عمران خان کے پاس ابھی بھی وقت ہے
یوں لگتا ہے کہ ملک میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں جو حکومت کی معاشی حالت کو درست سمت میں گامزن کر سکے۔
اس کی ذمے دار کون سی وزارت ہے، اس کا مجھے علم نہیں لیکن جو کوئی بھی ہے وہ وزیر اعظم عمران خان پر اقتدار کو تنگ کر رہا ہے۔
ناتجربہ کاری اور مہنگائی کے بے جواز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اس پر متعلقہ حکام جو ابہام پھیلا رہے ہیں، اس نے خلق خداکو زچ کر دیا ہے، ایک دن کچھ اعلان کیا جاتا ہے اور دوسرے دن کچھ ۔ایک دن روز مرہ کی انسانی ضروریات کی قیمتوں میں کمی کی نوید سنائی جاتی ہے اور دوسرے دن وہ ضروری اشیاء بازار سے غائب ہو جاتی ہیں ۔
دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرنے کے لیے حربے استعمال کرتے ہیں اور حکومت کی جانب سے اعلان کردہ قیمتوں کو عملاً ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایک دن حکومت کی جانب سے وضاحت جاری ہوتی ہے اور دوسرے دن ایک اور وضاحت آجاتی ہے اور تیسرے دن کچھ اور بیان جاری کر دیا جاتا ہے لیکن تاجر حضرات جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، ان اعلانات اور وضاحت سے صرف وہی مطلب برآمدکرتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوتا ہے اور یوں مارکیٹ میں جس چیز کے دام ایک بار بڑھ جاتے ہیں وہ کم نہیں ہوتے، بالکل اسی طرح جیسے ایک عید پر جو قیمتیں بڑھتی ہیں وہ عید ختم ہونے پر کم نہیں ہوتیں اور دوسری عید پر مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اس ابہام کی ایک بڑی وجہ دلوں کا وہ چور ہے جو حکومت کی متعلقہ وزارت خزانہ کو صاف بات بتانے نہیں دیتا، وہ عوام کو اپنے نامکمل اور مبہم بیانات اور اعلانات سے اس قدر پریشان کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ قیمتوں میں اضافے کو بھول کر اس چکر میں پڑ جائیں کہ قیمتیں کتنی بڑھی ہیں یا نہیں بڑھیں اور دکاندار صحیح کہہ رہے ہیں یا غلط۔ حکومت کے اعلان اس قدر مبہم اور غیر واضح ہوتے ہیں اور اس قدر الجھی ہوئی زبان میں جاری ہوتے ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے ایف بی آر کے کسی استاد قسم کے پرانے افسر کی ضرورت پڑتی ہے۔
عمران خان کی حکومت میں وزیر اور مشیر بدلتے رہتے ہیں، انھیں اختیار ہے کہ وہ جسے چاہئیں وزیر بنا دیں اور جسے چاہئیں اپنا مشیر مقرر کر لیں لیکن یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ وہ کوئی ذمے داری ان لوگوں کے سپرد کریں جو اسے پورا کر سکتے ہوں ۔ ان کی ٹیم میں زیادہ ترایسے لوگ شامل ہیں جن کا سیاست اور حکومتی معاملات کو چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی مقدور بھر کوشش سے معاملات چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے بات بنتی نظر نہیں آرہی، ان کی وزیر اعظم سے وابستگی اور مخلصانہ پن میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن ان کی یہ قابلیت اور اہلیت نہیں ہے کہ وہ عوام کے مفاد کی خاطر اپنی پالیسیوں میں سب سے پہلے عوام کی سہولت اور قوت برداشت کو ذہن میں رکھیں۔
