اسلحے کی تجارت
ہماری حکومتیں اور ادارے بظاہر کراچی سے پشاور بلکہ طُور خم تک اسلحے سے پاک پاکستان کے قیام کے لیے۔۔۔
ہماری حکومتیں اور ادارے بظاہر کراچی سے پشاور بلکہ طُور خم تک اسلحے سے پاک پاکستان کے قیام کے لیے جدو جُہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلحہ بڑھتا اور پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ پاکستان سے اور دنیا بھر سے اسلحہ ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوپارہا،آخر اس کی کیا وجہ ہے؟سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں چاہیے کہ وقت کے جاری نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ہم آپ سرمایہ دارانہ ماحول میں رہ رہے ہیں۔سرمایہ داریت کی اپنی ہی اخلاقیات ہوا کرتی ہیں۔
یہاں ہر وہ عمل جاری رہنے کے لیے ہے جو سرمائے کی بڑھوتری میں حصے دار ہے۔اسلحہ اور منشیات آج کے دو سب سے بڑے کاروبار ہیں۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت رہتے ہوئے ان کا خاتمہ کیا جاسکے؟حکومتیں تو خود اس بڑے کاروبار کی ایک اہم شریک ہیں۔اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آتشیں اسلحے کی آتش دامن اور بندِ قبا کو داغدار نہ کر ے؟ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر کی افواج پر پندرہ کھرب ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔یعنی عالمی جی ڈی پی کا 2.7فی صد۔دنیا کی 100بڑی اسلحہ سازکمپنیوں نے2004میں 30ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔یہ رقم بڑھ کر 2006تک 315ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔اس بڑے اسلحے کے علاوہ بہت بڑی مقدار میں چھوٹا اسلحہ بھی دنیا بھر میں فروخت ہوتا ہے۔
100ممالک کی قریباً 1000کمپنیاں چھوٹا اسلحہ تیار کر کے دنیا بھر میں پھیلاتی ہیں۔ 8کھرب75ارب کی تعداد میں چھوٹا اسلحہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں زیرِ گردش و زیرِ استعمال ہے۔ہر برس ہزاروں معصوم شہری اس اسلحے کی بنا پر لقمہ اجل بنتے ہیں،ہزاروں ہمیشہ کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ہلاکتوں کی بنا پرکوئی بھی حکومت اتنی بڑی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے؟دیکھا یہ جارہا ہے کہ سرمایہ کاری کی راہ میں حائل حکومتیں اور رکاوٹیں ٹھیک اُسی طرح بہہ جایا کرتی ہیں جس طرح تُند وتیزسیلابی ریلے کے آگے خس و خاشاک۔
آج کی حکومتیں اسلحے کی تجارت کے آڑے آنے اور اُسے آڑے ہاتھوں لینے کے بجائے اس کی ممدومعاون بن جاتی ہیں۔بڑی بڑی نمائشوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے اسلحے کی فروخت اور پھیلاؤ کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔اسلحے کی تجارت کو نفع اندوزی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ آج کون سا ملک ہے جو اسلحے کی دوڑ میں شریک نہیں؟کون سا ملک ہے جو اس ریس میں پیچھے رہ جانے کا سوچ بھی سکتاہو؟ہر ہر ملک زیادہ سے زیادہ اسلحہ جمع کر لینے کی جستجو میں مصروف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی یا اس کو لاحق امراض اور خطرات میں اضافہ ہواہے؟کون ہے جو افراد کو اور ممالک کو اس احساس میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ان کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیںاور ان خطرات سے بچنے کے لیے انھیں ڈھیر سارا اسلحہ خرید لینا چاہیے۔افراد اور ممالک موہوم خوف کے اسیر ہوکر دھڑا دھڑ اسلحہ خریدتے ہیں۔کچھ ہی دن بعد یہ اسلحہ پرانا ہوجاتا ہے ۔اب ان تمام ممالک کو ''اپ ڈیٹ'' ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اوروہ اس کے لیے ہر سال مزید اسلحہ خریدتے ہیں۔نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ممالک اور افراد کنگال ہوتے رہتے ہیں قرض پر قرض لیتے رہتے ہیںجب کہ اسلحہ سازوں کی چاندی ہوتی رہتی ہے۔ان کے منافعے کساد بازاری سے بھی متاثر نہیں ہوتے۔
