بھارت کا امن کی ہر کوشش سبوتاژ کرنے کا منفی رویہ

ایڈیٹوریل  پير 29 جون 2020
 راہداری کھولنے کے لیے بھارت کو یاتریوں کی رجسٹریشن کا عمل پہلے شروع کرنا پڑتا ہے۔

راہداری کھولنے کے لیے بھارت کو یاتریوں کی رجسٹریشن کا عمل پہلے شروع کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان نے بھارت کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی181ویں برسی پر آج 29 جون سے کرتار پور راہداری کھولنے کی پیشکش کی ہے لیکن بھارت نے حسب روایت تعصب اور غیردوستانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحت، تکنیکی مسائل اوربرسات میں یاتریوں کے لیے ناکافی سہولیات کا بہانہ تراش کریہ پیشکش رد کردی ہے۔

کرتارپور راہداری کوکورونا کی وبا کے پیش نظر 12 مارچ کو بھارتی حکومت اور 16 مارچ کو پاکستانی حکومت نے بند کردیا تھا۔ہفتہ کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں نئی صورتحال کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جیسے دنیا بھرمیں کورونا کی وجہ سے بند کی گئی عبادت گاہیں کھل رہی ہیں، پاکستان بھی کرتار پور راہدری کھولنے کو تیار ہے، ہم بھارت کو29 جون کو کرتار پور راہداری کھولنے سے متعلق اپنی آمادگی سے آگاہ کر رہے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کے مطابق پاکستان نے بھارت کو راہداری کے دوبارہ کھولنے کے لیے ایس او پیز کو حتمی شکل دینے کی دعوت دی ہے، تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ راہداری کھولنے کا فیصلہ محکمہ صحت کے حکام اور متعلقہ اداروں کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ بھارت نے الزام لگانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس پیشکش میں سنجیدہ نہیں، دو دن کے نوٹس پر راہداری کھولنا ممکن نہیں، معاہدے کے تحت بھارت یاتریوں کی تفصیلات سفر سے سات روز قبل پاکستان کو دینے کا پابند ہے۔ راہداری کھولنے کے لیے بھارت کو یاتریوں کی رجسٹریشن کا عمل پہلے شروع کرنا پڑتا ہے۔

کرتارپور راہداری کھولنے کے لیے بھارت کی جانب سے مختلف حیلوں بہانوں سے رکاوٹیں کھڑی کرنا اچنبھے کی بات نہیں، اس نے پاکستان کے مثبت اقدامات کا کبھی دوستانہ انداز میں جواب نہیں دیا۔ بھارتی اقدامات اور نام نہاد وضاحتیں اس امرکی غمازی کرتی ہیں کہ وہ کرتار پور راہداری کھولنے کے لیے سنجیدہ نہیں بلکہ اس کی کوشش ہے کہ اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کرکے اس کو روکا جائے۔راہداری کھلنے سے پوری دنیا پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ یہ بھارت ہی ہے جو اپنے منفی اور جارحانہ رویے سے خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے جب کہ پاکستان ہر وہ اقدام کر رہا ہے جس سے دونوں ممالک میں دوستانہ تعلقات قائم اور خطے میں پھر سے امن کی شمع روشن ہو سکے۔کرتار پور راہداری کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس9 نومبر کوبابا گرو نانک کی550ویں سالگرہ تقریبات کے موقعے پر کیا تھا۔

اس موقعے پر تقریب کے مہمانوں سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے پرجوش انداز میں سکھوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا تھا کہ اہل پاکستان کے دل دیگر مذاہب کے لیے کھلے ہیں پاکستان نے کرتارپور راہداری کھول کر امن کے راستے بھی کھول دیئے ہیں‘ وزیراعظم نے بالکل صائب کہا کہ کرتار پور راہداری کے افتتاح کا دن خطے کے امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس راہداری کی تکمیل ایک کمٹمنٹ تھی اور جسے متعدد مشکلات کے باوجود مکمل کیا گیا یہ سکھ برادری سے کیا گیا وعدہ تھا جس کی تکمیل کی گئی۔

اس تقریب میں بھارت کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ‘ بھارتی پنجاب کے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو‘ فلمسٹار سنی دیول سمیت بڑی تعداد میں سکھ یاتریوں نے شرکت کی تھی۔ کرتارپور راہداری کی تعمیر و تکمیل کے اس شاندار کارنامے پر دنیا بھر میں سکھ یاتریوں کی جانب سے بے پناہ مسرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ پاکستان نے ہمیشہ رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے تمام سہولتیں اور آسانیاں بہم پہنچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کا کہنا ہے کہ کرتار پور راہداری کھول کر سکھ یاتریوں اور عالمی برادری کی دیرینہ خواہش پوری کی گئی،کرتار پور راہداری صحیح معنوں میں امن اور مذہبی ہم آہنگی کی علامت ہے،بھارت سمیت دنیا بھر میں سکھ برادری کی جانب سے حکومت پاکستان کے اس اقدام کو بھرپور طور پر سراہا گیا۔

