اسٹیل ملزکی نجکاری
پاکستان اسٹیل ملز کو سفید ہاتھی قرار دیکر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی
پاکستان اسٹیل ملز کو سفید ہاتھی قرار دیکر وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی ۔اسٹیل ملز کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی مختلف حکومتیں، مختلف ممالک کے تعاون سے پاکستان میں فولادی کارخانہ قائم کرنے کی کوشش کرتی رہیں ، لیکن کوئی ملک اس سلسلہ میں پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، بلا آخر انیس سواڑسٹھ میں روس نے پاکستان میں مکمل فولادی کارخانہ لگانے کا معاہدہ کیا جس نے انیس سو پچانوے میں پیداوار کا آغاز کیا۔
اس ادارے نے سن دو ہزار انیس تک مختلف ٹیکسز کی مد میں ایک سو دس بلین روپے قومی خزانے میں جمع کرائے، پھر اربوں روپے کمانے والا یہ ادارہ خسارے میں جانا شروع ہوا اور بتدریج مکمل طور پر تبا ہی وبربادی تک پہنچ گیا۔
اسٹیل ملز کے قیام سے علاقہ میں صنعتی و تجارتی سر گرمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ اس انڈسٹریل زون میں تیزی سے صنعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ تیس مربع کلو میڑ پر محیط اسٹیل میں قائم کارخانوں کے علاوہ اس میں اس کا اپنا بجلی گھر جس سے اضافی بجلی بھی پیدا ہوتی تھی ، اس کی ہائی پراڈکٹ سے رنگ اور سیمنٹ تیار کیا جاتا تھا۔
اس کاا پنا نہری نظام تھا، پورٹ قاسم پر اپنی جیٹیاں تھیں ۔ پورٹ سے اسٹیل ملز تک سامان کی تر سیل کے لیے ایشیا کی سب سے بری کنوربیلٹ اور ان لوڈر تھے ۔ اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید کی آبادیاںتھیں جہاں مساجد، امام بارگاہیں، چرچ ، قبرستان ، کرکٹ اور ہاکی اسٹیڈیم ، آسٹروٹرف، مارکیٹیں، کلینکس، اسپتال اور سوبیڈ کا اسپتال، ہیلی پیڈ، اسکولز ، کالجز، کیڈیٹ کالج اور ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ سے لے کر ماسٹر آف سائنس کی ڈگری تک کی تعلیم کا سلسلہ تھا۔ اس کے میٹلرجیکل ٹریننگ سینٹر کو بین الااقوامی اداروں کی جانب سے سینٹر آف ایکسیلنس اور اس ادارے کو دنیا کا صاف ترین کار خانہ قرار دیا گیا تھا۔
ادارے میں جھیلوں، پارکوں سے لے کر ریشم کے کپڑوں اور فروٹ فارم تک موجود تھا ،اس سے سبزیاں اور پھل ملازمین کے علاوہ مارکیٹ میں بھی فراہم کی جاتی تھیں۔ کنٹری ٹاور اور رشین بیچ جیسے تفریحی مقامات تھے۔ گویا یہ دیو ہیکل فولادی کار خانہ ایک صنعتی 'ٹائی ٹینک ' تھا جو کسی حادثہ کا نہیں بلکہ سازشوں کا شکار ہوا ہے۔
ادارے سے بلواسطہ طور پر پچیس ہزار خاندانوں جب کہ بلا واسطہ طورپر لاکھوں خاندانوں کا روز گار وابستہ تھا۔ یہ ادارہ اربوں روپوں کا زرمبادلہ بچا تا تھا اور اربوں ٹیکس کی مد میں ادا کر تا تھا۔ فولاد سازی کی صنعت کو '' مدر انڈسٹری '' کے طور پر مانا جا تا ہے جس سے دیگر صنعتیں پھلتی پھولتی ہیں۔ یہ دفاع او ر صنعتی ترقی کی ضامن ہوتی ہے اور ملکی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے دنیا کے دیگر ممالک کی حکومتیں اپنے زیر انتظام ہی اسٹیل ملز چلاتی ہیں، انھیں سبسڈی دیتی ہیں۔
