دھرنے پر ایک تحقیقی مقالہ

عام طور پر کچھ بے وثوق اور ضعیف روایتوں کے مطابق دھرنے کی ایجاد کا سہرا جماعت اسلامی کے سر باندھا۔۔۔


Saad Ulllah Jaan Baraq December 09, 2013
[email protected]

عام طور پر کچھ بے وثوق اور ضعیف روایتوں کے مطابق دھرنے کی ایجاد کا سہرا جماعت اسلامی کے سر باندھا جاتا ہے لیکن ہماری تحقیق کے مطابق جو ہم نے پشتو اکیڈمی سے سیکھی ہے یہ بات غلط ہے کیونکہ دھرنے کا پہلا سراغ ہمیں مرزا اسد اللہ خان غالب عرف مزرا نوشہ کے ہاں ملتا ہے کہ

دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں؟

دراصل غالب کو اسی ''کیوں'' سے بڑی رغبت تھی اور جہاں کہیں بھی ان کا دل چاہتا تھا کیوں مار دیتے تھے بلکہ اس کیوں کی دوسری شکلیں بھی ان کو بڑی پسند تھیں جیسے کیوں کر ہو، کیوں نہ ہو وغیرہ چنانچہ دھرنے سے پہلے وہ اچھی خاصی تیاری بھی کر لیتے تھے جیسے

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت ''ڈرون'' سے بھرنہ آئے کیوں
بیٹھے ہیں جی ٹی روڈ پر کوئی ہمیں اٹھائے کیوں

دراصل جماعت اسلامی چونکہ بڑی منظم اور نظرئیے والی پارٹی ہے اس لیے لوگ خواہ مخواہ اس پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں صرف دھرنا ہی نہیں بلکہ علامہ بریانی عرف برڈ فلو کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کی بنیاد اورنگزیب عالم گیر نے رکھی تھی حالانکہ اس نے اس کا نام نہیں رکھا تھا لیکن بہرحال اسے پہلا جماعتیہ قرار دیا جا سکتا ہے، توبہ ہماری تحقیق کا ٹٹو بھی ۔۔۔۔ جدھر منہ اٹھا چل پڑتا ہے' اصل موضوع ہمارا دھرنا ہے، دھرنے کے سلسلے میں جب ہم نے تحقیق کا ڈول ڈالا تو بات بہت دور تک چلی گئی، میاں مجنوں نے بھی ایک مرتبہ لیلیٰ کی گلی کی نکڑ پر دھرنا دیا تھا لیکن سگ لیلیٰ نے نہ صرف اس کا دھرنا توڑ دیا بلکہ اسے دشت نجد میں پہنچا کر چھوڑا جہاں سے وہ مرتے دم تک دوبارہ دھرنا دینے کے لیے نہیں لوٹا۔

ہمیں دھرنے سے متعلق تحقیق کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ پچھلے کچھ دنوں سے اپنے یہاں دھرنے کا سیزن چل رہا ہے' دھرنے کا مقصد تو شاید یہ ہے کہ ڈرون حملوں کو ذرا تیز کیا جائے' بند کرنے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ امریکا مکمل ادائیگی پیشگی کر چکا ہے اور دھرنے والے بھی جانتے ہیں' پشاور میں کسی سڑک پر دھرنا دے کر لوگوں کی زندگی تو اجیرن کی جا سکتی ہے لیکن ڈرون کو کوئی لگام نہیں ڈالی جا سکتی۔

ہاں یاد آیا تحریری طور پر تو نہیں تصویری طور پر دھرنے کے ڈانڈے پرنس سدھارتھ یعنی گوتم بدھ سے جا ملتے ہیں کیونکہ ان کے زیادہ تر مجسمے دھرنے ہی کی حالت میں ہیں۔ اس کا خاموش مطلب یہ ہے کہ دھرنے کی روایت قبل مسیح سے چلی آرہی ہے۔ دراصل یہ ایک بہت ہی کم خرچ 'بے ضرر' کم محنت اور باسہولت اور کمفرٹ ایبل ''ذریعہ احتجاج'' ہے، پڑوسی ملک میں اس کو ذرا اور موثر بنانے کے لیے ''ان شن'' پر بیٹھنے کا طریقہ بھی متعارف کرایا گیا ہے لیکن اس کے لیے کھانا پینا ترک کر کے خودکشی کا رحجان پایا جاتا ہے اس لیے مسلمانوں میں اسے پسند نہیں کیا جاتا حالانکہ سنا ہے کہ اب اس میں اصلاح کر کے خطرے کا سدباب کیا جاتا ہے اور ان شن پر بیٹھنے والے کے لیے باتھ روم میں اچھے خاصے انتظامات کیے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے علامہ طاہر القادری کے لیے کنٹینر میں کیے گئے تھے، اس سلسلے میں ایک بہت ہی پرانا لطیفہ بھی ہے کہ ایک شخص ریل کی پٹڑی پر خودکشی کی غرض سے لیٹا ہوا تھا اس کے سر کے نیچے تکیہ تھا اور پہلو میں ٹفن اور پانی کی بوتل بھی تھی ۔کسی نے پوچھا جب جان ہی دینی ہے تو یہ کیا ہے ۔۔۔ بولا ۔۔۔ ریل کا کیا بھروسہ ہے کب آئے نہ آئے تو آدمی خود کو بھوکا پیاسا تو نہیں مار سکتا، یہ دھرنا بھی دراصل ایک باسہولت اور کمفرٹ ایبل ان شن ہوتا ہے جو خالص اسلامی تعلیمات کے اندر منعقد کیا جاتا ہے۔

مرحوم عبداللہ شاہ پشاور کے ایک صحافی تھے اور الفلاح نامی اخبار چلاتے تھے ساتھ ہی وہ مسلم لیگ کے ممتاز رہنما بھی تھے۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اسکندر مرزا پشاور کے ڈپٹی کمشنر تھے اور وہ مسلم لیگ کو منظم کرنے کے مشن پر تھے ۔ان کا ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ ایک دن تحریک آزادی کا ذکر ہو رہا تھا تو انھوں نے میز سے شیشے کا پیپر ویٹ اٹھا کر دیوار پر زور سے مارتے ہوئے کہا کہ انگریزی حکومت اس دیوار جیسی ہے اور تحریک آزادی اس پیپر ویٹ کی طرح ہے جو کرچی کرچی ہو کر بکھر گئی، یہ الگ بات ہے کہ وہی اسکندر مرزا پاکستان بننے کے بعد پہلی صف میں نظر آئے اور بعد گورنر جنرل کے ساتھ ساتھ صدر جمہوریہ خداداد پاکستان بھی کہلائے لیکن پھر اپنے ہی بوئے ہوئے ایوب خان نے ان کو

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

تو جناب عبداللہ شاہ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ہم مسلم لیگ کو خدائی خدمت گاروں کے خلاف تعمیر کر رہے تھے تو ہوتا یوں تھا کہ سرکردہ خوانین کو ڈی سی آفس بلایا جاتا اور ان سے دعوت تبلیغ کی طرز پر ایک ماہ دو ماہ تین ماہ لگانے کے لیے کہا جاتا پھر ان کو کسی بہانے سے اتنے عرصے کے لیے جیل بھیج دیا جاتا اور جب باہر نکلتا تو ممتاز مسلم لیگی رہنماء بن چکا ہوتا۔ ہمارے خیال میں یہ دھرنا بھی کچھ ایسی ہی چیز ہے کہ صرف چند گھنٹے یا دن 'صرف بیٹھنا ہوتا ہے اور پھر جب اٹھتا ہے تو ہینگ اور پھٹکڑی کے بغیر ہی اس کا رنگ چوکھا ہوتا ہے اور جو پہلے سے لیڈر ہوتے ہیں ان کو بھی تو ''ریفریشر'' کورس کا ''آب'' دینا پڑتا ہے۔

ورنہ کون نہیں جانتا کہ دھرنے سے وزیرستان میں ڈرون کے کانوں پر کون سی جوں رینگ سکتی ہے اور کیا واقعی نیٹو سپلائی روکی جا سکتی ہے ؟ کیا کراچی سے خیبر تک نیٹو سپلائی ''مفت'' میں جاتی ہے؟ اگر بات حساب کتاب کی آئی تو ایک ایک لمحے کا حساب دینا پڑے گا کیونکہ ''خون جگر و دیعت مژگان یار ہے'' اور پھر جب دھرنے سے پہلے ہی سو بار صفائیاں پیش کی جاتی ہوں کہ حضور

مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے

کبھی کبھی ہمارے ذہن میں یہ خیال آتا ہے بلکہ سوال بھی آتا ہے کہ کیا کبھی ہماری سیاست بالغ بھی ہو گی' مشکل لگتا ہے کیونکہ ہماری سیاست اس ڈس ایبل بچے کی طرح ہو گئی ہے جس کا جسم تو بڑھتا ہے لیکن دماغ دو تین سال کے بچے کا ہوتا ہے۔ کیا ایسا کبھی ہوا ہے کہ آپ کسی دریا کو عین اس مقام پر بند کر دیں جہاں وہ سمندر یا کسی دوسرے دریا میں گرتا ہے یا آبشار کی صورت اختیار کرتا ہے۔ کیا ایسا کبھی ہوا ہے کہ کم زور سے کم زور ملک میں بھی کسی دوسرے ملک کے جہاز آکر اس کے شہریوں پر بمباری کریں ۔۔۔ حکیم اللہ ہو یا کوئی اور وہ پاکستان کے شہری ہیں اور اگر مجرم ہیں تو پاکستان کے ہیں جو کاغذات میں ایک آزاد ملک کہلاتا ہے۔

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں