تاریخی قلعہ تلمبہ کسی مسیحا کا منتظر

یہ تاریخی ورثہ آئندہ برسوں میں زمین بوس ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور اس کا تذکرہ تاریخی کتب تک ہی محدود رہ جائے گا


توقیر کھرل July 01, 2020
موجودہ آخری قلعہ تلمبہ شکست و ریخت کا شکار ہے، قلعہ کے جانب شمال و مشرق نصف سے زائد فصیل منہدم ہوچکی ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کا حامل تلمبہ، پنجاب کے ضلع خانیوال میں دریائے راوی کے کنارے صدیوں سے متعدد بار مسمار ہونے والا ایک قدیمی قصبہ ہے۔ موجودہ شہر کو تلمبہ کی پانچویں آبادی اور چوتھا مقام قرار دیا جاتا ہے۔ اس قصبے کی اولین تباہ کاریوں میں جانبِ جنوب بر مقام '''بھڑ'' ہے، جہاں ایک قلعہ بھی تھا جو اب کھنڈرات کی مٹی میں مٹی ہوچکا ہے۔ تلمبہ کے جانبِ جنوب امیر تیمور کے مفتوحہ قلعہ بھڑکے آثار تو منہدم ہوچکے ہیں تاہم موجودہ قلعہ کے تلمبہ کے وسط میں آثار تاحال موجود ہیں۔

مذکورہ قلعہ کی تعمیر کنندہ کے بارے میں ابہام پائے جاتے ہیں۔ تاہم مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ کنگھم نے تلمبہ کے قدیمی آثار سے متعلق اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ تلمبہ موجودہ قصبہ اب تیسری جگہ آباد ہے جو قریب قریب 18 ویں صدی عیسوی کا ہے (جو برج نما قلعہ ہے) اس کو 1759 میں شریف بیگ نے تعمیر کروایا جو ملتان کا نائب ناظم تھا۔



 

قلعہ کی ساخت

تاریخ خانیوال کے مصنف بشیر سہو لکھتے ہیں کہ حاجی شریف کا تعمیر کردہ قلعہ آج بھی شہر کے وسط میں موجود ہے۔ زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ جانے والا قلعہ مجموعی طور پر وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس وقت کی قلعہ کی دیواریں 28 فٹ بلند ہیں۔ دیواروں کی چوڑائی سطح زمین سے 17 فٹ کی بلندی تک 5 فٹ ہے جبکہ اس سے اوپر 1-1/2 ہے۔ 17 فٹ کی بلندی پر فوجیوں کی نقل و حرکت اور نشانہ بازی کےلیے جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ قلعہ کی دیواروں کے اوپر والے8 فٹ کے حصہ میں 5x7x1 انچ سائز کی اینٹیں استعمال ہوئی ہیں، جبکہ اس سے نچلے حصوں میں 8x8x2 انچ سائز کی اینٹیں لگی ہیں۔ پورے قلعہ کی دیوار میں برابر برابر فاصلہ پر برج بنے ہیں، جن کی تعداد 12 ہے۔ برج کی اندورنی چوڑائی 11 فٹ اور لمبائی 13 فٹ ہے۔ ہر دو برجوں کے درمیان نشانہ بازی کےلیے 25 سوراخ نیچے اور 25 ہی اوپر ہیں۔ نیچے والے سوراخ قریبی اور اوپر والے دور کے ہدف کےلیے ہیں۔ ہر برج کے درمیان 95 فٹ فاصلہ رکھا گیا ہے۔



مؤلف رائے رفیق خاں یہ بھی لکھتے ہیں کہ موجودہ قلعہ تلمبہ جو ایک بڑی فصیل کی صورت میں ہے، کے بارے مشہور ہے کہ اسے فیروز شاہ تغلق نے تعمیر کروایا تھا، جس میں افواج کی رہائش کے علاوہ ان کی تربیت کا اہتمام ہوتا تھا۔ اسی طرح موجودہ تلمبہ کے جانب غرب فیروز شاہ تغلق کی افواج کےلیے فوجی چھاؤنی بھی قائم تھی، جسے فیروز چھاؤنی کہا جاتا تھا، جہاں اب سلسلہ کاشت و آبادیاں ہوچکی ہیں۔ تاہم مذکورہ علاقہ ملحقہ آبادیوں کو محلہ چھاؤنی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر چھاؤنی بیرکوں کے آثار کو 50 سال قبل کے باشندوں نے دیکھا ہے۔ تلمبہ میں مذکورہ جگہ پر سنگ کا قدیمی میلہ منعقد ہونے کے باعث مقامی لہجہ و زبان میں سنگ آلی سڑک بھی کہا جاتا ہے۔
شریف بیگ کون تھا اور تلمبہ کیوں آیا تھا؟

عمر کمال خان اپنی کتاب ''مظفر خان شہید اور اس کا دور'' میں رقم کرتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی دور کے بعد میں افغانوں نے نقل مکانی شروع کردی تو سکھوں کی نیت خراب ہوگئی۔ وہ ملتان پر قابض ہوجانے کے خواب دیکھنے لگے۔ انہوں نے سوچا کہ شریف بیگ تکلو اپنے آقا کا باغی ہے، لہٰذا قلعہ پر قبضہ کرلیں۔ مگر وہ بھی یعنی (شریف بیگ) بھی کائیاں شخص تھا۔



بہرحال سکھ مندر یاترا کے بہانے ملتان قلعہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جب ایک ہزار افراد ہوگئے تو بیک وقت ملتان قلعہ پر ہلہ بول دیا۔ اور شریف بیگ خود سخت پریشانی اور شرمندگی کی حالت میں فرار ہوکر تلمبہ میں پناہ گزین ہوا اور سکھوں نے وہاں بھی پیچھا کیا تو ریاست بہاولپور فرار ہوا اور وہیں وفات پائی۔



شریف بیگ کے قلعہ میں قیام پاکستان کے بعد تھانہ، بوائز اسکول، بلدیہ کا سابقہ دفتر تھے۔ قلعے کا مرکزی حصہ اس کے کوارٹروں سے محروم ہوچکا ہے۔ اب اس کے اندر سرکاری دفاتر بنائے جاچکے ہیں۔ قلعے کا ایک حصے میں ٹاؤن کمیٹی 1926 میں قائم ہوئی تھی جو 2017 میں ختم ہوکر سول ریسٹ ہاؤس کے قریب قائم ہوگئی ہے۔ گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول، انگلش میڈیم تلمبہ بھی قلعہ میں ہی بنایا گیا ہے۔ اس اسکول کی اور دیگر سرکاری اداروں کی بیرونی دیوار کی جگہ قلعہ کی دیوار کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قوی امکان ہے کہ یہاں آنے والے دنوں میں فیملی پارک تعمیر کیا جائے گا۔
قلعہ کی حالتِ زار

موجودہ آخری قلعہ تلمبہ جو شکست و ریخت کا شکار ہے، قلعہ کے جانب شمال و مشرق نصف سے زائد فصیل منہدم ہوچکی ہے، جبکہ باقی ماندہ فصیل کچھ ماضی کے حملہ آوروں اور کچھ مسلسل سیلابوں کے باعث متاثر ہوتی چلی آئی ہے اور یہ ناگفتہ بہ حالت میں محکمہ آثار کی چشم پوشی کے باعث تعمیر و مرمت کی راہ دیکھ رہی ہے۔ تاہم یہ قابل تردید حقیقت ہے کہ اگر مذکورہ تاریخی قلعہ کی جانب فوری اور بغور توجہ نہ کی گئی تو یہ تاریخی ورثہ آئندہ برسوں میں زمین بوس ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور اس کا تذکرہ تاریخی کتب تک ہی محدود رہ جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں