وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے جوڑ توڑ

جام حکومت نے اپوزیشن کی تنقید اور مخالفت کے باوجود صوبائی بجٹ2020-21 کو منظور کرا لیا ہے۔

جام حکومت نے اپوزیشن کی تنقید اور مخالفت کے باوجود صوبائی بجٹ2020-21 کو منظور کرا لیا ہے۔ فوٹو : فائل

بلوچستان نیشنل پارٹی کی وفاق میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی کے بعد اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں میں تیزی آگئی ہے جبکہ اس سیاسی صورتحال کے بلوچستان کی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

بی این پی جو بلوچستان میں جے یو آئی (ف) کی اتحادی جماعت ہے اور جام حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے مرکز میں بی این پی کی علیحدگی کے بعد اب دونوں جماعتوں میں وفاقی سطح پر بھی قربتیں بڑھ رہی ہیں۔

جے یوآئی (ف) کی قیادت نے مرکزی اور بلوچستان کی سیاست کو اس حوالے سے فوکس کر رکھا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت سے ناراض بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دیگر اتحادیوں جن میں جے ڈبلیو پی کے رکن قومی اسمبلی نوابزادہ شازین بگٹی اور آزاد رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی شامل ہیں سے رابطے کئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی ان ناراض اتحادی اراکین قومی اسمبلی سے رابطے کئے۔

یہاں تک کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے شاہ زین بگٹی اور اسلم بھوتانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس کے بعد ان دونوں اراکین قومی اسمبلی نے بجٹ میں حکومت کی حمایت کی تاہم بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور نوابزادہ شاہ زین بگٹی کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں خصوصاً سردار اختر مینگل اور شاہ زین بگٹی سے بھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر رہنماؤں نے رابطے کئے ہیں ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مستقبل قریب میں کوئی بڑا اتحاد بنانے کیلئے سر توڑ کوششیں کررہی ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں مرکز کی طرح جے ڈبلیو پی کی ایک نشست ہے اور نوابزادہ شازین بگٹی کے چھوٹے بھائی نوابزادہ گہرام بگٹی جام حکومت کی حمایت کر رہے ہیں اسی طرح آزاد رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی کے بڑے بھائی سردار صالح بھوتانی جام کابینہ کا حصہ ہیں اور ان کا تعلق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔


سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کی کوشش ہے کہ وہ مرکز میں پی ٹی آئی حکومت سے نالاں ان دونوں اتحادی اراکین قومی اسمبلی کو بلوچستان کیلئے بھی تیار کرے تاکہ وہ اپنا ذاتی اثر و رسوخ اپنے بھائیوں پر استعمال کریں اور انہیں جام حکومت کے خلاف کردار ادا کرنے کیلئے تیار کیا جائے کیونکہ بلوچستان میں اس وقت متحدہ اپوزیشن کی تعداد24 ہے (جمعیت کے ایک اپوزیشن رکن سید فضل آغا کے انتقال کے بعد یہ تعداد گھٹ کر 23 ہوگئی ہے) اور65 کے ایوان میں متحدہ اپوزیشن کو33 ارکان کی ضرورت ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں متحدہ اپوزیشن جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کررہی ہے تاہم مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کیلئے اُسے دس ارکان کی ضررت ہے جس کیلئے وہ جام حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطے کر رہی ہے اپوزیشن جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کی سپورٹ کرنے والی جماعت اے این پی کو راضی کرلے کہ وہ بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دے جس کے بلوچستان اسمبلی میں 4 ارکان ہیں اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بی این پی (عوامی) اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی رابطے کررہی ہیں جن کی بلوچستان اسمبلی میں تعداد بالترتیب3 اور2 ہے اس کے علاوہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان سے بھی انڈر گراؤنڈ رابطوں کے دعوے کئے جارہے ہیں، اس میں کس حد تک صداقت ہے یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

بلوچستان میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کی رہائش گاہ ''ساراوان ہاؤس'' اپوزیشن جماعتوں کے رابطوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی جو کہ بلوچستان اسمبلی میں آزاد حیثیت سے اپوزیشن بنچ پر بیٹھے ہیں اُن کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں نے انہیں قیادت کی ذمہ داری سونپ دی تو وہ بی این پی یا جمعیت علماء اسلام میں سے کسی ایک جماعت کو جوائن کرسکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں بجٹ اجلاس کے دوران انہیں اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ والی نشست جو کہ جے یو آئی(ف)کے سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی الاٹ کی گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں جام حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بی این پی کے مرکزی رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی نے بھی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطوں کی تصدیق کی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عددی اعتبار سے اپنا ہدف پورا کرتی ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب جام حکومت نے اپوزیشن کی تنقید اور مخالفت کے باوجود صوبائی بجٹ2020-21 کو منظور کرا لیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ارکان اسمبلی کے درمیان زبردست نوک جھونک ہوتی رہی بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ غیر متوازن ہے اپوزیشن کے حلقوں اور اہم شعبوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ بجٹ مفاد پرستوں کیلئے بنایا گیا ہے اسی لئے وہ اسے مسترد کرتے ہیں، جبکہ حکومتی ارکان نے بجٹ کو متوازن اور تاریخ ساز قرار دیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ بجٹ میں انفرادی اسکیموں کے بجائے اجتماعی منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے اور اپوزیشن کے ارکان کے حلقوں کو بھی یکساں اہمیت دی گئی ہے حالانکہ اپوزیشن ارکان اپنی ذاتی اسکیموں کو شامل کرانے کیلئے سڑکوں پر بیٹھے رہے۔ وزیراعلیٰ نے ان کی انفرادی اسکیموں کو مسترد کیا اور اجتماعی اسکیموں کو فوقیت دی۔
Load Next Story