اُردو زبان وادب کے اِجلاس اور مجلسیں
میرے تصورکے پردے پر وہ منظر آج بھی نقش ہے۔ کراچی میں پہلی مرتبہ عالمی اردو کانفرنس ہونے جارہی۔۔۔
میرے تصورکے پردے پر وہ منظر آج بھی نقش ہے۔ کراچی میں پہلی مرتبہ عالمی اردو کانفرنس ہونے جارہی تھی جو 7روزپر محیط تھی۔حاضرین اورانتظامیہ دونوں کا جوش وخروش قابل دید تھا۔27نومبر سے 3دسمبر2008 تک میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس یادگارثابت ہوئی۔ آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی کے مرکزی دروازے کے ساتھ مہمان خانے میں اپنے عہد کی کئی بڑی ہستیاں موجود تھیں اورگپ شپ کا دور جاری تھا۔صبح کی خنکی اور چائے کی گرمائش کے امتزاج سے ماحول رومان پرورہوگیا تھا۔ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، انتظار حسین، سحر انصاری، شہزاد احمد،حمید اختر اورکئی گراں قدر شخصیات چائے کی چسکیوں میں موسم کا مزا لے رہے تھے اوران کی گفتگو میں حروف ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔
میں نے بھی اس نوعیت کی کانفرنسوں کے بارے میں بہت سن رکھا تھا، مگر کسی کانفرنس میں باقاعدہ شرکت نہیں کی تھی۔یہ وہ زمانہ ہے،جب میں جامعہ کراچی میں زیرِ تعلیم تھااورایک روزنامے کے میگزین اورخصوصی ایڈیشن کے صفحات کے ادب وثقافت پرلکھاکرتاتھا۔میں نے ان سات دنوں کوآرٹس کونسل میں بسر کیا،اس کانفرنس پر مکمل صفحے کاخصوصی ایڈیشن شایع کیااور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹنگ اس کے علاوہ تھی،اس کام میں مجھے اپنے اخبارکے مدیر فاضل جمیلی کامکمل تعاون حاصل رہا۔وقت پر لگاکر اڑتاگیا اور رواں برس اس کانفرنس کو منعقد ہوتے ہوئے چھٹا برس ہوگیا۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کانفرنس میں کئی اتار چڑھاؤ بھی آئے،مگر اس کی سب سے بڑی کامیابی اس کا باقاعدگی سے منعقد ہونا تھا۔عالمی اردو کانفرنس کامیاب ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو،لیکن احمد شاہ ضرور کامیاب ہوتے رہے اوراب بھی وہ کانفرنس کو ایک تُرپ کے پتے کی طرح استعمال کرنا چاہیں گے۔ایک بات کااعتراف تو کرناپڑے گا،احمد شاہ نے جس طرح آرٹس کونسل کو آباد کیا،ایسی رونق پہلے دیکھنے میں نہ آئی، مگر بہت سے معاملات میں ان کا انداز کار ان کے مثبت شخصی تصور کونقصان پہنچاتا ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان کانفرنسوں میں کئی مرتبہ نامور ادبی شخصیات کی شرکت کا اعلان کیاجاتارہا،مگر وہ نام کبھی اس فہرست میں شامل ہی نہیں تھے،جن میں انھیں رکھاگیا۔اخبارات میںشایع شدہ خبریں اس تناظر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔کئی ادبی شخصیات سے میری براہ راست بات ہوئی ہے،انھوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی،پوچھے بغیر اورپروگرام بتائے بغیر ان کانا م شامل کرلیاجاتاہے۔حتیٰ کہ رواں برس میں چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں ایک بڑی ادبی شخصیت کو کانفرنس شروع ہونے سے چند روز پہلے تک پتا نہیں تھا ،وہ اس میں شریک ہو پائیں گے کہ نہیں ، مگر پورے شہر کو خبر تھی، وہ اس میں شرکت کررہے ہیں۔