ماہرین اسٹیل ملز کی بندش کو معاشی غلامی کا اقدام قرار دے رہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ حقائق سے نا آشنا ہی اس اقدام کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اسی حکومتی اقدام کی مختلف سطحوں پر مذمت اوربیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ حکومت کے وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی نظر اربوں روپے کی اراضی پر ہے جو سندھ کی ہے۔
یہ زمین ہتھیانے نہیں دینگے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیل ملز اس کے ملازمین اور مسائل کے حوالے سے غلط تصویر دکھائی جا رہی ہے۔ ریاست واضح کرے کہ ادارہ کس کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ سامنے کوئی اور ہوگا اور پس پردہ کوئی اور مالک بن جائے گا۔ نجی پارٹنر شپ ہے تو بتایا جائے کس کو دیا جا رہا ہے۔
ملز بند کرنے سے ملازمین ہی نہیں بلکہ سیکڑوںکنٹریکٹرز، ڈیلرز، سپلائیزر اور دیگر شراکت کاروں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ادارے کی بحالی کے سلسلہ میں ملازمین و اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کی جائے جسٹس (ر) وجہیہ الدین کا کہنا ہے کہ حکومت ملک کی قسمت اور وسائل سے کھیل رہی ہے ۔ حکومت عدالتی ریمارکس کا غلط استعمال اور اس کے احکامات کی غلط تشریح و تعبیرکر رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل ایک سو ترپن کے تحت ملز کے لیے سی سی آئی میں پالیسی وضع کی جانی چاہیے لیکن حکومت نے اس کے بر عکس اکنامک کو آرڈینیشن کمیٹی میں فیصلہ کرکے کابینہ سے منظوری لے کر ایک ایگزیکیوٹیو آرڈر کے ذریعہ ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ،لہذا اس غیر قانونی اقدام کے خلاف عدالت عالیہ نے ملازمین کی دائر کردہ آئینی درخواست کو قبول کرتے ہوئے وفاقی حکومت، وزارت پیداوار اور اٹارنی جنرل و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تیس جون کو عدالت طلب کر لیا ہے۔
اسٹیل ملز کے معاملہ میں حکومتی ارکان کے بیانا ت میں تضادات ہیں ۔ وزیر صنعت و پیداوار نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ملازمین کی گولڈن ہینڈ شیک کے لیے اٹھارہ ارب مختص کیے گئے، انھیں اوسطاً تیس لاکھ روپے ملے گے ، ایسے بھی ہیں جن کو ستر اور اسی لاکھ بھی ملیں گے، وہ ایک ہی نشست میں ملازمین کی تعداد کبھی ساڑھے آٹھ ہزار اور کبھی نو ہزار بتاتے ہیں جب کہ آفیشیلی یہ تعداد نو ہزار تین سو پچاس بتائی گئی ہے۔
اگر اٹھارہ ارب اس تعداد میں تقسیم کر دیا جائے تو فی کس اوسطاً انیس لاکھ پچیس ہزار کے قریب بنتی ہے جو گریڈ ایک سے لے کر گریڈ اکیس کے درمیان تقسیم ہوگی جب کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ریٹائر ہو جانے یا مرجانے والے چھ ہزار سے زائد ملازمین کے اربوں روپے کے واجبات اربوں روپے میں بنتے ہیں لہذا یہ اسکیم ملازمین کی جبری برطرفی کے سوا کچھ ثابت نہ ہوگی۔
اسٹیل ملز کے ریفرنڈم اور دھرنوں کے موقعوں پر خود عمران خان، شاہ محمود قریشی، عارف علوی، جہانگیر ترین اور اسد عمر نے ایک سے زائد مرتبہ اسٹیل ملز کا دورہ کرکے ملازمین کو یقین دلایا تھا کہ اسٹیل ملز کو پھر سے بحال کرینگے اور مزدورو کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ اسدعمر نے تو یہاں تک کہا دیا تھا کہ اگر ہماری حکومت نے ایسا نہ کیا تو وہ اسکو چھوڑ کر مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے حکومت کے اسٹیل ملز بند کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ ارباب اقدار کو ملک و قوم اور ادارے کے ملازمین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے د عوؤں کا پاس کرنا چاہیے۔
