ویکسین
یہ احتیاطیں اتنی معمولی اور سہل ہیں کہ کوئی بھی شخص چلتے پھرتے ان پر عمل کرسکتا ہے
انسان تھوڑی سی تکلیف اٹھائے تو وہ بہت بڑے خطرات سے بچ سکتا ہے لیکن وہ تھوڑی سی تکلیف اس لیے نہیں اٹھاتا کہ اسے ان سنگین خطرات کا احساس نہیں رہتا جو بعد میں اس کے گلے کا ہار بن جاتے ہیں۔ حکومت نے دنیا کی تاریخ کی خطرناک وبا سے بچنے یا اپنے آپ کو اس وبا سے بچانے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مسودہ دیا ہے، جس کا نام اس نے ایس او پی رکھا ہے۔
یہ احتیاطیں اتنی معمولی اور سہل ہیں کہ کوئی بھی شخص چلتے پھرتے ان پر عمل کرسکتا ہے۔ مثلاً بار بار صابن سے ہاتھ دھونا، ایک دوسرے کے درمیان تین اور چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا وغیرہ۔ یہ ایسی احتیاطیں ہیں جن پر آسانی سے عملدرآمد ہو سکتا ہے، لیکن انسان کی کاہلی کا عالم یہ ہے کہ وہ ان آسان ترین ہدایات پر عمل کرکے اپنے آپ کو بڑے خطرات سے نہیں بچاتا۔
ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا جس عذاب میں گھری ہوئی ہے اس سے نکلنے کی بے انتہا کوششیں کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اسے ہم انسان کی بدنصیبی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی پوری کوششوں کے باوجود ابھی تک وہ ویکسین تیار نہ کرسکا جو کورونا کا کامیاب علاج کہلاتی ہے۔ اس ناکامی کا نتیجہ یہ ہے کہ اب تک دس لاکھ سے زیادہ انسان اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں اور لاکھوں انسان اس وحشت ناک بیماری میں مبتلا ہوکر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں کورونا نے ڈیرے ڈال دیے ہیں، لاکھوں انسان موت کا شکار ہو گئے ہیں اور لاکھوں متاثرین میں ہیں۔ ہر ملک کے ڈاکٹر اپنی ساری صلاحیتیں لگا رہے ہیں لیکن یہ صلاحیتیں اب تک بے نتیجہ ہی رہیں۔ انسان بلاشبہ دنیا کی بہترین اور باصلاحیت مخلوق ہے ان کی کامیابیوں کو دیکھ کر یہ یقین ہی نہیں آسکتا کہ وہ کورونا جیسی وبا کی ویکسین نہیں تیار کر سکے گا، لیکن بعض اوقات انسان بہت مشکل بلکہ ناممکن کام کر لیتا ہے لیکن آسان کام نہیں کر پاتا۔ آج کل صورت حال یہی ہے مریخ پر کمندیں ڈالنے والا اور چاند کو فتح کرنے والا انسان ایک وبا کی ویکسین تیار کرنے میں ناکام ہے۔
ایسی بات نہیں کہ انسان کورونا کی ویکسین تیار نہ کرسکے، اصل میں اس حوالے سے اب تک انسان درست اپروچ نہ کرسکا یہی اس کی ناکامی کی وجہ ہے لیکن جلد یا بدیر انسان اس وبا کی ویکسین تیار کرکے دنیا میں اپنا لوہا منوا لے گا یہ زیادہ دیر کی بات نہیں دنیا کو جلد اس کی خوشخبری ملے گی۔ اور دنیا بھر میں تاریخ کے سب سے بڑے جشن کا اہتمام ہوگا اور ویکسین کے فاتح دنیا میں سر بلند ہوں گے یہ ہوگا یہ کوئی پیش گوئی نہیں دنیا کی تاریخ کا ایک روشن باب ہوگا اور دنیا یوم نجات منائے گی۔
میں نے یہ کالم رات کے دو بجے لکھنا شروع کیا تھا اب سوا چار بج رہے ہیں میں عموماً ایک کالم آسانی کے ساتھ دو گھنٹے میں لکھ لیتا ہوں لیکن آج ہوا یہ ہے کہ میں نیند سے اٹھا ہوں اور وہ بھی کچی نیند سے اٹھا ہوں سر میں درد شدید ہے ہماری گھر والی بھی گہری نیند میں ہے اس لیے میں انھیں جگانا مناسب نہیں سمجھتا ورنہ ایک پیالی گرم گرم چائے مجھے فریش کر دیتی ہے۔ لیکن اپنے آرام کی خاطر کسی کو گہری نیند سے اٹھانا ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔ ہماری عادت ہے کہ اگر ایک بار نیند سے اٹھ جائیں تو دوبارہ نیند نہیں آتی۔ آج سر میں بلا کا درد ہے لیکن تھوڑا تھوڑا رک کر پھر لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کوشش یوں کہ نیند کوسوں دور ہے۔
مگر موضوع ایسا ہے کہ دل سونے کی کوشش بھی نہیں کر رہا ہے۔ اللہ جانے کتنے ہزار لوگ کورونا کی ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا تڑپ رہے ہوں گے میری پرخلوص دعا یا خواہش ہے کہ کوئی ایسا ماہر آجائے جو اس شیطانی وبا کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ تکالیف تو انسان بڑی بڑی سہ لیتا ہے لیکن یہ تکلیف الٰہی توبہ جس کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔ رات کے پونے پانچ بجے ہیں سر میں درد کا بہت برا حال ہے میں نے برداشت نہ کرنے کی وجہ سے گھر والی کو بادل نخواستہ اٹھا دیا کہ اب چائے کے بغیر گزر نہیں بعض اوقات انسان اپنے آرام کے لیے دوسروں کو تکلیف دیتا ہے۔
خدا نہ کرے کوئی ایسی تکلیف دہ بیماری کا شکار ہوجائے اس تکلیف کے حوالے سے جو کچھ بتایا گیا اس قدر ہولناک ہے کہ خیال کرکے ہی وحشت ہوتی ہے لیکن امید زندہ ہے کہ آخر کار اس وبا کی ویکسین تیار ہو جائے گی اور دنیا اس عذاب سے نجات پالے گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی بلکہ ناقابل تصور تکلیف والی وبا ہے لیکن فطرت نے انسان میں بڑی سے بڑی تکلیف سہنے کی شکتی دی ہے اور انسان خوشی سے نہیں انتہائی دکھ اور مجبوری سے بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کرلیتا ہے۔ کیونکہ قدرت نے انسان کو بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت دی ہے۔
جانے دنیا میں کتنے لاکھ انسان اس وبا کی ناقابل تصور تکلیف سے گزر رہے ہوں گے میری اس وبا کے ماہرین سے التجا ہے کہ وہ اگر اس مرض کے مریض کو موت سے نہ بچا سکتے ہوں تو خدارا ان مریضوں کو تکلیف کے آزار ہی سے بچا لیں کہ جس کے تصور ہی سے جھرجھری آجاتی ہے۔ انسان عظیم ہے خدایا۔ اس عظیم انسان کو اتنی صلاحیت دے کہ وہ اس جہنم زار وبا کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے مجھے یقین ہے کہ اس وقت بھی نہ جانے کتنے ہزار ڈاکٹر اس مرض کی ویکسین کی تیاری میں مصروف ہوں گے، کاش ان ہزاروں ماہر ڈاکٹروں سے صرف ایک ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے، کیا یہ ممکن ہے۔
یہ احتیاطیں اتنی معمولی اور سہل ہیں کہ کوئی بھی شخص چلتے پھرتے ان پر عمل کرسکتا ہے۔ مثلاً بار بار صابن سے ہاتھ دھونا، ایک دوسرے کے درمیان تین اور چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا وغیرہ۔ یہ ایسی احتیاطیں ہیں جن پر آسانی سے عملدرآمد ہو سکتا ہے، لیکن انسان کی کاہلی کا عالم یہ ہے کہ وہ ان آسان ترین ہدایات پر عمل کرکے اپنے آپ کو بڑے خطرات سے نہیں بچاتا۔
ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا جس عذاب میں گھری ہوئی ہے اس سے نکلنے کی بے انتہا کوششیں کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اسے ہم انسان کی بدنصیبی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی پوری کوششوں کے باوجود ابھی تک وہ ویکسین تیار نہ کرسکا جو کورونا کا کامیاب علاج کہلاتی ہے۔ اس ناکامی کا نتیجہ یہ ہے کہ اب تک دس لاکھ سے زیادہ انسان اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں اور لاکھوں انسان اس وحشت ناک بیماری میں مبتلا ہوکر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں کورونا نے ڈیرے ڈال دیے ہیں، لاکھوں انسان موت کا شکار ہو گئے ہیں اور لاکھوں متاثرین میں ہیں۔ ہر ملک کے ڈاکٹر اپنی ساری صلاحیتیں لگا رہے ہیں لیکن یہ صلاحیتیں اب تک بے نتیجہ ہی رہیں۔ انسان بلاشبہ دنیا کی بہترین اور باصلاحیت مخلوق ہے ان کی کامیابیوں کو دیکھ کر یہ یقین ہی نہیں آسکتا کہ وہ کورونا جیسی وبا کی ویکسین نہیں تیار کر سکے گا، لیکن بعض اوقات انسان بہت مشکل بلکہ ناممکن کام کر لیتا ہے لیکن آسان کام نہیں کر پاتا۔ آج کل صورت حال یہی ہے مریخ پر کمندیں ڈالنے والا اور چاند کو فتح کرنے والا انسان ایک وبا کی ویکسین تیار کرنے میں ناکام ہے۔
