ہم ایسا نہ کرسکے

زاہدہ حنا  اتوار 28 جون 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یورپ میں 5 ویں صدی سے 15 ویں صدی تک جاری رہنے والے دور کو قرون وسطیٰ کہا جاتا ہے جس کی ابتدا سلطنت روما کے زوال اور نشاۃ الثانیہ کے ابھار سے ہوئی۔ ایک ہزار سال سے زیادہ طویل اس دور کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

قرون وسطیٰ کا آخری دور 1250ء سے شروع ہوکر 1500ء پر ختم ہوتا ہے جس کے دوران جدید یورپ کے ابتدائی خدو خال نمایاں ہونا شروع ہوگئی تھے۔یورپی تاریخ کا یہ زمانہ بڑے بحرانوں سے گزرا اور اسے یقینا یورپی براعظم کا بدترین زمانہ کہا جاسکتا ہے۔ 14 ویں صدی کے شروع ہوتے ہی یورپ کو بھیانک قحط کا سامنا کرنا پڑا جس میں لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے۔

یہ قحط موسمی تبدیلی کا نتیجہ تھا۔ بارشوں کا سلسلہ ضرورت سے کہیں زیادہ طویل ہوگیا تھا جس سے فصلیں تباہ ہوگئیں۔ فصلوں کی تباہی سے غذائی بحران پیدا ہوگیا اور لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ اس بھیانک قحط کے ختم ہونے کے بعد یورپ کو ایک اور عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔ طاعون کی وبا نے یورپ اور شمالی افریقا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اس وبا کی شدت کم و بیش 5 سال تک جاری رہی جس میں بعض تخمینوں کے مطابق ساڑھے سات سے لے کر بیس کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ قحط اور طاعون کی وبا نے یورپ کو معاشی اور سماجی طور پر ہلاکر رکھ دیا۔ حکومتیں دیوالیہ ہوگئیں اور انھوں نے سرمایہ حاصل کرنے کے لیے بھاری ٹیکس لگادیے جس کے نتیجے میں کسانوں نے بغاوت کردی، اسے بڑی بے دردی اور سفاکی سے کچل دیا گیا۔

قحط، طاعون، کسانوں کی بغاوت اور طویل جنگوں سے پیدا ہونے والے المیے اپنی جگہ لیکن ان واقعات نے قرون وسطیٰ کے سیاسی، نظریاتی، مذہبی اور معاشی تصورات اور بنیادوں پر کاری ضرب لگائی۔ ریاست پرچرچ کی بالادستی کو کھلے عام چیلنج کیا جانے لگا اور آزادی فکر اور انسانی آزادی کی تحریکیں پھلنے پھولنے لگیں۔ اس دور کے ادیبوں نے اپنے افکار اور تخلیقات کے ذریعے یورپ کو قرون وسطیٰ سے نکال کر ایک جدید، سائنسی اورصنعتی دور میں داخلے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس حوالے سے گیوانی بوکاشیوکا نام اور کام بہت اہم ہے ۔ بوکاشیو نشاۃ الثانیہ کا اہم انسان دوست شاعر، دانش ور اور مصنف قرار دیا جاتا ہے۔ وہ 16 جون 1313ء میں اٹلی میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ کاروباری شخص تھا جو بعد میں ایک بینک کا سربراہ بن کر نیپلز منتقل ہوگیا۔ باپ نے بیٹے کو بینک میں ملازمت دلوائی لیکن اس کا دل اس پیشے سے جلد اکتا گیا۔ بوکاشیونے ملازمت چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ اس کا باپ طبقہ اعلیٰ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بوکاشیو کو اعلیٰ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے اہم ترین لوگوں سے متعارف کرایا۔

بوکاشیوکو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اپنے دور کے بڑے ادیبوں اور دانشوروں سے رابطے میں آگیا اور اس کو ایک ایسا علمی اور ادبی ماحول میسر آگیا جس نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی زمانے میں طاعون کے عفریت نے سر اٹھایا پھر جب طاعون نے شدت اختیار کی اورگھروں اور سڑکوں پر لاشوں کے ڈھیر لگنے لگے تو بوکاشیو ، فلورنس آگیا تاکہ وہ اس مہلک وبا سے اپنی جان بچا سکے لیکن طاعون کی وبا اس کا تعاقب کرتے ہوئے فلورنس بھی آن پہنچی۔ اس دوران بوکاشیو کا باپ دیوالیہ ہونے کے بعد صدمے سے انتقال کرگیا۔

یہ بوکاشیو کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ ایک ایسے دور میں کہ جب طاعون کی وبا لوگوں کو چن چن کر ہلاک کررہی ہو، یہ بھی نہ معلوم ہو کہ یہ وبا کیوں اور کیسے پیدا ہوئی ہے، نہ اسے پھیلنے سے روکنے کا طریقہ معلوم ہو اور نہ اس کا کوئی علاج موجود ہو تو ایسی صورتحال میں مضبوط سے مضبوط اعصاب رکھنے والے بھی حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ لیکن گیوانی بوکاشیو ، اپنی بدترین تنہائی اور مایوس کن حالات کے بعد بھی مایوسی اور لاچارگی کا شکار نہیں ہوا بلکہ اس نے انسان دوست افکار کی ترویج اور قرون وسطیٰ کی ظالمانہ روایات اور قوانین کے خلاف لکھنے کے عمل کو تیز تر کردیا ۔ اس دوران بوکاشیونے دی ڈی کامیرون کے نام سے ایک ایسی کتاب لکھی جو عالمی تخلیقی ادب میں شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے۔

گیوانی بوکاشیوکے اس ادب پارے میں 100 کہانیاں شامل ہیں۔ یہ کہانیاں ان دس نوجوانوں نے سنائی ہیں جو طاعون سے بچنے کے لیے ایک دور دراز گاؤں میں تنہائی اختیار کرلیتے ہیں۔ نوجوانوں کے اس گروہ میں سات لڑکیاں اور تین لڑکے شامل ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ وقت گزارنے کے لیے ان میں سے ہر فرد ایک ہفتے تک روزانہ ایک کہانی سنائے گا۔ ہفتے میں صرف ایک روز کوئی کہانی نہیں سنائی جائے گی اور اس دن گھر کاکام کاج  اور مذہبی فرائض ادا کیے جائیں گے۔ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے چونکہ دو ہفتوں کے لیے اس گاؤں میں آئے تھے لہٰذا 15 دنوں میں انھوں نے 100 کہانیاں سنائیں۔

ان کہانیوں میں بڑی بے باکی سے انسانی فطرت کے بہترین اور بدترین پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے اور ایسے موضوعات کو اٹھایا گیا ہے جن پر اس دور میں صرف بند کمروں میں ہی گفتگو ممکن ہوا کرتی تھی۔ ان کہانیوں میں عورتوں کی ہمت اور جرأت کو بڑے زور دار انداز میں بیان کیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کہانیاں سنانے والوں میں لڑکیوں کی اکثریت تھی۔ قرون وسطیٰ کی یورپی عورت چرچ اور پدرسری سماج کی گرفت میں بدترین عذاب کی زندگی بسر کرتی تھی۔ رومن عہد میں عورت پہلے اپنے باپ اور شادی کے بعد شوہر کی ذاتی جائیداد تصور کی جاتی تھی، اسے نہ کوئی اختیار حاصل تھا اور نہ وہ حکومت کے کسی عہدے پر فائز ہوسکتی تھی۔ اسی طرح ایتھنز میں لڑکیوں کو لڑکوں سے الگ رکھا جاتا تھا، لڑکوں کو اعلیٰ علوم اور فن سپہ گری کی تربیت دی جاتی تھی جب کہ لڑکیوں کو صرف گھریلو کام کاج کی تربیت دی جاتی تھی۔

بوکاشیونے اپنی شاہ کار کتاب میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ طاعون کی وبا کے دوران ان عورتوں نے کس طرح اپنی ذہانت اورجرأت کا مظاہرہ کیا اور سماجی عدم استحکام کا فائدہ اٹھا کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کے ذریعے سماجی اور ذاتی آزادیاں حاصل کیں اور چرچ اور پدر سری سماج کے دباؤ سے نکلنے کی کوشش کی جس نے انھیں تاریخی طور پر محکوم بنا رکھا تھا۔ بوکاشیونے یہ کتاب عورتوں سے منسوب کی ہے۔ اس نے مردوں کی جانب سے عورتوں سے اپنی یکجہتی کا کھلا اعلان کیا ہے۔ گیوانی بوکاشیو کئی حوالوں سے منفرد مقام رکھتا ہے۔

اس نے قرون وسطیٰ کے فرسودہ اقتدار کی دھجیاں اڑا دیں۔ وہ  ادب کی تاریخ کا پہلا مرد مصنف تھا جس نے عورتوں کے لیے کتاب لکھی اور عورتوں میں موجود متنوع خوبیوں کو شاندار انداز میں بیان کیا۔ بہت سے لوگ اسے اپنے دور کے حسابوں حقوقِ نسواں کا زبردست حامی قرار دیتے ہیں۔ مغرب آج جس مقام پر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے 600 سال پہلے اور اس کے بعد بوکاشیو جیسے بہت سے مفکر اور ادیب پیدا کیے۔ ہم ایسا نہ کرسکے  اور یہی  ہماری سائنسی، سماجی، سیاسی اور فکری پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