لگتا یہ ہے کہ ہماری حکومت کے حساب کتاب کرنے والے وہ لوگ ہیں جو وزراء وصولی کہلائے جانے چاہئیں جن کا فرض اور ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ ان عالمی ساہوکاروں کے مطالبات پورے کرتے رہیں خواہ اس میں عوام کے بھوکے پیٹوں کی انتڑیاں بھی باہر کیوں نہ نکل آئیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو حکمران قرض لینے کو لعنت قرار دیتے تھے اور اس پر خود کشی کو ترجیح دیتے تھے آج وہی قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور قرض کی رقم جب خزانے میں آتی ہے تو لا محالہ اسے زرمبادلہ کا نام دے کر قوم کو خوش خبری سنائی جاتی ہے ۔
یہ وہی قرضے ہیں اور وہی لوگ اس کے مدارلمہام ہیں جو گزشتہ حکومتوں کے بھی وزیر اور مشیر رہے ہیں ۔ ان قرضوں کی خبریں تو عوام تک پہنچتی ہیں لیکن قوم کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ یہ غیر ملکی قرضے کہاں چلے جاتے ہیں ۔ عوام تک تو ان کی ایک پائی بھی نہیں پہنچتی لیکن ان کی وصولی عوام سے ضرور کی جاتی ہے جو ایک ریاستی جبر اور دھاندلی ہے اور یہ جبر اور دھاندلی آج کی بات نہیں قوم اس کو ایک مدت سے برداشت کرتی آرہی ہے بلکہ اب تو اس کی عادی ہو چکی ہے ۔
حکومت اپنے دعوؤں کے برعکس ملک کے بند کارخانوں کو چلانے کی بجائے بیچنے کی بات کر رہی ہے اور ملک کی برآمدات میں اضافے کے لیے اب تک کچھ نہیں کر سکی بلکہ برآمدات میں تیزی کے ساتھ کمی آرہی ہے اور بیرون ملک سے جو زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اس میں بھی شدید کمی کے آثار ہیں۔ جب کہ ہماری حکومت نہایت بھدے انداز میں روزمرہ کی اشیاء ضروریات کی قیمتیں بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکی جس کی وجہ سے عوام کی شدید تنقید کی زد میںہے اور عوامی حمایت کھو رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان قوم سے براہ راست مخاطب ہوتے ہیں لیکن ان کی ٹیم ان کا ساتھ نہیں دے رہی اور جس طرح کی حکومت وہ چلانا چاہتے ہیںان کی ٹیم میں اس حکومت کے لیے قابلیت نہیں ہے جس کی وجہ سے معاملات روزبروز بگڑتے جارہے ہیں اور اس کے ذمے دار وزیر اعظم کی ٹیم ہے جس کو یہ معلوم نہیں کہ ہماری آمدنی کتنی ہے کتنا خرچ کرناہے یا عوام تک حکومتی اقدامات کے ثمرات کیسے پہنچانے ہیں۔ ٹیکس لگانا یا قرض لینا کون سی مہارت کا تقاضا کرتاہے ۔
اتنا حساب تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے لیے کتنی رقم درکار ہوتی ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے والے ماہرین ایسی پالیسیاں وضع کرتے ہیں جن سے ملک کی معاشی حالت سدھرنا شروع ہو جاتی ہے، گزشتہ ڈیڑھ برس میں خاص طور پر وزرات خزانہ نے کوئی ایک پالیسی بھی ایسی وضع نہیں کی جس کے اقتصادیات پر مثبت اثرات ہوتے ہوں۔ ہمارے سامنے تو قیمتیں بڑھنے اور ضرورت کی اشیاء کی قلت کی خبریں آئیں ہیں جنہوں نے ملک کے عام آدمی کو بہت پریشان کیا ہے ۔
یوں لگتا ہے کہ ملک میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں جو حکومت کی معاشی حالت کو درست سمت میں گامزن کر سکے یا پھر اگر موجود ہے تو وہ اس خدمت پر تیار نہیں یا پھر عمران خان کو کوئی موزوں آدمی میسر نہیں آرہا ۔ کچھ بھی ہو عمران خان کو اگر باقی ماندہ تین برس پورے کرنے ہیں تو وہ ملک کی معاشیات پر توجہ دیں ورنہ عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو پہلے حکمرانوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ وہ وقت جلد آجاتا ہے جب عوام حکومت سے اکتا جاتے ہیں، ابھی بھی وقت ہے کہ اکتانے والے وقت کو ٹال دیا جائے ۔
