سندھ ماڈل صوبہ
پیپلز پارٹی کی قیادت کی دعوؤں کے باوجود سندھ ایک پسماندہ صوبہ ہے۔
سندھ کا بجٹ 12کھرب 41 ارب تک پہنچ گیا۔ تعلیم کے لیے 244 ارب اور شعبہ صحت کے لیے 139ارب روپے مختص کیے گئے۔ سندھ واحد صوبہ ہے جس کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں یہ ریکارڈ اضافہ ہے۔
2010 میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔یہ رقم شفاف انداز میں خرچ کی جائے تو سندھ ماڈل صوبہ بن سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی دعوؤں کے باوجود سندھ ایک پسماندہ صوبہ ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو قائم علی شاہ دوسری دفعہ وزیر اعلیٰ بنے ۔ یہ خاصا مایوس کن تھا۔ اس وقت صوبہ میں قائم علی شاہ کے علاوہ کئی وزراء وزیر اعلیٰ سمجھے جاتے تھے۔
اس دور کی ایک اہم خصوصیت کرپشنرہی۔ یوں سندھ میں ترقی کے بہت سے منصوبوں کا اعلان ہوا مگر چند ایک ہی مکمل ہوسکے۔ کراچی کے سول اسپتال کا بے نظیر ٹراما سینٹر10سال میں تعمیر ہوا مگر مراد علی شاہ کی تعیناتی کے بعد ترقی کا عمل تیزتر ہوا۔
اس سال کووڈ ۔19 کے بحران میں سندھ حکومت کا قابل قدر کردار سامنے آیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سب سے پہلے کووڈ کے خطرات کو محسوس کیا ، یوں سندھ میں سب سے پہلے لاک ڈاؤن ہوا اور حکومت نے کورونا کے مریضوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ایک معیاری نظام قائم کیا۔ سندھ کی حکومت کی اس کارکردگی کو مخالفین بھی سراہنے پر مجبور ہوئے مگر ترقی کے دوسرے حقائق خاصے مایوس کن ہیں۔
ایک اہم مسئلہ ملازمتوں کا ہے۔ صنعتی ترقی نہ ہونے اور سروس سیکٹرکی غیر یقینی صورتحال کی بناء پر متوسط اور نچلے طبقہ کے لیے سرکاری ملازمتوں کے علاوہ زندگی گزارنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے مگر اس صوبہ میں میرٹ پر ملازمت ملنے کے واقعہ کو صدی کے اہم واقعات میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ایک مسئلہ تو گریڈ 1 سے گریڈ 15 تک تقرریوں کا ہے۔
ان تقرریوں میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔ گریڈ 16 سے20گریڈ تک دیہی اور شہری کوٹہ کا ہے۔ 1970ء میں جنرل یحییٰ خان کے دور میں گورنر لیفٹیننٹ جنرل رحمان گل نے دیہی اور شہری کوٹہ نافذ کیا تھا تو اس وقت اندرون سندھ میں تعلیمی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صوبہ میں دو یونیورسٹیاں اور دو میڈیکل کالج تھے مگر اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔
ہر ضلع میں اسکو لز اور کالجز ہیں۔ یونیورسٹیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ تعلیمی معیار بھی بلند ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی ایس ایس کے امتحانات میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی شاندار کارکردگی سامنے آتی ہے۔ یوں کوٹہ کا نظام ان کی قابلیت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے، سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم ہوچکی ہے۔
جب بھی کمیشن کے امتحانات منعقد ہوتے ہیں کئی اسکینڈلز ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے ہیں۔ اگر بلاول بھٹو زرداری یہ سمجھتے ہیں کہ میرٹ سے ہی ترقی ممکن ہے تو انھیں سندھ پبلک سروس کمیشن کی تنظیم نو کے بارے میں سوچ بچار کرنی چاہیے اور قانونی سقم کو دور کرکے اس ادارہ کو ایک طاقتور ادارہ بنانا چاہیے تاکہ باقی صوبے بھی مجبور ہو کر سندھ کی پیروی کریں۔ 5گریڈ اور اس سے اوپر کی تمام ملازمتوں پر تقرر کے لیے پبلک سروس کمیشن کو بااختیار بنانا وقت کی ضرورت ہے۔
سندھ کا محکمہ تعلیم بدعنوانی کی آماجگاہ ہے۔ اس کلچر کی بناء پر کراچی کے اہم اسکولوں اور کالجوں کے مقدمات حکومت سندھ عدالتوں میں ہار گئی اور یہ تعلیمی ادارے نجی تحویل میں چلے گئے۔ ان تعلیمی اداروں کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی انقلابی تعلیمی پالیسی کے نتیجہ میں قومیایا گیا تھا اور یہاں طلبہ اور اساتذہ کا استحصال ختم ہوگیا تھا۔
حکومت سندھ تاحال تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے قابل عمل پالیسی نافذ نہیں کرسکی۔ اب بھی سندھ کے اسکولوں میں لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ ہونے کی شرح زیادہ ہے۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح میں کمی نہیں ہوپائی۔ حکومت کو بجٹ میں اس طرح کی اسکیم شامل کرنی چاہیے تھی کہ والدین کے لیے اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں کو اسکول میں داخل کرانے میں کشش محسوس ہو۔ سندھ کے چار تعلیمی بورڈ کے سربراہوں کی تقرری کی سمری پانچ ماہ سے منظوری کی منتظر ہے۔
