سرمایہ افتخار پاکستان
آج سے تقریباً پچاس سال قبل ہم نے کسی شاعر کا یہ شعر پڑھا تھا جو ہمیں نہ صرف اب تک یاد ہے بلکہ شاید تادم آخر بھی۔۔۔
FAISALABAD:
آج سے تقریباً پچاس سال قبل ہم نے کسی شاعر کا یہ شعر پڑھا تھا جو ہمیں نہ صرف اب تک یاد ہے بلکہ شاید تادم آخر بھی یاد رہے گا۔
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
بظاہر یہ شعر نہایت سادہ اور معمولی سا ہے لیکن در حقیقت اس کی گہرائی میں معنی کا ایک سمندر پنہاں ہے۔ یہ شعر ان اہل وطن کا احاطہ کرتا ہے جو ترک وطن کے بعد بیرونی دنیا میں اپنے وطن کا نام روشن کر رہے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے ابھی حال ہی میں ایک ایسے ہی پاکستانی نوجوان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے برجستہ کہا کہ اس طرح کے لوگ اپنے ملک کا ایک قابل فخر سرمایہ ہیں۔ پاکستان کے اس لائق و فائق فرزند کا تعلق ملتان سے ہے۔ صدر اوباما کا یہ خراج تحسین اس حقیقت کا واشگاف اعتراف ہے کہ وطن عزیز جواہر قابل سے مالا مال ہے بقول اقبال:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم عمل یہ عظیم پاکستانی اپنے وطن کے بہت بڑے سفیر ہیں۔ وطن عزیز کے یہ حقیقی نمایندے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر امین علی محمد گاڈت ایسے عظیم لوگوں کی صف اول میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مسیحائی کا حق ادا کرنے کے لیے ذہنی صحت کے شعبے کا انتخاب کیا جسے طب کی زبان میں Mental Health کا شعبہ کہا جاتا ہے۔ ہمارے استفسار پر کہ انھوں نے اس شعبے کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ ڈاکٹر صاحب نے نہایت برجستگی سے جواب دیا کہ ذہنی امراض بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں جب کہ معالجین کا تناسب مطلوبہ تعداد سے بہت کم ہے۔ ذہنی امراض کے شکار لوگوں کی نہ صرف اپنی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے بلکہ ان کے لواحقین بھی متاثر ہوتے ہیں جن کی تشویش اور مایوسی ناقابل بیان ہوتی ہے اور انھیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر امین محمد نے ڈاکٹری کی تعلیم ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے حاصل کی جو اب ڈاؤ میڈیکل کالج یونیورسٹی کہلاتا ہے۔ کراچی کے جانے مانے سول اسپتال سے انٹرن شپ کی تکمیل کے بعد خدمت خلق کا جذبہ انھیں کھینچ کر یونیسیف کے ایک منصوبے کی جانب لے گیا جس کا تعلق خواتین اور بچوں کی صحت سے تھا۔ اس جذبے یا جنون کی خاطر انھوں نے بے شمار گاؤں اور دیہات کی خاک چھانی۔ صلے اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز ڈاکٹر امین کی زندگی کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کرنا ہے۔ وہ اس بات کے تہہ دل سے قائل ہیں کہ:
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
اس شان بے نیازی کا صلہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار ایوارڈز اور اعزازات کی صورت میں قدم قدم پر عطا کیا۔
Community Health Sciences میں ڈپلوما حاصل کرنے کے بعد 1985 میں انھوں نے جمہوریہ آئرلینڈ کا رخ کیا جہاں انھوں نے شعبہ نفسیات کا انتخاب کیا۔ اس کے لیے انھوں نے آئرلینڈ کے مختلف اسپتالوں میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔ آئرلینڈ کی ٹریننگ کے اختتام کے بعد 1994 میں وہ واپس پاکستان آگئے جہاں وہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے ساتھ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر سائیکیاٹری وابستہ ہوگئے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ ایک اور پرائیویٹ ادارے میں سائیکیاٹری کے شعبے کے سربراہ مقرر کردیے گئے۔ 2001 میں انھیں اس میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل کی اضافی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔
عاجزی اور انکساری ڈاکٹر امین کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ موصوف کوئی معمولی قسم کے ڈاکٹر نہیں بلکہ اپنے شعبے میں غیر معمولی مہارت کے حامل اور استادوں کے بھی استاد ہیں ، ان کے بے شمار تحقیقی مقالات دنیا کے مشہور میڈیکل جرنلز میں شایع ہوکر ڈاکٹر صاحب کی شہرت کو عالمگیر بناچکے ہیں۔ ان مقالات کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ وہ سات کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن کا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے۔ حقیقت پر مبنی ان کی سچی کہانیوں کی کتاب ''روح کے زخم'' پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ درد بھری کہانیاں قاری کے دل کے تاروں کو چھو لیتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ستمبر 2004 میں کینیڈا کا رخ کیا جہاں انھیں نیو برنس وک کے دیور ویلی ہیلتھ ریجن کی جانب سے کنسلٹنٹ سائیکیاٹرسٹ کی شاندار پیشکش ہوئی اور انھوں نے 2006 تک گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد میموریل یونیورسٹی آف نیو فاؤنڈ لینڈ نے انھیں Full Professor of Psychiatry کے پرکشش عہدے کی پیشکش کی۔ وہ کینیڈا کے رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے انٹرنل ایگزامنر بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ بیس بین الاقوامی جرنلز کے تبصرہ نگار بھی ہیں اور میک گل یونیورسٹی سے وابستہ کلچرل کنسورشیم کے ممبر بھی ہیں۔ ابھی حال ہی میں انھیں آئرلینڈ کے نئے کالج آف سائیکیاٹری کا بانی رکن بھی چنا گیا ہے۔ انھوں نے میموریل یونیورسٹی آف نیو فاؤنڈ لینڈ میں ٹرانس کلچرل سائیکیاٹری کا شعبہ بھی متعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ' آنر کرائمز' کے مسئلے میں ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے لیے ریسورس پرسن کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام اعزازات سے بالاتر Distinguished Fellowship ایوارڈ ہے جو گزشتہ دنوں انھیں اوٹاوہ (Owttawa) میں کینیڈین سائیکیاٹری ایسوسی ایشن کی جانب سے 28 ستمبر 2013 کو دیا گیا۔ یہ اعزاز انھیں ذہنی صحت کے میدان میں ان کی بے مثل خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ کینیڈا میں کسی بھی سائکیاٹرسٹ کو دیا جانے والا یہ سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ اعزاز پاکستانی قوم کے لیے ایک عظیم الشان اعزاز ہے جس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت پاکستان وطن عزیز کے ایسے عظیم فرزندوں سے بالکل بے خبر ہے اور عالم یہ ہے کہ:
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے
آج سے تقریباً پچاس سال قبل ہم نے کسی شاعر کا یہ شعر پڑھا تھا جو ہمیں نہ صرف اب تک یاد ہے بلکہ شاید تادم آخر بھی یاد رہے گا۔
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
بظاہر یہ شعر نہایت سادہ اور معمولی سا ہے لیکن در حقیقت اس کی گہرائی میں معنی کا ایک سمندر پنہاں ہے۔ یہ شعر ان اہل وطن کا احاطہ کرتا ہے جو ترک وطن کے بعد بیرونی دنیا میں اپنے وطن کا نام روشن کر رہے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے ابھی حال ہی میں ایک ایسے ہی پاکستانی نوجوان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے برجستہ کہا کہ اس طرح کے لوگ اپنے ملک کا ایک قابل فخر سرمایہ ہیں۔ پاکستان کے اس لائق و فائق فرزند کا تعلق ملتان سے ہے۔ صدر اوباما کا یہ خراج تحسین اس حقیقت کا واشگاف اعتراف ہے کہ وطن عزیز جواہر قابل سے مالا مال ہے بقول اقبال:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم عمل یہ عظیم پاکستانی اپنے وطن کے بہت بڑے سفیر ہیں۔ وطن عزیز کے یہ حقیقی نمایندے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر امین علی محمد گاڈت ایسے عظیم لوگوں کی صف اول میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مسیحائی کا حق ادا کرنے کے لیے ذہنی صحت کے شعبے کا انتخاب کیا جسے طب کی زبان میں Mental Health کا شعبہ کہا جاتا ہے۔ ہمارے استفسار پر کہ انھوں نے اس شعبے کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ ڈاکٹر صاحب نے نہایت برجستگی سے جواب دیا کہ ذہنی امراض بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں جب کہ معالجین کا تناسب مطلوبہ تعداد سے بہت کم ہے۔ ذہنی امراض کے شکار لوگوں کی نہ صرف اپنی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے بلکہ ان کے لواحقین بھی متاثر ہوتے ہیں جن کی تشویش اور مایوسی ناقابل بیان ہوتی ہے اور انھیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر امین محمد نے ڈاکٹری کی تعلیم ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے حاصل کی جو اب ڈاؤ میڈیکل کالج یونیورسٹی کہلاتا ہے۔ کراچی کے جانے مانے سول اسپتال سے انٹرن شپ کی تکمیل کے بعد خدمت خلق کا جذبہ انھیں کھینچ کر یونیسیف کے ایک منصوبے کی جانب لے گیا جس کا تعلق خواتین اور بچوں کی صحت سے تھا۔ اس جذبے یا جنون کی خاطر انھوں نے بے شمار گاؤں اور دیہات کی خاک چھانی۔ صلے اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز ڈاکٹر امین کی زندگی کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کرنا ہے۔ وہ اس بات کے تہہ دل سے قائل ہیں کہ:
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
اس شان بے نیازی کا صلہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار ایوارڈز اور اعزازات کی صورت میں قدم قدم پر عطا کیا۔
Community Health Sciences میں ڈپلوما حاصل کرنے کے بعد 1985 میں انھوں نے جمہوریہ آئرلینڈ کا رخ کیا جہاں انھوں نے شعبہ نفسیات کا انتخاب کیا۔ اس کے لیے انھوں نے آئرلینڈ کے مختلف اسپتالوں میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔ آئرلینڈ کی ٹریننگ کے اختتام کے بعد 1994 میں وہ واپس پاکستان آگئے جہاں وہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے ساتھ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر سائیکیاٹری وابستہ ہوگئے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ ایک اور پرائیویٹ ادارے میں سائیکیاٹری کے شعبے کے سربراہ مقرر کردیے گئے۔ 2001 میں انھیں اس میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل کی اضافی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔
عاجزی اور انکساری ڈاکٹر امین کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ موصوف کوئی معمولی قسم کے ڈاکٹر نہیں بلکہ اپنے شعبے میں غیر معمولی مہارت کے حامل اور استادوں کے بھی استاد ہیں ، ان کے بے شمار تحقیقی مقالات دنیا کے مشہور میڈیکل جرنلز میں شایع ہوکر ڈاکٹر صاحب کی شہرت کو عالمگیر بناچکے ہیں۔ ان مقالات کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ وہ سات کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن کا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے۔ حقیقت پر مبنی ان کی سچی کہانیوں کی کتاب ''روح کے زخم'' پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ درد بھری کہانیاں قاری کے دل کے تاروں کو چھو لیتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ستمبر 2004 میں کینیڈا کا رخ کیا جہاں انھیں نیو برنس وک کے دیور ویلی ہیلتھ ریجن کی جانب سے کنسلٹنٹ سائیکیاٹرسٹ کی شاندار پیشکش ہوئی اور انھوں نے 2006 تک گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد میموریل یونیورسٹی آف نیو فاؤنڈ لینڈ نے انھیں Full Professor of Psychiatry کے پرکشش عہدے کی پیشکش کی۔ وہ کینیڈا کے رائل کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے انٹرنل ایگزامنر بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ بیس بین الاقوامی جرنلز کے تبصرہ نگار بھی ہیں اور میک گل یونیورسٹی سے وابستہ کلچرل کنسورشیم کے ممبر بھی ہیں۔ ابھی حال ہی میں انھیں آئرلینڈ کے نئے کالج آف سائیکیاٹری کا بانی رکن بھی چنا گیا ہے۔ انھوں نے میموریل یونیورسٹی آف نیو فاؤنڈ لینڈ میں ٹرانس کلچرل سائیکیاٹری کا شعبہ بھی متعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ' آنر کرائمز' کے مسئلے میں ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے لیے ریسورس پرسن کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام اعزازات سے بالاتر Distinguished Fellowship ایوارڈ ہے جو گزشتہ دنوں انھیں اوٹاوہ (Owttawa) میں کینیڈین سائیکیاٹری ایسوسی ایشن کی جانب سے 28 ستمبر 2013 کو دیا گیا۔ یہ اعزاز انھیں ذہنی صحت کے میدان میں ان کی بے مثل خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ کینیڈا میں کسی بھی سائکیاٹرسٹ کو دیا جانے والا یہ سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ اعزاز پاکستانی قوم کے لیے ایک عظیم الشان اعزاز ہے جس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت پاکستان وطن عزیز کے ایسے عظیم فرزندوں سے بالکل بے خبر ہے اور عالم یہ ہے کہ:
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے