عجائب خانوں کی عجیب دنیا

آب پاشی کے ذرائع اور تاریخ، نہروں کے ماڈل، علامہ اقبال کی یادیں، سکھر بیراج کی محفوظ کہانی


آب پاشی کے ذرائع اور تاریخ، نہروں کے ماڈل، علامہ اقبال کی یادیں، سکھر بیراج کی محفوظ کہانی ۔ فوٹو : فائل

(قسط نمبر3 )

16 عجائب گھر پشاور؛

خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا عجائب گھر پشاور میوزیم، گندھارا کی شان و شوکت اور قدیم تہذیب کا امین ہے۔ پشاور میوزیم 1907 میں ملکہ برطانیہ کی یاد میں ''وکٹوریہ ہال'' کے طور پر بنایا گیا تھا جس پر ساٹھ ہزار روپے لاگت آئی۔ اِسے بعد میں ایک خوب صورت دو منزلہ عمارت کی شکل دے دی گئی جو مُغلیہ، بُدھ، ہندو اور برطانوی طرزِتعمیر کا حسین امتزاج قرار پائی۔

شروع میں اس کا ایک مرکزی ہال تھا۔ 1970 اور 2006 میں اس کے رقبے کو وسیع کر کے مختلف بلاکس کا اضافہ کیا گیا۔ فی الوقت پشاور کے عجائب گھر کو چار مرکزی گیلریوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

گندھارا آرٹ گیلری؛ اس گیلری کو اگر پشاور میوزیم کی جان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ پوری دنیا میں گندھارا آرٹ کا سب سے بڑا اور اہم ذخیرہ اسی میوزیم میں ہے۔ یہاں موجود نوادرات میں بدھا کے مجسمے، مختلف اشکال، مراقبے کی حالت، دربار کے مناظر، اسٹوپے، متبرک صندوقچے، زیورات، سنگھار دان، لکڑی کے بکس اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔

نیچے کی مرکزی گیلری میں بُدھا کی پیدائش سے پہلے اور بعد کی کہانیاں، ان کے معجزات، مراقبے کی حالتیں، عبادت کے طریقے موجود ہیں جو مختلف پتھروں پر کُندہ ہیں۔ یہاں گوتم بُدھا کا ایک مجسمہ موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا دریافت شُدہ مجسمہ ہے۔

یہ نوادرات خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں کی کھدائیوں سے یہاں لائے گئے ہیں جن میں سیری بہلول، تخت بھائی، جمال گڑھی، شاہ جی کی ڈھیرئی، آکون، غاز ڈھیرئی، بالا حصار، اتمانزئی، چارسدہ اور ہری پور شامل ہیں۔

اسلامی گیلری؛ پشاور میوزیم کی اسلامک گیلری بھی لوازمات کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے۔ یہاں قدیم عربی و فارسی مخطوطات، لکڑی کے دروازے، ملتانی ٹائلیں اور برتن، سکھوں کے خلاف بالاکوٹ میں شہید ہونے والے سید احمد شہید کے کپڑے اور برتن، دھاتوں پر کندی آیتیں، خطاطی اور مغلیہ دور کی تصاویر شامل ہیں۔

ان میں سب سے اہم، 1244 کا خطِ غبر میں لکھا ہوا قرآن پاک ہے جو تین تین پاروں میں محفوظ ہے۔ قرآن کریم کے نایاب قلمی نسخوں کو محفوظ رکھنے کے لیے 2001 میں ایک نئی گیلری بنائی گئی جہاں 29 ہاتھ سے لکھے گئے قرآن کریم کے نسخے اور 56 مخطوطات رکھے گئے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز گیارہویں صدی کا شاہنامہ فردوسی ہے جس میں کئی ایم مخطوطے محفوظ ہیں۔

سکہ جات کی گیلری؛ یہاں آپ کو ہند یونانی، کُشان، ہُن اور ہندو شاہی دور کے قدیم سِکے ملیں گے جو بیشتر کھدائیوں سے دریافت شُدہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہی غزنوی، غوری، تغلق، لودھی، مغلیہ، سِکھ اور برطانوی دور کے سِکے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ گول، چوکور اور بیضوی سکے سونے، چاندی، تانبے اور کانسی سے بنائے گئے ہیں۔ یہاں کُل 8625 سکے موجود ہیں۔

