دہشت گردوں نے سندھ رینجرز کو اپنا ہدف بنا لیا

 رواں ماہ رینجرز پر دستی بمبوں کے ذریعے 5 حملے کئے گئے، پولیس حکام خاموش

 رواں ماہ رینجرز پر دستی بمبوں کے ذریعے 5 حملے کئے گئے، پولیس حکام خاموش

صوبہ سندھ خصوصاً کراچی میں ایک مرتبہ پھر دہشت گرد سر اٹھانے لگے ہیں اور دہشت گردی کی حالیہ لہر میں سندھ رینجرز کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس نے سخت محنت، جانفشانی اور بیش بہا قربانیوں کی بدولت کراچی کو امن کا گہورا بنایا، جس کا بین ثبوت کرائم انڈیکس میں کراچی کی موجودہ پوزیشن ہے۔ رواں ماہ کراچی میں تین جبکہ اندرون سندھ دو مقامات پر رینجرز پر دستی بم سے حملے کیے گئے جوپولیس، اسپیشل برانچ اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی غفلت کا نتیجہ ہے۔

دہشت گردی کی تازہ لہر کا پہلا واقعہ رواں ماہ 10 تاریخ کی شام پیش آیا جب رینجرز کی ایک موبائل ٹیم کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں نشانہ بنایا گیا۔ کامران چورنگی شیر محمد بلوچ گوٹھ کے قریب رینجرز کے جوان پنکچر کی دکان پر موبائل وین کے ٹائروں کی ہوا چیک کرا رہے تھے کہ اس دوران موٹر سائیکل سوار ملزمان نے ان وین پر دستی بم پھینکا اور فرار ہو گئے، جس کے نتیجے میں رینجرز کا ایک جوان زخمی ہوگیا اور وین کو بھی نقصان پہنچا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذکورہ واقعہ کے فوری بعد شہر بھر میں پولیس، اسپیشل برانچ ، سی ٹی ڈی اور دیگر متعلقہ محکموں کے انٹیلی جنس نیٹ ورک فعال ہوتے اور واردات کے حوالے سے ملزمان کا پیچھا کرتے یا کم از کم شہر بھر میں سکیورٹی الرٹ کرتے، لیکن اربوں روپے بجٹ لینے والے انٹیلی جنس ادارے غفلت کی نیند سوتے رہے اور مذکورہ واقعہ کے محض چند گھنٹے بعد ہی کراچی کے ایک اور علاقے میں بالکل اسی طرح رینجرز کو نشانہ بنایا گیا اور سب منہ دیکھتے رہ گئے۔ نیشنل ہائی وے پر قائد آباد کے قریب ایک پمپ پر قائم رینجرز کی چوکی کے قریب نامعلوم افراد دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے، جس کے نتیجے میں رینجرز اہلکار تو محفوظ رہے لیکن ایک راہگیر زخمی ہوگیا۔

پولیس حکام نے اپنی نااہلی کو چھپانے کی غرض سے پہلے پہل تو ان دونوں واقعات کو رینجرز پر حملے ہی قرار نہیں دیا، واقعہ کو چھپانے کے لیے کئی مرتبہ جھوٹ بولا گیا لیکن سچ چھپتا نہیں کے مصداق بالآخر سامنے آہی گیا، پولیس حکام نے تو دونوں واقعات کو تسلیم نہیں کیا لیکن ان دونوں واقعات کے مقدمات رینجرز اہلکاروں کی مدعیت میں سی ٹی ڈی میں جب درج کیے گئے تو ان میں نہ صرف ایکسپلوزو ایکٹ عائد کیا گیا بلکہ انسداد دہشت گردی کی دفعہ بھی لگائی گئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وقوعہ کے وقت پولیس نے اپنی نااہلی کی وجہ سے ان واقعات کو چھپایا تو پھر اپنے ہی ماتحت محکمے سی ٹی ڈی میں مقدمات کیسے درج کیے، پولیس کی نااہلی کا تو یہ عالم تھا کہ نیشنل ہائی وے کے قریب ہونے والے حملے میں زخمی کو ایکسیڈنٹ کا زخمی جبکہ گلستان جوہر میں واقعے کو بیٹری پھٹنے کا واقعہ قرار دیتے رہے۔


ایک ہی دن میں دو واقعات پیش آنے کے بعد بھی شہر بھر میں موجود انٹیلی جنس اداروں کے کانوں پر کوئی جوں نہ رینگی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے شہر میں کچھ ہوا ہی نہیں اور ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے محض نو روز بعد ہی 19 جون کو صوبے بھر میں رینجرز کو اپنے نشانے پر لیا، صبح پہلے گھوٹکی میں دستی بم سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو رینجرز اہلکار اور ایک شہری شہید ہوا، کچھ ہی دیر بعد کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں سکول کے باہر تعینات رینجرز کی موبائل پر لیاقت آباد فلائی اوور کے اوپر سے دستی بم پھینکا گیا جبکہ اسی واقعہ کے کچھ دیر بعد لاڑکانہ میں بھی دستی بم حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں خوش قسمتی سے کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ، ایک طرز کے حملے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان تمام واقعات میں ایک ہی گروپ ملوث ہوسکتا ہے۔

کراچی کے علاقے لیاقت آباد دس نمبر پر رینجرز کی گاڑی کے قریب نامعلوم ملزمان نے دستی بم حملہ کیا ، ملزمان لیاقت آباد فلائی اوور سے دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے۔ بم حملے کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ آٹھ زخمی ہوگئے، زخمیوں میں ایک رینجرز اہلکار بھی شامل ہے۔

حملے کی اطلاع ملتے ہی پولیس و رینجرز کی بھاری نفری بھی موقع پر پہنچ گئی جبکہ بم ڈسپوزل یونٹ اور سی ٹی ڈی حکام بھی پہنچے اور شواہد اکٹھے کیے ، جائے وقوعہ پر پہنچنے والے سی ٹی ڈی انچارج مظہر مشوانی نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فلائی اوور کے اوپر سے نیچے دستی بم پھینکا ، ممکنہ طور پر اس بم حملے کا نشانہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی تھے۔ گلستان جوہر اور شاہ لطیف ٹاؤن میں رینجرز کی موبائلوں پر ہینڈ گرنیڈ سے حملے کیے گئے ، اس حملے میں بھی ہینڈ گرنیڈ استعمال کیا گیا ہے جس سے شبہ ہے کہ ایک ہی گروپ ملوث ہوسکتا ہے، سی ٹی ڈی واقعے کی مزید تحقیقات کررہی ہے، واقعے کے بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن بھی موقع پر پہنچے اور جائے وقوعہ کا معائنہ کرکے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کیے بغیر ہی روانہ ہوگئے۔

لیاقت آباد والے واقعہ پر پولیس کی جانب سے کوئی باضابطہ موقف پیش نہ کرنا خود ان کی اپنی ہی کمزوریاں ثابت کررہا تھا ، وہ پولیس حکام جو خود پریس کانفرنسیں کرتے پھرتے ہیں ، اس واقعہ پر اپنے ہونٹ سی کر بیٹھ گئے۔ مذکورہ واقعہ کا مقدمہ ایک پولیس افسر کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں مقدمے کے اندراج کے بعد انکشاف ہوا کہ پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا، پولیس موبائل لیاقت آباد فلائی اوور پر تھی کہ اس دوران دو موٹر سائیکلوں پر پانچ افراد موجود تھے جن میں سے ایک نے فلائی اوور کے نیچے کچھ پھینکا اور پولیس کو دیکھتے ہی ملزمان نے فائرنگ کر دی۔

پولیس نے تعاقب کیا لیکن ملزمان پولیس پارٹی پر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی جیسے شہر میں اربوں روپے کا بجٹ وصول کرنے والے پولیس ، اسپیشل برانچ ، سی ٹی ڈی اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کا وجود بے معنی سا ہوتا جارہا ہے ، یہ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی پیشگی رپورٹ ہی پیش نہیں کرسکتے اور اپنے ہی اداروں کے اہلکاروں کا تحفظ نہیں کرسکتے تو عام شہریوں کو کیا تحفظ فراہم کریں گے۔
Load Next Story