کورونا حکومت اور مایوسی کا شکار عوام

تبدیلی سرکار ملک میں نہ کوئی مؤثر تبدیلی لاسکی

تبدیلی سرکار ملک میں نہ کوئی مؤثر تبدیلی لاسکی

یوں تو ہمارے پیارے پاکستان میں گڈ گورننس ''دیوانے کا خواب '' ہی رہی ہے لیکن کورونا کی وبا آنے کے بعد تو جیسے اس طرح کے خواب بھی اب 'شجر ممنوعہ '' یا 'حسرتیں' بن کر رہ گئے ہیں ۔ بظاہر تو ایسے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نظر نہیں آتی مگرایک طرف حکومتی مشینری کی حرکات و سکنات ایسے خوابوں سے دور رہنے کا پیغام سمجھی جارہی ہیں تو دوسری طرف سرکاری عمل داری کودیکھ کر عوام خود کو مایوسی کے گھپ اندھیروں میں گِھرا محسوس کررہے ہیں ۔

ایک طرف تبدیلی سرکار ملک میں نہ کوئی مؤثر تبدیلی لاسکی اور نہ ہی گورننس کی صورتحال اور عوام کی تکالیف کے اسباب کو ختم کرپائی ،اُلٹا عوام کی تکالیف میں اضافے کی پالیسیوں اور ماحول کو فروغ دیتی نظر آتی ہے ۔ وزیروں اور مشیروںکی ''ریل'' کے اکثر ڈبے (وزیر) تو صرف انجن (وزیر اعظم) سے جڑے ہونے کی وجہ سے خاموشی سے چلے جارہے ہیں ، نہ انھیں اپنے اسٹیشن کا کوئی پتا ہے اور نہ ہی اپنے صَرف کا ، لیکن جو کچھ وزیر مشیر کام کرتے نظر آتے ہیں وہ بھی یا تو اپنا یا پھر اپنی پارٹی بلکہ اس ملک کے تمسخر کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔

کسی کو ایک ہفتے میں ملک میں ایک کروڑ ملازمتیں نظر آتی ہیں تو کوئی کورونا یعنی Covid-19 کے 19 پوائنٹس کی تشریح 'قائد اعظم کے 14 نکات ' کی طرح کرتا نظر آتا ہے ، کوئی وزیر چینی اسکینڈل کا باعث توکوئی آٹے کے بحران کا سبب بنا ہوا ہے ؛پھر کوئی وزیر نجی بجلی گھر کی لوٹ کھسوٹ میں شریک کار ہے تو کوئی مشیر ادویات اور ماسک کی اسمگلنگ میں مصروف ہے ۔

بات اس وقت کورونا کے ہونے نہ ہونے ، اُس سے ہونے والی اموات یا اُس سے معیشت پر پڑنے والے اثرات کی نہیں بلکہ بات اس وقت کورونا سے پیدا شدہ حالات کی ہے ۔ جن سے ملک میں ایک عجیب طرح کی بداعتمادی اور کنفیوژن پھیلا ہوا ہے ۔ لوگ تذبذب کا شکار ہیں کہ کس کی بات پر یقین کریں، کس پر نہ کریں اور کورونا سے بچنے کے لیے کونسی حکمت عملی اختیار کریں ۔ دیکھا جائے تو جب سے کورونا کی وبا چین سے پھیلنا شروع ہوئی ہے تب سے دنیا کے تمام ممالک نے اپنے بچاؤ کے لیے اقدامات کیے ۔

جن ممالک نے پیشگی مؤثر احتیاطی اقدامات کیے وہ ملک اس وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے یا پھر جلد ہی خود کو محفوظ بنالیا ۔ جن میں نیوزی لینڈ ، اسرائیل ، کینیڈا ، جرمنی وغیرہ کی مثالیں دی جاسکتی ہیں ، مگر جن ممالک نے احتیاطی اقدامات میں تاخیر یا لاپرواہی کی اُن ممالک کی نہ معیشت برقرار رہی اور نہ ہی عوام کی زندگیاں ۔ ایسے ممالک میں امریکا ، اسپین ، اٹلی ، ایران اور برازیل وغیرہ کی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔لیکن ہمارے ملک میں اول روز سے ایک عجیب اضطراب کا ماحول پیدا کیا گیا ہے ۔ سندھ کی صوبائی حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ملک میں پیشگی اقدامات یعنی سخت لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ ملک کی فضائی ، بری و بحری سرحدیں بند کرنے کے خواہاں تھے یا کم از کم سخت نگرانی اور آنے جانے والے راستوںپر ٹیسٹ و دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیتے رہے ۔