اس ادارے نے سن دو ہزار انیس تک مختلف ٹیکسز کی مد میں ایک سو دس بلین روپے قومی خزانے میں جمع کرائے، پھر اربوں روپے کمانے والا یہ ادارہ خسارے میں جانا شروع ہوا اور بتدریج مکمل طور پر تبا ہی وبربادی تک پہنچ گیا۔
اسٹیل ملز کے قیام سے علاقہ میں صنعتی و تجارتی سر گرمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ اس انڈسٹریل زون میں تیزی سے صنعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ تیس مربع کلو میڑ پر محیط اسٹیل میں قائم کارخانوں کے علاوہ اس میں اس کا اپنا بجلی گھر جس سے اضافی بجلی بھی پیدا ہوتی تھی ، اس کی ہائی پراڈکٹ سے رنگ اور سیمنٹ تیار کیا جاتا تھا۔
اس کاا پنا نہری نظام تھا، پورٹ قاسم پر اپنی جیٹیاں تھیں ۔ پورٹ سے اسٹیل ملز تک سامان کی تر سیل کے لیے ایشیا کی سب سے بری کنوربیلٹ اور ان لوڈر تھے ۔ اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید کی آبادیاںتھیں جہاں مساجد، امام بارگاہیں، چرچ ، قبرستان ، کرکٹ اور ہاکی اسٹیڈیم ، آسٹروٹرف، مارکیٹیں، کلینکس، اسپتال اور سوبیڈ کا اسپتال، ہیلی پیڈ، اسکولز ، کالجز، کیڈیٹ کالج اور ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ سے لے کر ماسٹر آف سائنس کی ڈگری تک کی تعلیم کا سلسلہ تھا۔ اس کے میٹلرجیکل ٹریننگ سینٹر کو بین الااقوامی اداروں کی جانب سے سینٹر آف ایکسیلنس اور اس ادارے کو دنیا کا صاف ترین کار خانہ قرار دیا گیا تھا۔
ادارے میں جھیلوں، پارکوں سے لے کر ریشم کے کپڑوں اور فروٹ فارم تک موجود تھا ،اس سے سبزیاں اور پھل ملازمین کے علاوہ مارکیٹ میں بھی فراہم کی جاتی تھیں۔ کنٹری ٹاور اور رشین بیچ جیسے تفریحی مقامات تھے۔ گویا یہ دیو ہیکل فولادی کار خانہ ایک صنعتی 'ٹائی ٹینک ' تھا جو کسی حادثہ کا نہیں بلکہ سازشوں کا شکار ہوا ہے۔
ادارے سے بلواسطہ طور پر پچیس ہزار خاندانوں جب کہ بلا واسطہ طورپر لاکھوں خاندانوں کا روز گار وابستہ تھا۔ یہ ادارہ اربوں روپوں کا زرمبادلہ بچا تا تھا اور اربوں ٹیکس کی مد میں ادا کر تا تھا۔ فولاد سازی کی صنعت کو '' مدر انڈسٹری '' کے طور پر مانا جا تا ہے جس سے دیگر صنعتیں پھلتی پھولتی ہیں۔ یہ دفاع او ر صنعتی ترقی کی ضامن ہوتی ہے اور ملکی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے دنیا کے دیگر ممالک کی حکومتیں اپنے زیر انتظام ہی اسٹیل ملز چلاتی ہیں، انھیں سبسڈی دیتی ہیں۔
ماہرین اسٹیل ملز کی بندش کو معاشی غلامی کا اقدام قرار دے رہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ حقائق سے نا آشنا ہی اس اقدام کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اسی حکومتی اقدام کی مختلف سطحوں پر مذمت اوربیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ حکومت کے وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی نظر اربوں روپے کی اراضی پر ہے جو سندھ کی ہے۔
