یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ جامعات کی خود مختاری پر براہِ راست حملہ

اساتذہ اور وائس چانسلر کی جگہ بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کو یونیورسٹی سینڈیکٹ کا ممبر بنایا جارہا ہے

ترمیمی ایکٹ کی منظوری سے تعلیم مہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

وفاقی حکومت نے بجٹ میں ایچ ای سی کے فنڈز میں کٹوتی کردی۔ یہ ایک عام سی خبر تھی، عام پاکستانی کو اس خبر سے کوئی غرض نہیں تھی، لیکن مجھ جیسے ہزاروں طلبا و طالبات پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ میں ابھی اس صدمے سے باہر نہیں آئی تھی کہ اخبارات میں پبلک سیکٹر ترمیمی ایکٹ 2020 کی خبریں تواتر سے آنا شروع ہوگئیں۔ یہ خبریں محض ایک اخباری تراشہ نہیں تھیں بلکہ یونیورسٹیز کی خودمختاری سلب کرنے کا اعلان تھیں۔

میں نے مختلف ذرائع سے ان خبروں کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ جس کے حقائق رونگٹے کھڑے کردینے والے تھے۔ اس وقت ملک بھر میں جہاں یونیورسٹیز مالی مشکلات کا شکار ہیں، وہیں پنجاب حکومت نے جامعات کو انتظامی طور پرمفلوج کرنے کےلیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ حکومت پنجاب نے پبلک سیکٹر یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ 2020 کے ذریعے جامعات کی خودمختاری ختم کرنے کےلیے عملی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ ترمیمی ایکٹ کی منظوری سے تعلیم مہنگی ہونے کا خدشہ ہے، جبکہ جامعہ کے انتظامی اور معاشی معاملات پر وائس چانسلر کا اختیار ختم ہوجائے گا۔ مجوزہ ایکٹ کے تحت یونیورسٹیز سینڈیکٹ کا چیئرمین وائس چانسلر کی جگہ ریٹائرڈ جج یا بیورو کریٹ لگایا جائے گا۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ سینڈیکٹ یونیورسٹی کے انتظامی، مالی اور تحقیقی معاملات کے حوالے سے ایجنڈا سیٹ کرتا ہے۔ اب اگر کوئی فرد یونیورسٹی کے باہر سے ہوگا تو وہ ان معاملات کو بہتر انداز میں دیکھ نہیں سکے گا۔

سینڈیکٹ میں وائس چانسلر کا کردار ایک کٹھ پتلی کی طرح ہوگا۔ پوری دنیا میں وائس چانسلر کو ایک علمی شناخت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن مجوزہ ایکٹ میں وائس چانسلر کو ایک عام فرد یا سول سرونٹ کے طور پر دیکھا جائے گا۔ وائس چانسلر کے اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو 2002 سے قبل والی جامعات میں وائس چانسلر سینڈیکٹ کو چیئر کرتا ہے، یعنی وہ جامعات عملی طور پر خودمختار تصور کی جاتی ہیں۔ 2002 سے 2008 تک کی جامعات کی سینڈیکٹ کی سربراہی وائس چانسلر کرتا ہے، لیکن اس سینڈیکٹ میں اساتذہ کی نمائندگی موجود نہیں ہے۔ اب 2008 کے بعد کی جامعات کے سینڈیکٹ کی سربراہی وزیر ہائر ایجوکیشن کو دے دی گئی ہے جبکہ اب وزیر ہائر ایجوکیشن کی جگہ تمام یونیورسٹیز کےسینڈیکٹ کی سربراہی ریٹائرڈ جج یا بیورو کریٹ کو دے دی گئی۔ اس ایکٹ کے ذریعے اساتذہ، وائس چانسلر اور وزیر ہائر ایجوکیشن کا کردار بھی محدود کردیا گیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے عملی طور پر ہائر ایجوکیشن کو پستی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ترمیمی ایکٹ کے اثرات کیا ہوں گے؟ اس کو آسان الفاظ میں سمجھایا جائے تو وائس چانسلر کا کردار ختم ہونے کے باعث یونیورسٹیز اخراجات چلانے کےلیے بیوروکریٹس اور ججز اپنے فیصلے لیں گے۔ بجٹ پورا کرنے کےلیے فیسوں میں اضافہ کریں گے، جس کے باعث تعلیم مہنگی ہوجائے گی۔ انتظامی معاملات میں وائس چانسلر کا کردار ختم ہونے کے باعث تحقیقی کلچر ختم ہوجائے گا۔ معیاری تعلیم پر سوال اٹھنا شروع ہوجائیں گے۔ مجوزہ ایکٹ سے جامعات میں سیاسی مداخلت بڑھنے کا خدشہ بھی ہے۔ پرانی جامعات کے سینڈیکٹ میں پنجاب اسمبلی کا ایک ممبر شامل ہوتا تھا۔ 2002 کے بعد والی جامعات میں تین ایم پی ایز کو نمائندگی دی گئی اور اب بھی اسی طریقہ کار کو تمام جامعات پر لاگو کیا جائے گا۔ اس عمل سے سیاسی مداخلت بڑھنے کے خدشات مزید پختہ ہوجاتے ہیں۔ پہلے سینڈیکٹ میں سیکریٹری فنانس اور سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کی صورت میں دو بیورو کریٹس شامل ہوتے تھے، اب سینڈیکٹ میں سیکریٹری قانون، سیکریٹری زراعت اور بعض جامعات میں سیکریٹری صنعت و حرفت کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔


یعنی اساتذہ اور وائس چانسلر کی جگہ بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کو یونیورسٹی سینڈیکٹ کا ممبر بنایا جارہا ہے۔ اس سے ہر ذی شعور انسان کے سمجھنے کےلیے کافی ہے کہ تعلیم کے فیصلے اساتذہ کے بجائے بیورو کریٹس اور سیاستدان کریں گے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ مجوزہ ترمیمی ایکٹ کی تیاری کے دوران پنجاب حکومت کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز سے کسی بھی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی، یہاں تک کہ یونیورسٹیز کے چانسلر گورنر پنجاب کو بھی نہیں پوچھا گیا؟ کیا وائس چانسلر کو محکمہ ہائر ایجوکیشن کے ڈپٹی سیکریٹری کا کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیا دنیا کی کسی ایک اچھی یونیورسٹی کی مثال ہے جو حکومت کے ماتحت ہو؟ خودمختاری اور وسائل کی فراہمی سے یونیورسٹیاں ترقی کرتی ہیں۔ ملک کا مستقبل بیورو کریسی کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ اس پر کنٹرول کرنے کےلیے بیورو کریسی نے خود ہی مجوزہ ترمیمی ایکٹ کا مسودہ تیار کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ طریقہ کار بیورو کریسی کی بچگانہ حرکتوں کے مترادف نہیں ہے۔

حیران ہوں کہ یہ کیسا ترمیمی ایکٹ ہے جس کے بارے اساتذہ کو لاعلم رکھا گیا۔ وائس چانسلرز سے ان کی رائے نہیں لی گئی۔ طلبا نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ محض بیورو کریسی کے چند نامور اور اثر و رسوخ کے حامل افراد نے بیک جنبش قلم طلبا کے مستقبل پر سوال کھڑا کردیا۔ مشرف دور میں بھی تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایسے ہی تجربات کیے گئے جن کے اثرات سے جامعات آج بھی نکل نہیں پائیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے پاس آنے سے اس پر مزید تجربات کیے جارہے ہیں۔ ان تجربات کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ لیکن طاقت کے نشے میں مگن بیورو کریسی اور حقائق سے بے خبر سیاست دان نتائج کی پروا کیے بغیر ہی فیصلے کیے جارہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل وائس چانسلرز، اساتذہ اور طلبا نمائندوں کی رائے جانی جائے۔ ان کے تحفظات دور کرنے کے بعد ہی کوئی بھی فیصلہ لیا جائے۔ تاکہ ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جاسکے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story