تو یہ ہے صورتِ حال

بین الاقوامی جرائم کی عدالت( انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) کی تاسیسی دستاویز مجریہ 2002 کے مطابق جبری گمشدگی کی تعریف یہ۔۔۔


Wasat Ullah Khan December 09, 2013

بین الاقوامی جرائم کی عدالت( انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) کی تاسیسی دستاویز مجریہ 2002 کے مطابق جبری گمشدگی کی تعریف یہ ہے کہ کوئی ریاست ، سیاسی گروہ یا پھر ریاست اور کسی سیاسی گروہ کا پروردہ کوئی تیسرا فریق جب ایک شہری کو مروجہ قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی خاطر اغوا یا قید کرنے کے باوجود اس اقدام یا اس شخص کے وجود سے انکار کردے تو اس عمل کو جبری گمشدگی کہا جاتا ہے۔اور اگر جبری گمشدگی کے عمل کو کسی بھی سویلین آبادی یا اس کے کسی حصے کے خلاف ایک منظم حربے کے طور پر استعمال کیا جائے تو پھر یہ حربہ انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کی قانونی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔

بیسویں صدی میں جبری گمشدگی کے حربے کو ایک منظم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی اولین مثالوں میں نازی جرمنی ہے۔جب خفیہ پولیس گسٹاپو کے کارندوں نے نائٹ اینڈ فوگ آپریشن کے نام سے جرمنی اور اس کے مقبوضہ علاقوں میں نصف شب کی دھند میں مخالفین کے دروازوں پر دستک دے کر اغوا کرکے نامعلوم مقامات یا کنسنٹریشن کیمپوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مغویوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے ہمدرد یا سرکردہ یہودی شامل تھے۔ان کی پھر کوئی زندہ یا مردہ خبر نا آئی۔

البتہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جبری گمشدگی کا ہتھیار وسیع پیمانے پر استعمال کرنے کا رجحان براعظم جنوبی و وسطی امریکا کے ان ممالک میں شروع ہوا جہاں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے فوجی و غیر فوجی آمریتوں کو بائیں بازو کے قلع قمع اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ مسلح تحریکوں سے نمٹنے کا کام سونپا گیا۔اس سلسلے میں اولین ملک گوئٹے مالا تھا جہاں 1954ء میں طبقاتی خانہ جنگی شروع ہوئی اور اگلے چھتیس برس تک جاری رہی۔ریاست نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے جبری گمشدگی کی پالیسی کا عمومی نفاذ کیا اور اس عرصے میں چالیس تا پچاس ہزار شہری غائب ہوگئے۔البتہ گوئٹے مالا میں جبری گمشدگی کا پہلا دستاویزی ثبوت 1966ء میں تیار ہو پایا۔ جس کے مطابق سرکاری فوجی دستوں نے تیس کے لگ بھگ مشتبہ شہریوں کو اغوا کرکے ، اذیت دے کر ہلاک کرنے کے بعد بوریوں میں لاشیں ڈال کر ہیلی کاپٹر میں لادیں اور سمندر میں پھینک دیں۔جب یہ کیس مرتب کرکے یونیورسٹی آف ہوان کارلوس کے طلبا نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان میں سے کچھ طلبا ایسے غائب ہوئے کہ سراغ تک نا ملا۔

ستمبر 1973ء میں جب فوج کے سربراہ جنرل پنوشے نے سی آئی اے کی مدد سے قومی سلامتی کے امریکی مشیر ہنری کسنجر کی نگرانی میں چلی کے پہلے سوشلسٹ صدر سلواڈور آلندے کو ہلاک کرکے اپنی طویل آمریت کا سنگِ بنیاد رکھا تو اس آمرانہ عمارت کی بنیادوں میں وہ دو ہزار تین سو سیاسی کارکن بھی غائب ہوگئے جن کی لوحِ مزار بھی کسی کو نہیں معلوم۔بتیس ہزار شہری گرفتاریوں کے بعد اذیت رسانی کے تجربے سے گذرے اور تیرہ سو بارہ ملک بدر ہوئے۔

