رنگ پرستی کا بت اور ہماری بے حسی
انسان کو پرکھنے کا معیار رنگت نہیں بلکہ اس کا کردار، اس کی سوچ اور اس کا کام ہونا چاہیے
گزشتہ ماہ امریکا میں ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس ایک سیاہ فام کے قتل نے پہلی مر تبہ گورے اور کالے کے فرق کو انتہائی دردناک طریقے سے بیان کیا۔ اور انسانیت کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ چاہے انسان چاند پر چلا جائے یا سمندر کو تسخیر کرلے، وہ نسل پرستی، رنگ پرستی کے سامنے آج بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ آج بھی صرف رنگ، نسل، مذہب، جنس، فرقہ پرستی کی بنیاد پر جب بھی یہ دنیا چاہے کسی کا بھی جینا محال کرسکتی ہے۔ اور انسان بت پرست، آتش پرست سے بڑا رنگ پرست ہے۔
یہ رنگ پرستی اس وقت زیادہ سنگین شکل اختیار کرلیتی ہے، جب یہ کسی کالے رنگ کے انسان سے عزت نفس سمیت زندگی بھی چھین لیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہم نے خود ہی ہر چیز کا ایک سانچہ بنا لیا ہے۔ جیسا کہ قد لمبا، رنگ گورا، خود تو ہم انسان مگر آنکھیں ہرنی، اور جو کوئی اس خودساختہ سانچے پر پورا نہیں اترتا تو اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ کالے رنگ کے ساتھ صدیوں سے ہی امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ اس لیے تو کالے رنگ کے افراد کے دل کو رکھنے کےلیے یہ تک کہا جاتا رہا کہ ''کالے ہیں مگر دل والے'' ہیں۔
جارج فلائیڈ کے اس واقعے نے مجھے میرے گاؤں کی اُن گلیوں میں پہنچادیا جہاں میں نے بھی کالے رنگ کی وجہ سے اپنی زندگی کے تاریک دن گزارے۔ میرے دیگر بہن بھائیوں کی نسبت بچپن میں میرا رنگ تھوڑا سانولا تھا۔ دوسرے الفاظ میں جو ایک پرفیکٹ سانچہ بُنا گیا تھا میں اس سانچے پر پوری نہیں اترتی تھی۔ اس لیے جیسے ہی ہوش کی دنیا میں قدم رکھا تو سب سے پہلے مجھے اس بات کا احساس دلایا گیا کہ تم رنگ کے معاملے میں بدقسمت ہو۔ اس بات کا احساس ہر روز، مگر شادی بیاہ، عید تہوار پر یہ کہہ کر دلایا جاتا کہ ''ہائے باقی بچوں کے رنگ تو صاف اور گورے ہیں یہ چھوٹی کا رنگ کس پر چلا گیا؟'' اس بات کی تکلیف اتنی ہی مجھے محسوس ہوتی تھی جتنی جارج فلائیڈ کے آخری جملے ''میں سانس نہیں لے سکتا'' کی تکلیف دنیا کو سنائی دی۔ لوگوں کے ان جملوں سے بچنے کےلیے نجانے میں نے کتنی تقریبات اور کتنی عیدوں پر گھر سے باہر جانا چھوڑ دیا۔ آپ چاہے جو بھی کرلیں آپ کو پھر بھی ان لو گوں کے سامنے خود کو لانا پڑتا ہے، جو بار بار آپ کو اپنی باتوں سے یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کے وجود میں ہونے والی کمی سے وہ زیادہ خوش نہیں۔
جب بھی کوئی عید یا تہوار آتا، میں اپنی سانولی رنگت کو چھپانے کی بھرپور کوشش کرتی۔ مگر جو تحفہ قدرت کی طرف سے انسان کو ملا ہو اس سے نجات حاصل کرنا انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے میں بھی اپنی اس کوشش میں ہر بار ناکام ہی رہتی تھی۔ ٹالکم پاؤڈر زیادہ تر اپنے چہرے، بازوؤں پر لگا لیتی تھی اور اس سے عارضی طور پر رنگ تھوڑا سفید دکھنا شروع ہوجاتا تھا مگر اس ٹالکم پاؤڈر کا اثر صرف چند لمحات کےلیے ہوتا تھا۔ اور جیسے ہی میرا قدرتی رنگ سامنے آتا میرے اندر ایک عجیب سی احساس شرمندگی اُجاگر ہوجایا کرتی تھی۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ لوگوں کے چند لمحوں میں مذاق اڑانے والے جملے انسان کے اندر سب سے پہلے اس کی اپنے لیے محبت کو مار دیتے ہیں۔ بچپن کی کہی ہوئی باتیں انسان تاحیات محسوس کرتا ہے کیونکہ اس وقت کچے ذہن پر پکے اور تلخ جملے صدیوں تک انسان کو اپنی قید میں رکھتے ہیں۔ ان جملوں کی قید سے رہائی میری اپنی ذات کےلیے بہت زیادہ ضروری تھی۔ کہتے ہیں ناں کہ اگر کچھ لوگ اس دنیا میں زخم دینے آئے تو کچھ مرہم بننے کےلیے۔
