اسٹاک ایکسچینج حملہ چینی قونصلیٹ حملے سے مماثلت رکھتا ہے ڈی جی رینجرز سندھ
ایسا حملہ کسی خفیہ ایجنسی کے بغیر نہیں ہوسکتا،میجر جنرل عمر بخاری
ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل عمر بخاری نے کہا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے اور یہ حملہ چینی قونصل خانے پر حملے سے مماثلت رکھتا ہے۔
کراچی پولیس چیف کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل عمر بخاری نے کہا کہ 10 بج کر 2 منٹ پر 4 دہشت گرد گاڑی میں آئے اور پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی، رینجرز اور پولیس اہل کاروں نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، 10 بج کر 10 منٹ پر کارروائی مکمل ہوگئی، 8 منٹ میں 4 دہشت گرد مار دیئے گئے، دہشت گردوں کو پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے داخلی راستے پر ہی روک لیا گیا تھا، دہشت گرد پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی عمارت میں داخل نہ ہوسکے، 2 دہشت گرد پہلی چیک پوسٹ پر مارے گئے تھے۔
ڈی جی رینجرز سندھ نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں ایک ہزار سے زائد افراد کا عملہ ہوتا ہے، دہشت گرد قتل و غارت اوریرغمال بنانے کے منصوبے کے تحت آئے تھے ، وہ عمارت میں موجود شہریوں کو یرغمال بنانا چاہتے تھے، وہ جدید اسلحے سے لیس تھے، ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا بھی تھیں،دہشت گردوں نے سیدھی گولیاں چلائیں، اس حملے کی مماثلت چینی قونصلیٹ پر حملے سے ملتی ہے۔
میجر جنرل عمر بخاری نے کہا کہ کراچی میں ڈیڑھ سال سے کوئی دہشت گردانہ کارروائی نہیں ہوئی، دہشت گرد کراچی کی رونقیں خراب کرنا چاہتے ہیں، آج کا حملہ 10 اور 19 جون کے حملوں کی کڑی ہے، دہشت گردوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لئے جگہ نہیں مل رہی، دہشت گرد تنظیموں اور سلیپرز سیلز کا نیکسز بن رہا ہے، یہ حملہ کسی خفیہ ایجنسی کے بغیر نہیں ہوسکتا، سلیپنگ سیلز کے بغیر ایسا حملہ کرنا ناممکن ہے،بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کی فرسٹیشن آپ کے سامنے ہے، غیرملکی ایجنسیز کی کوشش ہے کہ بچے کچے سلیپرز سیل کو یکجا کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ را کی فرسٹریشن کا نتیجہ ہے، ہم تمام تر ایجنسیز سے مکمل مشاورت کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہے ہیں اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ان کے سہولت کاروں کو بھی پکڑرہے ہیں، ایم کیو ایم لندن، بی ایل اے وغیرہ اسی کی کڑی ہیں۔
ایک سوال پر انہوں ںے کہا کہ حالیہ چند دنوں میں رینجرز پر ہونے والے حملوں سے اس واقعے کو جوڑنا درست نہیں، ہم ایسے دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کرکے ہی دم لیں گے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بھرپور آپریشن کیا جارہا ہے اور گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لارہے ہیں، کراچی تھوڑا سا مختلف شہر ہے، یہاں ہر قومیت کے لوگ بستے ہیں، ہمارا رسپانس بہت بہترین تھا، بی ایل اے نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے ہم تحقیقات کررہے ہیں شہری اپنی سیکیورٹی ایجنسیز پر اعتماد رکھیں۔
کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے کہا کہ بہتر رسپانس کی وجہ سے دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے، دہشت گردوں نے دلبرداشتہ ہوکر کارروائی کی، دہشت گرد نیٹ ورک کے کچھ لوگوں کو پہلے پکڑا جاچکا تھا۔ ایسے کئی حملوں کو وقت سے پہلے ہی انٹیلی جنس انفارمیشن کی بنیاد پر ناکام بنایا گیا۔
چینی قونصل خانے پر حملہ کب ہوا تھا ؟
23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہوا تھا ، دہشت گردی کی اس واردات میں تینوں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے ، اس کے علاوہ 2 عام شہری اور 2 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
کراچی پولیس چیف کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل عمر بخاری نے کہا کہ 10 بج کر 2 منٹ پر 4 دہشت گرد گاڑی میں آئے اور پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی، رینجرز اور پولیس اہل کاروں نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، 10 بج کر 10 منٹ پر کارروائی مکمل ہوگئی، 8 منٹ میں 4 دہشت گرد مار دیئے گئے، دہشت گردوں کو پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے داخلی راستے پر ہی روک لیا گیا تھا، دہشت گرد پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی عمارت میں داخل نہ ہوسکے، 2 دہشت گرد پہلی چیک پوسٹ پر مارے گئے تھے۔
ڈی جی رینجرز سندھ نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں ایک ہزار سے زائد افراد کا عملہ ہوتا ہے، دہشت گرد قتل و غارت اوریرغمال بنانے کے منصوبے کے تحت آئے تھے ، وہ عمارت میں موجود شہریوں کو یرغمال بنانا چاہتے تھے، وہ جدید اسلحے سے لیس تھے، ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا بھی تھیں،دہشت گردوں نے سیدھی گولیاں چلائیں، اس حملے کی مماثلت چینی قونصلیٹ پر حملے سے ملتی ہے۔
میجر جنرل عمر بخاری نے کہا کہ کراچی میں ڈیڑھ سال سے کوئی دہشت گردانہ کارروائی نہیں ہوئی، دہشت گرد کراچی کی رونقیں خراب کرنا چاہتے ہیں، آج کا حملہ 10 اور 19 جون کے حملوں کی کڑی ہے، دہشت گردوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لئے جگہ نہیں مل رہی، دہشت گرد تنظیموں اور سلیپرز سیلز کا نیکسز بن رہا ہے، یہ حملہ کسی خفیہ ایجنسی کے بغیر نہیں ہوسکتا، سلیپنگ سیلز کے بغیر ایسا حملہ کرنا ناممکن ہے،بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کی فرسٹیشن آپ کے سامنے ہے، غیرملکی ایجنسیز کی کوشش ہے کہ بچے کچے سلیپرز سیل کو یکجا کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ را کی فرسٹریشن کا نتیجہ ہے، ہم تمام تر ایجنسیز سے مکمل مشاورت کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہے ہیں اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ان کے سہولت کاروں کو بھی پکڑرہے ہیں، ایم کیو ایم لندن، بی ایل اے وغیرہ اسی کی کڑی ہیں۔
ایک سوال پر انہوں ںے کہا کہ حالیہ چند دنوں میں رینجرز پر ہونے والے حملوں سے اس واقعے کو جوڑنا درست نہیں، ہم ایسے دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کرکے ہی دم لیں گے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بھرپور آپریشن کیا جارہا ہے اور گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لارہے ہیں، کراچی تھوڑا سا مختلف شہر ہے، یہاں ہر قومیت کے لوگ بستے ہیں، ہمارا رسپانس بہت بہترین تھا، بی ایل اے نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے ہم تحقیقات کررہے ہیں شہری اپنی سیکیورٹی ایجنسیز پر اعتماد رکھیں۔
کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے کہا کہ بہتر رسپانس کی وجہ سے دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے، دہشت گردوں نے دلبرداشتہ ہوکر کارروائی کی، دہشت گرد نیٹ ورک کے کچھ لوگوں کو پہلے پکڑا جاچکا تھا۔ ایسے کئی حملوں کو وقت سے پہلے ہی انٹیلی جنس انفارمیشن کی بنیاد پر ناکام بنایا گیا۔
چینی قونصل خانے پر حملہ کب ہوا تھا ؟
23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہوا تھا ، دہشت گردی کی اس واردات میں تینوں حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے ، اس کے علاوہ 2 عام شہری اور 2 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