ہم کہاں اور کتنا غلط ہیں۔۔۔ ’کورونا‘ ہمیں سب بتا رہا ہے۔۔۔!

ابنِ صابر  منگل 30 جون 2020
حکومت عوام پر سارا ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ نہیں کرسکتی ۔  فوٹو : فائل

حکومت عوام پر سارا ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ نہیں کرسکتی ۔ فوٹو : فائل

ڈراما ’اندھیرا اجالا‘ پاکستان ٹیلی وژن کے سنہری دور کا کام یاب ترین سیریل تھا، جس میں ہر ایک کردار گویا امر ہوگیا۔ قوی خان اس ڈرامے میں ایک اعلیٰ اور دبنگ پولیس افسر کے کردار میں نظر آتے ہیں، جب کہ ان کے ماتحت کا کردار معروف اداکار جمیل فخری نے ادا کیا۔ سب انسپکٹر کے روپ میں عابد بٹ تھے، جب کہ سب سے مقبول ہونے والا کردار ’’حوالدار‘‘ عرفان کھوسٹ نے اس خوبی سے نبھایا کہ اس کردار پر فلمیں بھی بنیں۔ ڈرامے میں حوالدار عرفان کھوسٹ کے بھی ماتحت دو کانسٹیبل ہوا کرتے تھے۔

’اندھیرا اجالا‘ کے مصنف یونس جاوید نے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے کے ایک عمومی رویے کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ ایک بڑا عہدے دار اور طاقت وَر کس طرح کسی بھی ناکامی کا ملبہ اپنے ماتحت پر ڈال کر ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور خود کو بڑے طمطراق سے بری الذمہ قرار دے دیتا ہے، دوسری طرف بے چارہ کمزور آہ بھی نہیں کرپاتا۔

’اندھیرا اجالا‘ کی ہر قسط میں ایک نئی کہانی ہوتی تھی، پولیس کے کردار پوری سیریل میں ایک ہی رہے، البتہ ہر قسط میں کہانی کی مناسبت سے نئے کردار اْس قسط کا حصہ بنتے، لیکن ایک ’منظر‘ بار بار دُہرایا جاتا کہ کسی کیس کو حل کرنے میں ناکامی پر پولیس افسر قوی خان اپنے ماتحت کو سخت سست کہتے اور جھاڑ پلاتے۔

قوی خان کے کمرے سے نکلنے ہی قوی خان سارا غصہ سب انسپکٹر عابد بٹ پر نکالتے اور انہیں نااہلی کا طعنہ دیتے، بٹ یہ دباؤ اور غصہ اپنے ماتحت حوالدار عرفان کھوسٹ پر اتارتے۔ سب انسپکٹر عابد بٹ کے جاتے ہی عرفان کھوسٹ غصیلی آنکھوں اور سخت لہجے میں دونوں کانسٹیبل کی خبر لیتے، یوں ناکامی اور نااہلی کا جو غصہ اعلیٰ سطح افسر سے شروع ہوتا ہوا سب سے نچلے عہدے والے ملازم پر ختم ہوتا۔

’اندھیرا اجالا‘ اور اس کا یہ منظر پنجاب کی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کے ایک بیان سے یاد آگیا اور کیوں نہ آئے کہ سیاست بھی ایک طرح کا ڈراما ہی ہے، جذبات سے بھرپور، سمع خراش دعوؤں سے رونے دھونے کی اداکاری تک، یہاں سارا مرچ مسالا دست یاب ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں اب تک وفاق، صوبے، مقامی حکومتیں، سیاست دان، اور بیوروکریسی اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں، لیکن پہلی بار ایک صوبائی وزیر نے حکومتی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار عوام یعنی کہ دوسرے الفاظ می اپنے ہی ووٹر کو قرار دے دیا۔