ایسی بات نہیں کہ انسان کورونا کی ویکسین تیار نہ کرسکے، اصل میں اس حوالے سے اب تک انسان درست اپروچ نہ کرسکا یہی اس کی ناکامی کی وجہ ہے لیکن جلد یا بدیر انسان اس وبا کی ویکسین تیار کرکے دنیا میں اپنا لوہا منوا لے گا یہ زیادہ دیر کی بات نہیں دنیا کو جلد اس کی خوشخبری ملے گی۔ اور دنیا بھر میں تاریخ کے سب سے بڑے جشن کا اہتمام ہوگا اور ویکسین کے فاتح دنیا میں سر بلند ہوں گے یہ ہوگا یہ کوئی پیش گوئی نہیں دنیا کی تاریخ کا ایک روشن باب ہوگا اور دنیا یوم نجات منائے گی۔
میں نے یہ کالم رات کے دو بجے لکھنا شروع کیا تھا اب سوا چار بج رہے ہیں میں عموماً ایک کالم آسانی کے ساتھ دو گھنٹے میں لکھ لیتا ہوں لیکن آج ہوا یہ ہے کہ میں نیند سے اٹھا ہوں اور وہ بھی کچی نیند سے اٹھا ہوں سر میں درد شدید ہے ہماری گھر والی بھی گہری نیند میں ہے اس لیے میں انھیں جگانا مناسب نہیں سمجھتا ورنہ ایک پیالی گرم گرم چائے مجھے فریش کر دیتی ہے۔ لیکن اپنے آرام کی خاطر کسی کو گہری نیند سے اٹھانا ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔ ہماری عادت ہے کہ اگر ایک بار نیند سے اٹھ جائیں تو دوبارہ نیند نہیں آتی۔ آج سر میں بلا کا درد ہے لیکن تھوڑا تھوڑا رک کر پھر لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کوشش یوں کہ نیند کوسوں دور ہے۔
مگر موضوع ایسا ہے کہ دل سونے کی کوشش بھی نہیں کر رہا ہے۔ اللہ جانے کتنے ہزار لوگ کورونا کی ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا تڑپ رہے ہوں گے میری پرخلوص دعا یا خواہش ہے کہ کوئی ایسا ماہر آجائے جو اس شیطانی وبا کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ تکالیف تو انسان بڑی بڑی سہ لیتا ہے لیکن یہ تکلیف الٰہی توبہ جس کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔ رات کے پونے پانچ بجے ہیں سر میں درد کا بہت برا حال ہے میں نے برداشت نہ کرنے کی وجہ سے گھر والی کو بادل نخواستہ اٹھا دیا کہ اب چائے کے بغیر گزر نہیں بعض اوقات انسان اپنے آرام کے لیے دوسروں کو تکلیف دیتا ہے۔
خدا نہ کرے کوئی ایسی تکلیف دہ بیماری کا شکار ہوجائے اس تکلیف کے حوالے سے جو کچھ بتایا گیا اس قدر ہولناک ہے کہ خیال کرکے ہی وحشت ہوتی ہے لیکن امید زندہ ہے کہ آخر کار اس وبا کی ویکسین تیار ہو جائے گی اور دنیا اس عذاب سے نجات پالے گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی بلکہ ناقابل تصور تکلیف والی وبا ہے لیکن فطرت نے انسان میں بڑی سے بڑی تکلیف سہنے کی شکتی دی ہے اور انسان خوشی سے نہیں انتہائی دکھ اور مجبوری سے بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کرلیتا ہے۔ کیونکہ قدرت نے انسان کو بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت دی ہے۔
جانے دنیا میں کتنے لاکھ انسان اس وبا کی ناقابل تصور تکلیف سے گزر رہے ہوں گے میری اس وبا کے ماہرین سے التجا ہے کہ وہ اگر اس مرض کے مریض کو موت سے نہ بچا سکتے ہوں تو خدارا ان مریضوں کو تکلیف کے آزار ہی سے بچا لیں کہ جس کے تصور ہی سے جھرجھری آجاتی ہے۔ انسان عظیم ہے خدایا۔ اس عظیم انسان کو اتنی صلاحیت دے کہ وہ اس جہنم زار وبا کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے مجھے یقین ہے کہ اس وقت بھی نہ جانے کتنے ہزار ڈاکٹر اس مرض کی ویکسین کی تیاری میں مصروف ہوں گے، کاش ان ہزاروں ماہر ڈاکٹروں سے صرف ایک ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے، کیا یہ ممکن ہے۔