عجائب خانوں کی عجیب دنیا قسط نمبر 4
ریل کے ڈبے، پٹری اور پُرانے انجن، فلموں کے پوسٹر
30۔ نیشنل ہسٹری میوزیم، لاہور
سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے قلب میں دودھ سی سفید ایک خوب صورت چمکتی ہوئی عمارت موجود ہے۔ یہ کولمبو نیشنل میوزیم ہے۔ پچھلے سال اس نیشنل میوزیم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں سری لنکا کی تاریخ و ثقافت اور دست کاریوں کو سلیقے سے نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس میں سری لنکا کی جدید تاریخ اور فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ دی گئی تھی۔
یہ میوزیم دیکھتے ہوئے میں شدت سے یہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس طرح کا ایک میوزیم پاکستان میں بھی ہوتا جہاں صرف ادب، موسیقی، دست کاریاں اور مختلف فنونِ لطیفہ نمایاں کیے جاتے۔ شاید وہ وقت قبولیت کا تھا۔ پاکستان پہنچنے کے فوراً بعد مجھے لاہور کے نیشنل ہسٹری میوزیم کا پتا چلا۔ یہ میوزیم ابھی ابھی بنا تھا بلکہ یوں کہیں کہ ابھی اس کا ''آخری ٹچ'' باقی تھا لیکن مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں دوستوں کو منت کر کے وہاں لے گیا۔خوش قسمتی سے میوزیم عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ باہر عمارت کی خوب صورتی سے ہی اندر کی نفاست کا اندازہ لگا لیا اور میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔
لاہور کا عظیم الشان عجائب گھر کئی گیلریوں پر مشتمل ہے جہاں قیامِ پاکستان اور اس دور کے حالات کو ترتیب سے دکھایا گیا ہے. اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ وہاں پاکستان بننے کے بعد کے فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ نہیں دی جا سکی (کراچی کا نیشنل میوزیم میں نے دیکھا نہیں اس لیے کوئی رائے نہیں دے سکتا)۔ قصور، بہاولپور اور سوات کے عجائب گھر وہاں کی مقامی تاریخ اور کرافٹس پر مشتمل ہیں۔ پشاور کا میوزیم گندھارا آرٹ کا شاہ کار ہے، جب کہ ہڑپہ اور ٹیکسلا کے میوزیم میں قدیم اشیاء رکھی گئی ہیں۔
ایسے میں قومی سطح کے میوزیم کی سخت ضرورت تھی جہاں پاکستان کی قدیم و جدید تاریخ سمیت فنونِ لطیفہ پر بھی خاص روشنی ڈالی جائے اور یہ کام لاہور کے نیشنل میوزیم سے بخوبی لیا گیا ہے۔اس میوزیم کا محلِ وقوع بھی بہت تاریخی ہے۔ یہ لاہور کے ''گریٹر اقبال پارک'' میں واقع ہے جہاں مینار پاکستان اور حفیظ جالندھری کے مرقد جیسی تاریخی جگہیں موجود ہیں۔ 35000 اسکوائر فٹ کے رقبے پر محیط اس میوزیم کی عمارت نصف گولائی میں بنائی گئی ہے جس کا افتتاح اس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اپریل 2018 میں کیا تھا جب کہ اسے عوام کے لیے یکم جولائی کو کھولا گیا۔
اس خوب صورت میوزیم کی عمارت ''پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی'' نے بنائی ہے اور اب یہ ''سٹیزن آرکائیوز آف پاکستان'' کی تحویل میں ہے جو تاریخ، ثقافت اور ورثے سے متعلق ایک غیرسرکاری تنظیم ہے۔نصف گولائی میں بنائے گئے میوزیم میں ایک جانب داخلہ تو خروج مخالف سمت میں رکھا گیا ہے۔ میوزیم کو پانچ مختلف گیلریز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں تاریخ، ادب، کھیل، ثقافتی سرگرمیاں، موسیقی، فلم، زبان، مجسمہ سازی، ذرائع نقل و حمل، دست کاریاں، ڈاک کا نظام، فوٹوگرافی، آلاتِ حرب اور منظرکشی سے متعلق قدیم و جدید سامان کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ آئیے تفصیلاً ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
اندر داخل ہوتے ہی پہلی گیلری تقسیم سے پہلے اور بعد کے اہم واقعات کی دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز سے مزین ہے جہاں آپ ہر سال کے حساب سے اس سال کے اہم واقعات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہاں قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور پاکستان بننے کے بعد کے حالات کو ترتیب اور نفاست سے دکھایا گیا ہے۔ برِصغیر کے خوب صورت نقشوں سے لے کر قائدِاعظم اور اہم راہنماؤں کی نایاب تصاویر تک سب یہاں موجود ہیں۔
دوسری گیلری میں تقسیم کے دردناک مناظر کی منظرکشی کی گئی ہے۔ اس میوزیم میں تاریخ کو واضح کرنے کے لیے نہ صرف تصاویر بلکہ آڈیو اور ویڈیوز سے بھی مدد لی گئے ہے۔ یہاں قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کے مناظر اور مہاجرین کے کپڑوں سمیت ان کی اشیاء بھی دکھائی گئی ہیں۔ ایک حِصہ میں مہاجرین کی چیخیں گونج رہی ہیں جو دیکھنے والے کو انکی تکلیف کا اندازہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔تیسری گیلری کے دو حصے ہیں۔ ایک میں اُس وقت کے واہگہ ریلوے اسٹیشن کی منظرکشی کی گئی ہے جہاں ایک پرانا ٹرین کا ڈبا اور بنچ رکھا گیا ہے۔
ساتھ ہی تقسیم کے بعد کے حکومتِ پاکستان کے دفاتر، اسٹیشنری اور ٹیلی فون وغیرہ رکھے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں پاک فوج کی تینوں شاخوں، بری، بحری اور فضائیہ سے متعلق سامانِ حرب رکھا گیا ہے۔ ان میں جہازوں، آبدوزوں، کشتیوں اور ٹینکوں کے ماڈل سے لے کہ پاکستان کے تمام سول و ملٹری تمغہ جات ان کی تفصیل کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔
چوتھی گیلری کو اگر میوزیم کی سب سے دل چسپ و رنگین جگہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ یہ گیلری پاکستان کے فنونِ لطیفہ سے متعلق ہے۔ یہاں پاکستانی فلمی صنعت ''لالی وڈ'' کی مشہور پرانی فلموں کے پوسٹرز، لالی وڈ کی تاریخ، مشہور فلمی شخصیات کا تعارف، گلوکاروں کے پورٹریٹس، مشہور غزل گائیکوں کی تصاویر اناکی غزلوں کی آڈیوز سمیت نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہاں 60 کی دہائی کی پاکستانی فلمی صنعت کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ فوٹوگرافی کے متعلق بھی ہے۔ آخری ہال میں کھیل و ثقافت اور ذرائع نقل و حمل کو رکھا گیا ہے۔
سب سے پہلے آپ پاکستان کے مشہور کھیلوں کی تاریخ تصاویر سمیت دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کونے میں ایک چھوٹا سا پروجیکٹر لگا کر سنیما ہال بنایا گیا ہے جہاں مختلف معلوماتی دستاویزی فلمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اسکرین پر قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کھیل کے میدان میں پاکستان کی اہم پیش قدمیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ ملکہ ترنم نورجہاں اور مشہور پاکستانی آرٹسٹ صادقین کی خدمات کے لیے مختص ہے جہاں ملکہ ترنم کے گانے بھی سُنے جا سکتے ہیں۔
یہاں پشاور ریلوے اسٹیشن کا ایک ماڈل ہے اور پاکستانی ٹرین کو خوب صورت نظاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان پوسٹ اور پاکستانی پاسپورٹ کے بارے اہم معلومات تصاویر اور ماڈلز سمیت ڈسپلے کی گئی ہیں۔ اور آخر میں ''ڈسکور پاکستان'' کے نام سے ایک دیوار بنائی گئی ہے جہاں پاکستان کی علاقائی ثقافت کے رنگوں کو بکھیرا گیا ہے۔ یہاں آپ پورے پاکستان کی خوشبو اپنے اندر اتار سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک مجسمہ گیلری بھی ہے جہاں نصف گولائی میں تحریکپاکستان کے اہم راہنماؤں کے سفید مجسمے رکھے گئے ہیں۔
کسی بھی وزیٹر کے لیے پہلی بار اتنی معلومات یک دم نگلنا کچھ مشکل ہوتا ہے اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہاں باخبر گائیڈز رکھے گئے ہیں جو آپ کو ہر گیلری کے بارے میں چید چیدہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مختلف یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء ہیں۔
یہ اپنی طرز کا پہلا پاکستانی میوزیم ہے جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مدد لی گئی ہے۔ اس کی سب سے اہم خاصیت یہی ہے کہ یہاں آپ نہ صرف نمائش کے لیے رکھے گئے نوادرات، اہم تحریریں و معاہدے اور تصاویر دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کی تاریخ اور ان کے ذرائع (جہاں سے حاصل کیے گئے ہیں) کے بارے میں مختلف آڈیو ویڈیوز سے بھی جان سکتے ہیں جو خود بہت نادر ہیں۔ یہاں قائداعظم کی اہم تقاریر، مختلف اہم نوعیت کے پیغامات، ریڈیو پاکستان کی پہلی اناؤنسمنٹ اور مشہور فلمی گانوں کو سُنا بھی جا سکتا ہے۔ ذرا سوچیں، آپ ایک پرانا ٹیلی فون اٹھاتے ہیں اور محمد علی جناح کی بارعب آواز آپ کو سنائی دیتی ہے، کتنا یادگار تجربہ ہے نا یہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ اس سے بہتر طریقے سے محفوظ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
٭اہم خصوصیات
پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل میوزیم جو 35000 اسکوائر فٹ پر محیط ہے۔
8700 سے زیادہ ڈیجیٹل تصاویر۔
تاریخی دستاویزی فلموں کے لیے ایک سنیما ہال۔
ڈیجیٹل کوریڈورز کی مدد سے تاریخ کا ایک خوب صورت سفر۔
پاکستان کے پہلے جاری کیے جانے والے پاسپورٹ کی یادگار۔
قائداعظم اور گاندھی کے تاریخی خطوط۔
اور ان تمام اہم معلومات کا وائی فائی کے ذریعے آپ کے لیپ ٹاپ/یو ایس بی میں ٹرانسفر۔
31- وزیر مینشن کراچی ؛
کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع ہے اس عمارت کی وجہ شہرت یہ ہے کہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح، 25 دسمبر، 1876ء کو اس عمارت میں پیدا ہوئے۔ بانیٔ پاکستان کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے اس عمارت کو حکومت پاکستان نے قومی اثاثہ قرار دے کر ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔کراچی کے موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے چونے اور پٹ سن کے مصالحے سے بنائی گئی یہ خوب صورت عمارت 1860 سے 1870 کے بیچ بنائی گئی۔ یہاں قائداعظم محمد علی جناح کے زیراستعمال تمام اشیاء جیسے فرنیچر، ملبوسات، سگار، جوتے اور روزمرہ استعمال کی چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔
32- ٹھٹھہ میوزیم سندھ ؛
ٹھٹھہ صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل کے قریب واقع ایک تاریخی شہر ہے جس کے بیش تر تاریخی مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ بہت سارے تاریخی مقامات کا گڑھ ہونے اور کراچی کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے ہر سال اس جگہ سیاحت کے دل دادہ لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس شہر اور اس کی ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔حال ہی میں ٹھٹھہ میں ایک میوزیم کی بنیاد رکھی گئی ہے جو غالباً اگست میں عوام کے لیے کھولا گیا ہے۔ یہاں ٹھٹھہ شہر کی قدیم تاریخ، فنِ کاشی گری، مختلف پیشوں، اور سندھ کی دیہی زندگی کو خوبصورت طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے نیا بننے والا عجائب گھر ہے۔
33- فقیر خانہ میوزیم لاہور
پرانے لاہور کے بھاٹی دروازے کے اندر داخل ہوں تو کچھ آگے چل کر دائیں ہاتھ پر ایک پرانی حویلی ''فقیر خانہ'' کے نام سے موجود ہے، یہی پاکستان کا سب سے بڑا نجی میوزیم ''فقیر خانہ میوزیم'' ہے جو پچھلی 6 نسلوں سے اندرون لاہور کے فقیر خاندان کے زیرانتظام قائم ہے۔ اس عجائب گھر میں کم و بیش 30,000 تبرکات و نوادرات محفوظ ہیں۔ اس کے موجودہ ڈائریکٹر فقیر سیف الدین ہیں جو اس عجائب گھر کا انتظام بخوبی چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق فقیرخانہ عجائب گھر میں 7000 لگ بھگ نوادرات موجود ہیں جو ایک خاندانی ورثے کی طرح اولاد میں تقسیم ہوتے رہے ہیں۔
اس دوران اس میں سے کچھ انمول خزانہ ضائع بھی ہوا۔ جو کتابیں، نوادرات اور تبرکات بچے انہیں فقیرخانہ میں جمع کردیا گیا ہے۔ دو منزلہ خوب صورت عمارت پر مشتمل اس عجائب گھر کے نچلے مرکزی کمرے میں مختلف قسم کی تلواریں، ڈھالیں، تیر کمان، پستول اور خنجر نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، جب کہ یہی کمرہ فقیر سیف الدین کے بیٹھنے اور تحقیق کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔اوپر کے مرکزی کمرے میں رکھی گئی نایاب اشیاء میں بدھا کا مجسمہ، خطاطی کے نمونے، چھوٹی تصاویر، قالین کا وہ ٹکڑا جس میں ایک چہرہ نظر آتا ہے، پیتل کے مجسمے، لکڑی کا خوب صورت فرنیچر اور قیمتی گلدان شامل ہیں۔
یہاں سے ایک گیلری نکلتی ہے جہاں لکڑی کے خانوں میں چینی پورسلین کے خوب صورت ظروف اور گندھارا تہذیب کے نمونے رکھے گئے ہیں۔ یہاں سے ایک اور کمرہ نکلتا ہے جہاں مختلف الماریوں میں کئی قسم کی نادر اشیاء کو محفوظ کیا گیا ہے۔
فقیر سید نور الدین نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں پینٹنگز کی ایک نمائش کروائی تھی، جس میں لکھنؤ، کانگڑہ اور جموں و کشمیر کے علاقہ سے بیشمار مصوروں کی پینٹنگز لائی گئیں۔ آج بھی کئی پینٹنگز انہی سے منسوب ہیں۔ اس کے علاوہ کتابیں اور پورسلین کے بنے ظروف بہت اہم شاہ کار ہیں۔ گندھارا تہذیب کے نوادرات میں تاریخی سکے بھی موجود ہیں۔ لکڑی کے شاہ کار، ہاتھی دانت کی مصنوعات، پیتل اور تانبے کے کئی شاہ کار بھی موجود ہیں، فرنیچر کے علاوہ اسلامک آرٹ یا کیلی گرافی کے بہت سے نمونے بھی اس عجائب گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
فقیرخانہ عجائب گھر ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔ اسکالر، محقق، سیاح، طالب علم اور مورخ سبھی اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ذاتی نوعیت کا واحد عجائب گھر ہے، جہاں تبرکات کے علاوہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔
34- خواجہ فرید میوزیم کوٹ مٹھن ؛
نجی عجائب گھروں میں ایک منفرد مقام کا حامل یہ میوزیم پاکستان کا سب سے بڑا ''نجی صوفی میوزیم'' ہے جو سرائیکی، پنجابی، فارسی اور سندھی کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کی درگاہ کے ساتھ واقع ہے۔ اس میوزیم کا نظم و نسق درگاہ کے متولین چلا رہے ہیں جس کے ساتھ ایک لائبریری بھی منسلک ہے۔خواجہ فرید میوزیم اور لائبریری کی قطار اندر قطار کئی گیلریوں میں آپ کے خطوط، لباس، کتابیں، گھریلو استعمال کی اشیاء، بستر، قرآن پاک، آخری غسل کا صابن، فریدی رومال، کنگھی، کچھ سکے اور کرنسی نوٹ وغیرہ کے علاوہ سینکڑوں دیگر اشیاء موجود ہیں۔
آخری گیلری میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطے کی مختلف ثقافتی اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ہر سال خواجہ صاحب سے عقیدت رکھنے والے ہزاروں افراد اس میوزیم کو دیکھنے آتے ہیں اور عرس کے دنوں میں تو تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ اس میوزیم کو کسی نئی عمارت میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سرپرستی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔
35- علامہ اقبال میوزیم لاہور ؛
یہ بات ہے 1977 کی جب پاکستان میں علامہ محمد اقبال کا صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا تھا تو حکومت نے اقبال منزل سیالکوٹ، اقبال کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اور جاوید منزل کو تحویل میں لے کر محفوظ کرنے کا سوچا۔ ان تینوں عمارتوں کو خرید کر میوزیم میں بدل دیا گیا۔
مئی 1935ء میں علامہ اقبال اور ان کے اہل خانہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے جاوید منزل میں منتقل ہوگئے۔ آخری عمر میں ملنے والے اس خوب صورت گھر کو علامہ اقبال نے اپنے صاحبزادے جاوید کے نام سے موسوم کردیا اور آج اسی جاوید منزل کو ''علامہ اقبال میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حکومت جاپان نے اس ضمن میں ایک احسن اقدام اٹھاتے ہوئے اقبال میوزیم کے لیے جاپان کے ثقافتی فنڈ سے شوکیسوں اور ایئر کنڈیشنروں کے علاوہ متعلقہ سامان اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے ایک بڑی رقم مہیا کی۔
میوزیم کی تیاری کے بعد اسے محکمۂ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا گیا، جو اب بھی اس کی تحویل میں ہے۔ اقبال میوزیم، 9 گیلریوں پر مشتمل ہے۔ میوزیم میں علامہ کی کئی اشیا موجود ہیں، جو ان کے صاحبزادے جاوید اقبال نے میوزیم کو عطیہ کی تھیں۔ ان اشیاء میں اقبال کا پاسپورٹ، دستخط کی مہر، ملاقاتی کارڈوں والا بٹوا، بنک کی کتاب، عینکیں، انگوٹھیاں، کف لنکس، پگڑی، قمیص، جوتے، کوٹ، تولیے، چھڑیاں، ٹائیاں، کالر، دستانے، وکالتی کوٹ، جناح کیپس، گرم سوٹ جو لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ سے سلوائے گئے تھے۔ پشمینہ شیروانی، حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجا سرکرشن پرشاد کی جانب سے ارسال کردہ قالین، قلم، مسودے، خطوط، دستاویزات، تصاویر اور متعدد دیگر اشیاء شامل ہیں۔ میوزیم کا رقبہ تقریباً سات کنال ہے۔
36- قلعہ بالا حصار میوزیم
بالاحصار، پشاور میں واقع ایک قدیم قلعہ اور تاریخی مقام ہے۔ تیمور شاہ درانی نے اس قلعے کا نام بالاحصار رکھا جس کے لفظی معنی بلند قلعہ کے ہیں۔ یہ قلعہ ایک طویل عرصے تک درانیوں کے زیراستعمال رہا، 19ویں صدی میں جب سکھوں نے پشاور پر حملہ کیا تو یہ قلعہ ان کے زیراستعمال آیا اور انہوں نے اس کا نام سمیر گڑھ رکھا لیکن مقامی طور پر سمیر گڑھ کا نام مشہور نہ ہوسکا۔اس وقت قلعے کو بطور فرنٹیئر کور ہیڈکوارٹر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے۔
اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی اندرونی دیوار کی بلندی 50 فٹ ہے۔ دوہری دیواروں والے اس قلعے کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ ہے جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے۔ ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعے کے اندر تک جاتی ہے۔ اس خوب صورت قلعے کے اندر ایک خوب صورت میوزیم بنایا گیا ہے جہاں مختلف کمروں میں فرنٹیئر کور کی مختلف شاخوں کی نمائندگی کی گئی ہے جن میں خیبر رائفلز، سوات اسکاؤٹس، مہمند رائفلز، چترال اسکاؤٹس، کُرم ملٹری، باجوڑ اسکاؤٹس، شوال رائفلز، دیر اسکاؤٹس، جنوبی وزیرستان و ٹوچی اسکاؤٹس اور خٹک اسکاؤٹس شامل ہیں۔
یہاں ان علاقوں میں مختلف آپریشنز سے بازیاب کیے گئے آلاتِ حرب، نقشے، سپاہیوں کی وردیاں، تصاویر، تلواریں، پستول، جھنڈے، مختلف علاقوں کی ثقافتیں، ٹرک آرٹ، اور چھوٹی توپیں شامل ہیں۔ یہاں ایک پھانسی گھاٹ اور خوب صورت چھوٹی سی سووینیئر شاپ بھی ہے جہاں سے آپ پشاور کی مشہور پشاوری چپل اور درۂ خیبر کے ماڈل خرید سکتے ہیں۔یہاں موجود ایک تختی پر رڈیارڈ کپلنگ کے وہ مشہور الفاظ بھی درج ہیں جو انہوں نے اس فورس کے بارے میں کہے تھے۔
37- کوئٹہ جیولوجیکل میوزیم ؛
علمِ ارضیات اور پیش قیمت معدنیات پر مشتمل جیولوجیکل سروے آف پاکستان میوزیم، پاکستان میں اپنی طرز کا واحد میوزیم ہے۔ یہ عجائب گھر کوئٹہ میں سریاب روڈ پر واقع ہے۔ اس میوزیم میں زمین، چٹانوں، پتھروں، معدنیات اور تمام قیمتی و تعمیراتی پتھروں سے متعلق تمام اہم چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں اور اسی مناسبت سے اسے معدنیات کے گڑھ بلوچستان میں بنایا گیا ہے۔ سب سے اہم چیز 500 ملین سال قدیم فاسلز اور 47 ملین سال پرانی وہیل مچھلی کا ڈھانچا ہے۔یہ میوزیم پانچ گیلریوں پر مشتمل ہے:
٭چٹانی و معدنیاتی گیلری:اس گیلری میں 2000 سے بھی زیادہ دستاویزات موجود ہیں جو دنیا بھر سے یہاں لا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ گیلری تعلیم و تحقیق کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
٭معدنیاتِ بلوچستان گیلری:پاکستان بھر سے اور خصوصاً بلوچستان سے نکالی جانے والی قیمتی معدنیات اس گیلری کی زینت بنائی گئی ہیں جن میں لوہا، تانبا، جست، نمک، ماربل، گندھک، سونا اور شامل ہیں۔
٭جواہرات گیلری:ملک بھر سے نکالے جانے والے قیمتی پتھر و جواہرات یہاں رکھے گئے ہیں جن میں زمرد، فیروزہ، نیلم، پکھراج اور شامل ہیں۔
٭تعمیراتی پتھر گیلری:اس گیلری میں آپ مختلف عمارتوں میں استعمال ہونے والا پہاڑی پتھر دیکھ سکتے ہیں۔یہ کوئٹہ کا ایک ایسا میوزیم ہے جسے اب دیکھنے کوئی نہیں جاتا۔ اس جیسے میوزیم جو دوسرے ملکوں میں ہیں ان کا کئی ڈالر ٹکٹ ہے اور روزانہ ہزاروں سیاح ان کا دورہ کرتے ہیں۔ اس کے تالے ہمارے لیے خصوصی طور پر کھولے گئے۔ اس میں قیمتی پتھر لاکھوں سال پرانے فوسلز بلوچستان کی معدنیات اور بلوچستان کے پہاڑوں سے متعلق بے بہا معلومات موجود ہیں۔
38- پاکستان ریلوے ہیریٹیج میوزیم گولڑہ شریف؛
برسوں سے ریل گاڑی ملکوں کی معیشتوں کا پہیا چلاتی آئی ہے اور لاکھوں لوگوں کو آرم دہ سفر اور بیش بہا خوبصورت نظاروں سے مستفید کرتی آئی ہے، لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ ان ریل گاڑیوں کو کسی میوزیم میں بھی رکھا جائے گا۔گولڑہ شریف ریلوے عجائب گھر جو ''پاکستان ریلویز ورثاتی عجائب گھر'' بھی کہلاتا ہے اسلام آباد میں واقع پاکستان کا واحد ریلوے عجائب گھر ہے۔ یہ عجائب گھر گولڑہ شریف جنکشن ریلوے اسٹیشن میں قائم ہے جو اسلام آباد کے جنوب مغرب میں سطح سمندر سے 1,994 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