ایسے اوربہت سارے معاملات ہیں،جن میں ادیبوں کے حوالے سے بے ادبی کا عنصر کافی زیادہ ہے۔ یہاں ایک اوراہم بات گوش گزارنا ضروری ہے ،بقول سحر انصاری ''موجودہ دور میں دلہا کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ دلہا ہے۔''لہٰذا جو دولہے ان کو بتا دیتے ہیں،یہ انھی کو عالمی کانفرنس میں شامل کرلیتے ہیں،بس اس میں شرط یہ ہے کہ اس دولہے سے ان کی ذاتی وابستگی بھی ہو۔یہی وجہ ہے کہ مخصوص دولہوں کی شرکت سے اب یہ کانفرنس یکسانیت کا رنگ اختیار کرنے لگی ہے۔ چھ برس کی ریاضت کے بعد یقیناً اب ضرورت ہے کہ جان پہچان سے ماورا ہوکر اورسطحی فوائد سے بالاتر ہوکر کوئی قاعدہ اورپیمانہ مرتب کیاجائے،جس کے تحت شعبہ جات کے لحاظ سے قلم کاراپنی تخلیقات اورتجربے کی بنیاد پر شرکت کرسکیں۔
سینئر ادیب اورشعرا کی شرکت کے بغیر تو سب کچھ ادھورا ہے،لیکن کم از کم نوجوانوں کے لیے کوئی سیشن رکھاجائے،تو سفید بالوں والے نوجوانوںکی بجائے اُن نوجوانوں کو بلائیں ،جنہوں نے کم عمری میں کچھ کام کیا ہو اوران سے خدارا انتخابی طرز کے عہدوپیمان سے گریز کریں۔شاید یہ چند باتیں بہت سے لوگوں کو گراں گزریں ،مگر دوست پیٹھ پیچھے بات نہیں کیاکرتے۔
امید ہے بھیڑ جمع کرنے کی بجائے اس معیار کو واپس لایا جائے گا،جہاں سے اس عالمی اردوکانفرنس کی ابتدا ہوئی تھی اورآرٹس کونسل کی انتظامیہ سے آخری گزارش یہ ہے کہ پڑوسی ملک سے چند لوگ بلا کر اسے عالمی کانفرنس قرار دینا مذاق لگتاہے،اس سے پرہیز کیاکریں اورہوسکے تو اگلے برس کی عالمی کانفرنس کے لیے سب اہل دانش سے مشورہ کرکے اردو کے لیے کم ازکم ایک قرارداد منظورکریں۔جس میں ''کانفرنس ''کا کوئی متبادل اردو لفظ تلاش کیاجاسکے تاکہ عملی معنوں میں اردو زبان کی کوئی خدمت ہوسکے۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں عالمی کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہا۔کراچی ،لاہور،اسلام آباد ان کامرکز رہے، پھر ایک طویل عرصے کے بعد کراچی آرٹس کونسل میں یاور مہدی کے دور میں دوبارہ اس کاذکر چھیڑاگیااوراس تذکرے کو چھیڑنے والے احمد ہمیش مرحوم تھے۔انھوں نے یاور مہدی سے کہا کہ عالمی ادبی کانفرنس ہونی چاہیے، جس پر دونوں میں اتفاق بھی ہوگیامگر پھر نمایندگی پر اختلاف ہوا اوراحمد ہمیش بھی پیچھے ہٹ گئے۔
احمد ہمیش کی صاحب زادی انجلا ہمیش کے مطابق ''یہی وجہ یاور مہدی کے آرٹس کونسل میں زوال اوراحمد شاہ کاعروج ثابت ہوئی۔''لیکن ان کو یہ گلہ ہے کہ رواں برس یادرفتگاں کے سیشن میں احمد ہمیش کی شخصیت پر مضمون پڑھنے کے لیے شکیل عادل زادہ کا نام تجویز کیاگیا،مگر انھوں نے نہیں پڑھا،جس کی وجہ انجلا ہمیش انتظامیہ کادلچسپی نہ لینا اورشکیل عادل زادہ کو باقاعدہ طورپر دعوت نہ دینا بتاتی ہیں۔
ہمارے ایک صحافی دوست نے فیس بک پر ایک سطر لکھی''اس ادبی کانفرنس میں جانے سے بہتر ہے کہ گھر میں کوئی فلم دیکھ لی جائے۔''ایسے بے شمار تاثرات پڑھنے اورسننے کو ملے،مگر قابل تعریف بات یہ ہے کہ اردوکانفرنس کاانعقاد اتنا آسان نہیں اوریہ مشکل کام مشکل پسند احمدشاہ بہت آسانی سے کرگزرتے ہیں ، اردو سے ان کی کمٹمنٹ بے داغ ہے۔مگر خامیوں پر قابو پالیں توچارچاند لگ جائیں گے، ورنہ چاند پر دھبے توہوتے ہی ہیں۔
