بجٹ منظور مگر حکومت کی مشکلات کم نہ ہوئیں
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوامی سطح پر اضطراب،ہیجان اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔
وفاقی بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے لئے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور مزاحمت کے تمام تر دعوے ریت کے گھروندے ثابت ہوئے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی بجٹ پر بحث محض روایت پوری کرنے تک محدود رہی۔
منظوری سے قبل فنانس بل کا قائمہ کمیٹیوں برائے خزانہ کے اجلاسوںمیں بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے عرق ریزی کے ساتھ سفارشات تیار کرکے پارلیمنٹ کو بھجوائیں۔
اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ فنانس بل میں کوئی ایک ترمیم بھی منظور نہیں کروا پائی۔ کپتان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی اسد عمر نے بجٹ منظوری کے بعد اپنے ٹویٹ میں اپوزیشن کو آئینہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس سال بجٹ منظوری کیلئے پچھلے سال کی نسبت زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
ان کا دعوی اپنی جگہ درست ہوگا لیکن اتحادی جماعتوں کے درمیان دراڑ مزید واضع ہوگئی ہے اور اہم اتحادی جماعت کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومت کے بجائے اپوزیشن کو ووٹ دیا ہے۔ بجٹ منظور ہوچکا اور ان سطور کی اشاعت تک فنانس بل پر صدر مملکت کے دستخط کے بعد ایکٹ کی صورت میں یکم جولائی سے اگلے مالی سال کے بجٹ کا نفاذ بھی عمل میں آجائیگا اوراسکے اثرات بھی نمودار ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ملک کے تمام نامور معاشی ماہرین،بڑے کاروباری ادارے، شخصیات اور عوامی حلقے بجٹ سے خوش نہیں۔ سرکاری ملازمین تنخواہیں نہ بڑھنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ اب تو اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی کھلے عام کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ آگے بھی اندھیرا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کے پہلے سال کی جو آڈٹ رپورٹس سامنے آرہی ہیں اس نے تو حکومتی دعووں کی مزید قلعی کھول کررکھ دی ہے۔ اب تک اطلاعات یہ ہیں کہ اس آڈٹ رپورٹس میں تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال کے دوران دو سو ستر ارب روپے کے لگ بھگ کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ابھی یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہونا ہے اور تقدیر کی ستم ظریفی دیکھیں کہ آج اس آڈٹ رپورٹ پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وہی جواز اوردلائل پیش کررہی ہے جو ماضی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں پیش کیا کرتی تھیں مگر اس وقت تحریک انصاف اپوزیشن بنچوں میں بیٹھ کر ان دلائل کو مسترد کیا کرتی تھی۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا انداز اور باڈی لینگوئج اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اب وہ پہلے والا ماحول نہیں رہا۔ پچھلے دو سال تک کپتان کا بیانیہ رہا کہ کرپش کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا لیکن جب سے چینی سکینڈل اور اس طرح کے دوسرے سکینڈل منظرعام پر آئے ہیں اب یہ بیانیہ سامنے آیا ہے کہ کرپٹ مافیا کا دفاع کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس وقت موجودہ حکومت کی ناکامی کا خوف زیادہ حاوی ہو چکا ہے جبکہ کوئی متبادل بھی دکھائی نہیں دیتا۔
میاں شہبازشریف جو کورونا وبا میں قومی خدمت کا جذبہ لے کر پاکستان آئے تھے اب دوبارہ لندن اُڑان بھرنے کیلئے پر تولتے دکھائی دے رہے ہیں اور خود حکومتی حلقوں سے لوگ ان کے کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں تو دوسری جانب خود حکومتی ٹیم کے اندر بھی پھر سے تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں کے درمیان کھچاو بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
پنجاب میں حکومت کی اہم اتحادی جماعت ق لیگ سے بھی دوریاں بڑھنے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے دیئے جانیوالے حالیہ اعشایئے میں شرکت نہ کرکے ق لیگ نے واضع پیغام دیا ہے اور پھر ق لیگ نے وزیراعظم کے مقابلہ میں اپنا عشائیہ دے کر مزید مشکل کھڑی کردی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ مگر معاشی بگاڑ جس تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ بڑے خطرے کی علامت ہے اور اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ ابھی حال ہی میں جو پارلیمانی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے اس نے سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
