’’سفید ہاتھیوں‘‘ سے چھٹکارا وقت کی ضرورت
ترقی یافتہ قومیں اپنے ایک ادارے کو بچانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار رہتی ہیں
QUETTA:
ایک دفعہ چینی کمپنی نے سڑک کی تعمیر کے لیے ایک دیو ہیکل بلڈوزر منگوایا۔ اسے ایک گاؤں سے آگے لے جانا تھا۔ اور راستے میں ایک ندی تھی جس پر ایک نازک سا پل تھا جو اس بلڈوزر کا وزن برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ چینی انجینئر نے حل یہ نکالا کہ بلڈوزر ندی کی کھائی میں خود اتر کر راستہ بنائے گا اور دوسری طرف راستہ بناتے ہوئے نکل جائے گا۔اس تجویز پر جب عمل ہوا تو بلڈوزر جب نیچے اتر رہا تھا تو ایک بڑی چٹان آگئی اور بلڈوزر پھسل کر ندی میں گرنا شروع ہوگیا۔
اس دوران چینی انجینئر نے بے چینی میں ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا۔جب بلڈوزر کا گرنا لگ بھگ طے ہوگیا تو اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ لوگوں نے جب اس سے اس قدر رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ '' میں کیسے نہ روؤں یہ میرے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔''کچھ دیر بعد چینی انجینئر کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے ہمت نہ ہاری اور قریب ہی دوسرے پراجیکٹ سے مدد طلب کی اور اس طرح بلڈوزر کو بچالیا گیا۔ لہٰذا چینیوں کی تربیت اور نصاب میں قومی نقصان کو ذاتی نقصان کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔
آپ ملایشیا چلے جائیں، ملائیشیا جب ترقی کے زینے طے کر رہا تھا تو وہاں کا سرکاری بینک سینٹرل بینک آف ملائیشیا بے تحاشہ قرضوں میں ڈوبنے لگا، ایک وقت ایسا آیا کہ بینک دیوالیہ ہوگیا، اور بینک کی بولی لگنے کے لیے تاریخ طے ہوگئی۔ ملایشین لوگوں کے لیے یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے اُن کی کسی ذاتی چیز کو فروخت کیا جا رہا ہے،بولی والے دن لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
ملک کے ہر شہرمیں احتجاج شروع ہوگئے، جس کے باعث بینک کی فروخت کے لیے ایک ہفتے بعد کی ڈیڈ لائن دے دی گئی۔ اس ایک ہفتے میں تمام پرائیویٹ بینکوں اور بڑی بڑی کاروباری شخصیات نے عوامی غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے سینٹرل بینک آف ملائیشیا کو سہارا دیا، عوام نے بے تحاشہ اکاؤنٹ کھلوائے اور اس طرح سرکاری یعنی عوامی املاک کو فروخت ہونے سے بچالیا گیا۔ اور آج یہی مذکورہ بینک ملایشیا کی اکانومی کا اہم ترین حصہ ہے۔
ایک اور مثال لے لیجیے 2008میں گاڑیاں بنانے والی امریکی کمپنی ''جنرل موٹرز'' دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی، حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ کمپنی نے عدالتی نگرانی میں کام کرنے کی درخواست دے دی تاکہ مزید مسائل سے بچا جا سکے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اگر کمپنی دیوالیہ ہوگئی تو یہ امریکی تاریخ میں دیوالیہ ہونے والی سب سے بڑی کمپنی ہوگی۔عین اسی وقت امریکی حکومت نے کمپنی کو بحران سے نکالنے کے لیے 20ارب ڈالر کا سرمایہ لگایا، جب کمپنی پھر بھی نہ سنبھل سکی تو اگلے سال امریکی حکومت نے مزید 30ارب ڈالر کا سرمایہ لگا کر کمپنی کو بچالیا، آج یہی کمپنی(کورونا صورتحال سے پہلے) سالانہ 20ارب ڈالر منافع کما کر 5سے 7ارب ڈالر امریکی حکومت کو ادا کر رہی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔
یہ چند ایک مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ جب حکومتی اداروں یا بڑے ملکی اداروں(خواہ وہ نجی ادارے ہی کیوں نہ ہوں) پر برا وقت آتا ہے تو انھیں کسی کی زبانی کلامی ہمدردیوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ترقی یافتہ قومیں اپنے ایک ادارے کو بچانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس یہاں حالات یکسر مختلف ہیں،ہماری تربیت میں ہی یہ چیز شامل نہیں کہ ہم سرکاری املاک کو عوامی املاک سمجھیں، اگر یہاں ایک ادارہ ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہو تو حکومت سمیت تمام نجی ادارے منجدھار کے باہر بیٹھ کر تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔
کیوں کہ ان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ یہ ادارہ جتنا برا کام کرے گا اُن کی کمپنیاں اتنی ہی ترقی کریں گی ۔ آپ پاکستان اسٹیل مل کی مثال لے لیں، 2008تک اس کا منافع 10ارب روپے سالانہ تھا، پھر پیپلزپارٹی کے مبارک قدموں میں اقتدار آگیا، اور جلتی پر تیل کا کام ن لیگی پانچ سالہ دور میں ہوا جب اس قدر سیاسی بھرتیاں کی گئیں کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
انھی حکومتوں کی بدولت آج اسٹیل مل بند پڑی ہے،اور گزشتہ سال تک اس مل پر واجب الادا رقم کا تخمینہ 500ارب روپے لگایا گیا ہے۔ جب کہ آج بھی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں سالانہ 20ارب روپے تک گرانٹ دی جارہی ہے، اوراب موجودہ حکومت نے تمام ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے ہیں تو اس گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے لیے بھی کم و بیش حکومت کو 40ارب روپے درکارہیں۔
سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے تمام اداروں کا یہی حال ہے، یہ ادارے سفید ہاتھی ثابت ہوتے ہوئے معاشی وسائل کے مسلسل زیاں کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ٹیکس دھندگان کے سالانہ 700 ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ پی آئی اے ہی کو دیکھ لیں ، آج کل پی آئی اے دنیا کے لیے ''ہاٹ کیک'' بنا ہوا ہے، 262پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہونے کے بعد تو یہ معمہ مزید بگڑ رہا ہے، اس قومی ائیر لائن پر یورپ اور برطانیہ نے 6ماہ کی پابندی لگا دی ہے، دیگر ممالک بھی ایسی پابندیاں لگانے پر غور کررہے ہیں۔یقین مانیں یہ ادارہ اتنا بڑا سفید ہاتھی بن گیا ہے کہ اس وقت تین سو ارب روپے کے قرضے تلے سسک رہا ہے اور اسے زندہ رکھنے کے لیے سالانہ بیس سے تیس ارب روپے کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں کاروباری اصول ہے کہ '' جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب بوجھ اتارا کرتے ہیں ''۔ مگر اپنے پاکستان میں بھلے ٹیکس اصلاحات کا معاملہ ہو کہ سفید ہاتھیوں کا قد گھٹانے کا سوال۔ اپیلیں ، احتجاج ، اللہ رسول کے واسطے ، بچوں کے پیٹ کا سوال، بے روزگاری کی دہائی جیسے اسپیڈ بریکرز راستے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔بقول جان ایلیا
میں بھی عجیب شخص ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
بہرکیف پی آئی اے، ریلوے، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، ایس ایم ای بینک، صنعتی ترقیاتی بینک، ماڑی پٹرولیم، سندھ کے کئی ہیلتھ ادارے، پنجاب کے کئی ادارے، سیف سٹی پراجیکٹ وغیرہ جیسے ادارے اس ملک کے لیے سفید ہاتھی بن گئے ہیں اور سفید ہاتھی انھیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ بادشاہتوں کے زمانے میں ہاتھیوں کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔ ہاتھی رکھنا شان وشوکت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ انھی دنوں سفید ہاتھی کی اصطلاح نے جنم لیا۔ سفید ہاتھی سے مراد کوئی ایسی چیز لی جاتی ہے جس کی دیکھ بھال پر اچھا خاصا خرچ آتا ہو لیکن عملی طور پر اس چیز کی کوئی افادیت نہ ہو۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قومی اداروں کو اگر بچانا ہے تو دل و جان سے محنت کرکے مشکل فیصلے کرکے بچایا جائے، لیکن اگر نجکاری کرنا ہی مقصود ہے تو اس میں دیر کیوںکی جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام نے عمران خان صاحب کو آنکھوں کا تارا بنایا ہے اور اُمید لگائی ہے کہ خان صاحب ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکال کر ملک کو صحیح راہ پر چلائیں گے عوام خوشحال ہوں گے، طرز زندگی آسان ہوگا، لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، آخری کوشش ہی صحیح مگر خان صاحب ان اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر کام کریں تاکہ 700ارب روپے کی سالانہ بچت کی جاسکے۔
ورنہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ عوام اگلی بار انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ معاشی طور پر تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ مشہور زمانہ لیڈر چرچل کی زیر قیادت برطانیہ کو فتح ملی تھی، مگر انتخابات کے دوران چرچل کو حیران کُن شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
لوگوں کی عام رائے کے مطابق امن میں کسی اور رہنما کی ضرورت ہے، جو تباہ شدہ برطانیہ کی از سر نو تعمیر کر سکے۔لہٰذا اس قوم کے پاس فی الحال متبادل کوئی چوائس نہیں ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے لیے سابق حکمران کسی چیز کو بھی وجہ بنا کر خان صاحب پر حملے کرنے میں دیر نہیں کریں گے اس لیے حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ ان سفید ہاتھیوں سے جان چھڑائی جائے تاکہ اگلی بار اقتدار میں آنے کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی عوام کے سامنے موجود ہوں!
ایک دفعہ چینی کمپنی نے سڑک کی تعمیر کے لیے ایک دیو ہیکل بلڈوزر منگوایا۔ اسے ایک گاؤں سے آگے لے جانا تھا۔ اور راستے میں ایک ندی تھی جس پر ایک نازک سا پل تھا جو اس بلڈوزر کا وزن برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ چینی انجینئر نے حل یہ نکالا کہ بلڈوزر ندی کی کھائی میں خود اتر کر راستہ بنائے گا اور دوسری طرف راستہ بناتے ہوئے نکل جائے گا۔اس تجویز پر جب عمل ہوا تو بلڈوزر جب نیچے اتر رہا تھا تو ایک بڑی چٹان آگئی اور بلڈوزر پھسل کر ندی میں گرنا شروع ہوگیا۔
اس دوران چینی انجینئر نے بے چینی میں ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا۔جب بلڈوزر کا گرنا لگ بھگ طے ہوگیا تو اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ لوگوں نے جب اس سے اس قدر رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ '' میں کیسے نہ روؤں یہ میرے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔''کچھ دیر بعد چینی انجینئر کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے ہمت نہ ہاری اور قریب ہی دوسرے پراجیکٹ سے مدد طلب کی اور اس طرح بلڈوزر کو بچالیا گیا۔ لہٰذا چینیوں کی تربیت اور نصاب میں قومی نقصان کو ذاتی نقصان کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔
آپ ملایشیا چلے جائیں، ملائیشیا جب ترقی کے زینے طے کر رہا تھا تو وہاں کا سرکاری بینک سینٹرل بینک آف ملائیشیا بے تحاشہ قرضوں میں ڈوبنے لگا، ایک وقت ایسا آیا کہ بینک دیوالیہ ہوگیا، اور بینک کی بولی لگنے کے لیے تاریخ طے ہوگئی۔ ملایشین لوگوں کے لیے یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے اُن کی کسی ذاتی چیز کو فروخت کیا جا رہا ہے،بولی والے دن لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
ملک کے ہر شہرمیں احتجاج شروع ہوگئے، جس کے باعث بینک کی فروخت کے لیے ایک ہفتے بعد کی ڈیڈ لائن دے دی گئی۔ اس ایک ہفتے میں تمام پرائیویٹ بینکوں اور بڑی بڑی کاروباری شخصیات نے عوامی غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے سینٹرل بینک آف ملائیشیا کو سہارا دیا، عوام نے بے تحاشہ اکاؤنٹ کھلوائے اور اس طرح سرکاری یعنی عوامی املاک کو فروخت ہونے سے بچالیا گیا۔ اور آج یہی مذکورہ بینک ملایشیا کی اکانومی کا اہم ترین حصہ ہے۔
ایک اور مثال لے لیجیے 2008میں گاڑیاں بنانے والی امریکی کمپنی ''جنرل موٹرز'' دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی، حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ کمپنی نے عدالتی نگرانی میں کام کرنے کی درخواست دے دی تاکہ مزید مسائل سے بچا جا سکے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اگر کمپنی دیوالیہ ہوگئی تو یہ امریکی تاریخ میں دیوالیہ ہونے والی سب سے بڑی کمپنی ہوگی۔عین اسی وقت امریکی حکومت نے کمپنی کو بحران سے نکالنے کے لیے 20ارب ڈالر کا سرمایہ لگایا، جب کمپنی پھر بھی نہ سنبھل سکی تو اگلے سال امریکی حکومت نے مزید 30ارب ڈالر کا سرمایہ لگا کر کمپنی کو بچالیا، آج یہی کمپنی(کورونا صورتحال سے پہلے) سالانہ 20ارب ڈالر منافع کما کر 5سے 7ارب ڈالر امریکی حکومت کو ادا کر رہی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔
یہ چند ایک مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ جب حکومتی اداروں یا بڑے ملکی اداروں(خواہ وہ نجی ادارے ہی کیوں نہ ہوں) پر برا وقت آتا ہے تو انھیں کسی کی زبانی کلامی ہمدردیوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ترقی یافتہ قومیں اپنے ایک ادارے کو بچانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس یہاں حالات یکسر مختلف ہیں،ہماری تربیت میں ہی یہ چیز شامل نہیں کہ ہم سرکاری املاک کو عوامی املاک سمجھیں، اگر یہاں ایک ادارہ ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہو تو حکومت سمیت تمام نجی ادارے منجدھار کے باہر بیٹھ کر تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔
کیوں کہ ان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ یہ ادارہ جتنا برا کام کرے گا اُن کی کمپنیاں اتنی ہی ترقی کریں گی ۔ آپ پاکستان اسٹیل مل کی مثال لے لیں، 2008تک اس کا منافع 10ارب روپے سالانہ تھا، پھر پیپلزپارٹی کے مبارک قدموں میں اقتدار آگیا، اور جلتی پر تیل کا کام ن لیگی پانچ سالہ دور میں ہوا جب اس قدر سیاسی بھرتیاں کی گئیں کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
انھی حکومتوں کی بدولت آج اسٹیل مل بند پڑی ہے،اور گزشتہ سال تک اس مل پر واجب الادا رقم کا تخمینہ 500ارب روپے لگایا گیا ہے۔ جب کہ آج بھی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں سالانہ 20ارب روپے تک گرانٹ دی جارہی ہے، اوراب موجودہ حکومت نے تمام ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے ہیں تو اس گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے لیے بھی کم و بیش حکومت کو 40ارب روپے درکارہیں۔
سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے تمام اداروں کا یہی حال ہے، یہ ادارے سفید ہاتھی ثابت ہوتے ہوئے معاشی وسائل کے مسلسل زیاں کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ٹیکس دھندگان کے سالانہ 700 ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ پی آئی اے ہی کو دیکھ لیں ، آج کل پی آئی اے دنیا کے لیے ''ہاٹ کیک'' بنا ہوا ہے، 262پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہونے کے بعد تو یہ معمہ مزید بگڑ رہا ہے، اس قومی ائیر لائن پر یورپ اور برطانیہ نے 6ماہ کی پابندی لگا دی ہے، دیگر ممالک بھی ایسی پابندیاں لگانے پر غور کررہے ہیں۔یقین مانیں یہ ادارہ اتنا بڑا سفید ہاتھی بن گیا ہے کہ اس وقت تین سو ارب روپے کے قرضے تلے سسک رہا ہے اور اسے زندہ رکھنے کے لیے سالانہ بیس سے تیس ارب روپے کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں کاروباری اصول ہے کہ '' جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب بوجھ اتارا کرتے ہیں ''۔ مگر اپنے پاکستان میں بھلے ٹیکس اصلاحات کا معاملہ ہو کہ سفید ہاتھیوں کا قد گھٹانے کا سوال۔ اپیلیں ، احتجاج ، اللہ رسول کے واسطے ، بچوں کے پیٹ کا سوال، بے روزگاری کی دہائی جیسے اسپیڈ بریکرز راستے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔بقول جان ایلیا
میں بھی عجیب شخص ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
بہرکیف پی آئی اے، ریلوے، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، ایس ایم ای بینک، صنعتی ترقیاتی بینک، ماڑی پٹرولیم، سندھ کے کئی ہیلتھ ادارے، پنجاب کے کئی ادارے، سیف سٹی پراجیکٹ وغیرہ جیسے ادارے اس ملک کے لیے سفید ہاتھی بن گئے ہیں اور سفید ہاتھی انھیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ بادشاہتوں کے زمانے میں ہاتھیوں کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔ ہاتھی رکھنا شان وشوکت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ انھی دنوں سفید ہاتھی کی اصطلاح نے جنم لیا۔ سفید ہاتھی سے مراد کوئی ایسی چیز لی جاتی ہے جس کی دیکھ بھال پر اچھا خاصا خرچ آتا ہو لیکن عملی طور پر اس چیز کی کوئی افادیت نہ ہو۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قومی اداروں کو اگر بچانا ہے تو دل و جان سے محنت کرکے مشکل فیصلے کرکے بچایا جائے، لیکن اگر نجکاری کرنا ہی مقصود ہے تو اس میں دیر کیوںکی جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام نے عمران خان صاحب کو آنکھوں کا تارا بنایا ہے اور اُمید لگائی ہے کہ خان صاحب ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکال کر ملک کو صحیح راہ پر چلائیں گے عوام خوشحال ہوں گے، طرز زندگی آسان ہوگا، لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، آخری کوشش ہی صحیح مگر خان صاحب ان اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر کام کریں تاکہ 700ارب روپے کی سالانہ بچت کی جاسکے۔
ورنہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ عوام اگلی بار انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ معاشی طور پر تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ مشہور زمانہ لیڈر چرچل کی زیر قیادت برطانیہ کو فتح ملی تھی، مگر انتخابات کے دوران چرچل کو حیران کُن شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
لوگوں کی عام رائے کے مطابق امن میں کسی اور رہنما کی ضرورت ہے، جو تباہ شدہ برطانیہ کی از سر نو تعمیر کر سکے۔لہٰذا اس قوم کے پاس فی الحال متبادل کوئی چوائس نہیں ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے لیے سابق حکمران کسی چیز کو بھی وجہ بنا کر خان صاحب پر حملے کرنے میں دیر نہیں کریں گے اس لیے حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ ان سفید ہاتھیوں سے جان چھڑائی جائے تاکہ اگلی بار اقتدار میں آنے کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی عوام کے سامنے موجود ہوں!