پاکستان نے جہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو ہر قسم کی مذہبی آزادیاں دی ہیں وہیں اس نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہموار کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا ہے‘ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تنازعات حل کرنے کے لیے متعدد بار اسے مذاکرات کی دعوت دی لیکن اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر ان کوششوں کو سبوتاژ کیا۔ بھارت کی جانب سے ایل او سی کی خلاف ورزی معمول بن چکی ہے، پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود بھارتی افواج سرحدی خلاف ورزیوں سے باز نہیں آ رہی۔ بھارت پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا‘ گزشتہ دنوں بھی سفارتی آداب کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن کو بھارتی سیکیورٹی فورسز اور ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بلاجواز گھیرے میں لے کر سفارتکاروں کو دھمکانا شروع کر دیا۔

بھارتی حکومت نے اپنی غنڈہ گردی کا مظاہرہ یہیں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس نے پاکستانی ہائی کمیشن کے آدھے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم بھی جاری کردیا۔ جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی ہائی کمیشن کو 50فیصد عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بالکل صائب کہا کہ چین کے ہاتھوں شرمندگی کے باعث بھارت منہ چھپاتا پھر رہا ہے‘ پاکستانی سفارتی عملے پر بھارتی الزامات بے بنیاد ہیں، وہ فالس فلیگ آپریشن کے لیے بہانے تراش رہا ہے‘ بھارتی الزامات پر خاموش نہیں بیٹھیں گے ہم بھی اس کا بھرپور جواب دیں گے۔

پاکستان عالمی برادری کو بھارت کے غیرذمے دارانہ اقدامات سے خطے کے امن و سلامتی کے لیے بڑھتے ہوئے لاحق خطرات سے مسلسل آگاہ کررہا ہے بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اقوام متحدہ کے چارٹر اور اصولوں کے منافی ہیں لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ عالمی برادری بھارتی جارحیت کا قطعی کوئی نوٹس نہیں لے رہی بلکہ امریکا سمیت دیگر یورپی ممالک بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں اور مختلف عالمی فورم پر بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں جس کی واضح مثال گزشتہ دنوں بھارت کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب ہونا ہے‘ جو ملک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری نہیں کر رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے ملک میں بھی مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کا سلامتی کونسل میں غیرمستقل رکن کی حیثیت حاصل کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں موجود ہندوؤں اور سکھوں کے مقدس مقامات کی نہ صرف مکمل دیکھ بھال ہوتی ہے بلکہ ان مقامات کی یاترا کرنے کے لیے آنے والوں کو بھی حتی المقدور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ 23 جون کو اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں ہندو برادری کے مندرکے لیے چارکینال جگہ مختص کرکے تعمیرکا آغاز کردیا گیا ہے۔

اس مندرکا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے مہمان خصوصی تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال ملہی تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ پاکستان کے مثبت کردارکی علامت ہے کہ انڈیا میں مساجد ویران کی جا رہی ہیں اور یہاں پاکستان میں مندرآبادکیے جا رہے ہیں، اس مندرکی تعمیر میں 10 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی اور وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ فنڈز جلد جاری کیے جائیں گے۔‘‘

یہ ہے پاکستان کا وہ روشن چہرہ، جس پر پاکستان میں جرمن سفیر برن ہارڈ شلیگ ہیک نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’’یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسلام آباد میں پہلا ہندو مندر بن رہا ہے اورحکومت اس کے تمام اخراجات برداشت کررہی ہے۔‘‘ پاکستان میں اقلیتیں مکمل آزاد ہیں یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ہمارے پیارے ملک کا مثبت اور بہتر سمت کی طرف چھوٹا سا قدم ہے۔

ایک نظر تاریخ پر ڈالیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یورپی ممالک کی تاریخ ایک دوسرے کے خلاف جنگوں سے بھری پڑی ہے لیکن آج وہ یورپی یونین کی چھتری تلے متحد ہیں، شمالی اور جنوبی کوریا دونوں کے درمیان عوام کی بہتری کی خاطر دشمنی ترک کرنے پر اتفاق ہوچکا ہے۔کئی جنگیں لڑنے والے فرانس، جرمنی مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ دو ملک جن کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں ایسے میں جنگ کے بارے میں سوچنا درست عمل نہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ دونوں ملکوں کی سماجی ومعاشی ابتری کی بڑی وجہ باہمی تعلقات کی ناخوشگواری ہی ہے، دونوں ملکوں میں کروڑوں افراد خط افلاس کے نیچے زندگی گھسیٹ رہے ہیں تو ضروری ہے کہ دو طرفہ تعاون سے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔

درحقیقت اس وقت بھارتی سرکارکی پالیسیاں انتہا پسند جماعت اور متعصب ترین وزیراعظم نریندرمودی کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہیں۔ بھارت کے تعلقات اپنے پڑوسی ممالک چین، نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ساتھ انتہائی کشیدہ ہیں جب کہ بھارت میں اقلیتیں بھی انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔ کوئی پوچھے بھارت سے آپ کی کسی سے بنتی کیوں نہیں ہے، آخر دماغ اور مزاج میں کہاں خلل ہے جو بھارت نے خطے کا امن تہ وبالا کردیا ہے۔ اس حقیقت کو کون جھٹلاسکتا ہے کہ تنازعات ہمیشہ گفت وشنید سے ہی حل ہوا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس طرز عمل معاملات کو مزید پیچیدہ اورگنجلک بنانے کا باعث بنا کرتا ہے، بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا، ورنہ وہ خود اپنی بربادی اور تباہی کا ذمے دار ہوگا، کیونکہ پاکستان مذاکرات سے انکاری نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