چیف جسٹس پرسوں ریٹائر ہونگے تاریخ ساز فیصلے کیے
جسٹس افتخار محمد چوہدری 2 مرتبہ معزول کے جانے کے باوجودعوام کے دبائواوروکلاء کی منظم تحریک کے نتیجے میںبحال ہوئے.
NEW DELHI:
بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمدچوہدری کا8 سال اور 6 مہینے کاغیرمعمولی دورہ بدھ 11دسمبر کوختم ہوجائے گا۔
عدالتی فعالیت(جوڈیشل ایکٹیوازم)کے حوالے سے تابناک یہ عہد کئی حوالے سے متنازع بھی رہااوربعض اوقات عدالتی آمریت کے الزامات بھی لگتے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری دنیاکے پہلے چیف جسٹس ہیںجو2 مرتبہ معزول کے جانے کے باوجودعوام کے دبائواوروکلاء کی منظم تحریک کے نتیجے میںبحال ہوئے۔ برطرف ہونے سے پہلے اوربعد میں ان کی سربراہی میںسپریم کورٹ نے ایسے فیصلے دیے جن کی ملکی تاریخ میںمثال نہیںملتی۔ایک فوجی سربراہ کی موجودگی میں ان کی حکومتی پالیسیوں کیخلاف فیصلے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیںگے ،خصوصاً اسٹیل مل کی نجکاری اور لاپتہ افراد کے معاملے پر عدالت عظمٰی کے واضح موقف نے فوجی حکومت کیلیے مسائل پیدا کیے،شایدان فیصلوںکی وجہ سے چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میںا یک ریفرنس بھی آیاجس میں صدر پاکستان کی طرف سے اختیارات کے ناجائزاستعمال، کسی حدتک کرپشن اورغیر ضروری پروٹوکول کیلیے دبائو ڈالنے جیسے الزامات لگائے گئے تھے۔
ایک الزام یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے ارسلان کو پولیس کیڈرمیںلانے کیلیے اپنے اختیار کااستعمال کیا لیکن سپریم کورٹ کے 13رکنی بینچ نے ریفرنس کو بدنیتی پرمبنی قرار دے کرمستردکردیاتھا ۔ کرپشن کیخلاف چیف جسٹس نے حج کرپشن اسکینڈل،این آئی سی ایل اسکینڈل،آر پی پی اسکینڈل، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کی طرف سے 47 ارب روپے اپنے لوگوں کو جاری کرنے اورنیو بے نظیر ایئر پورٹ کی تعمیر کیس میںفیصلے دیے جبکہ انیتا تراب کیس میںبیوروکریسی کو حکومت وقت کے غیر ضروری دبائو سے آزاد کیا۔آئین کے آرٹیکل 184(3) کا زیاد ہ سے زیادہ استعمال کرکے انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کو تحفظ دیا ، اس آرٹیکل کے زیادہ استعمال کی وجہ سے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پر الزمات بھی عائدہوتے رہے لیکن ہرالزام کے جواب میںچیف جسٹس کا کہنا ہوتا تھا کہ جب اور کوئی ادارہ کام کیلیے تیار نہ ہو تو پھر اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
وہ اکثر اپنی نجی گفتگو میں یہ بھی کہتے تھے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں ادارہ جاتی نظام ختم ہوگیا ہے، وہاں انسانی حقوق کے تحفظ کیلیے عدلیہ کو اس وقت تک غیرمعمولی کردار ادا کرنا ہوگاجب تک ادارے خود انسانی حقوق کے حوالے سے حساسیت کا مظاہرہ کریں۔ جسٹس افتخا رمحمد چوہدری نے بطور وکیل اور جج مجوعی طور پر 40 سالہ بھر پور زندگی گزاری، وہ 1974کو ڈسٹرکٹ عدلیہ میں بطور وکیل رجسٹرڈ ہوئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، 1976کو ہائیکورٹ اور1985میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے، 1986میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے اور 1989میں نواب اکبر بگٹی نے انھیں بلوچستان حکومت کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا ۔ نومبر 1990میں بلوچستان ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر کیے گئے اور 1993میں مستقل ہوئے۔انھوں نے چیئر مین بلوچستان لوکل کونسل الیکشن اتھارٹی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری 22 اپریل 1999کو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے، جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کا حلف بھی لیا۔ جب چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت سپریم کورٹ کے متعدد ججوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا تو عدالت عظمٰی میں ججوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی، نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کیخلاف ظفر علی شاہ کی زیر التوا پٹیشن کی سماعت کیلیے فوری طور پر بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس رانا بھگوان داس کو سپریم کورٹ لایا گیا ۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں 12رکنی سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں نہ صرف نواز شریف حکومت برطرف کرنے کے غیر آئینی اقدام کو درست قرار دیا بلکہ جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا ۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ متفقہ تھا اور جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس رانا بھگوان داس اس کا حصہ تھے تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیس کے فیصلے میں اس کا ازالہ بھی کیا اور جمہوری حکومتوں کو گرانے میں ڈکٹیٹروںکا ساتھ دینے کی عدلیہ کی ماضی کو غلط بھی قرار دیا ۔ جمہوریت اور عدلیہ کیلیے ان کی خدمات پر نیشنل لاء جنرل امریکا نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 2007 کا بہترین وکیل قرار دیا، نیو سائوتھ ایسٹ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری، نیویارک سٹی بار نے اعزازی ممبر شپ، ہاورڈ لاء اسکول نے میڈل آف فریڈم اور انٹرنیشنل جیورسٹ کونسل نے انٹرنیشنل جیورسٹ ایوارڈ سے نواز۔
بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخارمحمدچوہدری کا8 سال اور 6 مہینے کاغیرمعمولی دورہ بدھ 11دسمبر کوختم ہوجائے گا۔
عدالتی فعالیت(جوڈیشل ایکٹیوازم)کے حوالے سے تابناک یہ عہد کئی حوالے سے متنازع بھی رہااوربعض اوقات عدالتی آمریت کے الزامات بھی لگتے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری دنیاکے پہلے چیف جسٹس ہیںجو2 مرتبہ معزول کے جانے کے باوجودعوام کے دبائواوروکلاء کی منظم تحریک کے نتیجے میںبحال ہوئے۔ برطرف ہونے سے پہلے اوربعد میں ان کی سربراہی میںسپریم کورٹ نے ایسے فیصلے دیے جن کی ملکی تاریخ میںمثال نہیںملتی۔ایک فوجی سربراہ کی موجودگی میں ان کی حکومتی پالیسیوں کیخلاف فیصلے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیںگے ،خصوصاً اسٹیل مل کی نجکاری اور لاپتہ افراد کے معاملے پر عدالت عظمٰی کے واضح موقف نے فوجی حکومت کیلیے مسائل پیدا کیے،شایدان فیصلوںکی وجہ سے چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میںا یک ریفرنس بھی آیاجس میں صدر پاکستان کی طرف سے اختیارات کے ناجائزاستعمال، کسی حدتک کرپشن اورغیر ضروری پروٹوکول کیلیے دبائو ڈالنے جیسے الزامات لگائے گئے تھے۔
ایک الزام یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے ارسلان کو پولیس کیڈرمیںلانے کیلیے اپنے اختیار کااستعمال کیا لیکن سپریم کورٹ کے 13رکنی بینچ نے ریفرنس کو بدنیتی پرمبنی قرار دے کرمستردکردیاتھا ۔ کرپشن کیخلاف چیف جسٹس نے حج کرپشن اسکینڈل،این آئی سی ایل اسکینڈل،آر پی پی اسکینڈل، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کی طرف سے 47 ارب روپے اپنے لوگوں کو جاری کرنے اورنیو بے نظیر ایئر پورٹ کی تعمیر کیس میںفیصلے دیے جبکہ انیتا تراب کیس میںبیوروکریسی کو حکومت وقت کے غیر ضروری دبائو سے آزاد کیا۔آئین کے آرٹیکل 184(3) کا زیاد ہ سے زیادہ استعمال کرکے انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کو تحفظ دیا ، اس آرٹیکل کے زیادہ استعمال کی وجہ سے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پر الزمات بھی عائدہوتے رہے لیکن ہرالزام کے جواب میںچیف جسٹس کا کہنا ہوتا تھا کہ جب اور کوئی ادارہ کام کیلیے تیار نہ ہو تو پھر اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
وہ اکثر اپنی نجی گفتگو میں یہ بھی کہتے تھے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں ادارہ جاتی نظام ختم ہوگیا ہے، وہاں انسانی حقوق کے تحفظ کیلیے عدلیہ کو اس وقت تک غیرمعمولی کردار ادا کرنا ہوگاجب تک ادارے خود انسانی حقوق کے حوالے سے حساسیت کا مظاہرہ کریں۔ جسٹس افتخا رمحمد چوہدری نے بطور وکیل اور جج مجوعی طور پر 40 سالہ بھر پور زندگی گزاری، وہ 1974کو ڈسٹرکٹ عدلیہ میں بطور وکیل رجسٹرڈ ہوئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، 1976کو ہائیکورٹ اور1985میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے، 1986میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے اور 1989میں نواب اکبر بگٹی نے انھیں بلوچستان حکومت کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا ۔ نومبر 1990میں بلوچستان ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر کیے گئے اور 1993میں مستقل ہوئے۔انھوں نے چیئر مین بلوچستان لوکل کونسل الیکشن اتھارٹی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری 22 اپریل 1999کو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے، جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کا حلف بھی لیا۔ جب چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت سپریم کورٹ کے متعدد ججوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا تو عدالت عظمٰی میں ججوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی، نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کیخلاف ظفر علی شاہ کی زیر التوا پٹیشن کی سماعت کیلیے فوری طور پر بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس رانا بھگوان داس کو سپریم کورٹ لایا گیا ۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں 12رکنی سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں نہ صرف نواز شریف حکومت برطرف کرنے کے غیر آئینی اقدام کو درست قرار دیا بلکہ جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا ۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ متفقہ تھا اور جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس رانا بھگوان داس اس کا حصہ تھے تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیس کے فیصلے میں اس کا ازالہ بھی کیا اور جمہوری حکومتوں کو گرانے میں ڈکٹیٹروںکا ساتھ دینے کی عدلیہ کی ماضی کو غلط بھی قرار دیا ۔ جمہوریت اور عدلیہ کیلیے ان کی خدمات پر نیشنل لاء جنرل امریکا نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 2007 کا بہترین وکیل قرار دیا، نیو سائوتھ ایسٹ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری، نیویارک سٹی بار نے اعزازی ممبر شپ، ہاورڈ لاء اسکول نے میڈل آف فریڈم اور انٹرنیشنل جیورسٹ کونسل نے انٹرنیشنل جیورسٹ ایوارڈ سے نواز۔