امریکی پابندیوں نے ایران کو خود کفالت کی راہ پر ڈالا

ایران اقوام متحدہ کی جانب سے مختلف قراردادوں کے باعث شدید ترین دباؤ برداشت کرنے والے ملکوں میں شامل رہا ہے

فوٹو : فائل

( قسط نمبر20)

29 اکتوبر 1964 کو قم کے مدرسے میں آیت اللہ روح اللہ امام خمینی نے جب شاہِ ایران کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر تے ہو ئے ایران اور ایرانی عوام کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کئے جانے پر قوم کومخا طب کیا تھا، انہیں ایران کی عظمت یاد لائی تھی اور بادشاہ کا نام لیے بغیر ایران کی بادشاہت کے اپنے مر تبے اور مقام سے گرنے کا ذکر کیا تھا، اور بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی خفیہ ایجنسی ساواک کے ذریعے چند گھنٹوں میں امام خمینی کو گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا۔ اُ س وقت کسی کو بھی یہ احسا س نہیں تھا کہ یہ شخص پندرہ سال بعد بیسویں صدی عیسوی کا دوسرا بڑا انقلا ب لائے گا۔

ساٹھ کی دہائی شہنشاہ ایران کے انتہائی عروج کا دور تھا۔ وہ سابق وزیر اعظم محمد مصدق کو اُن کے ناکام انقلاب کے بعد عبرتناک سزا سے دوچارکرچکے تھے۔ ساٹھ ہی کی دہائی میں اُن کو ولی عہد نصیب ہوا اور تاج پو شی ہو ئی۔

وہ1958 سے عالی شان Narayan Palace نارایان محل کی تعمیرکروا رہے تھے جس میں انہوں نے دنیا کے قیمتی نوادرات اور جواہرات جمع کئے تھے۔ 1968 میں محل مکمل ہوا تھا اور وہ اپنی ملکہ فرح دیبا کے ہمراہ یہاںمقیم ہو گئے تھے۔ پھر انہوں نے تاج پو شی کے بعد ایران میں ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کا جشن منا یا اور پو ری دنیا میں چرچا کیا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک ایران کا قدیم نام فارس، پرشیا یا پروشیا استعمال کیا جا تا تھا۔ پھر ملک کا نام ایران رکھا گیا جس کے معنی آریاؤں کی سرزمین ہے اور شاہ نے اپنے آریا ہونے پر ایرانیوں کے احساس تفاخر کو مزید بڑھا یا۔ شاہ کو امریکہ کی مکمل حمایت اور سیاسی اور فوجی مدد حاصل تھی۔ ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھااور یہاں سے پورے خطے میں امریکی مفادات کی نگرانی کی جاتی تھی۔

اس لیے ایران کے پاس بڑی مضبو ط اور امریکی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج تھی جسے ہزاروں امریکی فوجیوں اور ماہرین کی مدد بھی میسر تھی۔ وزیراعظم سمیت ایرانی پارلیمنٹ پر بھی شاہ کی آمریت تھی۔ انتطامیہ اور پو لیس کا بنیادی کام ہر صورت اور ہر حالت میں باشاہت کا دفاع تھا۔ ساٹھ کی دہائی ہی میں شہنشاہ ایران نے سفید انقلاب کے نام سے ایران میں اصلاحات کاعمل شروع کیا جو زمینی حقائق سے ہٹ کر تھا۔

دوسری جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد جب کمال پا شا نے مغربی تہذیب، لباس اور ثقافت اپنا یا تھا تو اُس وقت ترک قوم کو عربوں پر غصہ تھا کہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکوں کی شکست میں اہم کر دار ادا کیا تھا، مگر اُس وقت بھی ترک علما کی جانب سے یورپ کی اندھی تقلید کی مخالفت کی گئی تھی۔ عثمانیہ خلافت کے زوال سے قبل دنیا میں تین بڑی اسلامی سلطنتیں تھیں ،ہند وستان کی مغلیہ سلطنت ، ترکی کی عثمانیہ سلطنت اور ایران کی صفوی سلطنت مگر اِن میں نااتفاقی اور اہل مغرب کی علم و تحقْیق، ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں سبقت کے باعث تینوں سلطنتوں کو اہل مغرب کے ہاتھوں شکست ہوئی۔