وزیراعظم نے آنے والے چھ ماہ کو تخت یا تختے والی صورت قرار دیا ہے۔ یقیناً انہیں فرینڈلی اپوزیشن سے تو کوئی خطرہ نہیں پھر یہ صورت کیونکر سامنے آئی ہے اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ دوسری جانب سیاسی جوڑ توڑ پھر سے جاری ہے۔ لندن میں جہانگیر ترین کی نوازشریف سے ملاقات کی کوششوں کی اطلاعات ہیں اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سیاسی بساط پلٹنے میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ہی میاں نوازشریف اور مریم نواز ہیں جو اپنے بیانیہ سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ابھی نوازشریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوسکی ہے۔
بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں اور ایسے میں 2020 وسط مدتی انتخابات کا سال ہو سکتا ہے جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگلے چند ماہ میں میاں نوازشریف کی ملکی سیاست میں انٹری ہونیوالی ہے اور نواز شریف بھی مکمل صحت مند ہو کر واپس آنے والے ہیں ان کی آمد کا خوف بھی حکومت کو پریشان کر رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوامی سطح پر اضطراب،ہیجان اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ حالات مکمل طور پر وزیراعظم کی گرفت سے نکل چکے ہیں اسی لیے قومی اسمبلی میں کی جانے والی ان کی حالیہ تقریر کا لب و لہجہ اور اسلوب معذرت خواہانہ تھا۔ معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والی بلوچستان کی اہم اتحادی جماعت بی این پی نے حکومت کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ شازین بگٹی اور دوسرے اتحادی اور ہم خیال بھی ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سیاسی تبدیلی کا آغاز بلوچستان سے ہوا چاہتا ہے اور دوسری طرف قومی اسمبلی میں حکمران پارٹی کے اپنے ایم این ایز وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کے مشورے دے رہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ اتحادی ق لیگ اور ایم کیو ایم کی ناراضی ڈھکی چھپی بات نہیں اورفواد چودھری کا انٹرویو بتا رہا ہے کہ اندرون خانہ حکومت کے حالات نہایت ہی پتلے ہیں۔جہانگیر خان گروپ کی طرف سے بغاوت کی تلوار الگ سر پر لٹک رہی ہے۔
منظوری سے قبل فنانس بل کا قائمہ کمیٹیوں برائے خزانہ کے اجلاسوںمیں بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے عرق ریزی کے ساتھ سفارشات تیار کرکے پارلیمنٹ کو بھجوائیں۔
اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ فنانس بل میں کوئی ایک ترمیم بھی منظور نہیں کروا پائی۔ کپتان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی اسد عمر نے بجٹ منظوری کے بعد اپنے ٹویٹ میں اپوزیشن کو آئینہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس سال بجٹ منظوری کیلئے پچھلے سال کی نسبت زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
ان کا دعوی اپنی جگہ درست ہوگا لیکن اتحادی جماعتوں کے درمیان دراڑ مزید واضع ہوگئی ہے اور اہم اتحادی جماعت کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومت کے بجائے اپوزیشن کو ووٹ دیا ہے۔ بجٹ منظور ہوچکا اور ان سطور کی اشاعت تک فنانس بل پر صدر مملکت کے دستخط کے بعد ایکٹ کی صورت میں یکم جولائی سے اگلے مالی سال کے بجٹ کا نفاذ بھی عمل میں آجائیگا اوراسکے اثرات بھی نمودار ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ملک کے تمام نامور معاشی ماہرین،بڑے کاروباری ادارے، شخصیات اور عوامی حلقے بجٹ سے خوش نہیں۔ سرکاری ملازمین تنخواہیں نہ بڑھنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ اب تو اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی کھلے عام کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ آگے بھی اندھیرا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کے پہلے سال کی جو آڈٹ رپورٹس سامنے آرہی ہیں اس نے تو حکومتی دعووں کی مزید قلعی کھول کررکھ دی ہے۔ اب تک اطلاعات یہ ہیں کہ اس آڈٹ رپورٹس میں تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال کے دوران دو سو ستر ارب روپے کے لگ بھگ کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ابھی یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہونا ہے اور تقدیر کی ستم ظریفی دیکھیں کہ آج اس آڈٹ رپورٹ پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وہی جواز اوردلائل پیش کررہی ہے جو ماضی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں پیش کیا کرتی تھیں مگر اس وقت تحریک انصاف اپوزیشن بنچوں میں بیٹھ کر ان دلائل کو مسترد کیا کرتی تھی۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا انداز اور باڈی لینگوئج اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اب وہ پہلے والا ماحول نہیں رہا۔ پچھلے دو سال تک کپتان کا بیانیہ رہا کہ کرپش کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا لیکن جب سے چینی سکینڈل اور اس طرح کے دوسرے سکینڈل منظرعام پر آئے ہیں اب یہ بیانیہ سامنے آیا ہے کہ کرپٹ مافیا کا دفاع کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس وقت موجودہ حکومت کی ناکامی کا خوف زیادہ حاوی ہو چکا ہے جبکہ کوئی متبادل بھی دکھائی نہیں دیتا۔
میاں شہبازشریف جو کورونا وبا میں قومی خدمت کا جذبہ لے کر پاکستان آئے تھے اب دوبارہ لندن اُڑان بھرنے کیلئے پر تولتے دکھائی دے رہے ہیں اور خود حکومتی حلقوں سے لوگ ان کے کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں تو دوسری جانب خود حکومتی ٹیم کے اندر بھی پھر سے تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں کے درمیان کھچاو بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
پنجاب میں حکومت کی اہم اتحادی جماعت ق لیگ سے بھی دوریاں بڑھنے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے دیئے جانیوالے حالیہ اعشایئے میں شرکت نہ کرکے ق لیگ نے واضع پیغام دیا ہے اور پھر ق لیگ نے وزیراعظم کے مقابلہ میں اپنا عشائیہ دے کر مزید مشکل کھڑی کردی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ مگر معاشی بگاڑ جس تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ بڑے خطرے کی علامت ہے اور اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ ابھی حال ہی میں جو پارلیمانی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے اس نے سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
وزیراعظم نے آنے والے چھ ماہ کو تخت یا تختے والی صورت قرار دیا ہے۔ یقیناً انہیں فرینڈلی اپوزیشن سے تو کوئی خطرہ نہیں پھر یہ صورت کیونکر سامنے آئی ہے اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ دوسری جانب سیاسی جوڑ توڑ پھر سے جاری ہے۔ لندن میں جہانگیر ترین کی نوازشریف سے ملاقات کی کوششوں کی اطلاعات ہیں اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سیاسی بساط پلٹنے میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ہی میاں نوازشریف اور مریم نواز ہیں جو اپنے بیانیہ سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ابھی نوازشریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوسکی ہے۔
بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں اور ایسے میں 2020 وسط مدتی انتخابات کا سال ہو سکتا ہے جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگلے چند ماہ میں میاں نوازشریف کی ملکی سیاست میں انٹری ہونیوالی ہے اور نواز شریف بھی مکمل صحت مند ہو کر واپس آنے والے ہیں ان کی آمد کا خوف بھی حکومت کو پریشان کر رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوامی سطح پر اضطراب،ہیجان اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ حالات مکمل طور پر وزیراعظم کی گرفت سے نکل چکے ہیں اسی لیے قومی اسمبلی میں کی جانے والی ان کی حالیہ تقریر کا لب و لہجہ اور اسلوب معذرت خواہانہ تھا۔ معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والی بلوچستان کی اہم اتحادی جماعت بی این پی نے حکومت کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ شازین بگٹی اور دوسرے اتحادی اور ہم خیال بھی ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سیاسی تبدیلی کا آغاز بلوچستان سے ہوا چاہتا ہے اور دوسری طرف قومی اسمبلی میں حکمران پارٹی کے اپنے ایم این ایز وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کے مشورے دے رہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ اتحادی ق لیگ اور ایم کیو ایم کی ناراضی ڈھکی چھپی بات نہیں اورفواد چودھری کا انٹرویو بتا رہا ہے کہ اندرون خانہ حکومت کے حالات نہایت ہی پتلے ہیں۔جہانگیر خان گروپ کی طرف سے بغاوت کی تلوار الگ سر پر لٹک رہی ہے۔