کورونا وائرس کو گمراہ کرکے اصل خلیوں کو بچانے والی ’نینو اسفنج‘
کورونا وائرس ان نینو ذرّات کو اپنا ہدف سمجھ کر گمراہ ہوجاتا ہے اور اصل خلیات بچ جاتے ہیں
سائنسدانوں نے ایسے نینو ذرّات تیار کرلیے ہیں جن پر پھیپھڑوں یا امنیاتی نظام (امیون سسٹم) کے خلیوں کی جھلی (سیل ممبرین) چڑھادی گئی ہے جس کی بناء پر وہ کورونا وائرس کو گمراہ کرکے ناکارہ بناسکتے ہیں۔
نینومیٹر پیمانے کے ان ذرّات کے اندر ماحول دوست پلاسٹک بھرا گیا ہے جو بیرونی غلاف پھٹنے کے بعد خود بخود گھل کر ختم ہوجاتا ہے اور جسم کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔
اب تک تجربہ گاہ میں زندہ انسانی خلیات پر ان کی کامیاب آزمائش کی جاچکی ہے جس کے بعد اگلے مرحلے پر انہیں جانوروں اور پھر انسانوں میں آزمایا جائے گا۔
امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ریسرچ جرنل ''نینو لیٹرز'' کی تازہ اشاعت میں اس تحقیق کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں جسے بوسٹن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو کے ماہرین نے مشترکہ طور پر انجام دیا ہے۔
جب کسی لڑاکا طیارے کی طرف کوئی گائیڈڈ میزائل بڑھتا ہے تو وہ عام طور پر اس کے جیٹ انجن سے نکلنے والی گرمی کے تعاقب میں ہوتا ہے۔ میزائل کو بھٹکا کر خود کو بچانے کےلیے لڑاکا طیارہ اپنی مخالف سمت میں ایک تیز رفتار اور گرم شعلہ پھینکتا ہے جسے ''ڈیکوئے'' کہتے ہیں۔ ڈیکوئے کی گرمی کی وجہ سے گائیڈڈ میزائل اسی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور ڈیکوئے سے ٹکرا کر پھٹ جاتا ہے۔ اس طرح لڑاکا طیارہ بچ جاتا ہے۔
ٹھیک یہی اصول استعمال کرتے ہوئے نینو اسفنج بھی بنائے گئے ہیں۔ چونکہ کورونا وائرس کا براہِ راست حملہ پھیپھڑوں اور نظامِ تنفس پر ہوتا ہے، اس لیے ان میں پولیمر کی ''نینو گولیوں'' پر پھیپھڑوں اور امیون سسٹم کے خلیوں کی جھلیاں چڑھائی گئی ہیں۔
ان جھلیوں پر ایسے خاص پروٹین ہوتے ہیں جو کورونا وائرس کا ہدف ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اصل خلیوں کو چھوڑ کر نینو اسفنج کی طرف لپکتا ہے اور اس کی سطح سے چپک کر اپنا جینیاتی مواد نکال باہر کرتا ہے، جو خلیے کے اندر پہنچے بغیر کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
اس طرح کورونا وائرس ای نقلی ہدف تک پہنچ کر ساری کارروائی مکمل کرلیتا ہے لیکن حقیقی انسانی خلیوں کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا۔
پیٹری ڈش میں رکھے گئے زندہ انسانی خلیات کے ساتھ جب نینو اسفنج کے ذرّات ملا کر ان پر کورونا وائرس سے حملہ کروایا گیا تو انہوں نے کورونا وائرس کو بہت مؤثر انداز سے ''گمراہ'' کرتے ہوئے اصل خلیوں کو بہ آسانی بچا لیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ طریقہ بعد کے تجربات میں بھی کورونا وائرس سے بچاؤ میں کامیاب ثابت ہوا تو اسے دیگر وائرسوں مثلاً ایبولا، ڈینگی اور زیکا وغیرہ سے بچاؤ میں بھی آزمایا جاسکے گا۔ اس مقصد کےلیے صرف نینو پولیمر کے گرد خلوی جھلی کا غلاف تبدیل کرنا ہوگا، باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔
نینومیٹر پیمانے کے ان ذرّات کے اندر ماحول دوست پلاسٹک بھرا گیا ہے جو بیرونی غلاف پھٹنے کے بعد خود بخود گھل کر ختم ہوجاتا ہے اور جسم کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔
اب تک تجربہ گاہ میں زندہ انسانی خلیات پر ان کی کامیاب آزمائش کی جاچکی ہے جس کے بعد اگلے مرحلے پر انہیں جانوروں اور پھر انسانوں میں آزمایا جائے گا۔
امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ریسرچ جرنل ''نینو لیٹرز'' کی تازہ اشاعت میں اس تحقیق کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں جسے بوسٹن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو کے ماہرین نے مشترکہ طور پر انجام دیا ہے۔
جب کسی لڑاکا طیارے کی طرف کوئی گائیڈڈ میزائل بڑھتا ہے تو وہ عام طور پر اس کے جیٹ انجن سے نکلنے والی گرمی کے تعاقب میں ہوتا ہے۔ میزائل کو بھٹکا کر خود کو بچانے کےلیے لڑاکا طیارہ اپنی مخالف سمت میں ایک تیز رفتار اور گرم شعلہ پھینکتا ہے جسے ''ڈیکوئے'' کہتے ہیں۔ ڈیکوئے کی گرمی کی وجہ سے گائیڈڈ میزائل اسی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور ڈیکوئے سے ٹکرا کر پھٹ جاتا ہے۔ اس طرح لڑاکا طیارہ بچ جاتا ہے۔
ٹھیک یہی اصول استعمال کرتے ہوئے نینو اسفنج بھی بنائے گئے ہیں۔ چونکہ کورونا وائرس کا براہِ راست حملہ پھیپھڑوں اور نظامِ تنفس پر ہوتا ہے، اس لیے ان میں پولیمر کی ''نینو گولیوں'' پر پھیپھڑوں اور امیون سسٹم کے خلیوں کی جھلیاں چڑھائی گئی ہیں۔
ان جھلیوں پر ایسے خاص پروٹین ہوتے ہیں جو کورونا وائرس کا ہدف ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اصل خلیوں کو چھوڑ کر نینو اسفنج کی طرف لپکتا ہے اور اس کی سطح سے چپک کر اپنا جینیاتی مواد نکال باہر کرتا ہے، جو خلیے کے اندر پہنچے بغیر کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
اس طرح کورونا وائرس ای نقلی ہدف تک پہنچ کر ساری کارروائی مکمل کرلیتا ہے لیکن حقیقی انسانی خلیوں کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا۔
پیٹری ڈش میں رکھے گئے زندہ انسانی خلیات کے ساتھ جب نینو اسفنج کے ذرّات ملا کر ان پر کورونا وائرس سے حملہ کروایا گیا تو انہوں نے کورونا وائرس کو بہت مؤثر انداز سے ''گمراہ'' کرتے ہوئے اصل خلیوں کو بہ آسانی بچا لیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ طریقہ بعد کے تجربات میں بھی کورونا وائرس سے بچاؤ میں کامیاب ثابت ہوا تو اسے دیگر وائرسوں مثلاً ایبولا، ڈینگی اور زیکا وغیرہ سے بچاؤ میں بھی آزمایا جاسکے گا۔ اس مقصد کےلیے صرف نینو پولیمر کے گرد خلوی جھلی کا غلاف تبدیل کرنا ہوگا، باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