ہوا یوں کہ ایک نجی چینل کے ’مذاکرے‘ میں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کورونا پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں بڑی بے بسی اس کا ذمہ دار عوام کو قرار دے دیا۔ بات یہیں ختم ہو جاتی تو بھی شاید ٹھیک تھا، لیکن اچھی شہرت کی حامل خاتون وزیر نے ’لاہوریوں‘ کو عجیب مخلوق اور جاہل تک قرار دینے میں ذرا دیر نہ لگائی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے شکوہ کیا کہ لاہور کے باسیوں نے وبا کو سنجیدہ نہیں لیا اور وہ حفاظتی اقدام پر عمل کرنے کو قطعی تیار نہیں، جس کی وجہ سے کورونا وائرس لاہور میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وفاق ایس اوپیز پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈالتی ہے اور صوبائی وزیر نے عوام پر ملبہ ڈال کر اپنی جان چھڑالی ہے۔ عوامی اور سماجی حلقوں کی جانب سے یاسمین راشد کے بیان پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

کورونا کے آغاز سے ہی صوبہ پنجاب حفاظتی اقدام کا فیصلہ لینے کے حوالے سے وفاق کے زیر اثر نظر آیا، جب کہ ’وفاق حکومت‘ تذبذب کا شکار، چناں چہ پنجاب کی جانب سے اسکولوں کی بندش، بازاروں کو بند کرنا، صحت کے مراکز کے قیام اور لاک ڈاؤن کے اقدام ’صوبۂ سندھ‘ کے بعد کیے گئے، لیکن جب وفاق نے نرمی دکھائی، تو پنجاب نے پابندیاں اْٹھانا شروع کر دیں۔ سپریم کورٹ نے بھی جب حکومت سندھ کو عید پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا کہا، تو کاروبار کھولنے اور پابندیاں ہٹانے کے لیے حکومت پنجاب کی مثال دی۔

صوبائی وزیر یاسمین راشد شاید یہ بھول گئیں کہ پنجاب اور وفاق میں ان ہی کی جماعت کی حکمرانی ہے اور حکومتی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح دیگر قوانین پر طوہاً و کرہاً عمل درآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اسی طرح حفاظتی اقدام یا ’ایس او پیز‘ پر عمل کروانا بھی ان ہی کا ذمہ ہے۔ اب اگر کوئی غیر لائسنس یافتہ ڈرائیور فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھا کر راہ گیروں کو کچل دے تو کیا حکومت ڈرائیور کو ’’جاہل‘‘ کہہ کر چپ ہوجائے گی اور کیا قانونی تقاضے پورے نہیں کرے گی؟

ڈاکٹر یاسمین راشد یہ بات بھی بھول گئیں کہ لاہور سے منتخب ہونے والے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کا تعلق انہی کی جماعت سے ہی ہے، یعنی اس شہر میں ایک بڑی تعداد ان کے اپنے ووٹرز کی ہے۔۔۔ انہیں یہ بھی دھیان نہیں رہا کہ کنٹینر سے ’عوام‘ کی جیسی تربیت کی گئی تھی تو پھر صاحب بقول شخصے ’یہ تو ہوگا۔۔۔!‘ جو فصل بوئی ہے اسے خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنا ہوگی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’جاہل عوام‘ کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ امید تھی کہ یاسمین راشد کو عوام کے جاہل ہونے کے ادراک کے بعد حکومت پنجاب تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی اور صحت سے بھی زیادہ بجٹ تعلیم کے لیے ہوگا اور وفاقی وزیر شفقت محمود ضرور اس ’جاہل عوام‘ کو قاعدہ قانون پڑھانے کا کوئی انتظام کریں گے، لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔۔۔

کورونا سے متعلق حفاظتی اقدام پر عمل درآمد کرانا، حکومت کی ذمہ داری ہے، جسے پورا نہ کرنے کا ملبہ عوام پر ڈال دینا فرسٹریشن نکالنے کے ہی مترادف سمجھا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا اور ’ایس اوپیز‘ پر عمل درآمد کرانے کے لیے قانون سازی کی جائے اور خلاف ورزی کے مرتکب شہریوں کے لیے سخت سے سخت سزائیں رکھی جائیں، اسی طرح ’ایس او پیز‘ پر عمل درآمد نہ کروا پانے پر متعلقہ کمشنر اور ’ایس ایچ او‘ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

عالمی ادارۂ صحت اور بین الاقوامی طور جن ممالک کو کورونا وبا پر قابو پالینے کی وجہ سے داد و تحسین مل رہی ہے ان میں نیوزی لینڈ، تائیوان، بھارتی  ریاست کیرالہ، فن لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ اور جرمنی شامل ہیں۔ ان ممالک نے یا تو وبا پر قابو پالیا ہے یا پھر وائرس کے پھیلاؤ روکنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ ان کام یاب ممالک کی وبا کے دوران ترجیحات اور پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے، تو دو قدریں مشترک اور نہایت نمایاں نظر آتی ہیں۔ وہ ہے بروقت سخت لاک ڈاؤن اور بلند شرح تعلیم۔

نیوزی لینڈ کی آبادی 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے، یہ دو بڑے جزیروں پر مشتمل ہے اور شاید جغرافیے کی وجہ سے بھی اسے کورونا وبا پر قابو پانے میں مدد ملی ہو۔ اس خوب صورت ملک کی بالغوں میں شرح تعلیم 99 فی صد ہے۔ 2 کروڑ سے زائد آبادی والا تائیوان کورونا وائرس کی جائے پیدائش چین کا پڑوسی ملک ہے اور اس کی شرح تعلیم بھی بالغوں میں 98 فی صد ہے۔ اسی طرح ڈنمارک، فن لینڈ وغیرہ کی شرح تعلیم بھی کافی بہتر ہے۔ شرح تعلیم کے ساتھ ساتھ ان ممالک نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے بھی بروقت اقدامات اْٹھائے۔

مذکورہ ممالک کو کورونا وبا پر قابو پانے میں آسانی اس لیے بھی رہی کیوں کہ ان ممالک کی آبادی کم ہے اور ان کا جغرافیہ ایسا تھا کہ یہ خود کو دنیا سے الگ کر سکتے تھے، اس کے برعکس امریکا، برطانیہ اور اٹلی وغیرہ میں شرح تعلیم تو اچھی ہے، لیکن گنجان آباد ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک خود کو دنیا سے آسانی سے ’منقطع‘ بھی نہیں کر سکتے، یہ مشکلات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک نے کورونا کے خطرے کا ادراک کرنے میں تاخیر کر دی اور سخت لاک ڈاؤن میں تذبذب کا شکار رہے۔

کورونا وبا سے یہ بات آشکار ہوگئی کہ دنیا کا ’’گلوبل ولیج‘‘ ہونا ایک طرح سے نقصان دہ بھی ہے، کس طرح یہ وائرس انسانوں کے ہی بنائے ہوئے ذرایع آمد و رفت میں بغیر ٹکٹ لیے سفر کرتا ہوا ایک سے دوسرے ملک پہنچا اور انسانوں کو اپنا شکار بناتا چلا گیا۔ دنیا کے تمام ہی بڑے تجارتی شہر اس وائرس کی زد میں آگئے ہیں، تاہم دیہی آبادی یا قدرے کم گنجان آبادی والے علاقے محفوظ رہے ہیں۔

تیزی سے آباد ہوتے ہوئے کنکریٹ کے جنگل، بلند عمارتیں اور تمام تر تجارتی سرگرمیاں مخصوص شہروں میں ہونے کے نقصانات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ بڑے اور گنجان آباد شہر وبا کے پھیلاؤ کا مرکز ہیں اور اسے قابو میں کرنا بھی مشکل ہے اس لیے دنیا کو شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کا جائزہ لینا ہوگا، کیوں کہ ایک آباد علاقے سے دوسرے آباد علاقے کے درمیان ’فاصلہ‘ رکھنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

تصویر بہت واضح ہوتی جا رہی ہے، کم شرح تعلیم، زیادہ آبادی، گلوبل ویلیج اور بروقت اقدامات کا فقدان کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی کے بڑے اسباب ہیں۔ کسی بھی وبا پر قابو پانا ہے، تو سب سے پہلے شرح تعلیم میں اضافہ کریں، اپنے ملک کی عوام کو جاہل ہونے کا طعنہ دینے کے بہ جائے آگہی دیں، تاکہ عوام سازش اور حقیقی خطرے میں بہ آّسانی فرق کر سکیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں ہی ساری آبادی کو ٹھونسنے کے بہ جائے، نئے شہر بسائے جائیں اور چھوٹے چھوٹے بلاک میں تقسیم کیا جائے، جسے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں بہ آسانی کنٹرول کیا جا سکے اور وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں آسانی ہو۔

عوام کی غیر سنجیدگی اپنی جگہ لیکن عالمی قوتوں نے خوب رنگ میں بھنگ ڈالا ہے۔ ایک مرتبہ پھر صدر بننے کی شدید خواہش میں مبتلا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ چین نے انہیں صدارتی انتخاب ہروانے کے لیے یہ مہلک وائرس پھیلایا۔ چلیے چین اور امریکا میں تو ہمیشہ سے ہی کھینچا تانی رہی ہے، لیکن یہ کیا کہ پیلے بالوں والے ڈونلڈ ٹرمپ ’عالمی ادارہ صحت‘ پر بھی چڑھ دوڑے اور اس اہم اور کورونا وائرس پر مستند سمجھے جانے والے ادارے پر چین کی پشت پناہی کا الزام عائد کر کے فنڈز ہی روک دیے گئے۔

خود کو ’عالمی سپرمین‘ سمجھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سے ایک بچکانہ حرکت کر کے اس پورے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے اور آج کل پوری طرح اس کوشش میں جتے ہوئے ہیں، جو ملک بھی کووڈ 19 کی ویکسین بنانے کام یاب ہو جائے، تو وہ ویکسین کا فارمولا اور اس کی مارکیٹ کے حقوق امریکا کو دے۔ جرمنی کی دوا ساز کمپنی ’کیور ویک‘ ایک ویکسین کی تیاری کے قریب پہنچ چکا ہے، لیکن ویکسین کے آنے سے قبل ہی امریکی صدر نے کمپنی کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ یہ ویکسین صرف امریکا کے لیے ہو۔

اس سے قبل چین نے بھی امریکا پر ویکسین کی تیاری میں رخنے ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی نے عالمی قوتوں سے ویکسین کی تیاری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے بیان بازی سے گریز کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی زندگی کے معاملے کو اتنا پیچیدہ اور متنازع نہ بنایا جائے۔ عالمی قوتوں کے اس غیر سنجیدہ رویے نے کورونا کو عوام کی نظر میں مشکوک بنا دیا اور سازشی نظریوں کو تقویت ملی۔

پاکستان میں بھی کورونا وبا کے ابتدا سے ہی وفاق اور صوبے کسی ایک مشترکہ اور جامع پالیسی پر یک جا نہ ہو سکے۔ ساری بحث لاک ڈاؤن، سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، لاک ڈاؤن نہیں کرفیو، کرفیو نما لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن اور اب خیر سے سلیکٹڈ لاک ڈاؤن کے درمیان ہی گھومتی رہی۔ عید پر ملک بھر میں ٹرینیں کھولنے اور پورے ہفتے رات گئے تک شاپنگ سینٹرز کھولنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے وبا بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی اور اب پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے سے روزانہ کی بنیاد پر 100 سے افراد اس مہلک وبا کے باعث جان سے گزر رہے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ وفاق، صوبے، مقامی حکومتیں، بیورو کریسی اور عوام ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرانے کے بہ جائے اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ قومیں اجتماعیت سے بنتی ہیں اور اتحاد سے مضبوط ہوتی ہیں اور ان کے درمیان اتحاد اور اتفاق سے برکت ہوتی ہے۔ یہ وبا سارے اختلافات اور الزامات بھلا کر ایک ہو جانے کا موقع ہے اور عقل مند افراد ایسے مواقع ضایع نہیں کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