اس لیے اس تلخ قید سے رہائی مجھے میرے رشتوں نے دلوائی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ انسان کی اصل پہچان اس کا رنگ نہیں اس کا کردار ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے کردار کو نکھارنے کےلیے محنت کرنی چاہیے۔ اس ساری کوشش میں اپنی ذات کے اعتماد کو تھام کر رکھنا بہت ہی مشکل عمل ہوتا ہے مگر جب انسان اپنے اندر کی سچائی کو پہچان لیتا ہے تو وہ سب کر گزرتا ہے جس سے دنیا اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم ایک ایسے سخت گیر معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہم کسی کو اس کے نام کے بجائے اس کے رنگ، اس کے قد سے پکارتے ہیں، جیسے ''کالی بات سنو''، لمبو ادھر آؤ۔ اور حیرت انگیز بات کہ ہم یہ کہہ کر شرمندہ بھی نہیں ہوتے، کیونکہ یہ ہمارے ہاں ایک بہت ہی نارمل سی بات ہے۔ کسی کی عزت نفس کو کچلنا کبھی بھی ہمارے نزدیک ایک جرم نہیں رہا، بلکہ ایسا کرنے والے بہت دھڑلے سے کہتے ہیں کہ بھئی ہم تو جو سچ ہے وہی کہتے ہیں، اگر کسی کو برا لگے تو ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
جارج فلائیڈ کی موت نے دنیا کو یہ تو سوچنے پر مجبور کردیا کہ انسان کو پرکھنے کا معیار رنگت نہیں، اس کا کردار، اس کی سوچ، اس کا کام ہونا چاہیے۔ ہمارے الفاظ ہی ہمارا تعارف ہیں، اس لیے اپنے تعارف کو کسی کےلیے اچھی بات کہہ کر بہتر بنائیے۔ انسان کو اللہ کی بہترین مخلوق ہونے کا شرف اس لیے دیا گیا تاکہ ہم اپنے آپ کو دوسری مخلوقات سے بہتر ثابت کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ رنگ پرستی اس وقت زیادہ سنگین شکل اختیار کرلیتی ہے، جب یہ کسی کالے رنگ کے انسان سے عزت نفس سمیت زندگی بھی چھین لیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہم نے خود ہی ہر چیز کا ایک سانچہ بنا لیا ہے۔ جیسا کہ قد لمبا، رنگ گورا، خود تو ہم انسان مگر آنکھیں ہرنی، اور جو کوئی اس خودساختہ سانچے پر پورا نہیں اترتا تو اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ کالے رنگ کے ساتھ صدیوں سے ہی امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ اس لیے تو کالے رنگ کے افراد کے دل کو رکھنے کےلیے یہ تک کہا جاتا رہا کہ ''کالے ہیں مگر دل والے'' ہیں۔
جارج فلائیڈ کے اس واقعے نے مجھے میرے گاؤں کی اُن گلیوں میں پہنچادیا جہاں میں نے بھی کالے رنگ کی وجہ سے اپنی زندگی کے تاریک دن گزارے۔ میرے دیگر بہن بھائیوں کی نسبت بچپن میں میرا رنگ تھوڑا سانولا تھا۔ دوسرے الفاظ میں جو ایک پرفیکٹ سانچہ بُنا گیا تھا میں اس سانچے پر پوری نہیں اترتی تھی۔ اس لیے جیسے ہی ہوش کی دنیا میں قدم رکھا تو سب سے پہلے مجھے اس بات کا احساس دلایا گیا کہ تم رنگ کے معاملے میں بدقسمت ہو۔ اس بات کا احساس ہر روز، مگر شادی بیاہ، عید تہوار پر یہ کہہ کر دلایا جاتا کہ ''ہائے باقی بچوں کے رنگ تو صاف اور گورے ہیں یہ چھوٹی کا رنگ کس پر چلا گیا؟'' اس بات کی تکلیف اتنی ہی مجھے محسوس ہوتی تھی جتنی جارج فلائیڈ کے آخری جملے ''میں سانس نہیں لے سکتا'' کی تکلیف دنیا کو سنائی دی۔ لوگوں کے ان جملوں سے بچنے کےلیے نجانے میں نے کتنی تقریبات اور کتنی عیدوں پر گھر سے باہر جانا چھوڑ دیا۔ آپ چاہے جو بھی کرلیں آپ کو پھر بھی ان لو گوں کے سامنے خود کو لانا پڑتا ہے، جو بار بار آپ کو اپنی باتوں سے یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کے وجود میں ہونے والی کمی سے وہ زیادہ خوش نہیں۔
جب بھی کوئی عید یا تہوار آتا، میں اپنی سانولی رنگت کو چھپانے کی بھرپور کوشش کرتی۔ مگر جو تحفہ قدرت کی طرف سے انسان کو ملا ہو اس سے نجات حاصل کرنا انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے میں بھی اپنی اس کوشش میں ہر بار ناکام ہی رہتی تھی۔ ٹالکم پاؤڈر زیادہ تر اپنے چہرے، بازوؤں پر لگا لیتی تھی اور اس سے عارضی طور پر رنگ تھوڑا سفید دکھنا شروع ہوجاتا تھا مگر اس ٹالکم پاؤڈر کا اثر صرف چند لمحات کےلیے ہوتا تھا۔ اور جیسے ہی میرا قدرتی رنگ سامنے آتا میرے اندر ایک عجیب سی احساس شرمندگی اُجاگر ہوجایا کرتی تھی۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ لوگوں کے چند لمحوں میں مذاق اڑانے والے جملے انسان کے اندر سب سے پہلے اس کی اپنے لیے محبت کو مار دیتے ہیں۔ بچپن کی کہی ہوئی باتیں انسان تاحیات محسوس کرتا ہے کیونکہ اس وقت کچے ذہن پر پکے اور تلخ جملے صدیوں تک انسان کو اپنی قید میں رکھتے ہیں۔ ان جملوں کی قید سے رہائی میری اپنی ذات کےلیے بہت زیادہ ضروری تھی۔ کہتے ہیں ناں کہ اگر کچھ لوگ اس دنیا میں زخم دینے آئے تو کچھ مرہم بننے کےلیے۔
اس لیے اس تلخ قید سے رہائی مجھے میرے رشتوں نے دلوائی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ انسان کی اصل پہچان اس کا رنگ نہیں اس کا کردار ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے کردار کو نکھارنے کےلیے محنت کرنی چاہیے۔ اس ساری کوشش میں اپنی ذات کے اعتماد کو تھام کر رکھنا بہت ہی مشکل عمل ہوتا ہے مگر جب انسان اپنے اندر کی سچائی کو پہچان لیتا ہے تو وہ سب کر گزرتا ہے جس سے دنیا اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم ایک ایسے سخت گیر معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہم کسی کو اس کے نام کے بجائے اس کے رنگ، اس کے قد سے پکارتے ہیں، جیسے ''کالی بات سنو''، لمبو ادھر آؤ۔ اور حیرت انگیز بات کہ ہم یہ کہہ کر شرمندہ بھی نہیں ہوتے، کیونکہ یہ ہمارے ہاں ایک بہت ہی نارمل سی بات ہے۔ کسی کی عزت نفس کو کچلنا کبھی بھی ہمارے نزدیک ایک جرم نہیں رہا، بلکہ ایسا کرنے والے بہت دھڑلے سے کہتے ہیں کہ بھئی ہم تو جو سچ ہے وہی کہتے ہیں، اگر کسی کو برا لگے تو ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
جارج فلائیڈ کی موت نے دنیا کو یہ تو سوچنے پر مجبور کردیا کہ انسان کو پرکھنے کا معیار رنگت نہیں، اس کا کردار، اس کی سوچ، اس کا کام ہونا چاہیے۔ ہمارے الفاظ ہی ہمارا تعارف ہیں، اس لیے اپنے تعارف کو کسی کےلیے اچھی بات کہہ کر بہتر بنائیے۔ انسان کو اللہ کی بہترین مخلوق ہونے کا شرف اس لیے دیا گیا تاکہ ہم اپنے آپ کو دوسری مخلوقات سے بہتر ثابت کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