بجٹ پر ایک تنقید یہ ہے کہ تعلیمی منصوبوں میں کراچی اور حیدرآباد کو نظرانداز کیا گیا ہے، کراچی یونیورسٹی اس کا واضح شکار ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی آمدنی کا انحصار ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹ اور فیسوں پر ہے۔ ایچ ای سی کی گرانٹ ناکافی ہے۔ کراچی یونیورسٹی فیسوں میں اضافے سے کام چلاتی ہے جس سے غریب طالب علم براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی انفرااسٹرکچر کے اعتبار سے دیگر یونیورسٹیوں سے پسماندہ ہے۔ یونیورسٹی کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ بعض شعبوں میں اب بھی اساتذہ تخت سیاہ اور چاک استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں نثار کھوڑو چند سال قبل جب وزیر تعلیم تھے تو وہ کراچی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
انھوں نے اس موقعے پر یہ خوش خبری سنائی تھی کہ شعبہ ابلاغ عامہ میں ٹیلی وژن لیب قائم کی جائے گی مگر وہ یہ خوش خبری سنا کر بھول گئے۔ دو سال قبل وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر میں یہ زبردست اعلان کیا تھا کہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں صحافیوں کی تربیت کے لیے انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے گا۔ معروف صحافی مظہر عباس نے کوشش کی کہ وزیر اعلیٰ کا اعلان عملی شکل اختیار کرلے مگر ان کے پاس اس تناظر میں صرف مایوسی کیسوا کچھ نہیں تھا۔
پبلک ٹرانسپورٹ عوام کا انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ حالت یہ ہے کہ عام شہری چائنہ موٹر سائیکل وین جو چنگ چی کے نام سے مشہور ہے کو ہی پبلک ٹرانسپورٹ سمجھتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بڑا بورڈ سے گرومندر تک میٹروبس کا ٹریک گرین لائن تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا ۔اس موقع پر قائم علی شاہ نے اعلان کیا تھا کہ شہر میں دیگر مرکزی شاہراہوں پر بھی ایسی لائنیں تعمیر کی جائیں گی مگر یہ محض اعلانات ہی رہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ صرف کراچی یا حیدرآباد نہیں بلکہ سندھ کے ہر شہر کا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے اقدامات ہوئے۔
ریلوے وفاق کا شعبہ ہے، یوں یہ معاملہ وزارت ریلوے کے سپرد ہوا۔ صوبوں کو بااختیار کرنے اور 18ویں ترمیم پر تحقیق کرنے والے امجد بھٹی کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے ذریعہ صوبائی حکومتیں شہروں میں سرکلر ریلوے کا نظام قائم کرسکتی ہیں مگر حکومت سندھ کے پالیسی تیار کرنے والے اکابرین اس طرف توجہ دینے کے روادار نہیں ہیں۔
سندھ میں صحت کا شعبہ خاصا بہتر ہوا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ درست ہے کہ سندھ کے چار اسپتالوں کا شمار ملک کے بہترین اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ ان اسپتالوں کے معیار کی بہتری ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر بھٹی اور ڈاکٹر قمر جیسے انسانیت دوست ڈاکٹروں کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔
سندھ کے شہر اور گاؤں کوڑے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ حکومت سندھ نے کراچی سے کچرا اٹھانے کے لیے چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا تھا۔ یہ تجربہ ناکام ہوگیا۔ سندھ میں منتخب بلدیاتی ادارے اگست میں اپنی معیاد پوری کریں گے مگر میئر صاحبان اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے ہیں۔
بلدیات کا قانون اتنا ناقص ہے کہ شہر میں کئی اداروں کی ذمے داری کچرا اٹھانے اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے کی ہے۔ بلدیاتی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون اتنا گھمبیر ہے کہ کوئی ادارہ شہر کی Ownership نہیں لے سکتا۔ حکومت بااختیار بلدیاتی نظام قائم کر کے ترقی کے عمل کو تیز کرسکتی ہے۔بہرحال 12کھرب 14ارب روپے کے بجٹ کو شفافیت کے ساتھ خرچ کیا جائے تو سندھ ایک ماڈل صوبہ بن سکتا ہے۔