چلی کے بعد ارجنٹینا میں جنرلوں نے پیرون حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر وہ دور شروع ہوا جسے ڈرٹی وار کہا جاتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ1976ء سے 87 ء تک کے گیارہ برس کے فوجی جنتائی دور میں تیس ہزار کے لگ بھگ شہری غائب ہوگئے۔اس کارِ خیر میں پیش پیش ایک انٹیلی جینس بٹالین نمبر 601 کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1976سے 1978 تک کے عرصے میں بائیس ہزار ارجن ٹینئن قتل یا غائب ہوگئے۔البتہ سرکاری ریکارڈ میں محض نو ہزار شہریوں کے غائب ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے۔ذاتی و واقعاتی شہادتوں سے یہ تصویر بھی سامنے آئی کہ کئی خواتین قیدی جنہوں نے جیل میں بچوں کو جنم دیا۔ ان کے بچے انھیں کبھی واپس نہیں کیے گئے۔بعض گمشدہ افراد کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ انھیں نشہ آور ادویات کھلا کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بحیرہ اوقیانوس میں زندہ پھینک دیا گیا۔فوجی جنتا کے سربراہ جنرل ہوزے وڈیلا سے جب ایک غیر ملکی صحافی نے گمشدہ افراد کے بارے میں دریافت کیا تو جنرل صاحب نے زیرِلب تبسم کے ساتھ فرمایا کہ '' اچھا وہ۔۔۔وہ نا زندہ ہیں نا مردہ۔۔وہ تو بس غائب ہیں۔

1980 کے عشرے میں لوگوں کو غائب کرنے کی وبا کا رخ وسطی امریکا کی طرف مڑ گیا۔ایل سلواڈور میں بائیں بازو کے مسلح کسانوں اور دائیں بازو کی حکومت میں رن پڑ گیا۔پانچ تا آٹھ ہزار لوگ غائب ہوگئے۔بعد ازاں انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جبری گمشدگی کی حکمتِ عملی کا پس منظر یہ بتایا کہ اس کا مقصد ایک عمومی خوف کی فضا کو برقرار رکھنا اور ان نوجوانوں کی پیشگی حوصلہ شکنی تھا جن کے بارے میں خدشہ تھا کہ کل کلاں یہ بھی ہتھیار نا اٹھا لیں۔اسی طرح ہمسایہ ملک کولمبیا میں نیم فوجی دستوں اور دیہی گوریلوں میں ایک عشرے کی لڑائی کے دوران اٹھائیس ہزار کے لگ بھگ لوگ غائب ہوگئے۔دو ہزار آٹھ اور نو کے دوران غائب لوگوں میں سے صرف نو سو کی قبروں کا سراغ مل پایا۔

جب کہ وسطی امریکا کے سب سے بڑے ملک میکسیکو میں منشیات کے کاروبار سے منسلک مسلح گروہوں کی آپسی لڑائی اور حکومت کی جانب سے سیاسی گروہوں کو منشیات سے منسلک کرکے مارنے کی سہہ طرفہ جنگ میں 2006 سے 2011 کے درمیان ساڑھے پانچ ہزار لوگ غائب ہوگئے۔ان میں انیس سو کے لگ بھگ عورتیں شامل ہیں۔

جنوبی و وسطی امریکا سے یہ وبا مشرقِ وسطی تک پہنچی۔جہاں سن ساٹھ اور ستر کے عشرے میں شاہ ایران کی انٹیلی جنس ایجنسی ساواک نے شہریوں کے غائب کرنے کے فن کو آرٹ کی شکل دی۔شروع شروع میں لاش واپس کردی جاتی تھی۔بعد ازاں یہ تکلف بھی اٹھ گیا۔گو انقلابِ ایران نے شاہ کا ہر مجسمہ تہس نہس کردیا لیکن غائب کرنے کی روایت سمیت بہت سی انتظامی روایات بطور ریاستی جہیز قبول کرلیں۔بس ان پر سے شاہی ٹیگ ہٹا کے انقلابی ٹیگ لگا دیا گیا۔سب سے مشہور کیس ان ستر سے زائد ایرانی نوجوانوں کا ہے جنھیں 1999ء کی طلبا بے چینی کے دوران حراست میں لیا گیا۔پھر جانے وہ کہاں چلے گئے۔ریاست نے ان کے وجود سے ہی انکار کردیا۔

الجزائر میں 1992 سے 99ء تک خانہ جنگی میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔سرکاری ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں سترہ ہزار کے لگ بھگ شہری غائب ہوئے لیکن حکومت نو ہزار کے لاپتہ ہونے کا اعتراف کرتی ہے۔شام میں صدر حافظ الاسد کے تیس سالہ دور میں ہیومین رائٹس واچ کے بقول سترہ ہزار شہری غائب ہوگئے۔عراق میں صدام حسین کے دور میں جنگِ خلیج 1990 کے بعد جنوبی عراق کی شیعہ بغاوت کچلنے کے آپریشن انفعال کے دوران میں ہزاروں شہریوں کو زمین کھا گئی۔صدام کے زوال کے بعد اجتماعی قبریں قسط وار دریافت ہورہی ہیں۔

ترکی میں سن اسی اور نوے کے عشرے میں کردوں کی خودمختاری کی تحریک کچلنے کے آپریشن میں بارہ سو سے ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ کرد شہری غائب ہوگئے۔چیچنیا میں انیس سو اٹھانوے ننانوے کے روسی فوجی آپریشن کے دوران پانچ ہزار کیلگ بھگ شہری غائب ہوگئے۔کسی روسی عدالت نے ان کے ورثا کا مقدمہ نہیں سنا چنانچہ انھیں انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے مارچ دو ہزار سات میں رجوع کرنا پڑا۔لیکن روس نے اس میں فریق بننے سے انکار کردیا۔

جنوبی ایشیا کو دیکھا جائے تو چھوٹے سے ملک سری لنکا نے سب سے بڑا علاقائی ریکارڈ بنایا۔تاملوں کے ساتھ خانہ جنگی میں سترہ ہزار سری لنکن اغوا اور غائب ہوگئے۔اس معاملے میں سرکاری دستے اور تامل ٹائیگرز میں کوئی پیچھے نا رہا۔

اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں سن اسی کے عشرے میں پنجاب میں بے چینی دبانے کے نام پر سیکڑوں نوجوان خالصتان نوازی کے نام پر غائب ہوگئے۔کچھ کا بعد میں نام پتہ مل گیا۔بہت سے آج بھی بے شناخت ہیں۔جب کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں غیر سرکاری تنظیمیں کہتی ہیں کہ انیس سو نواسی سے دو ہزار چار تک آٹھ ہزار سے زائد کشمیری سویلین فوج اور نیم فوجی دستوں نے غائب کردیے۔لیکن انسانی حقوق کا ریاستی کمیشن لگ بھگ ڈھائی ہزار کیسوں کی تصدیق کرتا ہے۔ان میں سے اکثریت شمالی کشمیر میں اجتماعی قبروں میں دفن کردی گئی۔

امریکا نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غائب کرنے کے فن میں نئی جدتیں پیدا کیں۔زیادہ خطرناک لوگوں کو امریکی قوانین کے دائرے سے باہر رکھنے کے لیے افغانستان میں بگرام اور کیوبا میں گوانتانامو کے قید خانے میں رکھا جب کہ دیگر غائب شدہ افراد کو دوست ممالک کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے حوالے کردیا۔ ٹارچر مقامی ماہرین کرتے ہیں اور پوچھ گچھ امریکی ماہرین۔امریکا کی دہشت گردی کے خلاف خفیہ جنگ اب ایک سو بیس ممالک میں لڑی جارہی ہے۔اور بہت سی ایجنسیاں امریکا کو مطلوب افراد اغوا کرکے بھی امریکیوں کے حوالے کرتی ہیں۔اس عمل کو آپ غائب کرنے کے کاروبار کی آؤٹ سورسنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ایسے کتنے ہزار لوگ امریکا اور اس کے دوستوں کی گمنام قید میں ہیں اس کا درست تخمینہ بنانے میں دیر لگے گی۔

امریکا نا تو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو مانتا ہے اور نا ہی جبری گمشدگی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے عالمی کنونشن کو۔یہ کنونشن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006 میں اختیار کیا تھا اور23دسمبر 2010 سے نافذ العمل ہے۔اس پر اب تک اقوامِ متحدہ کے ایک سو اٹھانوے رکن ممالک میں سے ترانوے ممالک دستخط کرچکے ہیں۔مگر ان میں سے صرف بتیس ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اسے اپنے ہاں نافذ کیا ہے۔چین ، روس بھارت اور پاکستان بھی دستخط نا کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ صرف دو مسلمان ممالک تیونس اور عراق نے اس کی باضابطہ توثیق کرکے اس کے اصولوں پر کاربند رہنے کا وعدہ کیا ہے۔۔۔اور کیا بتاؤں ؟؟؟؟؟

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں