سائبر کرائمز میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال حکام پریشان
ورچوئل پروکسی سرور کی وجہ سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کا فوری پتہ نہیں چلتا
سائبر کرائم میں ملوث مجرموں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کیلیے ورچوئل پروکسی سرور(Virtual Proxy Server) کا استعمال شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے پولیس اور ایف آئی اے حکام کو مجرموں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب پر پابندی پاکستان میں ورچوئل پروکسی سرور کے بڑے پیمانے پر استعمال کا سبب بنی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں انٹرنیٹ کے استعمال کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد نے بھی اپنی مجرمانہ سرگرمیوں میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھادیا ہے، خاص طور پر بھتہ خوری، مالیاتی اسکینڈلز اور مختلف مقاصد کیلیے شہریوں کیو بلیک میل کرنے والے مجرم ای میل اور سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔ سائبر کرائم کے دائرہ کار میں آنے والے ان جرائم کے سدباب کیلیے کام کرنے والا ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تاحال اپنی موثر افادیت ثابت کرنے سے قاصر ہے جس کی ایک بڑی وجہ گذشتہ 4 سال سے ملک میں سائبر کرائم کے قوانین نہ ہونا بھی ہے۔
اس کے باوجود ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈیننس کی مدد سے سائبر کرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کررہا ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی نشاندہی کیلیے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاہم گذشتہ چند ماہ سے ایف آئی اے کے ماہرین کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے جو جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے ورچوئل پروکسی سرور کے استعمال کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ذرائع کے مطابق اسپاٹ فلکس اور ہاٹ اسپاٹ شیلڈ جیسے سافٹ ویئر ڈائون لوڈ کرلینے کے بعد کسی بھی آن لائن سرگرمی کی صورت میں لوکل انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کا پتہ نہیں چل پاتا اور ایسے کمپیوٹرز کی نشاندہی کیلیے متعلقہ حکام کو مذکورہ سافٹ ویئرز کی منیجمنٹ سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ بھی معلومات فراہم نہ کریں تو پھر ایف آئی اے کو ایک اور ذریعے سے کمپیوٹر استعمال کرنے والے کی نشاندہی کرنی پڑتی ہے جس میں کم از کم ایک ماہ اور بعض اوقات کئی ماہ درکار ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ سافٹ ویئرز کا استعمال پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کے بعد بڑے پیمانے پر شروع ہوا، یو ٹیوب اور غیراخلاقی ویب سائٹس جن پر پاکستان میں پابندی ہے، انھیں دیکھنے کیلیے ان سافٹ ویئرز کا استعمال کیا جاتا ہے تاہم بیشتر لوگ اس کے نقصانات سے آگاہ نہیں۔ ان سافٹ ویئرز کے استعمال سے نہ صرف استعمال کرنے والے کے ای میل اور دیگر اکائونٹس کے پاس ورڈ سافٹ ویئر کمپنی کے پاس چلے جاتے ہیں بلکہ ان میں مختلف قسم کے وائرس آنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں اور کمپیوٹر کی سیکیورٹی کو شدید خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ سائبر کرائم میں ملوث افراد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو پکڑے جانے سے بچانے کے طریقوں سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائم ونگ کو جدید ترین آلات اور سہولتوں سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ بڑھتے ہوئے سائبر کرائم کے خلاف موثر کارروائی کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب پر پابندی پاکستان میں ورچوئل پروکسی سرور کے بڑے پیمانے پر استعمال کا سبب بنی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں انٹرنیٹ کے استعمال کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد نے بھی اپنی مجرمانہ سرگرمیوں میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھادیا ہے، خاص طور پر بھتہ خوری، مالیاتی اسکینڈلز اور مختلف مقاصد کیلیے شہریوں کیو بلیک میل کرنے والے مجرم ای میل اور سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔ سائبر کرائم کے دائرہ کار میں آنے والے ان جرائم کے سدباب کیلیے کام کرنے والا ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تاحال اپنی موثر افادیت ثابت کرنے سے قاصر ہے جس کی ایک بڑی وجہ گذشتہ 4 سال سے ملک میں سائبر کرائم کے قوانین نہ ہونا بھی ہے۔
اس کے باوجود ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈیننس کی مدد سے سائبر کرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کررہا ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی نشاندہی کیلیے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاہم گذشتہ چند ماہ سے ایف آئی اے کے ماہرین کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے جو جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے ورچوئل پروکسی سرور کے استعمال کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ذرائع کے مطابق اسپاٹ فلکس اور ہاٹ اسپاٹ شیلڈ جیسے سافٹ ویئر ڈائون لوڈ کرلینے کے بعد کسی بھی آن لائن سرگرمی کی صورت میں لوکل انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کا پتہ نہیں چل پاتا اور ایسے کمپیوٹرز کی نشاندہی کیلیے متعلقہ حکام کو مذکورہ سافٹ ویئرز کی منیجمنٹ سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ بھی معلومات فراہم نہ کریں تو پھر ایف آئی اے کو ایک اور ذریعے سے کمپیوٹر استعمال کرنے والے کی نشاندہی کرنی پڑتی ہے جس میں کم از کم ایک ماہ اور بعض اوقات کئی ماہ درکار ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ سافٹ ویئرز کا استعمال پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کے بعد بڑے پیمانے پر شروع ہوا، یو ٹیوب اور غیراخلاقی ویب سائٹس جن پر پاکستان میں پابندی ہے، انھیں دیکھنے کیلیے ان سافٹ ویئرز کا استعمال کیا جاتا ہے تاہم بیشتر لوگ اس کے نقصانات سے آگاہ نہیں۔ ان سافٹ ویئرز کے استعمال سے نہ صرف استعمال کرنے والے کے ای میل اور دیگر اکائونٹس کے پاس ورڈ سافٹ ویئر کمپنی کے پاس چلے جاتے ہیں بلکہ ان میں مختلف قسم کے وائرس آنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں اور کمپیوٹر کی سیکیورٹی کو شدید خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ سائبر کرائم میں ملوث افراد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو پکڑے جانے سے بچانے کے طریقوں سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائم ونگ کو جدید ترین آلات اور سہولتوں سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ بڑھتے ہوئے سائبر کرائم کے خلاف موثر کارروائی کریں۔