ناتجربہ کاری اور مہنگائی کے بے جواز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اس پر متعلقہ حکام جو ابہام پھیلا رہے ہیں، اس نے خلق خداکو زچ کر دیا ہے، ایک دن کچھ اعلان کیا جاتا ہے اور دوسرے دن کچھ ۔ایک دن روز مرہ کی انسانی ضروریات کی قیمتوں میں کمی کی نوید سنائی جاتی ہے اور دوسرے دن وہ ضروری اشیاء بازار سے غائب ہو جاتی ہیں ۔
دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرنے کے لیے حربے استعمال کرتے ہیں اور حکومت کی جانب سے اعلان کردہ قیمتوں کو عملاً ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایک دن حکومت کی جانب سے وضاحت جاری ہوتی ہے اور دوسرے دن ایک اور وضاحت آجاتی ہے اور تیسرے دن کچھ اور بیان جاری کر دیا جاتا ہے لیکن تاجر حضرات جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، ان اعلانات اور وضاحت سے صرف وہی مطلب برآمدکرتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوتا ہے اور یوں مارکیٹ میں جس چیز کے دام ایک بار بڑھ جاتے ہیں وہ کم نہیں ہوتے، بالکل اسی طرح جیسے ایک عید پر جو قیمتیں بڑھتی ہیں وہ عید ختم ہونے پر کم نہیں ہوتیں اور دوسری عید پر مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اس ابہام کی ایک بڑی وجہ دلوں کا وہ چور ہے جو حکومت کی متعلقہ وزارت خزانہ کو صاف بات بتانے نہیں دیتا، وہ عوام کو اپنے نامکمل اور مبہم بیانات اور اعلانات سے اس قدر پریشان کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ قیمتوں میں اضافے کو بھول کر اس چکر میں پڑ جائیں کہ قیمتیں کتنی بڑھی ہیں یا نہیں بڑھیں اور دکاندار صحیح کہہ رہے ہیں یا غلط۔ حکومت کے اعلان اس قدر مبہم اور غیر واضح ہوتے ہیں اور اس قدر الجھی ہوئی زبان میں جاری ہوتے ہیں کہ انھیں سمجھنے کے لیے ایف بی آر کے کسی استاد قسم کے پرانے افسر کی ضرورت پڑتی ہے۔
عمران خان کی حکومت میں وزیر اور مشیر بدلتے رہتے ہیں، انھیں اختیار ہے کہ وہ جسے چاہئیں وزیر بنا دیں اور جسے چاہئیں اپنا مشیر مقرر کر لیں لیکن یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ وہ کوئی ذمے داری ان لوگوں کے سپرد کریں جو اسے پورا کر سکتے ہوں ۔ ان کی ٹیم میں زیادہ ترایسے لوگ شامل ہیں جن کا سیاست اور حکومتی معاملات کو چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی مقدور بھر کوشش سے معاملات چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے بات بنتی نظر نہیں آرہی، ان کی وزیر اعظم سے وابستگی اور مخلصانہ پن میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن ان کی یہ قابلیت اور اہلیت نہیں ہے کہ وہ عوام کے مفاد کی خاطر اپنی پالیسیوں میں سب سے پہلے عوام کی سہولت اور قوت برداشت کو ذہن میں رکھیں۔