ثقافتی و علاقائی گیلری؛ یہاں آپ کو پورے خیبر پختونخواہ اور کالاش قبائل کے کلچر کا باریک بینی سے معائنہ کرنے کا موقع ملے گا۔ کالاش یا کیلاش چترال میں افغانستان کی سرحد کے قریب موجود ایک قبیلہ ہے جن میں زیادہ تر کا کوئی مذہب نہیں۔ یہاں اس قبیلے کا خوب صورت لباس، تابوت، زیورات، برتن اور دیگر استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں۔



اس کے علاوہ دیگر پختون قبائل کے رسم ورواج کا احاطہ کرتی اشیاء مثلاً کپڑے، ہتھیار، زرہ، چمڑے اور کانسی کی اشیاء اور لکڑی کے اسٹول شامل ہیں۔ غرض یہاں آپ پختونخواہ کے کلچر کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔

17- ٹولنٹن مارکیٹ میوزیم؛

ٹولنٹن مارکیٹ ایک معروف اور تاریخی نام ہے، اس نام کے ساتھ جو تصور ابھرتا ہے، وہ ایک ایسی مارکیٹ کا ہے، جسے آج کے دور میں میں شاپنگ مال کہا جاتا ہے، لیکن یہ مارکیٹ کوئی عام مارکیٹ نہیں ہے۔

اسے قیام پاکستان سے قبل انگریز دور حکومت میں بنایا گیا تھا جہاں کتابوں سے لے کر بچوں کے کھلونے ادویات اور راشن سمیت ہر شے کی دکانیں تھیں۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ یہ عمارت خستہ ہوگئی۔ گرنے کے خدشے کے پیش نظر اسے منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تاجروں نے احتجاج کیا۔ خاصے عرصے تک کشمکش ہوتی رہی، بالآخر جیل روڈ پر ایک نئی مارکیٹ تعمیر کر کے پرانی مارکیٹ کے تاجروں کو وہاں منتقل کر دیا گیا۔ پرانی مارکیٹ کو میوزیم میں تبدیل کر کے اسے لاہور کی تاریخ کا مرکز بنا دیا گیا ہے جو اب ''لاہور سٹی ہیریٹیج میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سبز اور پیلے رنگ کی خوب صورت عمارت انارکلی کے قریب چوک کے کونے پر کھڑی ہے۔

لاہور شہر میں جتنے بھی میوزیم ہوں وہ کم ہیں۔ اس شہر کی تاریخ، اس کا ماضی اتنا وسیع ہے کہ سنبھالے سے بھی نہ سنبھل پائے۔ لاہور سٹی میوزیم اس تناظر میں ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ اس خوب صورت عمارت کے اندر واقع یہ عجائب گھر دیکھنے والوں کو لاہور کے شان دار ماضی میں لے جاتا ہے جہاں آپ لاہور پر حکم رانی کرنے والے مغل و سکھ بادشاہوں کے پورٹریٹس، ان کی استعمال شدہ تلواریں اور دیگر نادر اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔

18- پُشکلاوتی میوزیم چارسدہ؛

2006 میں قائم کیا جانے والا پُشکلاوتی میوزیم چارسدہ میوزیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پشکلاوتی چارسدہ شہر کا قدیم نام تھا جو چھٹی سے پہلی قبلِ مسیح میں گندھارا سلطنت کا پہلا پایہ تخت تھا۔ پشکلاوتی کا لفظی مطلب ''کنول کے پھولوں کا شہر'' ہے جب کہ یہ ایک دیوی کا نام بھی ہے۔ آج بھی چارسدہ شہر اور گردونوح میں کنول کے پھول جا بجا ملتے ہیں۔چارسدہ سے 4 کلومیٹر شمال میں واقع غنی ڈھیرئی، باچا خان کے بیٹے عبدل غنی خان کے نام پر رکھی گئی ہے جو ایک شاعر، فلاسفر اور آرٹسٹ تھے۔ 2001 میں خیبر پختونخواہ حکومت نے ان کے اعزاز میں یہاں ایک لائبریری اور مشاعرہ ہال قائم کیا اور اس کے بعد 2006 میں یہیں پُشکلاوتی میوزیم بنایا گیا جہاں گندھارا تہذیب کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔

19- سندھ میوزیم حیدرآباد؛

سندھ دھرتی قدرت کے ہزاروں راز اپنے اندر سموئے ہوئے ایک سحر انگیز خطہ ہے۔ اس کے مختلف رنگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن سندھ میوزیم حیدرآباد میں اس دھرتی کے چند رازوں کو کام یابی سے محفوظ کیا گیا ہے۔ 1971 میں بنائے جانے والے سندھ میوزیم میں بنیادی طور پر وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب اور سندھ دھرتی کے مختلف ادوار جن میں سامرا، کلہوڑا اور تالپور دور شامل ہیں، کو محفوظ کیا گیا ہے۔عجائب گھر کا مرکزی دروازہ کسی قلعے کے داخلی دروازے سے مشابہت رکھتا ہے جس پر نیلا ٹائل ورک کیا گیا ہے۔ عجائب گھر کی ایک منفرد چیز وہ گھر ہے جسے سندھی ثقافت و دست کاریوں سے مزین کیا گیا، جس میں آپ سندھ کی روزمرہ گھریلو زندگی، لوگ، ان کے پہناوے، کھانے اور دیگر اہم امور کو دیکھ سکتے ہیں۔

20- مردان میوزیم؛

مردان شہر میں واقع یہ میوزیم 1991 میں اس وقت کے کمشنر کی زیرسرپرستی ٹاؤن ہال میں بنایا گیا تھا جس میں 90 فن پاروں پر مشتمل ایک ہی گیلری تھی۔ پھر 2006 میں ضلعی حکومت مردان کے زمین فراہم کرنے کے بعد اس میں 3 گیلریوں کا اضافہ کیا گیا جس کا افتتاح 2009 میں اس وقت کے وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخواہ نے کیا۔یہاں تین گیلریاں موجود ہیں جن میں گندھارا، اسلامی اور ثقافتی گیلریز شامل ہیں۔

گندھارا گیلری کے زیادہ تر لوازمات تخت بھائی، سیری بہلول اور جمال گڑھی سے دریافت شدہ ہیں۔ تخت بھائی ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں وسیع کھدائیوںکے بعد گندھارا سلطنت کی کئی قیمتی اور منفرد اشیاء اور مجسمے دریافت کیے گئے ہیں جن میں بدھا کے مجسمے، پتھروں پر کندہ ان کی زندگی کے حالات، اسٹوپے اور زیورات شامل ہیں۔ مردان میوزیم گندھارا تہذیب کی حسین ترین باقیات کا امین ہے۔

اسلامی گیلری میں آٹھویں سے تیرہویں صدی کے مخطوطات، قرآن پاک کے قلمی نسخہ جات اور عربی و فارسی میں لکھی شاعری رکھی گئی ہے۔



آخری گیلری میں علاقائی ثقافت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہاں موجود نوادرات میں روایتی زیورات، لکڑی کے اسٹول، ہتھیار، کام والے لباس، شالیں، موسیقی کے آلات جیسے رباب، ستار، طبلہ، بانسری اور ہارمونیم وغیرہ شامل ہیں۔

21- گوڑکھتری سٹی میوزیم پشاور؛

پشاور شہر کے پرانے حصے میں گھنٹہ گھر اور فوڈ اسٹریٹ کے ساتھ واقع یہ میوزیم، گوڑ کھتری کمپلیکس کا حصہ ہے جس میں سٹی میوزیم کے علاوہ تحصیل پارک، گورکھ ناتھ مندر، مسجد امام ابو حنیفہ، فائر بریگیڈ کی پرانی عمارت اور کچھ پرانے کھنڈرات واقع ہیں۔ ایک پرانی عمارت کی اوپری منزل پر واقع یہ میوزیم پشاور شہر کی تاریخ اور پختون ثقافت کا عکاس ہے۔ یہاں شیشے کی بڑی بڑی الماریوں میں چاندی اور مختلف دھاتوں کے زیورات، مردانہ و زنانہ ملبوسات، جوتے خصوصاً مختلف اقسام کی پشاوری چپل، کانسی و تانبے کے برتن، پرانے وقتوں میں تجارت کے لیے لائے جانے والے چینی کے برتن، روز مرہ زندگی کا سامان، آلاتِ موسیقی، مٹی کے ظروف اورکھنڈرات سے دریافت کردہ کچھ تاریخی چیزیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس میوزیم کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

22- عجائب گھر عمر کوٹ؛

صحرائے تھر کے خوب صورت شہر عمر کوٹ کا عجائب گھر قلعہ عمر کوٹ کے اندر واقع ہے جو 1968 میں قائم کیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ پچاس سال پرانا میوزیم ہے۔ وقفے وقفے سے اس کو پھیلایا گیا اور 2006 میں اسے ایک نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا جو بنیادی طور پر تین گیلریوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اہلِ ذوق کی دل چسپی کی بہت سی چیزیں ہیں جن میں مغل دور کے سِکے، بندوقیں، تلواریں، تیر کمان، ڈھالیں، زرہ بکتر، قلمی نسخے، تصاویر، شاہی فرمان اور خطاطی کے شان دار نمونے شامل ہیں، جب کہ دیواروں تھرپارکر کی تصاویر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جب کہ سندھ کی ثقافت کو بھی ہائی لائیٹ کیا گیا ہے۔

23- پنجند میوزیم؛

پنجند پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع ہے جہاں راوی، بیاس، ستلج، جہلم اور چناب کا پانی آپس میں ملتا ہے۔ اس مقام پر ایک ہیڈ ورکس بنایا گیا ہے۔ انگریز دور میں تعمیر ہونے والا یہ ہیڈ ورکس ضلع مظفر گڑھ اور بہاولپور کے بیچ واقع ہے۔ علی پور شہر سے چند کلومیٹر پر واقع یہ ہیڈ ورکس اور یہ مقام، پچھلی ایک صدی سے بہاولپور، رحیم یار خان اور مظفر گڑھ سمیت پورے وسیب کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔

بلاشبہہ اس ہیڈورکس کی تعمیر بہت جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس لیے سکھر بیراج کی طرح اِس تاریخی اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیڈ ورکس کی تعمیرو تاریخ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا میوزیم قائم کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں آب پاشی کے مختلف ذرائع اور تاریخ، پنجند ہیڈ ورکس کی تعمیر کے دوران استعمال ہونے والے نایاب آلات، ہیڈورکس کی تعمیر کے دوران بنائی گئی یادگار تصاویر، ہیڈ ورکس اور اس سے نکالی جانے والی تمام نہروں کا ماڈل موجود ہے۔ مخدوش حالت میں موجود یہ میوزیم ہیڈورکس کے کنارے پر موجود ہے اور ہر خاص و عام کے لیے کُھلا ہے۔

24- اقبال منزل، سیالکوٹ؛

سیالکوٹ شہر کے دل میں واقع ''اقبال منزل'' شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال کی جائے پیدائش ہے جہاں ان کی یاد میں ایک چھوٹا سا میوزیم بنایا گیا ہے۔

اقبال منزل حضرت علامہ کے پردادا محمد رفیق نے 1861 میں خریدی تھی۔ یہ ایک بہت چھوٹا سا گھر تھا جو آنے والے وقتوں میں بڑا ہوا چلا گیا۔ یہ گھر علامہ اقبال کو تَرکے میں ملا جہاں ان کے بیٹے جاوید اقبال کی پیدائش ہوئی۔



حکومتِ پاکستان نے 1971 میں یہاں مرمتی کام کروا کے اسے محکمہ آثارِقدیمہ کے حوالے کر دیا جس نے1977 میں یہاں اقبال سے متعلق ایک میوزیم قائم کردیا۔

یہاں مختلف کمروں میں علامہ اقبال اور ان کے خاندان کے زیرِاستعمال چیزیں مثلاً ان کا پلنگ، کرسی، میز، قلم دوات، پردے اور ان کی کتابیں رکھی گئی ہیں۔ علامہ محمد اقبال کی دوستوں، اساتذہ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ راہ نماؤں کے ساتھ یادگار و نایاب تصاویر بھی یہاں دیکھی جا سکتی ہیں جن میں سے کئی ایک پر ان کے دست خط ثبت ہیں۔

کچھ کمرے مرمت و بحالی کی غرض سے بند کردیے گئے ہیں۔ نیچے بنائی گئی لائبریری میں تقریباً 4000 کتابیں موجود ہیں جن میں سے دو ہزار صرف اقبالیات پر ہیں اور یہ سب دیکھنے والوں کی طرف سے عطیہ کردہ ہیں۔

25- دیر میوزیم چکدرہ؛

دیر میوزیم جسے عام طور پر چکدرہ میوزیم بھی کہا جاتا ہے، ضلع لوئر دیر کے علاقے چکدرہ میں واقع ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے محکمہ آثارِقدیمہ نے 1969-1966 میں اس علاقے میں کھدائی کی کیں تو یہوں سے دریافت شدہ نوادرات کو محفوظ کرنے کے لیے اس وقت کی ریاستی حکومت نے ایک عجائب گھر تعمیر کروایا۔ یہ میوزیم وادی سوات اور چکدرہ کی کھدائیوں سے ملنے والی گندھارا تہذیب کا حسن لیے ہوئے ہے۔ اس کی بنیاد 1970 میں رکھی گئی جب کہ اس کا افتتاح 1979 میں کیا گیا۔

خوب صورت علاقائی طرزتعمیر کے عین مطابق بنایا گیا یہ میوزیم حکومتِ پختونخواہ کے انجنیئر سیدل خان نے ڈیزائن کیا تھا جس کی تعمیر میں اس علاقے کا مضبوط ''مالاکنڈی پتھر'' استعمال کیا گیا۔ میوزیم کے عمارت کسی قلعے سے مشابہہ ہے جس کا سامنے کا رخ چوڑا رکھا گیا ہے اور داخلی دروازے پر ایک محراب بنائی گئی ہے۔ ریاستِ دیر کے پختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد اس کا نظام صوبائی حکومت کو دے دیا گیا۔

چکدرہ میوزیم میں نوادرات کی کل تعداد 2161 ہے جس میں سے 1444 نوادرات گندھارا تہذیب کے ہیں۔ یہاں رکھے گئے نوادرات اندن ڈھیری، جبہ گئی، بمبولائی، رامورہ، تری بانڈہ، دمکوٹ، باجوڑ، تالاش، دیر، مالاکنڈ، جندول اور تیمرگرہ کی کھدائیوں سے لائے گئے ہیں۔ ان نوادرات میں گوتم بدھا کے مجسمے، پتھروں پر کُھدی انکی پیدائش سے پہلے اور بعد کی کہانیاں، بدھا کی مورتیوں کے سرشامل ہیں۔ ان کے علاوہ ثقافتی گیلری میں علاقائی برتن، لباس، زیور، ہتھیار، آلاتِ موسیقی اور فرنیچر شامل ہیں۔ اگر آپ سوات اور کالام کی سیر کو جائیں تو یہ میوزیم دیکھنا مت بھولیے گا۔

26- بھنبھور میوزیم؛

بھنبھور سندھ، میں واقع ایک قدیم شہر تھا جس کی تاریخ پہلی صدی قبل مسیح تک ہے۔

2004 میں محکمۂ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر حکومتِ پاکستان نے اس مقام کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے پیش کیا۔

نیشنل ہائی وے پر کراچی سے ٹھٹھہ کی طرف جائیں تو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دھابیجی اور گھارو کے درمیان سسی کے شہر بھنبھور اور قاسم و داہر کے دیبل کے آثار ہیں، جس کے ساتھ ایک عجائب گھر بھی واقع ہے۔

بھنبھور آثارِقدیمہ میوزیم سندھ کے جنوبی شہر بھنبھور میں واقع ہے جس کا قدیم نام دیبل تھا۔ یہ میوزیم بھنبھور کی تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے محکمۂ آثارِ قدیمہ حکومتِ پاکستان نے اگست 1960 میں قائم کیا۔ اس کا افتتاح 1967 میں کیا گیا۔

بھنبھور ایک انتہائی قدیم علاقہ ہے جہاں بہت سی پرانی آبادیوں کے آثار دریافت کیے گئے ہیں جو اب یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حِصہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ شہر 2100 سال سے بھی زیادہ قدیم ہے جو دسویں صدی میں وہاں کے راجہ بمبو کے نام پر تھا۔ زیادہ تر کتابوں، محققین اور تاریخ دانوں نے اسے ''دیبل'' کے نام سے یاد کیا ہے جہاں سے محمد بن قاسم کے لشکر نے برصغیر کی دھرتی پہ قدم رکھا تھا اور اسے اسلام کے نور سے منور کیا تھا۔

کھدائیوں سے دریافت کی جانے والی مختلف اشیاء میوزیم کا حصہ ہیں جن میں مٹی کے برتن و نوادرات شامل ہیں۔

27- سوات میوزیم؛

خیبرپختونخواہ کی وادی سوات جتنی حسین و دلکش ہے اتنا ہی زرخیز یہاں کا تاریخی و ثقافتی ورثہ ہے۔ یہ وادی گندھارا تہذیب کا گڑھ رہی ہے جس نے اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ اسی تہذیب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے منگورہ کا سوات میوزیم۔ کہتے ہیں کہ اس عجائب گھر کا مشورہ والی سوات کو ایک اطالوی مشن نے دیا تھا اور اس کا جڑواں میوزیم روم میں کھولا گیا تھا۔ سوات میوزیم کی موجودہ عمارت کو مختلف مراحل میں مکمل کیا گیا ہے۔ ماضی میں 2005 کے زلزلے نے اسے بہت نقصان پہنچایا اور پھر 2007 میں طالبان کے ساتھ جنگ میں اسے بند کر دیا گیا جب کہ اس کے نوادرات کو ٹیکسلا منتقل کر دیا گیا۔ اسی دوران اس کی عمارت کے قریب ایک بم دھماکے نے اسے شدید نقصان پہنچایا۔ 2011 میں اس کے تمام نوادرات کو واپس لا کر اسے دوبارہ سے عوام الناس کے لیے کھول دیا گیا۔

اس خوب صورت میوزیم کو اطالوی معماروں نے ڈیزائن کیا ہے۔ سوات کے عجائب گھر میں گندھارا سلطنت سے تعلق رکھنے والے بُدھا کے مجسمے اور دیگر متبرک اشیاء رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں منفرد قسم کا علاقائی سواتی فرنیچر، ملبوسات اور زیورات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

28- چغتائی آرٹ میوزیم، لاہور؛

لاہور شہر میں کلمہ چوک کے بالکل پاس واقع یہ میوزیم پاکستان کے مشہور پینٹر عبدالرحمان چغتائی (1975-1897) کی خوب صورت کلیکشن پر مبنی ہے۔ ''خان بہادر'' کے لقب سے یاد کیے جانے والے چغتائی صاحب جنوبی ایشیا کے واحد جدید مسلمان مصور تھے جو تجدیدی اور کلاسیکل آرٹ میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ چغتائی صاحب کی مصوری میں ہمیں دو روایات کا ملاپ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ایرانی، ترک اور مغل مصوری ہے، دوسری طرف بنگالی مصوروں کی بنائی ہوئی وہ تصاویر ہیں جو جدید انڈین مصوری کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ان کی آرٹ میں مغلیہ دور کو ایک نئی جدت کے ساتھ پیش کیا گیا، جنہیں 1960 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہلالِ امتیاز اور 1968 میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ علامہ محمد اقبال، پِکاسو اور ملکہ الزبتھ دوئم بھی آپ کے چاہنے والوں میں سے تھے۔

آپ کی وفات کے بعد 1975 میں آپ کے نام سے یہ میوزیم بنایا گیا جہاں آپ کی پینٹنگز، پینسل سکیچ، مغلیہ آرٹ کے نادر شاہ کار اور نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ چوںکہ یہ میوزیم نجی تحویل میں ہے لہٰذا جانے سے پہلے وقت لے لیں تو مناسب ہو گا۔

29- سکھر بیراج میوزیم؛

تقسیم ہند سے ساڑھے تین دہائی قبل برٹش گورنمنٹ نے سرزمین سندھ کو سرسبز و شاداب بنانے اور پانی کے ضیاع کو روک کر دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں تک پہنچانے کے لیے سکھر بیراج کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ اپنے وقت کا ایک عظیم الشان منصوبہ تھا جس پر کثیر سرمایہ اور وقت لگا۔

بیراج کے بننے کے بعد، اہلِ ذوق نے سکھر بیراج کی تاریخ اور تعمیر کو محفوظ رکھنے کے لیے بیراج کے بالکل پاس ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنایا گیا جو ''سکھر بیراج میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں بیراج سے متعلق قیمتی دستاویزات، بیراج کا ماڈل، اس سے نکالی جانے والی نہروں کی تفصیل، پرانی تصاویر اور اخباری تراشے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بیراج کی تعمیر میں استعمال ہونے والی مشینری جیسے کرین، کشتیاں، روڈ رولر وغیرہ بھی رکھی گئی ہیں۔

سب سے قابلِ ذکر چیز نئی بنائی جانے والی فوٹو گیلری ہے جہاں درجہ بدرجہ بیراج کی تعمیر دکھائی گئی ہے۔ تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو یہ میوزیم ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