کتنا اسلحہ کہاں فروخت ہوا اس بارے میں امریکی کانگریس ریسرچ سروس ایک مصدقہ رپورٹ شایع کرتی ہے۔ اس میں ذکر کیا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سے کس کس کو کتنا اور کون سا اسلحہ فروخت ہوا۔یہ ایک طرح کی یادداشت بھی ہے۔تازہ ترین رپورٹ 24اگست2012کو شایع ہوئی۔اس کا عنوان تھا''کنوینشنل آرمز ٹرانسفر ٹو ڈیولپنگ نیشنز2011-2004'' یہ رپورٹ اپنے خالق''رچرڈ ایف گرمٹ'' کے نام سے منسوب ہو کر''گرمٹ رپورٹ'' کے نام سے مشہور ہے۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ اسلحہ امریکا فروخت کرتا ہے۔2004سے2011کے درمیان کل فروخت ہونے والے اسلحے کا 44فی صداسلحہ امریکا نے فروخت کیا۔
کل لاگت 220.608بلین ڈالر دوسرے نمبر پر روس 17فی صد اسلحے کی فروخت 83.323بلین ڈالر۔ رپورٹ کے مطابق صنعتی ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔گویا جو پیسے والے ممالک ہیں وہ تو اسلحہ خریدتے ہی نہیں ہیں یا بہت کم خریدتے ہیں اور جو قرض کے مرض پر اپنی معیشتیں استوار کرنے میں جُتے ہیں وہ اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب ہے۔سعودی عرب نے اس دوران21فی صد اسلحہ خریداجس کی مالیت امریکی ڈالر کے حساب سے 75.7بلین ڈالر بنتی ہے۔
دوسرا نمبر بھارت کا ہے۔عالمی سطح پر بھارت اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار ہے۔بھارت نے 13فی صد اسلحہ خریدا۔ مالیت 46.6 بلین ڈالر۔آج کا عام بھارتی شہری غربت،افلاس، بھوک، بیماری ،قحط اور ماحولیاتی آلودگی کا مارا ہے۔ کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں اربوں ڈالر البتہ میزائلوں، خلاؤں اور اسلحے کی نذر کیے جا رہے ہیں، ہے کوئی پوچھنے والا؟متحدہ عرب امارات اور مصر کے بعد اسلحے کا پانچواں سب سے بڑا خریدار پاکستان ہے۔اس عرصے کے دوران پاکستان نے اسلحے کا کُل 4فی صد خریدا13.2بلین ڈالرز۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مزید 44.28ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت کی منظوری ابھی حالیہ دنوں میں دی ہے۔اس کے مطابق 173اقوام کو اسلحہ فروخت کیا جائے گا۔اس مرتبہ بھی سب سے زیادہ اسلحہ سعودی عرب خریدے گا۔6.8ارب ڈالرکا اسلحہ متحدہ عرب امارات4ارب ڈالر کا اسلحہ وغیرہ۔اوباما انتظامیہ نے ''بوئنگ کارپوریشن'' اور ''ریتھن کو''وغیرہ کو اس حوالے سے سبز جھنڈی دکھا دی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی فروخت کے معاہدے کر سکتی ہیں۔
ایسا ہوجانے سے سعودی عرب اور امارات نئی قسم کا دورمار اسلحہ بھی خرید پائیں گے۔یہ ایسا اسلحہ ہوگا جو سعودیہ اپنےF-15اور امارات اپنےF-16کے ذریعے آسانی سے چلا سکیں گے۔یہ تو ابتدا ہو گی سعودیہ کے پاس ہتھیاروں کی خریداری کی ایک طویل''شاپنگ لسٹ'' ہے۔سوال یہ ہے سعودی عرب کیوں ہتھیاروں کی منڈی کا سب سے بڑا خریدار بنا ہوا ہے؟عرب تاریخ میں یا دنیا کی تاریخ میں کب کہاں ایسا ہواکہ خریدے گئے اسلحے کی بنیاد پر جنگیں لڑی یا جیتی گئیں؟
امریکا میںیہ سودا سب سے پہلے سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے اپریل میں پیش کیا تھا۔خیال ہے کہ کانگریس رواں مہینے کے دوران کسی وقت اس کی منظوری دے دے گی۔دیکھا یہ گیا ہے کہ اس قسم کے معاہدوں پر بحث کے دوران کانگریس کے پیش نظر زیادہ تر مادی اور معاشی پہلو اور مفادات ہوا کرتے ہیں۔نئی مارکیٹ،نئی ملازمتیں،سیکیورٹی سے متعلق مباحث وغیرہ۔ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اسلحے اور اسلحے کی فروخت کے اخلاقی اور روحانی پہلو زیرِ بحث لائے جائیں۔نفسیات دان کہتے ہیں کہ آپ ایک عام فرد کے ہاتھ میں خطرناک ہتھیار تھما دیں،خواہ وہ اس کے استعمال سے واقف بھی نہ ہو،لیکن صرف خطرناک اسلحہ تھام لینے سے ہی اس کے دل ،دماغ اور شخصیت پر حیرت انگیز لیکن منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔یہاں تک کہ اگر وہ اسلحہ رکھنے کا خوگر ہو جائے تو اس کی شخصیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ مباحث کسی ملک کی کانگریس میں کیوں زیر بحث نہیں آتے؟آج امریکا ہو یا افریقا،افغانستان ہو یا پاکستان ہر ہر جگہ خوب ہی اسلحہ بکتا ہے اور استعمال ہوتا ہے۔کہیں جہاد کے نام پر تو کہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر۔
سوال یہ ہے کہ بحر و بر میں فساد بپا کرنے والی اس تجارت اور اس کے آقاؤں کے بارے میں کبھی کوئی ملک،کوئی اسمبلی ،یا کوئی ادارہ کبھی کوئی سوال اٹھا بھی سکے گا؟