یہ زمین ہتھیانے نہیں دینگے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیل ملز اس کے ملازمین اور مسائل کے حوالے سے غلط تصویر دکھائی جا رہی ہے۔ ریاست واضح کرے کہ ادارہ کس کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ سامنے کوئی اور ہوگا اور پس پردہ کوئی اور مالک بن جائے گا۔ نجی پارٹنر شپ ہے تو بتایا جائے کس کو دیا جا رہا ہے۔
ملز بند کرنے سے ملازمین ہی نہیں بلکہ سیکڑوںکنٹریکٹرز، ڈیلرز، سپلائیزر اور دیگر شراکت کاروں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ادارے کی بحالی کے سلسلہ میں ملازمین و اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کی جائے جسٹس (ر) وجہیہ الدین کا کہنا ہے کہ حکومت ملک کی قسمت اور وسائل سے کھیل رہی ہے ۔ حکومت عدالتی ریمارکس کا غلط استعمال اور اس کے احکامات کی غلط تشریح و تعبیرکر رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل ایک سو ترپن کے تحت ملز کے لیے سی سی آئی میں پالیسی وضع کی جانی چاہیے لیکن حکومت نے اس کے بر عکس اکنامک کو آرڈینیشن کمیٹی میں فیصلہ کرکے کابینہ سے منظوری لے کر ایک ایگزیکیوٹیو آرڈر کے ذریعہ ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ،لہذا اس غیر قانونی اقدام کے خلاف عدالت عالیہ نے ملازمین کی دائر کردہ آئینی درخواست کو قبول کرتے ہوئے وفاقی حکومت، وزارت پیداوار اور اٹارنی جنرل و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تیس جون کو عدالت طلب کر لیا ہے۔
اسٹیل ملز کے معاملہ میں حکومتی ارکان کے بیانا ت میں تضادات ہیں ۔ وزیر صنعت و پیداوار نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ملازمین کی گولڈن ہینڈ شیک کے لیے اٹھارہ ارب مختص کیے گئے، انھیں اوسطاً تیس لاکھ روپے ملے گے ، ایسے بھی ہیں جن کو ستر اور اسی لاکھ بھی ملیں گے، وہ ایک ہی نشست میں ملازمین کی تعداد کبھی ساڑھے آٹھ ہزار اور کبھی نو ہزار بتاتے ہیں جب کہ آفیشیلی یہ تعداد نو ہزار تین سو پچاس بتائی گئی ہے۔
اگر اٹھارہ ارب اس تعداد میں تقسیم کر دیا جائے تو فی کس اوسطاً انیس لاکھ پچیس ہزار کے قریب بنتی ہے جو گریڈ ایک سے لے کر گریڈ اکیس کے درمیان تقسیم ہوگی جب کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ریٹائر ہو جانے یا مرجانے والے چھ ہزار سے زائد ملازمین کے اربوں روپے کے واجبات اربوں روپے میں بنتے ہیں لہذا یہ اسکیم ملازمین کی جبری برطرفی کے سوا کچھ ثابت نہ ہوگی۔
اسٹیل ملز کے ریفرنڈم اور دھرنوں کے موقعوں پر خود عمران خان، شاہ محمود قریشی، عارف علوی، جہانگیر ترین اور اسد عمر نے ایک سے زائد مرتبہ اسٹیل ملز کا دورہ کرکے ملازمین کو یقین دلایا تھا کہ اسٹیل ملز کو پھر سے بحال کرینگے اور مزدورو کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ اسدعمر نے تو یہاں تک کہا دیا تھا کہ اگر ہماری حکومت نے ایسا نہ کیا تو وہ اسکو چھوڑ کر مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے حکومت کے اسٹیل ملز بند کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ ارباب اقدار کو ملک و قوم اور ادارے کے ملازمین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے د عوؤں کا پاس کرنا چاہیے۔