یہ عجائب گھر اور ریلوے اسٹیشن سیاحوں اور خاص طور پر ریلوے اور ٹرین کے شیدائیوں کی دل چسپی کا مرکز ہے۔اس اسٹیشن کو انگریز دور میں 1882 میں بنایا گیا جب کہ 1912 میں اسے جنکشن بنا دیا گیا۔ افغانیوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران برطانوی افواج کے لیے اس اسٹیشن کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی۔ریلوے کی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے اکتوبر 2003 میں یہاں ایک عجائب گھر کی بنیاد رکھی گئی۔ اس عجائب گھر میں تین مختلف ہال ہیں جہاں 150 سال سے بھی زیادہ پرانا سامان رکھا گیا ہے جس میں سے زیادہ تر متحدہ ہندوستان کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔
میوزیم کے ساتھ ہی ایک یارڈ میں ریلوے کی کرینیں، ٹرالیاں، انجن، ڈبے، سیلون اور ٹریک خوب صورتی سے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مشینیں، سگنل سسٹم اور ذرائع ابلاغ کا سامان بھی یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہ میوزیم 2002 میں راولپنڈی ڈویژن کے ڈی ایس اشفاق خٹک کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان کے کہنے پر ہی پاکستان ریلوے کے تمام ڈویژنوں سے تنگ پٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کا مختلف پرانا سامان جیسے کراکری، فرنیچر، انجن اور سیلون اکٹھا کیا گیا۔ 2003 کے آخر تک اس پراجیکٹ کو بغیر حکومتی مدد اور کام کرنے والے آفیسرز کی دل چسپی کی بدولت مکمل کیا گیا اور اس کا باقاعدہ افتتاح مارچ 2007 میں کیا گیا۔اس عجائب گھر میں پاکستان ریلویز سے متعلق پرانے ریلوے انجنوں، ڈبوں اور نادر اور تاریخی اشیاء کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
ریلوے سے متعلق پرانی اور نادر اشیاء کو دو ہالوں جب کہ پرانے انجنوں اور ڈبوں کو اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور احاطے میں رکھا گیا ہے۔اپنی خوب صورت لوکیشن اور خوب صورتی کی بدولت یہ اسٹیشن اور میوزیم فلم، ٹی وی، فوٹوگرافی اور قلم قبیلے کا پسندیدہ ترین رہا ہے۔ یہاں کئی فلموں، ڈراموں اور کمرشلز کی شوٹنگز ہو چکی ہیں اور بہت سے فوٹوگرافر بھی صبح سویرے اس کی خوبصورتی کو کیمرے میں قید کرتے پائے جاتے ہیں۔
39- پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری، اسلام آباد؛
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا قیام 1976ء میں پاکستان سائنس فاونڈیشن اور وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرانتظام عمل میں لایا گیا۔ یہ 4 مختلف شعبہ جات پر مشتمل ہے، جن میں نباتات، حیوانات، ارضیات اور عوامی خدمت شامل ہیں۔ پہلے تین شعبہ جات کا مقصد پاکستان میں موجود پودوں، جانوروں، معدنیات، چٹانوں اور فاسلز کے نمونے اکٹھے کرنا ان کی پہچان اور ان پر تحقیق کرنا ہے، جب کہ چوتھا شعبہ ترتیب و تشہیر سے متعلق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس میوزیم میں تین لاکھ اشیاء موجود ہیں۔ نیچرل ہسٹری میوزیم ایک تحقیقی ادارہ بھی ہے جو لوک ورثہ میوزیم کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ یہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے زیرِانتظام ہے۔ اس کی گیلریوں کی تعداد 6 ہے۔
٭ حیاتیائی گیلری؛ مختلف علاقوں کے پودے، درخت، جانور اور پرندوں کے لیے۔
٭ قیمتی پتھروں کی گیلری؛ اس میں تراشے ہوئے اور خام حالت میں قیمتی پتھر و جواہرات رکھے گئے ہیں، جب کہ حکومتِ جاپان کی طرف سے صدرِپاکستان کو تحفتاً بھیجا گیا ''ہیروشیما کا پتھر'' بھی یہاں رکھا گیا ہے۔ گرینائٹ کا یہ پتھر تاریخ کے سب سے بڑے المیے کا گواہ ہے۔
٭ فاسلز گیلری؛ جہاں آپ مختلف قدیم جانوروں کے فاسلز، ان کی تصاویر، مخطوطات، اندھی ڈولفن کے فاسلز، ہاتھی کی ٹانگ کا فاسل، خوشاب سے ملنے والے مگرمچھ کے فاسلز بھی یہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کینیا کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی ابتدائی انسان کی وہ کھوپڑی بھی رکھی ہے جو تقریباً 29 لاکھ سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ مشرقی افریقہ سے برآمد ہوئی تھی۔
ماحولیاتی گیلری؛ جہاں ماحولیات کے طالب علم ماحولیاتی سائیکل اور نظام کا بغور مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
٭ ارضیاتی گیلری؛ اس گیلری میں پاکستان کے سمندروں اور معدنیاتوں سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں ایک وہیل مچھلی کا ڈھانچا بھی شامل ہے۔ کوہِ نمک کی مختلف پرتوں اور طبعی خصوصیات کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
٭ ورچول ٹور گیلری؛ اس گیلری میں آپ تمام گیلریوں کی چیدہ چیدہ خصوصیات دیکھ سکتے ہیں۔ ٹائم کی کمی کے باعث یہ گیلری آپ کو پورے میوزیم کی سیر کروا سکتی ہے۔
40- مہوٹہ پیلس میوزیم؛
کراچی کے ایک مشہور مارواڑی تاجر شیو رتن مہوٹہ نے 1927 میں کلفٹن کے ساحل کے قریب اپنے لیے ایک شان دار محل تعمیر کروایا تھا جس کے انجنیئر جے پور سے تعلق رکھنے والے برصغیر کے پہلے مسلمان انجنیئر احمد حسین آغا تھے جو کراچی میونسپلٹی کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ یوں تو انہوں نے کراچی میں کئی عمارتوں کو ڈیزائن کیا لیکن مہوٹہ پیلس ان کا لازوال شاہ کار قرار پایا۔ عمارت کے چاروں طرف چار گنبد، جب کہ چھت پر 5 گنبد بنائے گئے ہیں جو اس عمارت کی خوب صورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔
قطار اندر قطار دروازے اور ایک شان دار زینہ محل کی رونق میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں۔مغل طرزِتعمیر اور کراچی کے ریتیلے پیلے اور گلابی پتھر کو استعمال میں لا کر انہوں نے وہ عمارت کھڑی کی جو راجستھان کی کسی راجپوت ملکہ کے محل سے کم نہ تھی۔پاکستان بننے کے بعد مہوٹہ پیلس وزارتِ خارجہ کا دفتر قرار پایا۔ دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد یہ محل محترمہ فاطمہ جناح کو دے دیا گیا۔ 1964 میں آپ کی وفات کے بعد یہ محل آپ کی بہن شیریں بائی کے استعمال میں رہا جن کی وفات کے بعد یہ 1995 تک سیل کردیا گیا۔
1995 میں اسے حکومتِ سندھ نے میوزیم بنانے کے وعدے پر وفاق سے خرید لیا۔ ضروری مرمت کے کام کے بعد اسے 1999 میں عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ تب سے لی کر اب تک یہاں درجنوں شان دار نمائشیں منعقد کی جاچکی ہیں اور تین گیلریوں پر مشتمل یہ میوزیم آج چوالیس گیلریوں پر محیط ہے جہاں مختلف نوادرات رکھے گئے ہیں۔
مرکزی عمارت کے ساتھ ہی کراچی کی مرکزی لوکیشنز سے اٹھا کر لائے گئے انگریز دور کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ کچھ نادر مجسمے (جیسے ملکہ وکٹوریہ اور برطانوی سپاہیوں کے مجسمے) اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ (جاری ہے)
سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے قلب میں دودھ سی سفید ایک خوب صورت چمکتی ہوئی عمارت موجود ہے۔ یہ کولمبو نیشنل میوزیم ہے۔ پچھلے سال اس نیشنل میوزیم کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں سری لنکا کی تاریخ و ثقافت اور دست کاریوں کو سلیقے سے نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس میں سری لنکا کی جدید تاریخ اور فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ دی گئی تھی۔
یہ میوزیم دیکھتے ہوئے میں شدت سے یہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس طرح کا ایک میوزیم پاکستان میں بھی ہوتا جہاں صرف ادب، موسیقی، دست کاریاں اور مختلف فنونِ لطیفہ نمایاں کیے جاتے۔ شاید وہ وقت قبولیت کا تھا۔ پاکستان پہنچنے کے فوراً بعد مجھے لاہور کے نیشنل ہسٹری میوزیم کا پتا چلا۔ یہ میوزیم ابھی ابھی بنا تھا بلکہ یوں کہیں کہ ابھی اس کا ''آخری ٹچ'' باقی تھا لیکن مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں دوستوں کو منت کر کے وہاں لے گیا۔خوش قسمتی سے میوزیم عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ باہر عمارت کی خوب صورتی سے ہی اندر کی نفاست کا اندازہ لگا لیا اور میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔
لاہور کا عظیم الشان عجائب گھر کئی گیلریوں پر مشتمل ہے جہاں قیامِ پاکستان اور اس دور کے حالات کو ترتیب سے دکھایا گیا ہے. اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ وہاں پاکستان بننے کے بعد کے فنونِ لطیفہ پر خاص توجہ نہیں دی جا سکی (کراچی کا نیشنل میوزیم میں نے دیکھا نہیں اس لیے کوئی رائے نہیں دے سکتا)۔ قصور، بہاولپور اور سوات کے عجائب گھر وہاں کی مقامی تاریخ اور کرافٹس پر مشتمل ہیں۔ پشاور کا میوزیم گندھارا آرٹ کا شاہ کار ہے، جب کہ ہڑپہ اور ٹیکسلا کے میوزیم میں قدیم اشیاء رکھی گئی ہیں۔
ایسے میں قومی سطح کے میوزیم کی سخت ضرورت تھی جہاں پاکستان کی قدیم و جدید تاریخ سمیت فنونِ لطیفہ پر بھی خاص روشنی ڈالی جائے اور یہ کام لاہور کے نیشنل میوزیم سے بخوبی لیا گیا ہے۔اس میوزیم کا محلِ وقوع بھی بہت تاریخی ہے۔ یہ لاہور کے ''گریٹر اقبال پارک'' میں واقع ہے جہاں مینار پاکستان اور حفیظ جالندھری کے مرقد جیسی تاریخی جگہیں موجود ہیں۔ 35000 اسکوائر فٹ کے رقبے پر محیط اس میوزیم کی عمارت نصف گولائی میں بنائی گئی ہے جس کا افتتاح اس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اپریل 2018 میں کیا تھا جب کہ اسے عوام کے لیے یکم جولائی کو کھولا گیا۔
اس خوب صورت میوزیم کی عمارت ''پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی'' نے بنائی ہے اور اب یہ ''سٹیزن آرکائیوز آف پاکستان'' کی تحویل میں ہے جو تاریخ، ثقافت اور ورثے سے متعلق ایک غیرسرکاری تنظیم ہے۔نصف گولائی میں بنائے گئے میوزیم میں ایک جانب داخلہ تو خروج مخالف سمت میں رکھا گیا ہے۔ میوزیم کو پانچ مختلف گیلریز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں تاریخ، ادب، کھیل، ثقافتی سرگرمیاں، موسیقی، فلم، زبان، مجسمہ سازی، ذرائع نقل و حمل، دست کاریاں، ڈاک کا نظام، فوٹوگرافی، آلاتِ حرب اور منظرکشی سے متعلق قدیم و جدید سامان کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ آئیے تفصیلاً ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
اندر داخل ہوتے ہی پہلی گیلری تقسیم سے پہلے اور بعد کے اہم واقعات کی دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز سے مزین ہے جہاں آپ ہر سال کے حساب سے اس سال کے اہم واقعات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہاں قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور پاکستان بننے کے بعد کے حالات کو ترتیب اور نفاست سے دکھایا گیا ہے۔ برِصغیر کے خوب صورت نقشوں سے لے کر قائدِاعظم اور اہم راہنماؤں کی نایاب تصاویر تک سب یہاں موجود ہیں۔
دوسری گیلری میں تقسیم کے دردناک مناظر کی منظرکشی کی گئی ہے۔ اس میوزیم میں تاریخ کو واضح کرنے کے لیے نہ صرف تصاویر بلکہ آڈیو اور ویڈیوز سے بھی مدد لی گئے ہے۔ یہاں قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کے مناظر اور مہاجرین کے کپڑوں سمیت ان کی اشیاء بھی دکھائی گئی ہیں۔ ایک حِصہ میں مہاجرین کی چیخیں گونج رہی ہیں جو دیکھنے والے کو انکی تکلیف کا اندازہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔تیسری گیلری کے دو حصے ہیں۔ ایک میں اُس وقت کے واہگہ ریلوے اسٹیشن کی منظرکشی کی گئی ہے جہاں ایک پرانا ٹرین کا ڈبا اور بنچ رکھا گیا ہے۔
ساتھ ہی تقسیم کے بعد کے حکومتِ پاکستان کے دفاتر، اسٹیشنری اور ٹیلی فون وغیرہ رکھے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں پاک فوج کی تینوں شاخوں، بری، بحری اور فضائیہ سے متعلق سامانِ حرب رکھا گیا ہے۔ ان میں جہازوں، آبدوزوں، کشتیوں اور ٹینکوں کے ماڈل سے لے کہ پاکستان کے تمام سول و ملٹری تمغہ جات ان کی تفصیل کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔
چوتھی گیلری کو اگر میوزیم کی سب سے دل چسپ و رنگین جگہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ یہ گیلری پاکستان کے فنونِ لطیفہ سے متعلق ہے۔ یہاں پاکستانی فلمی صنعت ''لالی وڈ'' کی مشہور پرانی فلموں کے پوسٹرز، لالی وڈ کی تاریخ، مشہور فلمی شخصیات کا تعارف، گلوکاروں کے پورٹریٹس، مشہور غزل گائیکوں کی تصاویر اناکی غزلوں کی آڈیوز سمیت نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہاں 60 کی دہائی کی پاکستانی فلمی صنعت کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ فوٹوگرافی کے متعلق بھی ہے۔ آخری ہال میں کھیل و ثقافت اور ذرائع نقل و حمل کو رکھا گیا ہے۔
سب سے پہلے آپ پاکستان کے مشہور کھیلوں کی تاریخ تصاویر سمیت دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کونے میں ایک چھوٹا سا پروجیکٹر لگا کر سنیما ہال بنایا گیا ہے جہاں مختلف معلوماتی دستاویزی فلمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اسکرین پر قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کھیل کے میدان میں پاکستان کی اہم پیش قدمیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک حِصہ ملکہ ترنم نورجہاں اور مشہور پاکستانی آرٹسٹ صادقین کی خدمات کے لیے مختص ہے جہاں ملکہ ترنم کے گانے بھی سُنے جا سکتے ہیں۔
یہاں پشاور ریلوے اسٹیشن کا ایک ماڈل ہے اور پاکستانی ٹرین کو خوب صورت نظاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان پوسٹ اور پاکستانی پاسپورٹ کے بارے اہم معلومات تصاویر اور ماڈلز سمیت ڈسپلے کی گئی ہیں۔ اور آخر میں ''ڈسکور پاکستان'' کے نام سے ایک دیوار بنائی گئی ہے جہاں پاکستان کی علاقائی ثقافت کے رنگوں کو بکھیرا گیا ہے۔ یہاں آپ پورے پاکستان کی خوشبو اپنے اندر اتار سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک مجسمہ گیلری بھی ہے جہاں نصف گولائی میں تحریکپاکستان کے اہم راہنماؤں کے سفید مجسمے رکھے گئے ہیں۔
کسی بھی وزیٹر کے لیے پہلی بار اتنی معلومات یک دم نگلنا کچھ مشکل ہوتا ہے اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہاں باخبر گائیڈز رکھے گئے ہیں جو آپ کو ہر گیلری کے بارے میں چید چیدہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مختلف یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء ہیں۔
یہ اپنی طرز کا پہلا پاکستانی میوزیم ہے جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مدد لی گئی ہے۔ اس کی سب سے اہم خاصیت یہی ہے کہ یہاں آپ نہ صرف نمائش کے لیے رکھے گئے نوادرات، اہم تحریریں و معاہدے اور تصاویر دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کی تاریخ اور ان کے ذرائع (جہاں سے حاصل کیے گئے ہیں) کے بارے میں مختلف آڈیو ویڈیوز سے بھی جان سکتے ہیں جو خود بہت نادر ہیں۔ یہاں قائداعظم کی اہم تقاریر، مختلف اہم نوعیت کے پیغامات، ریڈیو پاکستان کی پہلی اناؤنسمنٹ اور مشہور فلمی گانوں کو سُنا بھی جا سکتا ہے۔ ذرا سوچیں، آپ ایک پرانا ٹیلی فون اٹھاتے ہیں اور محمد علی جناح کی بارعب آواز آپ کو سنائی دیتی ہے، کتنا یادگار تجربہ ہے نا یہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ اس سے بہتر طریقے سے محفوظ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
٭اہم خصوصیات
پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل میوزیم جو 35000 اسکوائر فٹ پر محیط ہے۔
8700 سے زیادہ ڈیجیٹل تصاویر۔
تاریخی دستاویزی فلموں کے لیے ایک سنیما ہال۔
ڈیجیٹل کوریڈورز کی مدد سے تاریخ کا ایک خوب صورت سفر۔
پاکستان کے پہلے جاری کیے جانے والے پاسپورٹ کی یادگار۔
قائداعظم اور گاندھی کے تاریخی خطوط۔
اور ان تمام اہم معلومات کا وائی فائی کے ذریعے آپ کے لیپ ٹاپ/یو ایس بی میں ٹرانسفر۔
31- وزیر مینشن کراچی ؛
کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع ہے اس عمارت کی وجہ شہرت یہ ہے کہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح، 25 دسمبر، 1876ء کو اس عمارت میں پیدا ہوئے۔ بانیٔ پاکستان کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے اس عمارت کو حکومت پاکستان نے قومی اثاثہ قرار دے کر ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا۔کراچی کے موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے چونے اور پٹ سن کے مصالحے سے بنائی گئی یہ خوب صورت عمارت 1860 سے 1870 کے بیچ بنائی گئی۔ یہاں قائداعظم محمد علی جناح کے زیراستعمال تمام اشیاء جیسے فرنیچر، ملبوسات، سگار، جوتے اور روزمرہ استعمال کی چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔
32- ٹھٹھہ میوزیم سندھ ؛
ٹھٹھہ صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل کے قریب واقع ایک تاریخی شہر ہے جس کے بیش تر تاریخی مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ بہت سارے تاریخی مقامات کا گڑھ ہونے اور کراچی کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے ہر سال اس جگہ سیاحت کے دل دادہ لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس شہر اور اس کی ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔حال ہی میں ٹھٹھہ میں ایک میوزیم کی بنیاد رکھی گئی ہے جو غالباً اگست میں عوام کے لیے کھولا گیا ہے۔ یہاں ٹھٹھہ شہر کی قدیم تاریخ، فنِ کاشی گری، مختلف پیشوں، اور سندھ کی دیہی زندگی کو خوبصورت طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے نیا بننے والا عجائب گھر ہے۔
33- فقیر خانہ میوزیم لاہور
پرانے لاہور کے بھاٹی دروازے کے اندر داخل ہوں تو کچھ آگے چل کر دائیں ہاتھ پر ایک پرانی حویلی ''فقیر خانہ'' کے نام سے موجود ہے، یہی پاکستان کا سب سے بڑا نجی میوزیم ''فقیر خانہ میوزیم'' ہے جو پچھلی 6 نسلوں سے اندرون لاہور کے فقیر خاندان کے زیرانتظام قائم ہے۔ اس عجائب گھر میں کم و بیش 30,000 تبرکات و نوادرات محفوظ ہیں۔ اس کے موجودہ ڈائریکٹر فقیر سیف الدین ہیں جو اس عجائب گھر کا انتظام بخوبی چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق فقیرخانہ عجائب گھر میں 7000 لگ بھگ نوادرات موجود ہیں جو ایک خاندانی ورثے کی طرح اولاد میں تقسیم ہوتے رہے ہیں۔
اس دوران اس میں سے کچھ انمول خزانہ ضائع بھی ہوا۔ جو کتابیں، نوادرات اور تبرکات بچے انہیں فقیرخانہ میں جمع کردیا گیا ہے۔ دو منزلہ خوب صورت عمارت پر مشتمل اس عجائب گھر کے نچلے مرکزی کمرے میں مختلف قسم کی تلواریں، ڈھالیں، تیر کمان، پستول اور خنجر نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، جب کہ یہی کمرہ فقیر سیف الدین کے بیٹھنے اور تحقیق کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔اوپر کے مرکزی کمرے میں رکھی گئی نایاب اشیاء میں بدھا کا مجسمہ، خطاطی کے نمونے، چھوٹی تصاویر، قالین کا وہ ٹکڑا جس میں ایک چہرہ نظر آتا ہے، پیتل کے مجسمے، لکڑی کا خوب صورت فرنیچر اور قیمتی گلدان شامل ہیں۔
یہاں سے ایک گیلری نکلتی ہے جہاں لکڑی کے خانوں میں چینی پورسلین کے خوب صورت ظروف اور گندھارا تہذیب کے نمونے رکھے گئے ہیں۔ یہاں سے ایک اور کمرہ نکلتا ہے جہاں مختلف الماریوں میں کئی قسم کی نادر اشیاء کو محفوظ کیا گیا ہے۔
فقیر سید نور الدین نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں پینٹنگز کی ایک نمائش کروائی تھی، جس میں لکھنؤ، کانگڑہ اور جموں و کشمیر کے علاقہ سے بیشمار مصوروں کی پینٹنگز لائی گئیں۔ آج بھی کئی پینٹنگز انہی سے منسوب ہیں۔ اس کے علاوہ کتابیں اور پورسلین کے بنے ظروف بہت اہم شاہ کار ہیں۔ گندھارا تہذیب کے نوادرات میں تاریخی سکے بھی موجود ہیں۔ لکڑی کے شاہ کار، ہاتھی دانت کی مصنوعات، پیتل اور تانبے کے کئی شاہ کار بھی موجود ہیں، فرنیچر کے علاوہ اسلامک آرٹ یا کیلی گرافی کے بہت سے نمونے بھی اس عجائب گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
فقیرخانہ عجائب گھر ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔ اسکالر، محقق، سیاح، طالب علم اور مورخ سبھی اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ذاتی نوعیت کا واحد عجائب گھر ہے، جہاں تبرکات کے علاوہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔
34- خواجہ فرید میوزیم کوٹ مٹھن ؛
نجی عجائب گھروں میں ایک منفرد مقام کا حامل یہ میوزیم پاکستان کا سب سے بڑا ''نجی صوفی میوزیم'' ہے جو سرائیکی، پنجابی، فارسی اور سندھی کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کی درگاہ کے ساتھ واقع ہے۔ اس میوزیم کا نظم و نسق درگاہ کے متولین چلا رہے ہیں جس کے ساتھ ایک لائبریری بھی منسلک ہے۔خواجہ فرید میوزیم اور لائبریری کی قطار اندر قطار کئی گیلریوں میں آپ کے خطوط، لباس، کتابیں، گھریلو استعمال کی اشیاء، بستر، قرآن پاک، آخری غسل کا صابن، فریدی رومال، کنگھی، کچھ سکے اور کرنسی نوٹ وغیرہ کے علاوہ سینکڑوں دیگر اشیاء موجود ہیں۔
آخری گیلری میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطے کی مختلف ثقافتی اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ہر سال خواجہ صاحب سے عقیدت رکھنے والے ہزاروں افراد اس میوزیم کو دیکھنے آتے ہیں اور عرس کے دنوں میں تو تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ اس میوزیم کو کسی نئی عمارت میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سرپرستی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔
35- علامہ اقبال میوزیم لاہور ؛
یہ بات ہے 1977 کی جب پاکستان میں علامہ محمد اقبال کا صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا تھا تو حکومت نے اقبال منزل سیالکوٹ، اقبال کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اور جاوید منزل کو تحویل میں لے کر محفوظ کرنے کا سوچا۔ ان تینوں عمارتوں کو خرید کر میوزیم میں بدل دیا گیا۔
مئی 1935ء میں علامہ اقبال اور ان کے اہل خانہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے جاوید منزل میں منتقل ہوگئے۔ آخری عمر میں ملنے والے اس خوب صورت گھر کو علامہ اقبال نے اپنے صاحبزادے جاوید کے نام سے موسوم کردیا اور آج اسی جاوید منزل کو ''علامہ اقبال میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حکومت جاپان نے اس ضمن میں ایک احسن اقدام اٹھاتے ہوئے اقبال میوزیم کے لیے جاپان کے ثقافتی فنڈ سے شوکیسوں اور ایئر کنڈیشنروں کے علاوہ متعلقہ سامان اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے ایک بڑی رقم مہیا کی۔
میوزیم کی تیاری کے بعد اسے محکمۂ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا گیا، جو اب بھی اس کی تحویل میں ہے۔ اقبال میوزیم، 9 گیلریوں پر مشتمل ہے۔ میوزیم میں علامہ کی کئی اشیا موجود ہیں، جو ان کے صاحبزادے جاوید اقبال نے میوزیم کو عطیہ کی تھیں۔ ان اشیاء میں اقبال کا پاسپورٹ، دستخط کی مہر، ملاقاتی کارڈوں والا بٹوا، بنک کی کتاب، عینکیں، انگوٹھیاں، کف لنکس، پگڑی، قمیص، جوتے، کوٹ، تولیے، چھڑیاں، ٹائیاں، کالر، دستانے، وکالتی کوٹ، جناح کیپس، گرم سوٹ جو لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ سے سلوائے گئے تھے۔ پشمینہ شیروانی، حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجا سرکرشن پرشاد کی جانب سے ارسال کردہ قالین، قلم، مسودے، خطوط، دستاویزات، تصاویر اور متعدد دیگر اشیاء شامل ہیں۔ میوزیم کا رقبہ تقریباً سات کنال ہے۔
36- قلعہ بالا حصار میوزیم
بالاحصار، پشاور میں واقع ایک قدیم قلعہ اور تاریخی مقام ہے۔ تیمور شاہ درانی نے اس قلعے کا نام بالاحصار رکھا جس کے لفظی معنی بلند قلعہ کے ہیں۔ یہ قلعہ ایک طویل عرصے تک درانیوں کے زیراستعمال رہا، 19ویں صدی میں جب سکھوں نے پشاور پر حملہ کیا تو یہ قلعہ ان کے زیراستعمال آیا اور انہوں نے اس کا نام سمیر گڑھ رکھا لیکن مقامی طور پر سمیر گڑھ کا نام مشہور نہ ہوسکا۔اس وقت قلعے کو بطور فرنٹیئر کور ہیڈکوارٹر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے۔
اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی اندرونی دیوار کی بلندی 50 فٹ ہے۔ دوہری دیواروں والے اس قلعے کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ ہے جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے۔ ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعے کے اندر تک جاتی ہے۔ اس خوب صورت قلعے کے اندر ایک خوب صورت میوزیم بنایا گیا ہے جہاں مختلف کمروں میں فرنٹیئر کور کی مختلف شاخوں کی نمائندگی کی گئی ہے جن میں خیبر رائفلز، سوات اسکاؤٹس، مہمند رائفلز، چترال اسکاؤٹس، کُرم ملٹری، باجوڑ اسکاؤٹس، شوال رائفلز، دیر اسکاؤٹس، جنوبی وزیرستان و ٹوچی اسکاؤٹس اور خٹک اسکاؤٹس شامل ہیں۔
یہاں ان علاقوں میں مختلف آپریشنز سے بازیاب کیے گئے آلاتِ حرب، نقشے، سپاہیوں کی وردیاں، تصاویر، تلواریں، پستول، جھنڈے، مختلف علاقوں کی ثقافتیں، ٹرک آرٹ، اور چھوٹی توپیں شامل ہیں۔ یہاں ایک پھانسی گھاٹ اور خوب صورت چھوٹی سی سووینیئر شاپ بھی ہے جہاں سے آپ پشاور کی مشہور پشاوری چپل اور درۂ خیبر کے ماڈل خرید سکتے ہیں۔یہاں موجود ایک تختی پر رڈیارڈ کپلنگ کے وہ مشہور الفاظ بھی درج ہیں جو انہوں نے اس فورس کے بارے میں کہے تھے۔
37- کوئٹہ جیولوجیکل میوزیم ؛
علمِ ارضیات اور پیش قیمت معدنیات پر مشتمل جیولوجیکل سروے آف پاکستان میوزیم، پاکستان میں اپنی طرز کا واحد میوزیم ہے۔ یہ عجائب گھر کوئٹہ میں سریاب روڈ پر واقع ہے۔ اس میوزیم میں زمین، چٹانوں، پتھروں، معدنیات اور تمام قیمتی و تعمیراتی پتھروں سے متعلق تمام اہم چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں اور اسی مناسبت سے اسے معدنیات کے گڑھ بلوچستان میں بنایا گیا ہے۔ سب سے اہم چیز 500 ملین سال قدیم فاسلز اور 47 ملین سال پرانی وہیل مچھلی کا ڈھانچا ہے۔یہ میوزیم پانچ گیلریوں پر مشتمل ہے:
٭چٹانی و معدنیاتی گیلری:اس گیلری میں 2000 سے بھی زیادہ دستاویزات موجود ہیں جو دنیا بھر سے یہاں لا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ گیلری تعلیم و تحقیق کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
٭معدنیاتِ بلوچستان گیلری:پاکستان بھر سے اور خصوصاً بلوچستان سے نکالی جانے والی قیمتی معدنیات اس گیلری کی زینت بنائی گئی ہیں جن میں لوہا، تانبا، جست، نمک، ماربل، گندھک، سونا اور شامل ہیں۔
٭جواہرات گیلری:ملک بھر سے نکالے جانے والے قیمتی پتھر و جواہرات یہاں رکھے گئے ہیں جن میں زمرد، فیروزہ، نیلم، پکھراج اور شامل ہیں۔
٭تعمیراتی پتھر گیلری:اس گیلری میں آپ مختلف عمارتوں میں استعمال ہونے والا پہاڑی پتھر دیکھ سکتے ہیں۔یہ کوئٹہ کا ایک ایسا میوزیم ہے جسے اب دیکھنے کوئی نہیں جاتا۔ اس جیسے میوزیم جو دوسرے ملکوں میں ہیں ان کا کئی ڈالر ٹکٹ ہے اور روزانہ ہزاروں سیاح ان کا دورہ کرتے ہیں۔ اس کے تالے ہمارے لیے خصوصی طور پر کھولے گئے۔ اس میں قیمتی پتھر لاکھوں سال پرانے فوسلز بلوچستان کی معدنیات اور بلوچستان کے پہاڑوں سے متعلق بے بہا معلومات موجود ہیں۔
38- پاکستان ریلوے ہیریٹیج میوزیم گولڑہ شریف؛
برسوں سے ریل گاڑی ملکوں کی معیشتوں کا پہیا چلاتی آئی ہے اور لاکھوں لوگوں کو آرم دہ سفر اور بیش بہا خوبصورت نظاروں سے مستفید کرتی آئی ہے، لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ ان ریل گاڑیوں کو کسی میوزیم میں بھی رکھا جائے گا۔گولڑہ شریف ریلوے عجائب گھر جو ''پاکستان ریلویز ورثاتی عجائب گھر'' بھی کہلاتا ہے اسلام آباد میں واقع پاکستان کا واحد ریلوے عجائب گھر ہے۔ یہ عجائب گھر گولڑہ شریف جنکشن ریلوے اسٹیشن میں قائم ہے جو اسلام آباد کے جنوب مغرب میں سطح سمندر سے 1,994 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
