ایک اہم ترین کتاب ’’سیرت الرسولؐ‘‘
احمد اور محمد دونوں الفاظ حمد سے مشتق ہیں
796 صفحات پر مشتمل کتاب سیرت الرسول ؐ کے کچھ ابواب پڑھنے کی سعادت مجھ عاصی کو بھی نصیب ہوئی۔ بے شک یہ میری خوش بختی ہے، کتاب کے مولف مولانا اسد القادری ہیں اور ترتیب و تدوین ابوالفرح ہمایوں کی ہے۔ ابوالفرح ہمایوں گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر علم و ادب اور تراجم کے حوالے سے قابل قدر کام کر رہے ہیں۔
ہر سال ان کی دو تین کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں۔ اس طرح ان کی 25 سے زیادہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ مذکورہ کتاب کی ترتیب و تدوین یقینا ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ منظر عارفی نے ان کا مکمل تعارف کروایا ہے جس سے ان کی ذاتی باتوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
عرض ناشر سیرت رسول اکرمؐ ایک سعادت ایک کارِ خیر کے عنوان سے شاعر علی شاعر نے مولانا اسد القادری پر ایک بھرپور مضمون لکھا ہے، جس سے مولانا کی اسلام سے محبت، علمی کارناموں، ادبی خدمات کے بارے میں قاری کو اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے وہ لکھتے ہیں مولانا اسدالقادری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ مجلس علمائے پاکستان، پاکستان دستور پارٹی اور پاکستان اردو اکادمی کے صدر رہ چکے ہیں اور دی مسلم ورلڈ نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان رہے علمی سطح پر اور اکادمی پاکستان کے صدر ہونے کے ناتے آپ کی ادبی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔
ابوالفرح ہمایوں کے لکھے ہوئے پیش لفظ ''آتے ہیں یاد مجھ کو'' میں ان کے اوصاف اور گھریلو تعلقات کا ذکر بے حد خلوص و قدردانی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مولانا اسدالقادری کی دوستی ابوالفرح ہمایوں کے والد نامور مزاح نگار سید ابو ظفر زین سے بچپن سے تھی، جسے ابوالفرح نے ''دانت کاٹے'' کی دوستی قرار دیا ہے اور یہ دوستی رشتے داری میں اس وقت تبدیل ہوگئی جب ان کی اکلوتی صاحبزادی ابوالفرح کے نکاح میں آگئیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میری ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مولانا کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
رسول اکرمؐ کے حوالے سے کتاب میں تقریباً مختلف موضوعات پر مبنی سو سے زیادہ مضامین شامل ہیں۔ تمام تحریریں سیرت پاکؐ کی حیات طیبہ کا احاطہ کرتی ہیں اور امت مسلمہ کے لیے اللہ کے پیغامات، احکامات اور شریعت محمدیہؐ کی تعلیمات کے در وا کرتی ہیں۔ پہلے باب میں ''اسمِ بامسمی'' کی تعریف اور اس کی وضاحت بیان کی گئی ہے۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ میرا نام زمین پر محمد اور آسمان پر احمد، توریت میں اسم مبارک محمد آیا ہے اور انجیل میں احمد، حضور پرنورؐ کے دادا نے آپؐ کا نام ایک خواب کی بنیاد پر محمدؐ تجویز کیا تھا۔ آپؐ کی والدہ ماجدہ نے بھی ایسا ہی مبارک خواب دیکھا تھا۔
احمد اور محمد دونوں الفاظ حمد سے مشتق ہیں۔ محمدؐ کے معنی وہ جس کی تعریف خود اللہ تعالیٰ کرے۔ قرآن میں اکثر جگہ حضوراکرمؐ خاتم النبین کی تعریف موجود ہے جب کہ احمد کے معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے حدیث میں سیکڑوں جگہ اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف آئی ہے۔
صفحہ نمبر 36 پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کے چند اقتباسات بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بڑی وضاحت سے معبود اور عبد کے رشتے کو سمجھایا ہے اور عبادت کے صحیح اور حقیقی مفہوم کی وضاحت بہت آسان اور دل نشیں انداز میں کی ہے، فرماتے ہیں کیا اسی کا نام عبادت ہے کہ جس کے سر سجدے سے اٹھاتے ہی ہر معبود باطل کے آگے جھک جائے اس کے علاوہ ہر زندہ اور مردہ کو حاجت روا بنا لو، ہر اس بندے کو خدا بنالو جس میں تم کو نقصان پہنچانے یا نفع دینے کی ذرہ برابر بھی قوت نظر آئے روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے کفار و مشرکین تک کے آگے ہاتھ جوڑ دو۔ صفحہ نمبر 37 پر درج ہے کیا یہی عبادت ہے کہ ندی کا طوفان تمہارے سامنے اٹھ رہا ہو اور تم آنکھیں بند کیے مراقبے میں مشغول رہو، کیا عبادت اسی کو کہتے ہیں کہ گمراہی کا سیلاب تمہارے حجروں کی دیواروں سے ٹکرا رہا ہو اور تم دروازہ بند کرکے نفل پر نفل پڑھے جاؤ، کیا عبادت اسی کا نام ہے کہ کفار چار دانگ عالم میں شیطانی فتوحات کے ڈنکے بجاتے پھریں دنیا میں ان کا ہی علم پھیلے ان کی ہی حکومت کارفرما ہو، ان ہی کا قانون رواج پائے اور ان کی ہی تلوار چلے، ان ہی کے آگے بندگان خدا کی گردنیں جھکیں اور تم خدا کی زمین اور اس کی مخلوق کو ان کے حال پر چھوڑ کر نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور ذکر وشغل میں منہمک ہو جاؤ۔
اگر اللہ کی عبادت کا حق اسی طرح ادا ہوتا ہے تو پھر یہ کیا ہے عبادت تم کرو اور زمین کی حکومت اور فرماں روائی دوسروں کو ملے معاذ اللہ۔ حضور اکرمؐ امام مسجد کی حیثیت سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے تھے، بلکہ تحریک اسلامی کی سربراہی بھی فرماتے۔ ہر مسجد آپؐ کی حکومت کا دفتر بھی اور اسمبلی بھی تھی۔ جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ فرماتے اور سب سے ملاقات کرتے۔ جنگ و جہاد کی حکمت عملی تیار ہوتی، کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ عمال حکومت کی بحالیوں کے ساتھ ساتھ ان سے حساب کتاب بھی لیا جاتا۔ اسلام اور اسلامی معاشرے کے حوالے سے کتاب میں تمام معلومات یکجا کردی گئی ہیں۔
دوسری معلومات کے ساتھ مخبر قیامت کے عنوان سے ایک تفصیلی باب بھی شامل ہے، جس میں قرب قیامت کی نشانیاں اور قیامت کیسی ہوگی، پہلا صورنفخۃ الفزع اور دوسرا نفخۃ الصعّق اور پھر میدان انصاف، تمام اعمال، تمام فرشتوں اور پیغمبروں کی آمد، رب العالمین کی آمد اور انصاف الٰہی، اہل ایمان اور کفار کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جس کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے۔
جناب ابوالفرح ہمایوں کی یہ ایک بہترین اور قابل قدر کاوش ہے، جس میں وہ سرخرو ہوئے ہیں۔ انھوں نے تراجم پر بہت کام کیا ہے، حال ہی میں ان کی تازہ ترین کتاب ''دنیا میں کتنے غم ہیں'' شایع ہوئی ہے۔ کتاب میں 24 کہانیاں شامل ہیں۔ یہ کہانیاں ترکی، ہندی، پنجابی، بنگلہ اور فارسی زبان کی کہانیاں ہیں۔ انگریزی کی کہانیوں کی تعداد زیادہ ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چند کے علاوہ تمام کہانیاں انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ 24 کہانیوں کا ترجمہ مترجم نے نہایت آسان زبان میں کیا ہے تسلسل اور کہانی کا حسن برقرار رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ملکوں ملکوں کی معاشرت کی عکاسی دل نشیں انداز میں کی ہے میں اردو ادب کا وقیع کام کرنے پر انھیں دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
ہر سال ان کی دو تین کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں۔ اس طرح ان کی 25 سے زیادہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ مذکورہ کتاب کی ترتیب و تدوین یقینا ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ منظر عارفی نے ان کا مکمل تعارف کروایا ہے جس سے ان کی ذاتی باتوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
عرض ناشر سیرت رسول اکرمؐ ایک سعادت ایک کارِ خیر کے عنوان سے شاعر علی شاعر نے مولانا اسد القادری پر ایک بھرپور مضمون لکھا ہے، جس سے مولانا کی اسلام سے محبت، علمی کارناموں، ادبی خدمات کے بارے میں قاری کو اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے وہ لکھتے ہیں مولانا اسدالقادری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ مجلس علمائے پاکستان، پاکستان دستور پارٹی اور پاکستان اردو اکادمی کے صدر رہ چکے ہیں اور دی مسلم ورلڈ نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان رہے علمی سطح پر اور اکادمی پاکستان کے صدر ہونے کے ناتے آپ کی ادبی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔
ابوالفرح ہمایوں کے لکھے ہوئے پیش لفظ ''آتے ہیں یاد مجھ کو'' میں ان کے اوصاف اور گھریلو تعلقات کا ذکر بے حد خلوص و قدردانی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مولانا اسدالقادری کی دوستی ابوالفرح ہمایوں کے والد نامور مزاح نگار سید ابو ظفر زین سے بچپن سے تھی، جسے ابوالفرح نے ''دانت کاٹے'' کی دوستی قرار دیا ہے اور یہ دوستی رشتے داری میں اس وقت تبدیل ہوگئی جب ان کی اکلوتی صاحبزادی ابوالفرح کے نکاح میں آگئیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میری ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مولانا کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
رسول اکرمؐ کے حوالے سے کتاب میں تقریباً مختلف موضوعات پر مبنی سو سے زیادہ مضامین شامل ہیں۔ تمام تحریریں سیرت پاکؐ کی حیات طیبہ کا احاطہ کرتی ہیں اور امت مسلمہ کے لیے اللہ کے پیغامات، احکامات اور شریعت محمدیہؐ کی تعلیمات کے در وا کرتی ہیں۔ پہلے باب میں ''اسمِ بامسمی'' کی تعریف اور اس کی وضاحت بیان کی گئی ہے۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ میرا نام زمین پر محمد اور آسمان پر احمد، توریت میں اسم مبارک محمد آیا ہے اور انجیل میں احمد، حضور پرنورؐ کے دادا نے آپؐ کا نام ایک خواب کی بنیاد پر محمدؐ تجویز کیا تھا۔ آپؐ کی والدہ ماجدہ نے بھی ایسا ہی مبارک خواب دیکھا تھا۔
احمد اور محمد دونوں الفاظ حمد سے مشتق ہیں۔ محمدؐ کے معنی وہ جس کی تعریف خود اللہ تعالیٰ کرے۔ قرآن میں اکثر جگہ حضوراکرمؐ خاتم النبین کی تعریف موجود ہے جب کہ احمد کے معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے حدیث میں سیکڑوں جگہ اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف آئی ہے۔
صفحہ نمبر 36 پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کے چند اقتباسات بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بڑی وضاحت سے معبود اور عبد کے رشتے کو سمجھایا ہے اور عبادت کے صحیح اور حقیقی مفہوم کی وضاحت بہت آسان اور دل نشیں انداز میں کی ہے، فرماتے ہیں کیا اسی کا نام عبادت ہے کہ جس کے سر سجدے سے اٹھاتے ہی ہر معبود باطل کے آگے جھک جائے اس کے علاوہ ہر زندہ اور مردہ کو حاجت روا بنا لو، ہر اس بندے کو خدا بنالو جس میں تم کو نقصان پہنچانے یا نفع دینے کی ذرہ برابر بھی قوت نظر آئے روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے کفار و مشرکین تک کے آگے ہاتھ جوڑ دو۔ صفحہ نمبر 37 پر درج ہے کیا یہی عبادت ہے کہ ندی کا طوفان تمہارے سامنے اٹھ رہا ہو اور تم آنکھیں بند کیے مراقبے میں مشغول رہو، کیا عبادت اسی کو کہتے ہیں کہ گمراہی کا سیلاب تمہارے حجروں کی دیواروں سے ٹکرا رہا ہو اور تم دروازہ بند کرکے نفل پر نفل پڑھے جاؤ، کیا عبادت اسی کا نام ہے کہ کفار چار دانگ عالم میں شیطانی فتوحات کے ڈنکے بجاتے پھریں دنیا میں ان کا ہی علم پھیلے ان کی ہی حکومت کارفرما ہو، ان ہی کا قانون رواج پائے اور ان کی ہی تلوار چلے، ان ہی کے آگے بندگان خدا کی گردنیں جھکیں اور تم خدا کی زمین اور اس کی مخلوق کو ان کے حال پر چھوڑ کر نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور ذکر وشغل میں منہمک ہو جاؤ۔
اگر اللہ کی عبادت کا حق اسی طرح ادا ہوتا ہے تو پھر یہ کیا ہے عبادت تم کرو اور زمین کی حکومت اور فرماں روائی دوسروں کو ملے معاذ اللہ۔ حضور اکرمؐ امام مسجد کی حیثیت سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے تھے، بلکہ تحریک اسلامی کی سربراہی بھی فرماتے۔ ہر مسجد آپؐ کی حکومت کا دفتر بھی اور اسمبلی بھی تھی۔ جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ فرماتے اور سب سے ملاقات کرتے۔ جنگ و جہاد کی حکمت عملی تیار ہوتی، کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ عمال حکومت کی بحالیوں کے ساتھ ساتھ ان سے حساب کتاب بھی لیا جاتا۔ اسلام اور اسلامی معاشرے کے حوالے سے کتاب میں تمام معلومات یکجا کردی گئی ہیں۔
دوسری معلومات کے ساتھ مخبر قیامت کے عنوان سے ایک تفصیلی باب بھی شامل ہے، جس میں قرب قیامت کی نشانیاں اور قیامت کیسی ہوگی، پہلا صورنفخۃ الفزع اور دوسرا نفخۃ الصعّق اور پھر میدان انصاف، تمام اعمال، تمام فرشتوں اور پیغمبروں کی آمد، رب العالمین کی آمد اور انصاف الٰہی، اہل ایمان اور کفار کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جس کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے۔
جناب ابوالفرح ہمایوں کی یہ ایک بہترین اور قابل قدر کاوش ہے، جس میں وہ سرخرو ہوئے ہیں۔ انھوں نے تراجم پر بہت کام کیا ہے، حال ہی میں ان کی تازہ ترین کتاب ''دنیا میں کتنے غم ہیں'' شایع ہوئی ہے۔ کتاب میں 24 کہانیاں شامل ہیں۔ یہ کہانیاں ترکی، ہندی، پنجابی، بنگلہ اور فارسی زبان کی کہانیاں ہیں۔ انگریزی کی کہانیوں کی تعداد زیادہ ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چند کے علاوہ تمام کہانیاں انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ 24 کہانیوں کا ترجمہ مترجم نے نہایت آسان زبان میں کیا ہے تسلسل اور کہانی کا حسن برقرار رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ملکوں ملکوں کی معاشرت کی عکاسی دل نشیں انداز میں کی ہے میں اردو ادب کا وقیع کام کرنے پر انھیں دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