جب کہ وفاقی حکومت اور نام نہاد قومی میڈیا اِسے وفاق اور ملک کے خلاف سازش قرار دیکر لاک ڈاؤن کی سخت مخالفت کرتے رہے ۔ بات یہاں تک بھی ٹھیک تھی لیکن بارڈرز اور ہوائی و بحری بندرگاہوں پر نگرانی اور کورونا کی مانیٹرنگ کے انتظامات نہ کرنا دراصل ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بنا۔ پھر کیا تھا جیسے ہی ملک میں کورونا وبا پھیلنے لگا، یہ دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات لگانے ، ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے چکر میں عوام کو گمراہ کرتے رہے ۔ وفاقی حکومت اس وبا کو سندھ کی صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کا فریب بتاتی رہی اور سندھ حکومت لوگوں کو اس وبا سے ڈرانے میں مصروف رہی ۔ دونوں میں سے کسی نے بھی اس وبا سے نمٹنے کے لیے ملک میں موجود شعبہ صحت کی مخدوش حالت کو درست کرنے پر توجہ نہیں دی ۔

نہ تو ماسک ، ادویات اور وینٹی لیٹر کی تیاری یا درآمدگی کا کوئی بندوبست کیا اور نہ ہی اسپتالوں اور اُن میں ICUs کی حالت درست کرنے یا استعداد بڑھانے پر کوئی عملی کام کیا ۔ سندھ حکومت کا مشغلہ صرف روزانہ کی بنیاد پر مریضوں اور اموات کے اعداد و شمار بتانا اور اُن کی بنیاد پر سخت لاک ڈاؤن کا واویلا کرنا رہا تو وفاقی حکومت کا سارا زور سندھ حکومت کو جھوٹا ثابت کرنے پرتھا ۔

اس کے لیے وہ میڈیا پر لاک ڈاؤن کے نقصانات بتانے ، ملک میں کورونا کم پھیلنے اور کم پھیلنے کی وجوہات پر مبنی باتیں کرتے رہی۔ جس کے لیے وہ دہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں اور دیگران کے بے روزگار ہونے کا حوالہ دیتے رہے ، حالانکہ انھوں نے اپنے دو سالہ دورانیے میں اپنی پالیسیوں سے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ پھر وزیراعظم قوم سے اپنے خطاب میں کئی طرح کے تضادات پر مبنی باتیں کرتے رہے ۔

کبھی وہ کورونا کو معمولی فلو Flu قرار دیتے رہے توکبھی جان لیوا وائرس۔ کبھی کہتے کورونا ملک میں کوئی خاص نہیں پھیل رہا تو کبھی اپنی ہی بات کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کورونا ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ جولائی تک 35 لاکھ تک مریضوں کی تعداد بڑھ جانے کے الٹیمیٹم دیتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں اتنی اموات ہوتیں تو میں ضرور لاک ڈاؤن کی اجازت دے دیتا پھر ملک میں اندازوں سے زیادہ ہونے والی اموات پر کہتے ہیں کہ عوام SOPs پر عمل نہیں کرتے ، اس لیے وبا پھیل گئی ہے ۔

پھر لوگوں کو ''قبر میں سکون'' اور ''دنیا عارضی و خسارے کا مسکن'' جیسے جملے ذومعنی انداز میں کہے جاتے رہے ۔ پھر عجیب بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ رات کو وزیر اعظم قوم سے خطاب میں کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن نہیں کریں گے لیکن اگلی ہی صبح کو ملک میں عملی طور پر لاک ڈاؤن ہوجاتا ہے ۔ایک طرف ملک بھر میں ہوائی جہاز ، ریلوے اور دیگر ٹرانسپورٹس بند ہوجاتی ہیں ، سڑکیں ویران رہتی ہیں ، اسلام آباد ، لاہور، پشاور اور کوئٹہ سمیت تمام بڑے شہر بند رہتے ہیں لیکن سندھ حکومت کی مخالفت میں وہ کراچی کو کھولنے کے لیے اپنے وزراء و پارٹی اراکین سے مہم چلواتے ہیں ، یہاں تک کہ کراچی کے تاجروں کو سندھ حکومت کے خلاف اُکساکر کاروبار کھلوانے کی کوششیں ہوئیں ۔


کرپشن کرپشن کا واویلا کرنے والی جماعت کی اپنی حکومت کا کورونا کی مد میں کرپشن کا یہ حال تھا کہ کورونا کا علاج موجود نہ ہونے کے باوجود کورٹ میں فی مریض 25 لاکھ روپے علاج پر خرچ کا حساب کتاب پیش کیا گیا ۔ خود حکومتی صفوں سے حکومت کی پالیسیوں ، کرپشن اور نااہلی و کارکردگی پر آوازیں بڑے زور و شور سے سنائی دینے لگی ہیں ۔ دوسری جانب سندھ کے وزیر اعلیٰ روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے اعداد و شمار ایک نیوز اینکر کی طرح دیتے نظر آتے ہیں لیکن صوبہ میں وبا پر قابو پانے کے لیے کوئی بولڈ اقدامات نہیں کرتے ۔ یہاں تک کہ صوبہ کے اسپتالوں میں اب تک بھی کوئی بہتری نہیں لاسکے ۔

لوگوں کو ایمبولینس اور اسٹریچر تک میسر نہیں ، سرکاری ادویات مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہیں، راشن تقسیم میں روایتی اقربا پروری عروج پر نظر آئی ۔ پولیس کورونا کے نام پر صوبہ میں لوگوں کی تذلیل کرتی رہی ۔ اُس کے باوجود صوبہ میں مکمل طور پر حکومتی رٹ قائم کرنے کے بجائے سندھ حکومت وفاق کے ساتھ لفاظی کی تیر اندازی میں مصروف ہے ۔ اسپتالوں سے لوگوں کی آوازیں اُٹھتی رہیں کہ عام بیماریوں کے باعث آنیوالے مریضوں کو بھی کورونا کا مریض بناکر لوگوں کو تنگ کیا جارہا ہے ۔ حتیٰ کہ مریض سے اٹینڈنٹس اور دیگر ورثاء کو بھی ملنے نہیں دیاجارہا اور کسی بھی مرض کے باعث جاں بحق ہونیوالے مریضوں کوکورونا Declareکرکے لوگوں کی تدفین میں رکاوٹ ڈالنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خوف طاری کیا جارہا ہے ۔

دونوں حکومتیں اس وبا کے نام پر عوام سے چندہ اور ملکی و بین الاقوامی اداروں سے امداد اور قرض وغیرہ کے نام پر پیسہ بٹورنے میں مصروف ہیں ۔ اور یہ سب زیادہ سے زیادہ پیسہ بٹورنے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ کیونکہ کورونا سے قبل ہی ملکی حالات ایسے تھے کہ بے روزگاری میں شدید اضافہ اور افراط ِ زر لوگوں کی زندگی زہر بناتے نظر آیا ، معیشت اور معاشی ٹیم دونوں ہی IMF کے رحم و کرم پر رہے اور IMF نے جو نسخہ ہمارے لیے تیار کیا ہے اب تو اُس پر بھی عملدرآمد ناممکن نظر آتا ہے ۔ ملک میں آبی و غذائی قلت ، صحت و تعلیم کی مخدوش حالت ، ڈوبتی معیشت اور ملک کے بلیک لسٹ ہونے کے امکانات نے نہ صرف حکومت بلکہ ریاست کے ڈھانچے کو ہی ہلاکر رکھ دیا تھا۔ ایسے میں کورونا تو جیسے حکمرانوں کا بھرم رکھنے کے لیے ہی آیا تھا ۔

صوبائی حکومتیں نیز وفاقی حکومت خود کو صرف ایک اطلاعاتی مرکز سمجھتی ہیں اور اُن کا کام صرف یہی ہے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ کورونا کتنا پھیل سکتا ہے ، اس سے کتنی جانیں ضایع ہوسکتی ہیں وغیرہ وغیرہ ، باقی اس وبا سے بچاؤ اور اس وبا پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا جیسے اُن کی ذمے داریوں میں شامل ہی نہیں ہے ۔ حکمرانوں کے اس رویے سے عوام میں بڑے پیمانے پر مایوسی اور غصہ پھیل رہا ہے آگے چل کر ملک میں انارکی و انتشار کا سبب بن سکتا ہے ۔

دوسالوں کے دوران نہ تو کرپشن پر ضابطہ ہوسکا اور نہ ہی مہنگائی کو کوئی بریک لگ سکے ، بلکہ اس حکومت میں مصنوعی بحرانوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ، ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو ۔ آٹا مہنگا ، چینی مہنگی ،عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات سستی ترین ہونے کے باوجود نایاب ، ادویات کے نرخ میں اضافہ اور کئی جان بچانے والی ادویات بھی مارکیٹ سے غائب رہیں جب کہ آکسیجن سیلینڈر کے نرخ بھی آسمان تک پہنچادیے گئے ۔موجودہ حکمرانوں نے عوام میں محرومی اور مایوسی کی جو لہر موجزن کی ہے ، اُس نے عوام کے دلوں میں تبدیلی فیم سمیت تمام حکمرانوں کے لیے غم و غصہ بھر دیا ہے ۔