یہ عجائب گھر اور ریلوے اسٹیشن سیاحوں اور خاص طور پر ریلوے اور ٹرین کے شیدائیوں کی دل چسپی کا مرکز ہے۔اس اسٹیشن کو انگریز دور میں 1882 میں بنایا گیا جب کہ 1912 میں اسے جنکشن بنا دیا گیا۔ افغانیوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران برطانوی افواج کے لیے اس اسٹیشن کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی۔ریلوے کی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے اکتوبر 2003 میں یہاں ایک عجائب گھر کی بنیاد رکھی گئی۔ اس عجائب گھر میں تین مختلف ہال ہیں جہاں 150 سال سے بھی زیادہ پرانا سامان رکھا گیا ہے جس میں سے زیادہ تر متحدہ ہندوستان کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔
میوزیم کے ساتھ ہی ایک یارڈ میں ریلوے کی کرینیں، ٹرالیاں، انجن، ڈبے، سیلون اور ٹریک خوب صورتی سے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مشینیں، سگنل سسٹم اور ذرائع ابلاغ کا سامان بھی یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہ میوزیم 2002 میں راولپنڈی ڈویژن کے ڈی ایس اشفاق خٹک کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان کے کہنے پر ہی پاکستان ریلوے کے تمام ڈویژنوں سے تنگ پٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کا مختلف پرانا سامان جیسے کراکری، فرنیچر، انجن اور سیلون اکٹھا کیا گیا۔ 2003 کے آخر تک اس پراجیکٹ کو بغیر حکومتی مدد اور کام کرنے والے آفیسرز کی دل چسپی کی بدولت مکمل کیا گیا اور اس کا باقاعدہ افتتاح مارچ 2007 میں کیا گیا۔اس عجائب گھر میں پاکستان ریلویز سے متعلق پرانے ریلوے انجنوں، ڈبوں اور نادر اور تاریخی اشیاء کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
ریلوے سے متعلق پرانی اور نادر اشیاء کو دو ہالوں جب کہ پرانے انجنوں اور ڈبوں کو اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور احاطے میں رکھا گیا ہے۔اپنی خوب صورت لوکیشن اور خوب صورتی کی بدولت یہ اسٹیشن اور میوزیم فلم، ٹی وی، فوٹوگرافی اور قلم قبیلے کا پسندیدہ ترین رہا ہے۔ یہاں کئی فلموں، ڈراموں اور کمرشلز کی شوٹنگز ہو چکی ہیں اور بہت سے فوٹوگرافر بھی صبح سویرے اس کی خوبصورتی کو کیمرے میں قید کرتے پائے جاتے ہیں۔
39- پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری، اسلام آباد؛
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا قیام 1976ء میں پاکستان سائنس فاونڈیشن اور وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیرانتظام عمل میں لایا گیا۔ یہ 4 مختلف شعبہ جات پر مشتمل ہے، جن میں نباتات، حیوانات، ارضیات اور عوامی خدمت شامل ہیں۔ پہلے تین شعبہ جات کا مقصد پاکستان میں موجود پودوں، جانوروں، معدنیات، چٹانوں اور فاسلز کے نمونے اکٹھے کرنا ان کی پہچان اور ان پر تحقیق کرنا ہے، جب کہ چوتھا شعبہ ترتیب و تشہیر سے متعلق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس میوزیم میں تین لاکھ اشیاء موجود ہیں۔ نیچرل ہسٹری میوزیم ایک تحقیقی ادارہ بھی ہے جو لوک ورثہ میوزیم کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ یہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے زیرِانتظام ہے۔ اس کی گیلریوں کی تعداد 6 ہے۔
٭ حیاتیائی گیلری؛ مختلف علاقوں کے پودے، درخت، جانور اور پرندوں کے لیے۔
٭ قیمتی پتھروں کی گیلری؛ اس میں تراشے ہوئے اور خام حالت میں قیمتی پتھر و جواہرات رکھے گئے ہیں، جب کہ حکومتِ جاپان کی طرف سے صدرِپاکستان کو تحفتاً بھیجا گیا ''ہیروشیما کا پتھر'' بھی یہاں رکھا گیا ہے۔ گرینائٹ کا یہ پتھر تاریخ کے سب سے بڑے المیے کا گواہ ہے۔
٭ فاسلز گیلری؛ جہاں آپ مختلف قدیم جانوروں کے فاسلز، ان کی تصاویر، مخطوطات، اندھی ڈولفن کے فاسلز، ہاتھی کی ٹانگ کا فاسل، خوشاب سے ملنے والے مگرمچھ کے فاسلز بھی یہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کینیا کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی ابتدائی انسان کی وہ کھوپڑی بھی رکھی ہے جو تقریباً 29 لاکھ سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ مشرقی افریقہ سے برآمد ہوئی تھی۔
ماحولیاتی گیلری؛ جہاں ماحولیات کے طالب علم ماحولیاتی سائیکل اور نظام کا بغور مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
٭ ارضیاتی گیلری؛ اس گیلری میں پاکستان کے سمندروں اور معدنیاتوں سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں ایک وہیل مچھلی کا ڈھانچا بھی شامل ہے۔ کوہِ نمک کی مختلف پرتوں اور طبعی خصوصیات کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
٭ ورچول ٹور گیلری؛ اس گیلری میں آپ تمام گیلریوں کی چیدہ چیدہ خصوصیات دیکھ سکتے ہیں۔ ٹائم کی کمی کے باعث یہ گیلری آپ کو پورے میوزیم کی سیر کروا سکتی ہے۔
40- مہوٹہ پیلس میوزیم؛
کراچی کے ایک مشہور مارواڑی تاجر شیو رتن مہوٹہ نے 1927 میں کلفٹن کے ساحل کے قریب اپنے لیے ایک شان دار محل تعمیر کروایا تھا جس کے انجنیئر جے پور سے تعلق رکھنے والے برصغیر کے پہلے مسلمان انجنیئر احمد حسین آغا تھے جو کراچی میونسپلٹی کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ یوں تو انہوں نے کراچی میں کئی عمارتوں کو ڈیزائن کیا لیکن مہوٹہ پیلس ان کا لازوال شاہ کار قرار پایا۔ عمارت کے چاروں طرف چار گنبد، جب کہ چھت پر 5 گنبد بنائے گئے ہیں جو اس عمارت کی خوب صورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔
قطار اندر قطار دروازے اور ایک شان دار زینہ محل کی رونق میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں۔مغل طرزِتعمیر اور کراچی کے ریتیلے پیلے اور گلابی پتھر کو استعمال میں لا کر انہوں نے وہ عمارت کھڑی کی جو راجستھان کی کسی راجپوت ملکہ کے محل سے کم نہ تھی۔پاکستان بننے کے بعد مہوٹہ پیلس وزارتِ خارجہ کا دفتر قرار پایا۔ دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد یہ محل محترمہ فاطمہ جناح کو دے دیا گیا۔ 1964 میں آپ کی وفات کے بعد یہ محل آپ کی بہن شیریں بائی کے استعمال میں رہا جن کی وفات کے بعد یہ 1995 تک سیل کردیا گیا۔
1995 میں اسے حکومتِ سندھ نے میوزیم بنانے کے وعدے پر وفاق سے خرید لیا۔ ضروری مرمت کے کام کے بعد اسے 1999 میں عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ تب سے لی کر اب تک یہاں درجنوں شان دار نمائشیں منعقد کی جاچکی ہیں اور تین گیلریوں پر مشتمل یہ میوزیم آج چوالیس گیلریوں پر محیط ہے جہاں مختلف نوادرات رکھے گئے ہیں۔
مرکزی عمارت کے ساتھ ہی کراچی کی مرکزی لوکیشنز سے اٹھا کر لائے گئے انگریز دور کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ کچھ نادر مجسمے (جیسے ملکہ وکٹوریہ اور برطانوی سپاہیوں کے مجسمے) اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ (جاری ہے)