پاکستانی سیاست اور سوشل میڈیا
سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے حامیوں کا طرزِ عمل دیکھ کر ان کی سیاسی تربیت و شعور پر شرم آتی ہے
اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو مختلف نسلوں، قومیتوں اور خطوں میں پیدا کیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے مختلف خیالات اور نظریات رکھنے کی صلاحیت بھی دی اور یہ صلاحیت ہی زندگی گزارنے اور بہت ساری دلچسپیوں کا باعث ہے، ورنہ اختلاف کی عدم موجودگی سے انسان اکتاہٹ اور جمود کا شکار ہوجاتا۔ اجتماعی زندگی کا ایک اہم اور بنیادی جز سیاست ہے۔ سیاست کسی ملک یا علاقے کا نظام حکومت چلانے کےلیے کی جانے والی سرگرمیوں کا نام ہے۔ ان سرگرمیوں کی انجام دہی اور تکمیل کے بارے میں لوگوں کے خیالات اور تصورات کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ایک فطری عمل ہے۔
پاکستان میں اس وقت الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 126 ہے۔ ان میں سے بڑی سیاسی جماعتیں حکومت سازی کےلیے اکثر دوسری جماعتوں سے اتحاد کرتی رہی ہیں۔ ان اتحادوں میں مختلف الخیال جماعتیں یہاں تک کہ سخت ترین حریف بھی ایک دوسرے کی حکومت کو سہارا دینے کےلیے دست و بازو بنے رہے ہیں۔ مثال کے طور پرموجودہ وفاقی حکومت بنانے میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی چھ اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ق، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی مسلم لیگ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) ہیں۔ تاہم بی این پی نے حال ہی میں وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت میں شامل جماعتیں پی ٹی آئی، پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان راہ حق پارٹی ہیں۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔
بلوچستان کی موجودہ مخلوط صوبائی حکومت میں پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی شامل ہیں، جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت بنانے کےلیے سیاسی جماعتیں کس طرح الگ نظریے اور سوچ، یہاں تک کہ اپنی الیکشن مخالف جماعت سے بھی اتحاد کرکے حکومت بنانے کی اپنی ضرورت پوری کرتی ہیں، جو کہ جمہوری اور پارلیمانی طرزِ سیاست کے اصولوں کے مطابق درست بھی ہے۔ دوسری طرف سیاسی کارکنوں اور حامیوں کا طرزعمل دیکھ کر کسی بھی طور ان کے سیاسی طورپر تربیت یافتہ اور باشعور ہونے کا یقین نہیں ہوتا۔
آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور سوشل میڈیا کے تقریباً تمام فورمز پر سیاست ایک اہم زیربحث موضوع ہے۔ اس میڈیا کا استعمال زیادہ تر ہمارا نوجوان طبقہ کرتا ہے، جو سیاست کے رموزو اوقاف ابھی سیکھنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا اکثر سیاسی نکتوں پر اپنے مؤقف کا اظہار کرنے میں مبالغہ آرائی اور گالم گلوچ کا سہارا لیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور حمایتیوں کا رویہ دیکھ کر آپ کو اللہ کی امان ہی مانگنی پڑتی ہے۔ یہ لوگ کسی پارٹی موقف یا پالیسی کو سپورٹ کرنے لگے تو انتہا تک اور مخالف پارٹی کے کسی نکتے پر اعتراض کریں تو مخاصمت اور دشمنی کی حدوں کو چھونے لگے۔ نہ صرف بحث و مباحثوں میں ادب وتکریم کی حدیں پار کرتے ہیں بلکہ ذاتیات پر اتر کر کسی کی بھی عزت نفس مجروح کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ ان کو اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں کی حکومت سازی کےلیے کیے جانے والے اتحادوں پر غور کرکے اس سے مفاہمت، مقصدیت اور مصالحت سیکھنی چاہیے۔ یہ سیاسی رہنما حکومت سازی کےلیے جس مفاہمت اور دل جوئی سے کام لیتے ہیں وہ ان کے نوجوان حامیوں میں کم ہی ملیں گی۔
سوشل میڈیا کے استعمال میں حالیہ ہونے والے کئی گنا اضافے کو دیکھتے ہوئے اکثر سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا ونگز بنا دیے ہیں، جن کا مقصد پارٹی کے موقف کو بہتر اور جدید انداز میں عوام تک پہنچانا ہے۔ تاہم سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ان بد اخلاقیوں کے بارے میں خاموش رہنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اول تو شاید ہماری سیاسی قیادت کو ان کے کارکنوں کی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ کیونکہ کسی بھی فورم پر ان کو مناسب زبان کے استعمال، لوگوں کی ذاتی زندگیوں پر حملے نہ کرنے اور مستند و موزوں مواد کی تشہیر پر آمادہ کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کا نظریہ صحیح طور سے سمجھنے کےلیے اس کا منشور ہی مناسب اور مستند گائیڈلائن مہیا کرتا ہے۔ پارٹی منشور کا دفاع کرنا یا اس کی ترویج کےلیے آپ کو صرف منطق اور دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، نہ کہ اختلاف برائے اختلاف اور دوسروں کو بے عزت کرنے کی۔ سیاسی رہنما اگر خود کو اپنے منشور کی پیروی اور تشہیر کا پابند کریں تو تب ہی وہ اپنے جونیئرز یا حامیوں کو اس کی تلقین کرسکیں گے۔
لیکن بعض جماعتوں کے کارکنوں، حتیٰ کہ پارٹی رہنماؤں نے بھی شاید اپنی پارٹی کا منشور پڑھا تک نہیں ہوتا، کیونکہ سوشل میڈیا جو نام ہے سوشل بننے اور جس کا مقصد سوشل نیٹ ورکنگ کرنا ہے، پر سیاسی غلاظت پھیلانا نہ تو ملک و قوم کی خدمت ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے وقار کو بلند کرنے کا ذریعہ۔ البتہ اس جیسے طرزِ تکلم اور بے ہودگی سے سنجیدہ اشخاص اور دلیل پر مبنی گفتگو کے متلاشی لوگوں کی دلچسپی ان فورمز پر کم ضرور ہوتی رہتی ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے حامی، کارکن یا کوئی سوشل میڈیا صارفین غیر اخلاقی مواد شیئر کریں یا کسی سیاسی، مذہبی یا قومی اشخاص کی ذاتیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں تو اس پارٹی کے ذمے دار رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنے ان کارکنوں کو منع کریں، ان کی سرزنش کریں اور اپنے آفیشل پیجز سے ان مواد کی تردید اور مذمت کریں۔ اس طرح سوشل میڈیا پر پاکستانی سیاست میں عزت و وقار اور شائستگی لوٹ آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان میں اس وقت الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 126 ہے۔ ان میں سے بڑی سیاسی جماعتیں حکومت سازی کےلیے اکثر دوسری جماعتوں سے اتحاد کرتی رہی ہیں۔ ان اتحادوں میں مختلف الخیال جماعتیں یہاں تک کہ سخت ترین حریف بھی ایک دوسرے کی حکومت کو سہارا دینے کےلیے دست و بازو بنے رہے ہیں۔ مثال کے طور پرموجودہ وفاقی حکومت بنانے میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی چھ اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم، پاکستان مسلم لیگ ق، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی مسلم لیگ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) ہیں۔ تاہم بی این پی نے حال ہی میں وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت میں شامل جماعتیں پی ٹی آئی، پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان راہ حق پارٹی ہیں۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔
بلوچستان کی موجودہ مخلوط صوبائی حکومت میں پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی شامل ہیں، جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت بنانے کےلیے سیاسی جماعتیں کس طرح الگ نظریے اور سوچ، یہاں تک کہ اپنی الیکشن مخالف جماعت سے بھی اتحاد کرکے حکومت بنانے کی اپنی ضرورت پوری کرتی ہیں، جو کہ جمہوری اور پارلیمانی طرزِ سیاست کے اصولوں کے مطابق درست بھی ہے۔ دوسری طرف سیاسی کارکنوں اور حامیوں کا طرزعمل دیکھ کر کسی بھی طور ان کے سیاسی طورپر تربیت یافتہ اور باشعور ہونے کا یقین نہیں ہوتا۔
آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور سوشل میڈیا کے تقریباً تمام فورمز پر سیاست ایک اہم زیربحث موضوع ہے۔ اس میڈیا کا استعمال زیادہ تر ہمارا نوجوان طبقہ کرتا ہے، جو سیاست کے رموزو اوقاف ابھی سیکھنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا اکثر سیاسی نکتوں پر اپنے مؤقف کا اظہار کرنے میں مبالغہ آرائی اور گالم گلوچ کا سہارا لیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور حمایتیوں کا رویہ دیکھ کر آپ کو اللہ کی امان ہی مانگنی پڑتی ہے۔ یہ لوگ کسی پارٹی موقف یا پالیسی کو سپورٹ کرنے لگے تو انتہا تک اور مخالف پارٹی کے کسی نکتے پر اعتراض کریں تو مخاصمت اور دشمنی کی حدوں کو چھونے لگے۔ نہ صرف بحث و مباحثوں میں ادب وتکریم کی حدیں پار کرتے ہیں بلکہ ذاتیات پر اتر کر کسی کی بھی عزت نفس مجروح کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ ان کو اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں کی حکومت سازی کےلیے کیے جانے والے اتحادوں پر غور کرکے اس سے مفاہمت، مقصدیت اور مصالحت سیکھنی چاہیے۔ یہ سیاسی رہنما حکومت سازی کےلیے جس مفاہمت اور دل جوئی سے کام لیتے ہیں وہ ان کے نوجوان حامیوں میں کم ہی ملیں گی۔
سوشل میڈیا کے استعمال میں حالیہ ہونے والے کئی گنا اضافے کو دیکھتے ہوئے اکثر سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا ونگز بنا دیے ہیں، جن کا مقصد پارٹی کے موقف کو بہتر اور جدید انداز میں عوام تک پہنچانا ہے۔ تاہم سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ان بد اخلاقیوں کے بارے میں خاموش رہنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اول تو شاید ہماری سیاسی قیادت کو ان کے کارکنوں کی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ کیونکہ کسی بھی فورم پر ان کو مناسب زبان کے استعمال، لوگوں کی ذاتی زندگیوں پر حملے نہ کرنے اور مستند و موزوں مواد کی تشہیر پر آمادہ کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کا نظریہ صحیح طور سے سمجھنے کےلیے اس کا منشور ہی مناسب اور مستند گائیڈلائن مہیا کرتا ہے۔ پارٹی منشور کا دفاع کرنا یا اس کی ترویج کےلیے آپ کو صرف منطق اور دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، نہ کہ اختلاف برائے اختلاف اور دوسروں کو بے عزت کرنے کی۔ سیاسی رہنما اگر خود کو اپنے منشور کی پیروی اور تشہیر کا پابند کریں تو تب ہی وہ اپنے جونیئرز یا حامیوں کو اس کی تلقین کرسکیں گے۔
لیکن بعض جماعتوں کے کارکنوں، حتیٰ کہ پارٹی رہنماؤں نے بھی شاید اپنی پارٹی کا منشور پڑھا تک نہیں ہوتا، کیونکہ سوشل میڈیا جو نام ہے سوشل بننے اور جس کا مقصد سوشل نیٹ ورکنگ کرنا ہے، پر سیاسی غلاظت پھیلانا نہ تو ملک و قوم کی خدمت ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے وقار کو بلند کرنے کا ذریعہ۔ البتہ اس جیسے طرزِ تکلم اور بے ہودگی سے سنجیدہ اشخاص اور دلیل پر مبنی گفتگو کے متلاشی لوگوں کی دلچسپی ان فورمز پر کم ضرور ہوتی رہتی ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے حامی، کارکن یا کوئی سوشل میڈیا صارفین غیر اخلاقی مواد شیئر کریں یا کسی سیاسی، مذہبی یا قومی اشخاص کی ذاتیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں تو اس پارٹی کے ذمے دار رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنے ان کارکنوں کو منع کریں، ان کی سرزنش کریں اور اپنے آفیشل پیجز سے ان مواد کی تردید اور مذمت کریں۔ اس طرح سوشل میڈیا پر پاکستانی سیاست میں عزت و وقار اور شائستگی لوٹ آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