امید باقی ہے
اس ملک میں جو گھپلے ہوئے ہیں ان پر حقائق کا نہیں داستانوں اور افسانوں کا گماں گزرتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کو ایک کریڈٹ تو بہرحال دیا جاسکتا ہے کہ ان کی حکومت میں جس تواتر سے وفاقی کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں اس سے پہلے کبھی کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ہر ہفتے میں دو مرتبہ کابینہ اجلاس کا انعقاد کریں بلکہ ماضی کی حکومتوں میں تو کئی کئی مہینوں تک اجلاس نہیں ہوتے تھے اور وزیر اعظم اپنے وزراء کی شکلیں تک بھول جاتے تھے بلکہ بعض اوقات تو پوچھ لیا جاتا تھا کہ آپ کے پاس کون سی وزارت ہے یا آپ کابینہ اجلاس میں کیا کر رہے ہیں ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں جس باقاعدگی کے ساتھ کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں اس باقاعدگی سے ان اجلاسوں میں کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور اگر جو تھوڑا بہت ہوتا ہے تو اس میں سے بھی خیر کا کوئی پہلو کم ہی نکلتا ہے ۔اندر خانے کی جو خبریں وزراء لیک کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی صفوں میں یکجہتی مفقود ہے اور اختلاف رائے میں شدت پائی جاتی ہے ۔
جمہوریت میں اختلاف رائے حسن کہلاتا ہے اختلاف رائے اگر اصولی ہو تو حسن بن جاتا ہے لیکن اگر اس میں مفاد پوشیدہ ہو تو یہی اختلاف آپس میں کدورتیں پیدا کر دیتا ہے جو آگے چل کر نفرتوں میںبدل جاتی ہیں اور یہ نفرتیں لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری حکومت کے وزراء کا ہے جو کابینہ کے اجلاسوں میں لڑنے جھگڑنے کی حد تک آپس میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور وزیر اعظم ان کے درمیان بیچ بچائو کراتے ہیں ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں اور بیچ چوراہے کے اپنے گندے کپڑے دھونے سے پرہیز کرنے کا کہتے ہیں۔
اس بات میں اب کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ حکومت کے ان دعوئوں کے باوجود کہ اوپر کی سطح پرکرپشن کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری ہے اب بھی کسی نچلی سطح پر نہیں اوپر کی سطح پر ہی گڑ بڑ ہو رہی ہے اور امیروں کے مفاد کے سامنے غریبوں کے مفاد کا حکومتی ایوانوں میں گزر نہیں ہوپا رہا ۔ اسی بہت اوپر کی سطح پر ان دنوں ایک کمیشن کا چرچا عام ہے جو چینی کی سبسڈی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا جس میں حکومتی عہدیدار اور ان کے دوست ملوث ہیں لیکن اس کمیشن کی رپورٹ گول مول کردی گئی ہے اور لگتا یوں ہے کہ مک مکا ہو گیا ہے صرف لفظوں کی گولہ باری کی جا رہی ہے ۔
چینی کی ذخیرہ اندوزی اور پھر اس کی قیمت میں ہوشربا اضافے کا معاملہ ابھی سرد نہیں پڑا اور وزیر اعظم کے سابق مشیر خاص جہانگیر ترین لندن جا بیٹھے ہیں، وہی لندن جو ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا محبوب شہر ہے اور وہ اسی شہر میں جان کی امان پاتے ہیں اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جہانگیر ترین کا دعویٰ ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ سب غلط اور ان کے خلاف سازش ہے اور انھوں نے قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں کیا جو سبسڈی ان کو دی گئی ہے وہ باقی شوگر ملوں کو بھی ملی ہے اور اس کی منظوری متعلقہ حکام نے دی تھی اور یہ جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے اس میں سیاست کا عمل دخل زیادہ ہے ۔
حکومت کو اگر کسی طرح پہلے معلوم ہو جاتاکہ اس کی اپنے حمایتیوں اورسیاسی مخالفوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کو مشکوک کر دیا جائے گا تو وہ شاید یہ رسک ہی نہ لیتی اور اپنے قیمتی ساتھی کی قربانی سے در گزر کر جاتی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا ہے اور جو سیاسی نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے اگر اس اہم ترین معاملے میں حکومت نے مزید کارروائی سے گریز کیا تو اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی لیکن اگر بلاتفریق کارروائی کا ڈول ڈال دیا گیا تو حکمرانوں کے دعوئوں کو تقویت مل جائے گی کہ وہ احتساب کے معاملے میں اپنے پرائے میں فرق نہیں رکھ رہے ۔
بہر حال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کسی کو نہ چھوڑنے والی وزیر اعظم عمران خان کی گردان میں کتنی سچائی ہے ۔ جہاں تک پیارے عوام کا تعلق ہے تو وہ تو پہلے ہی بہت سوں کے ڈسے ہوئے ہیں البتہ وہ اب حکومت سے یہ امید ضرور رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کو جلد از جلد ایفا کرے ۔ ہماری موجودہ سیاسی قیادت نے عوام کا سیاسی ذوق بھی بدل دیا اور اب تو بڑے بڑے سیاستدان بھی اس کے قافلے میں شامل ہو گئے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت تھی اور ان موقع پرستوں نے وقت سے فائدہ اٹھایا ۔ ورنہ یہ تو وہی پارٹی تھی جس کی کسی زمانے میں اسمبلی میں ایک ہی سیٹ تھی اور جس کی قیادت پر یہی سیاستدان طرح طرح کے الزامات لگاتے تھے ۔
خیر اس فرسودہ بحث کو چھوڑتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان کے عوام ایک عذاب میں مبتلا ہیں اور ان لوگوں کے لیے اتنی رقم مختص نہیں کی گئی جتنی منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیا کے گھپلوں میں ڈوب جاتی ہے ۔ پاکستان میں جتنا کچھ کھایا پیا گیا ہے اتناکچھ یا اس کا کچھ حصہ نکال لیا جائے اور اس پر پیچ و تاب نہ کھائے جائیں تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں اور ہم عالمی قرض خواہوں کے سامنے مزید ہاتھ پھیلانے کے بجائے ان کے قرضے ان کے منہ پر دے ماریں ۔ پاکستان کے بڑے لوگوں نے جو کچھ کھایا پیا ہے اس کا بڑا حصہ انھی قرضوں کی خورد برد سے آیا ہے ۔
اس ملک میں جو گھپلے ہوئے ہیں ان پر حقائق کا نہیں داستانوں اور افسانوں کا گماں گزرتا ہے اور داد دیجیے ہمارے عوام کی کہ وہ ایک بار پھرمار دھاڑ سے بھر پور صرف ایسی فلم ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کس کو روئیںکس کا ماتم کریں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔ ایک امید باقی ہے جو مایوسی کو دور کر دیتی ہے کہ شاید ہماری تقدیر کو بدلنے والا کوئی سچا حکمران ہمیں نصیب ہو جائے اسی امید کے سہارے جئے جارہے ہیں۔ کالم کے آخر میں میرے پسندیدہ شاعر ظفر اقبال کا ایک شعر قارئین کی نذر
کہیں غبار میں گم ہو کے رہ گیا ہوں ظفر
وگرنہ میں بھی اسی کارواں میں شامل تھا
حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں جس باقاعدگی کے ساتھ کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں اس باقاعدگی سے ان اجلاسوں میں کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور اگر جو تھوڑا بہت ہوتا ہے تو اس میں سے بھی خیر کا کوئی پہلو کم ہی نکلتا ہے ۔اندر خانے کی جو خبریں وزراء لیک کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی صفوں میں یکجہتی مفقود ہے اور اختلاف رائے میں شدت پائی جاتی ہے ۔
جمہوریت میں اختلاف رائے حسن کہلاتا ہے اختلاف رائے اگر اصولی ہو تو حسن بن جاتا ہے لیکن اگر اس میں مفاد پوشیدہ ہو تو یہی اختلاف آپس میں کدورتیں پیدا کر دیتا ہے جو آگے چل کر نفرتوں میںبدل جاتی ہیں اور یہ نفرتیں لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری حکومت کے وزراء کا ہے جو کابینہ کے اجلاسوں میں لڑنے جھگڑنے کی حد تک آپس میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور وزیر اعظم ان کے درمیان بیچ بچائو کراتے ہیں ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں اور بیچ چوراہے کے اپنے گندے کپڑے دھونے سے پرہیز کرنے کا کہتے ہیں۔
اس بات میں اب کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ حکومت کے ان دعوئوں کے باوجود کہ اوپر کی سطح پرکرپشن کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری ہے اب بھی کسی نچلی سطح پر نہیں اوپر کی سطح پر ہی گڑ بڑ ہو رہی ہے اور امیروں کے مفاد کے سامنے غریبوں کے مفاد کا حکومتی ایوانوں میں گزر نہیں ہوپا رہا ۔ اسی بہت اوپر کی سطح پر ان دنوں ایک کمیشن کا چرچا عام ہے جو چینی کی سبسڈی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا جس میں حکومتی عہدیدار اور ان کے دوست ملوث ہیں لیکن اس کمیشن کی رپورٹ گول مول کردی گئی ہے اور لگتا یوں ہے کہ مک مکا ہو گیا ہے صرف لفظوں کی گولہ باری کی جا رہی ہے ۔
چینی کی ذخیرہ اندوزی اور پھر اس کی قیمت میں ہوشربا اضافے کا معاملہ ابھی سرد نہیں پڑا اور وزیر اعظم کے سابق مشیر خاص جہانگیر ترین لندن جا بیٹھے ہیں، وہی لندن جو ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا محبوب شہر ہے اور وہ اسی شہر میں جان کی امان پاتے ہیں اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جہانگیر ترین کا دعویٰ ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ سب غلط اور ان کے خلاف سازش ہے اور انھوں نے قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں کیا جو سبسڈی ان کو دی گئی ہے وہ باقی شوگر ملوں کو بھی ملی ہے اور اس کی منظوری متعلقہ حکام نے دی تھی اور یہ جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے اس میں سیاست کا عمل دخل زیادہ ہے ۔
حکومت کو اگر کسی طرح پہلے معلوم ہو جاتاکہ اس کی اپنے حمایتیوں اورسیاسی مخالفوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کو مشکوک کر دیا جائے گا تو وہ شاید یہ رسک ہی نہ لیتی اور اپنے قیمتی ساتھی کی قربانی سے در گزر کر جاتی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا ہے اور جو سیاسی نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے اگر اس اہم ترین معاملے میں حکومت نے مزید کارروائی سے گریز کیا تو اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی لیکن اگر بلاتفریق کارروائی کا ڈول ڈال دیا گیا تو حکمرانوں کے دعوئوں کو تقویت مل جائے گی کہ وہ احتساب کے معاملے میں اپنے پرائے میں فرق نہیں رکھ رہے ۔
بہر حال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کسی کو نہ چھوڑنے والی وزیر اعظم عمران خان کی گردان میں کتنی سچائی ہے ۔ جہاں تک پیارے عوام کا تعلق ہے تو وہ تو پہلے ہی بہت سوں کے ڈسے ہوئے ہیں البتہ وہ اب حکومت سے یہ امید ضرور رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کو جلد از جلد ایفا کرے ۔ ہماری موجودہ سیاسی قیادت نے عوام کا سیاسی ذوق بھی بدل دیا اور اب تو بڑے بڑے سیاستدان بھی اس کے قافلے میں شامل ہو گئے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت تھی اور ان موقع پرستوں نے وقت سے فائدہ اٹھایا ۔ ورنہ یہ تو وہی پارٹی تھی جس کی کسی زمانے میں اسمبلی میں ایک ہی سیٹ تھی اور جس کی قیادت پر یہی سیاستدان طرح طرح کے الزامات لگاتے تھے ۔
خیر اس فرسودہ بحث کو چھوڑتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان کے عوام ایک عذاب میں مبتلا ہیں اور ان لوگوں کے لیے اتنی رقم مختص نہیں کی گئی جتنی منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیا کے گھپلوں میں ڈوب جاتی ہے ۔ پاکستان میں جتنا کچھ کھایا پیا گیا ہے اتناکچھ یا اس کا کچھ حصہ نکال لیا جائے اور اس پر پیچ و تاب نہ کھائے جائیں تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں اور ہم عالمی قرض خواہوں کے سامنے مزید ہاتھ پھیلانے کے بجائے ان کے قرضے ان کے منہ پر دے ماریں ۔ پاکستان کے بڑے لوگوں نے جو کچھ کھایا پیا ہے اس کا بڑا حصہ انھی قرضوں کی خورد برد سے آیا ہے ۔
اس ملک میں جو گھپلے ہوئے ہیں ان پر حقائق کا نہیں داستانوں اور افسانوں کا گماں گزرتا ہے اور داد دیجیے ہمارے عوام کی کہ وہ ایک بار پھرمار دھاڑ سے بھر پور صرف ایسی فلم ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ کس کو روئیںکس کا ماتم کریں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔ ایک امید باقی ہے جو مایوسی کو دور کر دیتی ہے کہ شاید ہماری تقدیر کو بدلنے والا کوئی سچا حکمران ہمیں نصیب ہو جائے اسی امید کے سہارے جئے جارہے ہیں۔ کالم کے آخر میں میرے پسندیدہ شاعر ظفر اقبال کا ایک شعر قارئین کی نذر
کہیں غبار میں گم ہو کے رہ گیا ہوں ظفر
وگرنہ میں بھی اسی کارواں میں شامل تھا