کشمیریوں پر ظلم کے باوجود بھارت کا انتخاب اقوام متحدہ کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان !!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 29 جون 2020
پاکستان اور بھارت دونوں7، 7 مرتبہ رکن منتخب ہوچکے ہیں، بھارت کی مستقل رکنیت روکنے کیلئے سفارتی محاذ پر جارحانہ رویہ اپنانا ہوگا:ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔  فوٹو : فائل

پاکستان اور بھارت دونوں7، 7 مرتبہ رکن منتخب ہوچکے ہیں، بھارت کی مستقل رکنیت روکنے کیلئے سفارتی محاذ پر جارحانہ رویہ اپنانا ہوگا:ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

 بھارت اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کر رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی غیر انسانی سلوک کی بدترین داستانیں رقم کی جا رہی ہیں مگر ان تمام مظالم اور سفاکیت کے باوجودبھارت کو حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی رکن منتخب کیا گیا جو اقوام متحدہ و عالمی طاقتوں کی انسانیت دوستی اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔

بھارت کی اس رکنیت سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)

بھارت کا سلامتی کونسل کا عارضی رکن بننا کوئی بڑی ڈویلپمنٹ نہیں تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت میں غیر انسانی سلوک، کشمیر میں بدتیرین مظالم و دیگر مسائل کے باوجود بھارت کو اقوام متحدہ کے 192 ممالک میں سے 184 ممالک نے ووٹ دیا۔ بھارتی مظالم پر عالمی رپورٹس کے باوجود عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

سوال یہ ہے کہ ہماری سفارتکاری کا ان ممالک پر کیا اثر ہوا؟ دنیا تو آج بھی مسئلہ کشمیر کو بھارت کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔اگر یہ ٹرن آؤٹ کم ہوتا تو تشویش نہ ہوتی مگر 95فیصد سے زائد ووٹ لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہماری کسی کوشش کا دنیا پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ممبر میں سے 4 بھارت کے ساتھ ہیں جبکہ چین نے بھی کچھ عرصہ قبل بھارت کی حمایت کا اشارہ دیا تھا۔ ہمارے پاس تو صرف چین ہے لہٰذا کسی بھی حال ہیں ہمیں چین کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ چین ہمارا حساس پوائنٹ اور ہمارے مفادات کا محافظ ہے۔ جب ہم امریکا کی طرف جاتے ہیں تو چین کو تشویش ہوتی ہے، ہمیں امریکا کے ساتھ تعلقات میں چین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

ہم 7 مرتبہ سلامتی کونسل کا عارضی رکن بنے مگر مسئلہ کشمیر کو چیپٹر 6 سے 7 پر نہیں لاسکے۔چیپٹر 6 کے تحت تو سفارشات ہی دی جاتی ہیں جبکہ چیپٹر 7 کے تحت جب کسی مسئلے پر قرارداد منظور ہوتی ہے تو اقوام متحدہ کیلئے لازم ہوجاتا ہے کہ اسے حل کروائے۔ ہمیں تو ہر سال مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈہ پر لانا پڑتا ہے۔ ب

ھارت بھی 7 مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل کا عارضی ممبر رہا اور اب 8 ویں مرتبہ بنا ہے لہٰذا وہ پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا تاہم مستقل رکن بننے کیلئے لابنگ تیز کرے گالہٰذا ہمیں اس کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔ 20 برس قبل پاکستان نے ’’یو ایف سی‘‘ بنا کر،56 ممالک کو ملا کر سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے حوالے سے ریفارمز نہیں ہونے دیے۔ یہ ہماری سفارتکاری کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اب بھی ہمیں اس گروپ کو متحرک کرکے، اس میں مزید ممالک کو شامل کرکے معاملات کو اپنے حق میں بہتر کرنا ہوگا۔

اقوام متحدہ کا سب سے بڑا مسئلہ ’ ویٹو پاور‘ ہے، جنرل اسمبلی میں تو فیصلے جمہوری طریقے سے ہوتے ہیں مگر سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ہے، اس کو جمہوری بنانا ہوگا۔ بڑی طاقتیں اقوام متحدہ کو فنڈنگ دیتی ہیں اور فائدہ بھی اٹھاتی ہیں، ممبر ممالک کو فنڈنگ کا طریقہ کار بھی بنانا ہوگا۔

بریگیڈئیر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)

مختلف ممالک کے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے دنیا میں نئے الائنس بنے اور پھر جنگ عظم اول ہوگئی۔ جنگ ختم ہوئی تو لیگ آف نیشنز بن گئی جس کا بنیادی مقصد ایسا فورم بناناتھا جہاں مختلف طاقتیں بیٹھ کر اپنے مسائل زیر بحث لائیں اور بات چیت سے انہیں حل کیا جائے۔ بدقسمتی سے لیگ آف نیشنز مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، شورش زیادہ ہوگئی اور پھر جنگ عظیم دوئم ہوگئی۔

اس جنگ کے خاتمے کے بعداقوام متحدہ بنا دی گئی۔ اقوام متحدہ کا مقصد جنگ بندی کو ختم کرنے کیلئے ڈائیلاگ کو فروغ دینا تھا مگر وہ جنگ و جدل کو فروغ دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اسے فنڈ دیتی ہیں اور بدمعاشی کرتی ہیں۔ ان میں سب سے آگے امریکا ہے جس کی خارجہ و دفاعی پالیسی کی بنیاد جبرو زبردستی ہے۔

اس کیلئے وہ جنگ کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی افادیت ختم ہوچکی، وہ اشرافیہ کا کلب ہے جہاں فیصلے میرٹ اور اصول پر نہیں ہوتے۔ اگر اقوام متحدہ میں میرٹ اور اصول پر فیصلے ہوتے تو آج فلسطین ، کشمیر و دیگر مسائل حل ہوچکے ہوتے۔ اقوام متحدہ میں مختلف باڈیز ہیں جن میں ایک سلامتی کونسل ہے اور حال ہی میں بھارت اس کا عارضی ممبر بنا ہے جس کی مدت دو سال ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں 7، 7 مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے عارضی ممبر رہ چکے ہیں لہٰذا بھارت کا اب رکن بننا کوئی بڑی بات نہیں تاہم بھارت کی خواہش ہے کہ وہ مستقل رکن بنے لہٰذا پاکستان کو سفارتی محاذ پر جارحانہ پالیسی اپنانے اور بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت P5 گروپ کے ممبرز امریکا، چین،برطانیہ، فرانس اور روس ، اقوام متحدہ کے مستقل رکن ہیں۔

بھارت P4 گروپ کا ممبر بھی ہے جس میں جرمنی و برازیل بھی شامل ہیں، یہ گروپ اقوام متحدہ کی ری سٹرکچرنگ کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو 194 ممالک میں سے 183 ممالک نے عارضی ممبر بننے کیلئے ووٹ دیا لہٰذا اب ہمیں اسے مستقل ممبر بننے سے روکنا ہے اور اس کیلئے سفارتی محاذ پر بہتر پرفارم کرنا ہوگا۔امریکا اور دنیا کے بڑے ممالک بھارت کو کشمیر کے تناظر میں نہیں بلکہ معیشت ، دفاع ودیگر حوالے سے دیکھ رہے ہیں ۔ بڑے ممالک کی معیشت دفاعی پروڈکشن پر چلتی ہے اور بھارت اربوں ڈالر ڈیفنس پر خرچ کر رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سے تقریر میں اسلامو فوبیا اور مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا۔ اسی طرح کشمیر میں بھارتی بربریت کے حوالے سے امریکی ادارے کی رپورٹ بھی آئی مگردنیا نے سب کچھ پس پشت ڈال دیا اور بھارت کو ووٹ دے دیا۔ ہمیں مسئلہ کشمیر، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، خطے میں بدمعاشی و دیگر خرابیوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور دنیا کو باور کروانا ہوگا کہ بدترین مظالم ڈھانے والا ملک سکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر نہیں بن سکتا۔

سلمان عابد
(تجزیہ نگار)

بھارت کے پاکستان، چین، نیپال و دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے، اس لیے بھارت کی پوزیشن خطے کی سیاست کیلئے درست نہیں ہے۔جب کوئی ملک کسی بڑی طاقت کا حصہ بنتا ہے تو وہ یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری پر تعلقات قائم کرے گا مگر بھارت کے عزائم اس کے برعکس ہیں۔ بھارت سلامتی کونسل کا پہلے بھی 7 مرتبہ غیر مستقل رکن رہا ہے۔ اب بھی وہ اپنی باری پر رکن منتخب ہوا ہے لہٰذا یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے تاہم اصل بات یہ ہے کہ وہ مستقل رکن بننا چاہتا ہے جس کیلئے وہ اب لابنگ مزید تیز کرے گا۔ بھارت کو مستقل رکن بننے کے لیے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک تو اسے ممالک کی حمایت چاہیے۔ دوسرا یہ کہ خطے میں بھی اسے مسائل کا سامنا ہے جو اس کی اپنی وجہ سے ہی ہیں۔

’’او آئی سی‘‘ نے حال ہی میں بھارت کے ڈومیسائل کے حوالے سے معاملات تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس سے پہلے ہیومین رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، امریکا و دیگر انسانی حقوق کے ادارے بھارت میں انسانیت سوز سلوک اور کشمیر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ امریکا کی ہی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی کہ بھارت اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ ملک ہے۔ بھارت کے اپنے اندر سے بھی شہریت بل کے خلاف آوازیں اٹھی ہیں۔ ان حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کی تمام تر سیاست امن کیلئے نہیں بلکہ خطے میں چودھراہٹ کیلئے ہے۔

وہ نیپال، بھوٹان جیسے ممالک کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس کی بالادستی قبول کرلیں ورنہ سکون نہیں لینے دے گا۔ بدقسمتی سے وہ عالمی فورمز جو جھگڑے ختم کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں موثر نہیں رہے۔ اقوام متحدہ ’’ڈبیٹنگ کلب‘‘ بن گیا ہے اور وہاں ممالک کے مسائل حل نہیں ہورہے بلکہ بڑی طاقتوں کے مفادات کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس پردنیا کے صرف بیانات آرہے ہیں جبکہ کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے بعد بھارت کا سفاک چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا۔ ان کی اس تقریر سے ہمیں فائدہ یہ ہوا کہ تھنک ٹینکس، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں،سماجی رہنماؤں کی سپورٹ تو حاصل ہوئی لیکن حکمران طبقے کی سپورٹ نہیں مل سکی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کردار ادا کریں گے مگر انہوں نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا گیا۔ اب تو وہ بھارت کو بالکل بھی ناراض نہیں کریں گے کیونکہ امریکی انتخابات آرہے ہیں اور انہیں امریکا میں موجود بھارتیوں کی سپورٹ چاہیے۔

عالمی اداروں کے حوالے سے سوچنا یہ ہے کہ انہیں کس طرح موثر بنایا جائے اور شفاف نظام کیسے قائم کیا جائے۔ علاقائی سیاست میں نریندر مودی نے ہندووآتہ کا جو بیج بویا ہے یہ پورے خطے کیلئے خطرناک ہے۔ اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے، خطے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ سب اقلیتوں کو دبانے اور خطے میں اپنی بدمعاشی قائم کرنے کیلئے کرنا چاہتا ہے؟بھارت کے برعکس پاکستان شروع سے ہی امن چاہتا ہے۔

موجودہ حکومت ہو یا ماضی کا دور، سب نے بھارت کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کیلئے جتنے بھی اقدامات کیے، بھارت کی جانب سے ان پر مثبت ردعمل نہیں آیا اور نہ ہی دنیا نے بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا۔ بھارت کے سلامتی کونسل کا عارضی رکن بننے سے پاکستان کیلئے سفارتی محاذ پر چیلنج بڑھ گیا ہے۔ اب ہمیں تین سطح پر کام کرنا ہے۔ پہلا یہ کہ ہمیں اپنے لوگوں کو قائل کرنا ہوگا کہ پاکستان کی خارجہ وعلاقائی پالیسی درست ہے ۔ دوسرا یہ کہ ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ بھارتی جارحیت اور کشمیر میں آگ سے خطے اور دنیا کو بڑا خطرہ ہے، ہمیں بھارت کو بے نقاب کرنا ہوگا۔

تیسرا یہ کہ ہمیں بھارت کو بے نقاب کرنے، بھارتی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کیلئے عالمی فورمز اور میڈیا کو استعمال کرنا ہوگا، اس حوالے سے جامع حکمت عملی بناکر موثر کام کیا جائے۔ ہمیں P5 اور P4 ممالک کے بڑے ممالک کے ساتھ جارحانہ سفارت کاری کرنا ہوگا ۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر سے بھارت کو جو نقصان ہوا اور دنیا میں ہمارے موقف کی جس طرح پذیرائی ہوئی، ہمیں اس کو تسلسل سے آگے بڑھانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا اور اس کے بعد سب اندرونی سیاست میں مصروف ہوگئے۔ ہمیں اندرونی خلفشار کا خاتمہ اور خارجہ و معاشی پالیسی کی خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