ان تمام عوامل کی بناء پر ملک میں عوام میں بداعتمادی کی فضا پروان چڑھی اور آہستہ آہستہ لوگوں کا صوبائی حکومتوں نیز وفاقی حکومت سے بھی اعتماد ختم ہوگیا ۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس پر اعتماد کریں، کس پر نہ کریں ۔ لوگ حیران و پریشان رہنے لگے ۔ جس سے کئی لوگ نفسیاتی مریض بن گئے تو کئی لوگوں نے خود کشی کرلی ۔ جس سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت کو نفسیاتی مسائل کے حل اور بچاؤ کے لیے سندھ مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن قائم کرنا پڑگئی ۔ ایسے میں عمومی طور پر لوگوں کا سرکار ، سرکاری باتوں، سرکاری اُمور اور سرکاری اقدامات پر سے بھروسہ ختم ہوگیا ۔

لوگ مایوس در مایوس ہوکر سرکاری و ملکی اُمور سے لاتعلق ہوگئے ۔اور قوموں کی مایوسی کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے یہ سمجھنے کے لیے ماضی میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں آج تک رہنمائی کا کام دیتی ہیں ۔جب قومیں اندرونی طور پر متحد اور مضبوط ہوتی ہیں تو عالمی سامراج کی شکل اختیار کرجانے والے فارس (موجودہ ایران) کو رائے سہیرس کی قیادت میں شکست دیکرسندھ کی طرح آزادی حاصل کرلیتی ہیں ۔ قومیں باہمی اتحاد کی بدولت ایک ''کائی قبیلہ '' ترکی سے شروع ہونے والی تحریک سلطنت ِعثمانیہ کی بنیاد بن کر دنیا بھر میں 300 سال حکومت کرتی نظر آتی ہیں ۔

کہیں دور کیوں جائیں ، قومیں متحد ہوں تو دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے نئی لکیریں کھینچ لیتی ہیں ۔ لیکن اگر قومیں منتشر اورمایوس ہوتی ہیں تو ترکی کی طرح 300 سالہ عروج رکھنے والی سلطنت ِ عثمانیہ سے بھی خوشی خوشی دستبردار ہوجاتی ہیں ۔ قومیں جب مایوس ہوتی ہیں تو ایک لاکھ فوجی طاقت رکھنے والے راجہ داہرکو اپنی چوتھائی کے برابر عربی لشکر کے ہاتھوں شکست کھانی پڑتی ہے ۔

قومیں جب مایوس ہوتی ہیں تو 600سال سے ہندوستان پر حکومت کرنے والے مغلوں کو ہزاروں میل دور سے آنیوالے مُٹھی بھر انگریزوں کا غلام بن کر رہنا پڑتا ہے ۔ یوں ماضی گواہ ہے کہ عوام اپنے فیصلے ایک مخصوص نفسیات کے ذریعے کرتے رہے ہیں ۔ اقتدار پر موجود حکمرانوں کے کاموں سے خفگی کے اظہار کے طور پر حکمرانوں کو چیلنج کرنے والے کو ''ہیرو'' بنالیتے ہیں ، پھر اپنے پسندیدہ ہیرو کے اعمال سے خائف ہونے پر پہلے مزاح اور طنز کے ذریعے اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہیں ؛ پھر تیسرے مرحلے پر وہ مایوسی کا شکار ہوکر حکومتی اُمور بلکہ ریاستی اُمور سے لاتعلق بن جاتے ہیں ۔ در اصل یہ حالت ایسی ہوتی ہے جو ملکی ترقی کے پہیے کو جام کردیتی ہے اوربدقسمتی سے آج کل ہمارے ملک کے عوام پریہی کیفیت طاری ہے ، جوکہ لمحہ فکریہ ہے ! کیونکہ مایوس لوگوں کو جس طرف بھی کوئی لے جانا چاہے ، آسانی سے لے جاسکتا ہے ۔

جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد تباہ شدہ جرمنی کو وہاں کی قیادت ترقی کی منزل کی جانب تیزی سے جاتے زینوں پر لے آئی ، لیکن اُسی سمے برطانیہ سے مایوس دنیا کو امریکا اپنے مفادات کی بناء پر ایسی راہوں پر لے آیا جو دنیا میں انتہا پسندی ، بارود پسندی کی شاہراہ بن کر عالمی امن کی تباہی اور چھوٹے و کمزور ممالک کو نئی غلامی کی طرف لے آئی ۔

ایسی مثال ہمارے اپنے ملک میں ون یونٹ کی صورت میں بھی موجود رہی ہے ، جس میں عوام کی مایوسی انتہا کو چھوتی نظر آئی اور پھر دشمن قوتوں نے اس مایوسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کردیے ۔ اس لیے ملک کی حقیقی محب ِ وطن جمہوری قوتوں کو اس وقت متحد ہوکر عوام کی مایوسی کو دور کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ کوئی بھی اندرونی و بیرونی ملک دشمن اس مایوس کن صورتحال کو اپنے حق میں استعمال نہ کرسکے ۔ ویسے بھی حکومتیں آنی جانی چیز ہوتی ہیں ، اصل چیز ہے ملک و ملت کی سلامتی اور استحکام ۔
Load Next Story