جنگ ِ عظیم اوّ ل میں شکست کے بعد ترکوں ،عربوں ،ایرانیوں میں نیشنل ازم اور فرقہ واریت نے جنم لیا۔ رضا شاہ پہلوی نے بھی امریکہ او ر برطانیہ کی خوشنودی کے لیے ساٹھ کی دہا ئی میں زیادہ تیز رفتاری سے مغربی طرز معاشرت کو اپنا یا اور تقریباً جبراً ایرانی خواتین کی اکثریت کو مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا۔

عراق میں مقیم آیت اللہ خمینی اپنی انقلابی تحریک کو اپنے لٹریچر کے ذریعے ایران میں پھیلا رہے تھے جب کہ مشرق وسطیٰ میں فسلطینی لیڈروں سے اور علماء سے بھی اُن کے رابطے تھے۔ 1970 میں مصر کے صدر ناصر کی وفات نے مشرق ِ وسطیٰ میں قیادت کا وسیع خلا پیدا کر دیا۔ باد شاہ کا خیال تھا کہ اب وہ امریکہ اور بر طانیہ کی مجبوری بن چکے ہیں۔ پورے ایران میں امریکی فوجی اور ماہرین مو جود تھے یوں وہ اپنے اقتدر کو لا زوال تصور کرتے تھے۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ جس میں عرصے بعد مصر کی پوز یشن قدرے بہتر تھی اس جنگ نے امریکہ اسرائیل دفاعی اسٹرٹیجی کے لحاظ سے ایران کی پوزیشن کو اور اہم کر دیا تھا کہ اُس وقت پا کستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حکومت برسرا قتدار تھی اور بھٹو نے متوازن اور آ زاد خارجہ پالیسی اپناتے ہو ئے ماضی کے بر عکس بر طانوی دولت مشترکہ سے علیحد گی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ سوویت یونین اور چین سے زیادہ بہتر تعلقات قائم کر لیئے تھے۔

1974 میں لاہور میں ہو نے والی اسلامی سربراہ کانفرنس اگر چہ شاہ کے لیے بھی قدرے پر یشان کن تھی مگر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو بر طانیہ اور امریکہ کو اُمید تھی کہ ایران اُن کے کہنے پر تیل پید ا کر نے والے عرب ملکوں کے مقابلے میں امریکہ اور بر طانیہ کا ساتھ دے گا اور اپنے تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرئے گا مگر شاہ ایران نے ایسا نہیں کیا بلکہ اُنہیں جواب دیا کہ ایرانی عوام کی قوت خرید کم ہو چکی ہے اس لیے وہ بھی دنیا کے باقی ملکوں کی طرح اپنے ملک میں تیل کی پیداوار پر اُسی تناسب سے ٹیکس وصول کرئے گا جو دیگر تیل پید ا کرنے والے ملکوں نے حال ہی میں عائد کئے ہیں۔ باقی عرب ملکوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہو رہا تھا جو شاہ کے لیے نا قابلِ برداشت تھا۔

پھر اُس وقت کی جو صورتحال تھی اُس میں بادشاہ کی پو زیشن بہت اچھی تھی بادشاہ کو یقین تھا کہ اُس وقت اِن کا کو ئی متبادل نہیں اور یہ کافی حد تک درست بھی تھا لیکن امریکہ بر طانیہ اور دیگر مغربی قوتوں نے اُس موقع پر 1930-32 کے بعد کی سب سے بڑی عالمی کساد بازاری برداشت کی اور ساتھ ہی اسلامی ملکوں کے اہم لیڈروں اور تیل پیدا کر نے والے ملکوں کے خلاف جامع حکمت عملی اپنا ئی۔ طویل المدت منصوبے کے تحت معدنی تیل کے متبادل ایندھن کی ایجاد یا دریافت اور فوری طور پر تیل پیدا کر نے والے اُن ملکوں کی قیادت کی تبدیلی جنہوں نے کُھل کر اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ مخالفت کی تھی مگر اس میں ایران اور اس کا شہنشاہ شامل نہیں تھا کہ ایران نے اسرائیل کوتسلیم کر رکھا تھا۔

مگر امریکہ اُسے نا فر مانی کی کو ئی نہ کو ئی سزا ضرور دنیا چاہتا تھا کہ اُس نے امریکہ کی حکم عدولی کی تھی۔ 1973 کی جنگ کے بعد تیل کی قیمت میں اضافے کے سبب ایران کی سالانہ آمدنی میں کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ 1977 میں ایرا ن کا یہ بادشاہ غالباً دنیا کا سب سے امیر آدمی بھی تھا، یوں بادشاہ کے سفید انقلاب کے ساتھ تعمیر وترقی کے اس عمل میں 80% رقوم کرپشن کی نظر ہو رہی تھیں اور غالباًاس منصوبہ بندی میں امریکی سی آئی اے کی یہ غلطی تھی یا پھر وہ شاہ کو سبق دینا چاہتی تھی جو رضا شاہ پہلوی کے خلاف خمینی کے انقلاب کی شدت اور عوام میں امام خمینی کی مقبولیت کا انداز ہ نہیں کر سکی تھی یا شاہ کو بے خبر رکھا اس طرح جب 80% کرپشن کی وجہ سے ایران میں افراد زر مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔

1973 کے بعد دیہاتوں سے عوام کی بڑی تعداد اس تعمیر وترقی کے عمل میں بطور افرادی قوت شرکت کے لیے تہران سمیت دیگر بڑے شہروں میں آباد ہو گئی تھی اور اس طرح ایک جانب زرعی پیداور میں کمی واقع ہوئی تو دوسری جانب ایران جو پہلے ہی بہت بڑی مقدار میں اشیا خوردنی در آمد کرتا تھا اس میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا۔



دیہاتوں آئی ہوئی آبادی جو لاکھوں مزدوروں کی صورت میں تھی اور زیادہ مذہبی رجحانات کی حامل تھی اُس نے اس انقلاب میں شعلے کو آتش فشاںکرنے کا کام کیا۔ ،،امریکہ کے مشہور مصنف جان پر کنز،، Jhon Perkins ،، نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Confesion of an Economic Hit Man کنفیکشن آف این اکنامک ہیٹ مین کے باب The Fall of King کے آخر میں لکھا ہے، '' یہ سمجھ سے باہر ہے کہ ہمیں بھی درست اطلاعات نہیں دی گئیں کہ شاہ کے خلاف اس قدر شدید عوامی نفرت ہے ،جن کمپنیوں کے ایران میں دفاتر اور غیر ملکی ملازمین تھے اُ ن کو بھی بدلتی ہوئی صورتحال کی سنگینی سے آگاہ نہیں کیا گیا''

شاید امریکی سی آئی اے یہ سمجھتی رہی ہو کہ وہ فوج کی مدد سے خمینی کے انقلاب کو بھی سابق وزیر اعظم مصدق کے انقلاب کی طرح ناکام بنا دے گی مگر جب شہنشاہ جنوری1978 میں ایران سے فرار ہو گئے اور فروری میں امام خمینی فرانس سے جلا وطنی ترک کر کے تہران پہنچے تو تا حد نظرانسان ہی انسان تھے۔ اردو کے نامور انشا پرداز اور اور پاکستان سول سروس اکیڈمی کے پہلے بیج کے سی ایس ایس آفیسر مختار معسود کی کتاب ،، سفر نصیب ،، میں بھی ایران کے انقلاب کی تفصیلا ت ہیں۔

1978-79 میں مختار معسود کی پو سٹینگ ایران میں تھی۔ رضا شاہ پہلوی اپنے ولی عہد اور شہزادے اور دو شہزادیوں ملکہ کے ہمر اہ ایران سے نکلے تو ساتھ ہی ایران کی انقلابی حکومت نے اُنہیں ایران کا مجرم قرار دیا اور اُن کی واپسی کا مطالبہ کر دیا، شاہ کے وفاداروں کو گر فتار کرلیا گیا جنہوں نے شاہ کی خاطر عوام پر ظلم و ستم کیا۔ سرسری مقدمات چلا کر انقلابیوں نے سابق وزیر اعظم اور وزرا ،اعلیٰ بیوروکر یٹس اور اعلیٰ فوجی افسران کو سر عام پھانسی دی۔ اب سوال یہ تھا کہ جو حکومت یا ملک بادشاہ کو پناہ دیتا اُس کو عوامی سطح پر مسائل کا سامنا کر نا پڑا رہا تھا اور اگربادشاہ کو واپس کر دیا جاتا تو ظاہر ہے کہ انقلابی حکومت نے اُنہیں بھی سر عام پھانسی دے دینی تھی۔

رضا شاہ پہلے مصر گئے، پھر مراکش کے شاہ کے مہمان ہو ئے وہا ں سے نکلے تو بھاماس جزیر ے پر گئے، اس کے بعد میکسیکو سٹی،پانا ما مارے مارے پھرے، میکسیکو میں فیڈل کاسترو کی وجہ سے عوام نے اُن کے خلاف احتجاج کیا۔ اسی دوران یہ خبریں عام ہوئیں کہ شاہ بیمار ہیںاور کچھ عرصہ وہ خفیہ نام کے ساتھ نیو یارک کے کورنویل میڈیکل ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ 4 نومبر 1979 کو ایرانی طلبا کے ایک گروپ نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کر کے سفارت خانے کے52 افراد کو یر غمال بنا لیا۔

اِن کا مطالبہ تھا کہ شاہ کوایران کے حوالے کیا جائے۔ اس دوران اِن طلبا کو ایران اور علاقے کے دوسرے ملکوں کے حوالے سے بعض خفیہ دستاویزات بھی ملیں۔ ایران کے بہت سے صحافیوں ، سرکاری اعلیٰ فسران کے سی آی اے سے تعلقات کے اعتبار سے بھی معلو مات اُن کے ہاتھ آئیں۔ تہران میں امریکی سفارت خانے کے 52 افراد اورسفارت کار 444 دن یر غمال بنے رہے۔


امریکہ نے یہاں فوجی کار وائی کرکے اپنے سفارتکاروں کو چھڑوانے کی کوشش کی جو ناکام ہو ئی اور ایک امریکی ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہوا۔ بعد میں امریکہ نے شاہ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور پھر مصر کے صدر انور السادات نے رضا شاہ پہلوی اور اُن کے خاندان کو مصر میں سیا سی پنا ہ دی جہاں انہوں نے کینسر کے باعث 27 جولائی 1980 کو وفات پائی۔ جب کہ امریکہ نے الجیرا معاہدہ کے تحت 19 جنوری 1981 کو اپنے سفارت خانے کے عملے کو آزادی دلوائی شاہ ایران رضا شاہ پہلوی27 جولائی 1980 کو کینسر کی بیماری کی وجہ سے ساٹھ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

یوں دیکھا جائے تو بیسویں صدی کی ساتوں دہائی میں تاریخ کی عظیم سلطنت ایران جو اگرچہ ماضی کے مقابلے میں رقبے کے اعتبار سے کم رہ گئی تھی مگر یہ ڈھائی ہزار سالہ مستقل بادشاہت کی حامل تھی جسے دنیا کے اب تک کے آخری انقلاب نے جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔

اس وقت ایران اپنے 1648195 مربع کلومیٹر رقبے کی بنیاد پر دنیا کا 17 واں بڑا ملک ہے۔ ایران کا مو جو دہ آئین 1979 کے انقلاب کے بعد منظور کیا گیا جس کے تحت مجموعی اختیارات سپریم لیڈر کے پاس ہو تے ہیں اِس وقت ،،آیت اللہ علی خامنہ ای رہبر معظم ہیں ، رہبر معظم کا انتخاب ماہرین مجلس کرتی ہے ،،مجلس خبرگان رہبری ،، کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کئے جا تے ہیں۔ رہبرِ معظم افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہو تا ہے جب کہ حکومت کا سر براہ صدر ہوتا ہے جسے پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جا تا ہے۔

ایرانی آئین کے مطابق کو ئی فرد بھی دو مر تبہ سے زیادہ صدر منتخب نہیں ہو سکتا قانون سازی کے اختیارات مجلس ،اسمبلی ،کو ہوتے ہیں جو 290 ارکان پر مشتمل ہو تی ہے اور یہ چار سالہ مدت کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائند گی کر تی ہے،مسیحیوں ،زرتشتوں اور یہو دیوں کے نمائندے بھی اسمبلی میں ہوتے ہیں ،پھر شور ی ِ نگہبان ہے جو مجلس ،،اسمبلی ،، سے منظور ہونے والے قوانین کا جا ئزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلام کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر ِ معظم کی جانب سے نامزدکرد6 مذہبی رہنماعدلیہ کے 6 نامزدکردہ قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔

انقلاب کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی یہ رہی ہے کہ و ہ اپنے نظریاتی اور اصولی موقف پر کسی طرح کا بیرونی دباؤ قبول نہیں کرتا۔ ترقی پذیر ملکوں سے تعلقات زیادہ بہتر رکھے جاتے ہیں۔ ایران مخالف قوتوں خصوصاً امریکہ ،اسرائیل سے 1979 سے ہر سطح اور ہر فورم پر مقابلہ کر رہا ہے۔



ایران نے 1947 میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی مگر اس کے قیام کے دو برس بعد ہی شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھااور جنوری 1979 تک ایران اور اسرائیل کے مثالی دوستانہ تعلقات تھے جب کہ 1979 میں انقلاب کے ساتھ ہی ایران نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح امریکہ سے بھی 1980 سے تعلقات منقطع ہیں اور آج تک بحال نہیں ہو ئے۔2001 میں امریکہ نے ایران اور لیبیا پر پا بندیوں کے قانون میں مزید پانچ سال کی توسیع کردی۔ جنوری2002 میں صدر بش نے ایران کو بدی کے محور Axis of Evil کا حصہ قرار دیا تھا۔ اُس وقت ایران پر مغربی قوتوں کی طرف سے مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطیٰ کے امن کو خراب کر نے کے خواہش مندوں کی مبینہ سر پر ستی کرنے اور دیگر الزامات لگائے گئے اور امریکی حاشیہ بردار ملکوں کی اکثریت کسی نہ کسی حد تک ایران کے خلا ف رہی۔

اس وقت اقوام متحدہ کے رکن 193 ممالک میں سے 99 ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات ہیں۔ امام خمینی نے توہین رسالت کے مرتکب سلمان رشدی کے قتل کا حکم دیا اور قتل کرنے والے کی حوصلہ افزائی کا بھی اعلان کیا تھا۔ بر طانیہ کے دباؤ کے باوجود ایران نے یہ حکم واپس نہیں لیا مگر1999 میں عرصہ بعد ایران اور برطانیہ میں سفارتکاروں کا تبادلہ ہوگیا مگر ایران کے خلاف اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی قراردادوں پر اکثر برطانیہ نے دیگر مغربی ملکوں کی طرح امریکہ کا ساتھ دیا،1979 سے امریکہ سمیت مغرب کی جانب سے ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں سازشوں کے جواب میں اسلامی جمہوریہ ایران نے ہر سطح پرخود کیفل ہو نے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالو جی ،نانوٹیکنا لوجی،کلوننگ ،اور میڈ یکل کے ساتھ ساتھ ایئر اسپیس میں دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے۔

روس، چین ،بھارت سے بہتر تعلقات قائم کئے ہیں۔ مغربی سازشوں کے نتیجے میں عراق نے ایران پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ جنگ 1980 سے 1988 تک جاری رہی۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل نے 28 جولائی 1987 میں قرارداد نمبر582 ۔588 اور598 میں عراق ایران میں فوری جنگ بندی کے لیے کہا۔ جس کو امام خمینی نے مان لیا اور پھر دونوں ملکوں کے درمیان 160000 جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ اس جنگ میں تقریباً دس لاکھ ایرانی جاں بحق اور زخمی ہو ئے تھے۔ بعد میں پیدا ہونے والے حالات میں ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ عراق مستحکم اور متحد رہے۔

اب عراق کی عبوری حکومت سے ایران کے تعلقات ہیں اورعراق اور ایران میں براہ راست اور دو طر فہ معاہد ہ بھی ہے۔ ایران عراق کو بجلی کی فراہمی میں مدد بھی دے رہا ہے۔ 30 نومبر 2004 کو عراق کی سلامتی عام انتخابات کے بر وقت انعقاد اور بیر ونی عناصر کی مداخلت کو روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس ہو ئی جس کی میز بانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب ،کو یت ، اردن اور مصر کے وزراء خارجہ نے شرکت کی مگر عراق میں ایرانی سیاسی اثر و رسوخ کے بڑھنے پر امریکہ کی جانب سے 3 جنوری 2020 کو ایک بڑا واقعہ پیش آیا جب ایران کے اہم ترین اور عوامی سطح پر مقبول جنرل قاسم سلیمانی کو ابومہدی المنیدس اور دس دیگر افراد سمیت عراق میں بغداد کے انٹر نیشنل ایر پورٹ پر ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔

اس حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود دیا تھا میجر جنرل قاسم سیلمانی نہایت تجربہ کار ماہر کمانڈر تھے۔ وہ لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی ، افغانستان جنگ اور صدام کے بعد عراق میں سفارتی فضا کی تشکیل نو ،شام کی خانہ جنگی عراق میں داعش سے مقابلے کے اعتبار سے ایرانی حکومت میں بہت اہمیت رکھتے تھے۔ اُن کی موت پر سپریم لیڈرسید علی خامنہ ای نے اُن کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں شہید ِ زندہ کا خطا ب دیا اور بعد از مرگ لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔

ایران میں اس صدی کا سب سے بڑا جنازہ3 جون تا5 جون 1989 امام آیت اللہ روح اللہ خمینی کا تھا جس میں ایک کروڑ افراد نے شرکت کی تھی اس کے بعد بہت بڑا جنازہ جنرل قا سم سلیمانی کا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

ایران نے امریکہ سے جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کا اعلان کیا اور ایران سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر کئی میزائل داغے بد قسمتی سے اِن میں سے ایک میزائل یوکرائن کا مسافر طیارہ تباہ ہو گیا جس سے عملے کے تمام افراد اور مسافروں ہلاک ہو گئے۔ ایران او آئی سی، اوپیک،ای سی او،ڈی ایٹ میں انڈو نیشیا ،بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی ،مصر ،ملائیشیا، نائجیریا کے ساتھ شامل ہے ایران کی خارجہ پالیسی اورتعلقا ت اسلامی نظریات اور شعیہ فرقے کے عقائد کی بنیاد پر ہیں اور ایران نے ان نظریات کے پھیلاؤ کے لیے انقلاب کے ساتھ ہی کام شروع کر دیا تھا اور ایک بڑا محاذ توعالمی سطح پر مجموعی طور پر امریکہ اور مغربی قوتوں کے خلاف اِن کی عالمی اسلام دشمنی کے تاثر کے ساتھ برقرار رہا ہے کہ تو دوسرا محاذ رفتہ رفتہ سعودی عرب ،عرب امارات کے ساتھ بھی کھلتا گیا اوراس میں شدت بھی آتی رہی ہے۔

ایران1958 میںآئی اے ای اے IAEA کا رکن بنا 1968 میں اُس نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی کے معاہد این پی ٹی پر دستخط کئے مگر 1979 کے تھوڑے عرصے بعد ہی ایران نے اپنے ایٹمی پر گرام پر توجہ دی اور 2005 میں امریکہ اور بعض دوسری مغربی قوتوں نے ایران کے ایٹمی پر وگرم کو متنازعہ بنا دیا اور بہت سے ملکوں نے اس کی مخالفت شروع کردی۔ 2009 میں امریکی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے بتا یا کہ ایران 2013 تک ایٹمی ہتھیار بنالے گا۔ ایران نے اقوام متحدہ اورIAEA کو مطمین کیا کہ ایران کا ایٹمی پر وگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔

اس زمانے میں امریکہ کے صدر اوبامہ تھے۔ 14 جولائی 2015 کو P5+1 کا تاریخ معاہد ہ Joint comrehensive plan of action طے پا گیا یہ اس لیے کیا گیا تاکہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہو۔ ایران نے انٹر نیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی IAEAکے تمام معیارات کو تسلیم کر لیا مگر بعد میں صدر ٹرمپ نے اس سے انحراف کیا اور 20 اپریل 2019 کو دھمکی دے دی کہ امریکہ اُن ملکوں پر پابندیاں عائد کر دے گا جو ایران سے تیل خریدیں گے۔ یکم ستمبر2019 سے ایرانی حکام نے قطر سے تعلقات بہتر کرلیئے ہیں اور سفارتی محاذ پر یہ ایران حالیہ کامیابی ہے۔

ایران نے دنیا کامقابلہ کرنے کے لیے فوجی قوت ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں انقلاب کے بعد بہت ترقی کی ہے۔ 1979 کے مقابلے میں اب ایران نہ صرف دنیا بھر میں اِن شعبوں میں نمایاں ہے بلکہ بہت سے ملکوں سے آگے نکل چکا ہے۔ جی ایف پی 2020 فوجی درجہ بندی GFP2020Militory Strength Ranking میں ایران ورلڈ ٹاپ ٹوینٹی میں 14 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ ایران میں دو طرح کی فوج ہے ایک با قائدہ بحری بری اور فضائی فوج اور دوسری پاسدران ِ انقلاب Revolutionary Guard کی تعداد 545000 ریزرو فوج 350000 کل تعداد 900000 ہے۔ بغیر یو نیفارم کے تربیت یافتہ مرد و خواتین کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔

2014 میں ایران نے اسلحہ پر 15 ارب ڈالر خرچ کئے 2017 کے انتخاب کے بعد صدر ٹرمپ نے سرکاری طور پر الزام لگا یا کہ پاسداران ِ انقلاب ایک بیرونی دہشت گرد تنظیم ہے یوں دنیا میں پہلی مرتبہ کسی ملک کی فورس کو دہشت گرد کہا گیا۔ تعلیم کے میدان آج ایران غالباً تمام اسلامی ملکوں سے سبقت لے گیا ہے۔ اسلامی ملکوں میں ایران سب سے زیادہ تعداد میں سالانہ پی ایچ ڈی ماہرین اور ریسرچرز پیداکر رہا ہے۔ ایران میں یو نیورسٹی کے ماہر ین کی ریسر چ اس لیے بھی زیادہ ترقی کر رہی ہے کہ تعلیم کی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے ماتحت ہے اور یوں اُن ریسرچ کی فوری حوصلہ افزائی ہو تی ہے۔

جس سے قومی پیداوار قومی دفاع جدید اسلحہ سازی اور ایسے ہی دیگر شعبوں کو فروغ ملے اس رحجان کو اس لیے بھی زیادہ تقویت ملتی ہے کہ ایران اس وقت کتابیں شائع کر نے میں پہلے نمبر پر ہے اور خصوصاً تراجم کی اشاعت تو حیرت انگیز حد تک جلد اور فوری ہو تی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالو جی کے کسی بھی شعبے میں شائع ہو نے والی ہر اچھی کتاب کے لیے کوشش ہو تی ہے کہ اُس ترجمہ فوری طور پر فارسی میں کر دیا جائے۔ ایران دنیا کا نواں ملک ہے جس نے خلا میں اپنا سٹیلائٹ بھیجا تھا ،با ئیو میڈیکل سائنسسز میں بھی ایران نے قابل ِ قدر ترقی کی ہے ایران کے انسی ٹیوٹ آف با ئیو کیمیسٹر ی اینڈ بائیو فزکس نے عالمی سطح پر UNESCO کی چیر حاصل کی۔

2006 میں ایرانی سائنسدانوں نے رویان ریسرچ سنٹر میں کا میابی سے بھیڑ کی کلونگ کی ،نینو ٹیکنالوجی میں ایران دنیا میں پندرویں درجے پر ہے۔ 2009-10 میں تہران یو نیورسٹی نے سو رینا ٹو متعارف کرویا جس کو (IEEE ) نے عالمی سطح اپنے پانچ بہترین ربوٹ میں شامل کیا۔ ایران کا دعویٰ یہی رہا ہے کہ وہ پُرامن مقاصد کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھے ہو ئے ہے اور اس شعبے میں بھی ایران ٹاپ ٹو نٹی ممالک میں شامل ہے۔اقوام متحدہ کے 75 سال کے حوالے سے ایران اقوام متحد ہ کے بانی رُکن ملکوں میںشامل ہے لیکن گذشتہ 40 برس سے ایران اقوام متحدہ کی جانب سے بہت سی منظور ہونے والی قراردادوں کی وجہ سے اقتصادی دباؤ کے باوجود اپنی نظریاتی اساس کے ساتھ کھڑا ہے۔

ایران کے الزامات یہ رہے ہیں کہ امریکہ سمیت مغربی قوتیں ایران میں کئی مر تبہ سیاسی بحران پید اکر نے کی سازشیں اور کوششیں کر چکی ہیں اور اِن کو ششوں میں علاقائی ملکوں کی جانب سے بھی تعاون حاصل کیا گیا۔ دوسری جانب علاقائی ملکوں کو بھی ایران کی جانب سے ایسی ہی شکا یات رہی ہیں اس اعتبار سے اقوام متحدہ 193 ملکوں میںسے بھی ایران کو بہت سے ملکوں کی حمایت در کار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کو ایران کے انقلاب کے بعد ایران کے حوالے سے مختلف صورتحال کا سامنا رہا ہے۔ (جاری ہے)
Load Next Story