لگتا یہ ہے کہ ہماری حکومت کے حساب کتاب کرنے والے وہ لوگ ہیں جو وزراء وصولی کہلائے جانے چاہئیں جن کا فرض اور ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ ان عالمی ساہوکاروں کے مطالبات پورے کرتے رہیں خواہ اس میں عوام کے بھوکے پیٹوں کی انتڑیاں بھی باہر کیوں نہ نکل آئیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو حکمران قرض لینے کو لعنت قرار دیتے تھے اور اس پر خود کشی کو ترجیح دیتے تھے آج وہی قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور قرض کی رقم جب خزانے میں آتی ہے تو لا محالہ اسے زرمبادلہ کا نام دے کر قوم کو خوش خبری سنائی جاتی ہے ۔
یہ وہی قرضے ہیں اور وہی لوگ اس کے مدارلمہام ہیں جو گزشتہ حکومتوں کے بھی وزیر اور مشیر رہے ہیں ۔ ان قرضوں کی خبریں تو عوام تک پہنچتی ہیں لیکن قوم کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ یہ غیر ملکی قرضے کہاں چلے جاتے ہیں ۔ عوام تک تو ان کی ایک پائی بھی نہیں پہنچتی لیکن ان کی وصولی عوام سے ضرور کی جاتی ہے جو ایک ریاستی جبر اور دھاندلی ہے اور یہ جبر اور دھاندلی آج کی بات نہیں قوم اس کو ایک مدت سے برداشت کرتی آرہی ہے بلکہ اب تو اس کی عادی ہو چکی ہے ۔
حکومت اپنے دعوؤں کے برعکس ملک کے بند کارخانوں کو چلانے کی بجائے بیچنے کی بات کر رہی ہے اور ملک کی برآمدات میں اضافے کے لیے اب تک کچھ نہیں کر سکی بلکہ برآمدات میں تیزی کے ساتھ کمی آرہی ہے اور بیرون ملک سے جو زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اس میں بھی شدید کمی کے آثار ہیں۔ جب کہ ہماری حکومت نہایت بھدے انداز میں روزمرہ کی اشیاء ضروریات کی قیمتیں بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکی جس کی وجہ سے عوام کی شدید تنقید کی زد میںہے اور عوامی حمایت کھو رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان قوم سے براہ راست مخاطب ہوتے ہیں لیکن ان کی ٹیم ان کا ساتھ نہیں دے رہی اور جس طرح کی حکومت وہ چلانا چاہتے ہیںان کی ٹیم میں اس حکومت کے لیے قابلیت نہیں ہے جس کی وجہ سے معاملات روزبروز بگڑتے جارہے ہیں اور اس کے ذمے دار وزیر اعظم کی ٹیم ہے جس کو یہ معلوم نہیں کہ ہماری آمدنی کتنی ہے کتنا خرچ کرناہے یا عوام تک حکومتی اقدامات کے ثمرات کیسے پہنچانے ہیں۔ ٹیکس لگانا یا قرض لینا کون سی مہارت کا تقاضا کرتاہے ۔
اتنا حساب تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے لیے کتنی رقم درکار ہوتی ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے والے ماہرین ایسی پالیسیاں وضع کرتے ہیں جن سے ملک کی معاشی حالت سدھرنا شروع ہو جاتی ہے، گزشتہ ڈیڑھ برس میں خاص طور پر وزرات خزانہ نے کوئی ایک پالیسی بھی ایسی وضع نہیں کی جس کے اقتصادیات پر مثبت اثرات ہوتے ہوں۔ ہمارے سامنے تو قیمتیں بڑھنے اور ضرورت کی اشیاء کی قلت کی خبریں آئیں ہیں جنہوں نے ملک کے عام آدمی کو بہت پریشان کیا ہے ۔
یوں لگتا ہے کہ ملک میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں جو حکومت کی معاشی حالت کو درست سمت میں گامزن کر سکے یا پھر اگر موجود ہے تو وہ اس خدمت پر تیار نہیں یا پھر عمران خان کو کوئی موزوں آدمی میسر نہیں آرہا ۔ کچھ بھی ہو عمران خان کو اگر باقی ماندہ تین برس پورے کرنے ہیں تو وہ ملک کی معاشیات پر توجہ دیں ورنہ عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو پہلے حکمرانوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ وہ وقت جلد آجاتا ہے جب عوام حکومت سے اکتا جاتے ہیں، ابھی بھی وقت ہے کہ اکتانے والے وقت کو ٹال دیا جائے ۔