پاکستانی ارطغرل

پاکستانی ارطغرل سے گزارش ہے تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی صفوں سے میر جعفر اور میر صادق کو باہر کریں


عمران خان اور ارطغرل میں گہری مماثلت ہے۔ (فوٹو: فائل)

اگر آپ باریک بینی سے جائزہ لیں تو آپ کو عمران خان اور ارطغرل میں گہری مماثلت نظر آئے گی۔ جیسے مثال کے طور پر ارطغرل ایک چھوٹے سے قبیلے میں پیدا ہوا، لیکن قدرت نے اسے ایک لازوال سپہ سالار، ایک بڑی ریاست کا معمار اور ایک بڑا سیاست دان بنایا۔ ارطغرل کا خیال تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی اسلامی ریاست بنا سکتا ہے۔

دوسری جانب عمران خان بھی ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوئے، محنت کرکے کرکٹ میں نام کمایا، پاکستان کو ورلڈکپ جتوایا، پھر کینسر اسپتال کے بعد وہ سیاست کی پرخار وادی کے مسافر بنے، اور ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت کے سربراہ بنے۔

اقتدار میں آنے سے پہلے ارطغرل کی طرح خان صاحب کا بھی خیال تھا کہ وہ حکومت میں آکر اپنے لوگوں کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ مگر بقول شاعر
یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجیے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

ارطغرل کی طرح خان صاحب کی سیاسی زندگی میں اول روز سے خواری شروع ہوتی ہے۔ اپنے، پرائے سب دکھ دیتے ہیں۔ مذاق اڑایا جاتا ہے، ہر طرح سے ستایا جاتا ہے۔ لیکن خان ''ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان'' کے الفاظ کی عملی تعبیر بن جاتا ہے۔

ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد جب خان صاحب اقتدار میں آتے ہیں تو غیروں کے بجائے ان کے اپنے ہی ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ارطغرل کی پشت میں بھی اس کا قریب ترین دوست خنجر سے وار کرتا ہے۔ خان صاحب کی پشت پر بھی ان کے انتہائی قریب ترین دوست وار کرتے ہیں۔ ارطغرل کی حالت بھی شیر کے اس بچے کی طرح ہوتی ہے جو بلی کے بچوں کے درمیان آجائے۔ جبکہ عمران خان آج جب 22 سال کی طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے ہیں تو ان کی اور ان کے رفقائے کار کی حالت زار اس شعر کی عملی تعبیر ہے (خان صاحب اور ان کے دوستوں کی حکومت میں آنے کے بعد کی اپوزیشن کے جیسی تقاریر اس بات کا بہترین ثبوت ہیں)
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب خان صاحب کا ساتھ دیں۔ کیونکہ اگر خان صاحب کامیاب ہوگئے تو یہ عظیم اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو کم ازکم پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور ایسا صرف عمران خان ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ خان صاحب ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف پاکستان کےلیے سوچتے ہیں۔ خان صاحب کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں ہے (اگرچہ ان کے اقدامات سے ظاہری طور پر لگتا ہے کہ کسی اور کا کاروبار بھی نہ رہے) ان کا بلاول یا مریم آئندہ وزیراعظم کی امیداور نہیں ہے۔ خان صاحب کے بھائی، بہن، بہنوئی یا کوئی اور عزیز سیاست میں نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کی خاطر اپنے عزیز ترین دوستوں تک کو قربان کرسکتے ہیں (جہانگیر ترین اس کی تازہ ترین مثال ہیں) یہ ضرورت پڑنے پر ہر وہ کام کرسکتے ہیں جو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہو (کرتارپور راہداری اس کی بہترین مثال ہے)۔ الغرض خان صاحب میں وہ تمام خوبیاں ہیں جن کی بدولت وہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو تاریخ میں ہمیشہ کےلیے زندہ کرسکتے ہیں۔

لیکن اگر ہم نے خان صاحب کا ساتھ نہ دیا اور حسب سابق نعروں اور وعدوں پر یقین کرلیا تو یاد رکھیے بہت جلد اس ملک پر بلاول یا مریم کی حکومت ہوگی، اور ان کے والد کی عمر کے سیاست دان ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے یا پھر سیلیوٹ کررہے ہوں گے۔ اور عوام ''تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد'' جیسے ترانے گارہے ہوں گے۔

آئیے ہم سب پاکستان کی خاطر پاکستانی ارطغرل کے ہاتھ مضبوط کریں اور ہمارے ارطغرل سے بھی گزارش ہے تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی صفوں سے میر جعفر اور میر صادق کو باہر کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں