بھارتی دہشت گردی اور عالمی بے حسی
مقبوضہ کشمیر میں دھڑا دھڑ ہندو منتقل ہورہے ہیں جن کو فوری بنیادوں پر ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدرکے افغان ایلچی زلمے خلیل زاد سے ملاقات کے دوران انھیں کراچی اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں بھارتی کردار سے آگاہ کیا۔
اس موقعے پر وزیرخارجہ نے کالعدم تنظیم بی ایل اے کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے ان کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے زلمے خلیل زاد کو بھارتی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی بھارت میں داخلی انتشار بڑھتا ہے تو وہ اس سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی شروع کرا دیتا ہے جس طرح مقبوضہ جموں و کشمیر پر عالمی توجہ بڑھنے پر بھارت نے پلوامہ کا ڈراما رچایا تھا۔
بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں، قیام پاکستان ہی سے وہ اس کے خلاف اپنی سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔ 1965 کی جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت نے پاکستان کے اندر ایسے سیاستدانوں اور تنظیموں کی پشت پناہی شروع کردی جو داخلی سطح پر ملک میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرسکیں۔
ایسے ہی سیاستدانوں کے تعاون سے1971 میں وہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں کامیاب ہوگیا، اب انھیں حربوں اور ریشہ دوانیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ بلوچستان میں وہی گھناؤنا کھیل ،کھیل رہا ہے جو اس نے مشرقی پاکستان میں کھیلا تھا۔ شومئی قسمت سے اسے یہاں بھی ایسے شرپسندوں کی معاونت حاصل ہو گئی ہے جو اس کے مقاصد پورے کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے افغانستان میں جا ملتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کو اس صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا لیکن کابل حکومت نے ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔اب ایک بار پھر زلمے خلیل زاد سے ملاقات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں موجود بی ایل اے کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ بھارت افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔
بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے لیے جہاں افغانستان کی سرزمین کو بیس کیمپ بنائے ہوئے ہے وہاں وہ خفیہ طور پر ایران کے راستے بھی اپنی سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف عمل ہے جس کی واضح مثال بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ہے جو بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہا تھا۔ جس طرح بلوچستان اورشمالی وزیرستان میں آئے دن دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اس سے اس تاثرکو تقویت ملتی ہے کہ بھارت نے یہاں ایک نہیں کئی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے روپ میں چھوڑ رکھے ہیں۔ جب تک مقامی سہولت کاروں کی مدد حاصل نہ ہو کوئی بھی بیرونی قوت وہاں اپنی سازشوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ سیکیورٹی ادارے ان مقامی سہولت کاروں کوگرفت میں لائیں تاکہ دہشت گردوں کو مقامی سطح پرکوئی محفوظ پناہ گاہ نہ مل سکے۔
ادھر بھارت اپنی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کی کارروائیوں میں تیزی لے آیا اور بے گناہ کشمیریوں کو شہید کرکے خوف و ہراس پھیلا رہا ہے جس کی حالیہ مثال مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں سامنے آئی ہے جہاں قابض بھارتی فورسز نے ایک 60 سالہ شخص کو گاڑی سے اتارکر اس کے 3 سالہ نواسے کے سامنے ہلاک کر دیا، اپنے نانا کی لاش پر بیٹھ کر روتے اور مدد کے لیے پکارتے ہوئے اس بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور بھارتی مظالم اور درندگی کوآشکارکر دیا کہ وہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیے کس حد تک جا چکا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ''مجھے کشمیریوں کے درد اور بے یارومددگار ہونے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔''
کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے جیسا بھارتی منصوبہ خطے میں امن کی تباہی کے مترادف ہے۔ مقبوضہ وادی میں گزشتہ برس پانچ اگست سے لاک ڈاؤن جاری ہے،کشمیریوں کا جینا دوبھر ہوچکا ، علاقے میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی شدید قلت کے علاوہ باہمی رابطے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ جب کشمیری بے جا پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو بھارتی فوج ان پرگولیاں برسانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کردیا جس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوگئی اس کے بعد پورے ہندوستان سے کوئی بھی بھارتی شہری مقبوضہ کشمیر میں آکر سکونت اختیار اور الیکشن لڑ سکتا ہے۔ اس کو حق حاصل ہے کہ مقبوضہ وادی میں زمین خریدے،گھر بنائے یا کاروبارکرے اور اس کے لیے مودی حکومت اس کو وہاں کا ڈومیسائل بھی بنا کر دے رہی ہے اور بنیادی طور پر آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے اورکرفیو نافذ کرنے کے پیچھے یہی بھیانک منصوبہ ہے، وہ اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندوآبادکاری میں مشغول ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں دھڑا دھڑ ہندو منتقل ہورہے ہیں جن کو فوری بنیادوں پر ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں لہذا کاغذات میں یہ ہندوکشمیری بن رہے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کی اکثریت، اقلیت میں بدلنے پر عمل پیرا ہیں اور پھر جب بھارتی ریکارڈ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی اقلیت اکثریت میں تبدیل ہوجائے گی، سات دہائیوں میں ریفرنڈم کو ٹالنے والی بھارتی حکومت خوشی خوشی کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر بھی راضی ہوجائے گی۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو وہاں صرف اتنی ہی فوج رکھنے کا حق حاصل ہے جو قیام امن کے لیے نا گزیر ہو، لیکن آج یہ تعداد 8 لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں پچھلے دس سالوں میں اسی ہزار نئی قبروں کا اضافہ ہوا ہے جن پر شہداء کے نام اور پتے درج ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں قتل وغارت کا بازارگرم کر رکھا ہے۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے دعویدارکی حیثیت سے بھارت کا فرض تھا کہ وہ کشمیرکا مسئلہ جمہوری انداز سے حل کرتا لیکن اس نے ہمیشہ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیریوں کی آوازکو دبانے کی کوشش کی۔ ہندوستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے پر عالمی برادری کو اب کوئی اعتبار نہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے اتحاد اور غیر قانونی وغیر انسانی اقدامات اور انتہا پسندی بالخصوص ہندو توا ایجنڈے کے لیے سرانجام دیے جانے والے ظالمانہ ہتھکنڈوں نے ہندوستان کودنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ ہندوستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی بربریت کشمیری عوام کے عزم کو توڑسکتی ہے اور نہ اس کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا ہی ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹا سکتا ہے۔
کشمیریوں نے اپنے خون سے ثابت کردیا ہے کہ کشمیر تقسیم برصغیرکا نامکمل ایجنڈا ہے، بھارت وادی کشمیر پر اپنا ناجائزقبضہ مزید برقرار نہیں رکھ سکتا۔ عالمی طاقتوں کی منافقت دیکھیے کہ وہ اپنے عالمی سامراجی مقاصدکے تحت دوسرے ملکوں میں فوجی یا سیاسی مداخلت کرتے وقت تمام عالمی ضابطے بالائے طاق رکھ دیتے اور اس کے لیے جھوٹے عذر بھی گھڑ لیتے ہیں لیکن جہاں مسئلہ کشمیرکی بات ہو کمال عیاری سے کہہ دیتے ہیں کہ اسے پاکستان اور بھارت دوطرفہ مذاکرات سے حل کریں۔
کیا صرف نریندر مودی کشمیریوں پر ظلم وستم روا رکھے ہوئے ہیں، اس کا جواب نفی میں ہے، درحقیقت بیتے ستر برسوں میں بھارت نے کبھی صدق دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے قیام پاکستان سے کچھ ہی عرصہ پہلے 1946 میں ایک برطانوی ڈپلومیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ صاف طور پرکہہ دیا تھا کہ ہم اس وقت تو مسٹرجناح کا مطالبہ پاکستان تسلیم کرلیں گے لیکن پھر بتدریج ان کے لیے ایسے ''حالات'' پیدا کر دیں گے کہ وہ خود ہم سے یہ درخواست کریں کہ پاکستان کو دوبارہ بھارت میں شامل کر دیا جائے اور کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کا مقصد پاکستان کے لیے یہی مخصوص حالات پیداکرنا ہیں۔
اس لیے کہ پاکستان کی زرعی اور اقتصادی معیشت کا تمام تر دارومدارکشمیر سے نکلنے والے دریاؤں کے پانی پر ہے اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کے لیے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے، یوں کشمیر پر قبضے کی سازش دراصل پاکستان کے وجود اور سالمیت کے خلاف بھارت کے جارحانہ عزائم کی علامت بھی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کشمیریوں کوحق خود ارادیت اقوام متحدہ نے دیا ہے جسے وہ کبھی بھی ترک نہیں کریں گے اور پاکستان کی قیادت اور عوام ان کے حق خود ارادیت کی مکمل حمایت کے اپنے عہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بھارتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو ہم باہمی اتحاد ویکجہتی سے شکت فاش دے سکتے ہیں۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھارت کو بے لگام چھوڑنے کے بجائے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں بھارت کے کردار اور مقبوضہ کشمیر میں اس کے مظالم کا نوٹس لے۔
اس موقعے پر وزیرخارجہ نے کالعدم تنظیم بی ایل اے کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے ان کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے زلمے خلیل زاد کو بھارتی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی بھارت میں داخلی انتشار بڑھتا ہے تو وہ اس سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی شروع کرا دیتا ہے جس طرح مقبوضہ جموں و کشمیر پر عالمی توجہ بڑھنے پر بھارت نے پلوامہ کا ڈراما رچایا تھا۔
بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں، قیام پاکستان ہی سے وہ اس کے خلاف اپنی سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔ 1965 کی جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت نے پاکستان کے اندر ایسے سیاستدانوں اور تنظیموں کی پشت پناہی شروع کردی جو داخلی سطح پر ملک میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرسکیں۔
ایسے ہی سیاستدانوں کے تعاون سے1971 میں وہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں کامیاب ہوگیا، اب انھیں حربوں اور ریشہ دوانیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ بلوچستان میں وہی گھناؤنا کھیل ،کھیل رہا ہے جو اس نے مشرقی پاکستان میں کھیلا تھا۔ شومئی قسمت سے اسے یہاں بھی ایسے شرپسندوں کی معاونت حاصل ہو گئی ہے جو اس کے مقاصد پورے کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے افغانستان میں جا ملتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کو اس صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا لیکن کابل حکومت نے ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔اب ایک بار پھر زلمے خلیل زاد سے ملاقات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں موجود بی ایل اے کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ بھارت افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔
بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے لیے جہاں افغانستان کی سرزمین کو بیس کیمپ بنائے ہوئے ہے وہاں وہ خفیہ طور پر ایران کے راستے بھی اپنی سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف عمل ہے جس کی واضح مثال بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ہے جو بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہا تھا۔ جس طرح بلوچستان اورشمالی وزیرستان میں آئے دن دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اس سے اس تاثرکو تقویت ملتی ہے کہ بھارت نے یہاں ایک نہیں کئی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے روپ میں چھوڑ رکھے ہیں۔ جب تک مقامی سہولت کاروں کی مدد حاصل نہ ہو کوئی بھی بیرونی قوت وہاں اپنی سازشوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ سیکیورٹی ادارے ان مقامی سہولت کاروں کوگرفت میں لائیں تاکہ دہشت گردوں کو مقامی سطح پرکوئی محفوظ پناہ گاہ نہ مل سکے۔
ادھر بھارت اپنی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وستم کی کارروائیوں میں تیزی لے آیا اور بے گناہ کشمیریوں کو شہید کرکے خوف و ہراس پھیلا رہا ہے جس کی حالیہ مثال مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں سامنے آئی ہے جہاں قابض بھارتی فورسز نے ایک 60 سالہ شخص کو گاڑی سے اتارکر اس کے 3 سالہ نواسے کے سامنے ہلاک کر دیا، اپنے نانا کی لاش پر بیٹھ کر روتے اور مدد کے لیے پکارتے ہوئے اس بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور بھارتی مظالم اور درندگی کوآشکارکر دیا کہ وہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیے کس حد تک جا چکا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ''مجھے کشمیریوں کے درد اور بے یارومددگار ہونے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔''
کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے جیسا بھارتی منصوبہ خطے میں امن کی تباہی کے مترادف ہے۔ مقبوضہ وادی میں گزشتہ برس پانچ اگست سے لاک ڈاؤن جاری ہے،کشمیریوں کا جینا دوبھر ہوچکا ، علاقے میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی شدید قلت کے علاوہ باہمی رابطے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ جب کشمیری بے جا پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو بھارتی فوج ان پرگولیاں برسانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کردیا جس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوگئی اس کے بعد پورے ہندوستان سے کوئی بھی بھارتی شہری مقبوضہ کشمیر میں آکر سکونت اختیار اور الیکشن لڑ سکتا ہے۔ اس کو حق حاصل ہے کہ مقبوضہ وادی میں زمین خریدے،گھر بنائے یا کاروبارکرے اور اس کے لیے مودی حکومت اس کو وہاں کا ڈومیسائل بھی بنا کر دے رہی ہے اور بنیادی طور پر آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے اورکرفیو نافذ کرنے کے پیچھے یہی بھیانک منصوبہ ہے، وہ اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندوآبادکاری میں مشغول ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں دھڑا دھڑ ہندو منتقل ہورہے ہیں جن کو فوری بنیادوں پر ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں لہذا کاغذات میں یہ ہندوکشمیری بن رہے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کی اکثریت، اقلیت میں بدلنے پر عمل پیرا ہیں اور پھر جب بھارتی ریکارڈ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی اقلیت اکثریت میں تبدیل ہوجائے گی، سات دہائیوں میں ریفرنڈم کو ٹالنے والی بھارتی حکومت خوشی خوشی کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر بھی راضی ہوجائے گی۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو وہاں صرف اتنی ہی فوج رکھنے کا حق حاصل ہے جو قیام امن کے لیے نا گزیر ہو، لیکن آج یہ تعداد 8 لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں پچھلے دس سالوں میں اسی ہزار نئی قبروں کا اضافہ ہوا ہے جن پر شہداء کے نام اور پتے درج ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں قتل وغارت کا بازارگرم کر رکھا ہے۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے دعویدارکی حیثیت سے بھارت کا فرض تھا کہ وہ کشمیرکا مسئلہ جمہوری انداز سے حل کرتا لیکن اس نے ہمیشہ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیریوں کی آوازکو دبانے کی کوشش کی۔ ہندوستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے پر عالمی برادری کو اب کوئی اعتبار نہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے اتحاد اور غیر قانونی وغیر انسانی اقدامات اور انتہا پسندی بالخصوص ہندو توا ایجنڈے کے لیے سرانجام دیے جانے والے ظالمانہ ہتھکنڈوں نے ہندوستان کودنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ ہندوستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی بربریت کشمیری عوام کے عزم کو توڑسکتی ہے اور نہ اس کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا ہی ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹا سکتا ہے۔
کشمیریوں نے اپنے خون سے ثابت کردیا ہے کہ کشمیر تقسیم برصغیرکا نامکمل ایجنڈا ہے، بھارت وادی کشمیر پر اپنا ناجائزقبضہ مزید برقرار نہیں رکھ سکتا۔ عالمی طاقتوں کی منافقت دیکھیے کہ وہ اپنے عالمی سامراجی مقاصدکے تحت دوسرے ملکوں میں فوجی یا سیاسی مداخلت کرتے وقت تمام عالمی ضابطے بالائے طاق رکھ دیتے اور اس کے لیے جھوٹے عذر بھی گھڑ لیتے ہیں لیکن جہاں مسئلہ کشمیرکی بات ہو کمال عیاری سے کہہ دیتے ہیں کہ اسے پاکستان اور بھارت دوطرفہ مذاکرات سے حل کریں۔
کیا صرف نریندر مودی کشمیریوں پر ظلم وستم روا رکھے ہوئے ہیں، اس کا جواب نفی میں ہے، درحقیقت بیتے ستر برسوں میں بھارت نے کبھی صدق دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے قیام پاکستان سے کچھ ہی عرصہ پہلے 1946 میں ایک برطانوی ڈپلومیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ صاف طور پرکہہ دیا تھا کہ ہم اس وقت تو مسٹرجناح کا مطالبہ پاکستان تسلیم کرلیں گے لیکن پھر بتدریج ان کے لیے ایسے ''حالات'' پیدا کر دیں گے کہ وہ خود ہم سے یہ درخواست کریں کہ پاکستان کو دوبارہ بھارت میں شامل کر دیا جائے اور کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کا مقصد پاکستان کے لیے یہی مخصوص حالات پیداکرنا ہیں۔
اس لیے کہ پاکستان کی زرعی اور اقتصادی معیشت کا تمام تر دارومدارکشمیر سے نکلنے والے دریاؤں کے پانی پر ہے اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کے لیے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے، یوں کشمیر پر قبضے کی سازش دراصل پاکستان کے وجود اور سالمیت کے خلاف بھارت کے جارحانہ عزائم کی علامت بھی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کشمیریوں کوحق خود ارادیت اقوام متحدہ نے دیا ہے جسے وہ کبھی بھی ترک نہیں کریں گے اور پاکستان کی قیادت اور عوام ان کے حق خود ارادیت کی مکمل حمایت کے اپنے عہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بھارتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو ہم باہمی اتحاد ویکجہتی سے شکت فاش دے سکتے ہیں۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھارت کو بے لگام چھوڑنے کے بجائے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں بھارت کے کردار اور مقبوضہ کشمیر میں اس کے مظالم کا نوٹس لے۔