے بعد خوراک کی قلت اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات پیداہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں افلاس مزید بڑھے گا۔
تحریک انصاف کی حکومت کا حالیہ بجٹ ناممکن کو ممکن بنانے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے جب کہ غریب افراد کی مدد کے لیے شروع کیے گئے احساس پروگرام کی مختص رقم بڑھا دی گئی ہے۔اس طوفان کو تھامنے کے لیے کئی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے بچی کچھی رقم بھی سپلائی لائن کو برقرار رکھنے میں صرف ہونی چاہیے۔
مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پُرتعیش گاڑیوں سمیت لگژری اشیا کی درآمد بند کردینی چاہیے۔ تمام ریاستی اداروں کے اخراجات میں کٹوتی ہونی چاہیے۔ سیکیورٹی بہت ضروری ہے تاہم سرکاری گاڑیوں کے کم استعمال سے ایندھن کی بچت اور بجلی وغیرہ کے اخراجات پر تو قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومتی اور انتظامی نظم و نسق اور نوکر شاہی کے کام کرنے کے طریقوں میں اصلاحات لا کر بھی بہت سی بچت ہوسکتی ہے۔ عوام کو میڈیا کے ذریعے واضح پیغام دینا چاہیے کہ ریاست جو حاصل کرتی ہے وہی لوگوں کو بھی دے سکتی ہے۔ صرف خرچے پورے کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کی روایت کو ختم ہونا چاہیے۔
گزشتہ مالی سال میں کوئی ایک بھی کلیدی اقتصادی ہدف پورا نہیں کیا جاسکا اس لیے آیندہ بھی حالات میں بہتری دکھائی نہیں دیتی۔پاکستان کے قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ کسی ترقی پذیر ملک کے لیے اسے اٹھانا ممکن نہیں۔ حکومت کو ایک بارپھر آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رجوع کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی خصوصی اسکیم کے تحت پاکستان 1.4ارب ڈالر پہلے ہی حاصل کرچکا ہے۔
عالمی بینک اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے اندازوں کے مطابق معاشی بحران کے باعث پاکستان میں غربت میں اضافہ ہوگا۔ معاشی بدحالی کا بوجھ دیہاڑی دار مزدور اور غیر روایتی شعبوں کو اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وبا سے بچاؤ کے احتیاط کے ساتھ روزگار کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ خطرات میں گھرے کاروباری و صنعتی اداروں کو بچانے کے لیے 1.2کھرب روپے کا معاونتی پیکیج بھی دیا گیا ہے۔ تعمیراتی شعبے کو دی گئی مراعات کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ اس سے متعلقہ 70دیگر صنعتیں بھی فعال ہوجائیں گی اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ سی پیک کا تسلسل انتہائی اہم ہے کیوں کہ اس کے تحت انفرااسٹرکچر، خصوصی اقتصادی زونز اور صنعتی پارک کا براہ راست تعلق پاکستان کے مستقبل سے ہے۔
(جاری ہے)