کراچی میں دوسری بڑی ادبی سرگرمی''کراچی لٹریچر فیسٹیول''ہے،جس کاانعقاد معروف اشاعتی ادارہ ''اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس''کئی برس سے باقاعدگی سے کررہاہے۔رواں برس فروری میںیہ چوتھی مرتبہ منعقد کیاگیا جس میں دنیا بھر سے ادیب ،محقق،تاریخ دان اور دیگر موضوعات پر لکھنے والے قلم کار شریک ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک کے سفارت خانے اس میں اشتراک کرتے ہیں اوریوں پاکستان اورخاص طور پر اہل کراچی کو حقیقی معنوں میں عالمی شخصیات سے ملنے اورانھیں جاننے کے مواقعے ملتے ہیں ۔امینہ سید اورآصف فرخی کی ریاضت رنگ لائی ہے اوراب پورے ملک کو اس ادبی میلے کاانتظار ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے بعد اب یہ اسلام آباد میں بھی منعقد کیا جانے لگا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے زیراہتمام بھی یکم اکتوبر 2011میں ''اُردو اورعصرحاضرعالمی کانفرنس''کا کامیاب انعقاد کیاگیا تھا جس میں احفاظ الرحمن،زاہدہ حنا،پیرزادہ قاسم اورامجد اسلام امجد کی قیادت میں یہ کانفرنس ایکسپو سینٹر کراچی میں منعقد کی گئی تھی ، اس قیادت کی امیدوں پر پورا اترنے والا نوجوان شاعر اورگیت نگارعلی معین تھا،جس نے کئی راتیں آنکھوں میں کاٹ کر اس کانفرنس کو اپنے سینئرز کے ساتھ مل کر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔رواں برس ایکسپریس کے زیراہتمام دوسری ادبی کانفرنس کاانعقاد کیاگیا،مگر اب کے یہ کراچی کی بجائے لاہور میں سجائی گئی۔
اب لاہور بھی اپنی عالمی ادبی وثقافتی کانفرنس کی وجہ سے ادبی خبروں میں رہنے لگاہے۔رواں برس عطاء الحق قاسمی کی قیادت میںسہ روزہ ''چوتھی عالمی الحمرا ادبی وثقافتی کانفرنس''کاانعقاد کیاگیا۔جس کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم پاکستان میاںمحمد نواز شریف نے نہایت ادب سے بڑے اورچھوٹے قیمے پرروشنی ڈالی۔قاسمی صاحب نے انھیں ادب پرہی مرکوز رہنے کی درخواست کی تو وزیراعظم صاحب کہنے لگے،ملکی مسائل پر بات کرنا بھی توادب ہی ہے۔اب اس کے بعد کیاکہاجائے۔
اب یہ سننے میں آرہاہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور نیا برس طلوع ہونے پر ایک اردو کی ادبی کانفرنس منعقد کرنے پر غور کر رہی ہے،اس کے لیے کاغذی کارروائی شرو ع کی جاچکی ہے اوریونیورسٹی کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر رضاعلی عابدی اورعلی معین اہل بہاولپور کے لیے اردو کی ادبی کانفرنس منعقد کرنے جارہے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان کا ایک انگریزی روزنامہ بھی لٹریچر فیسٹیول منعقد کروانے کے بارے میں غور کررہا ہے اور عنقریب ان کی طرف سے پاکستان کے مختلف شہروں میں لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد متوقع ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے،جن ادبی وثقافتی سرگرمیوں کاذکر ہم صرف کتابوں میں پڑھتے تھے یا اپنے سینئرز سے سنتے تھے آجکل ہم خود ان سرگرمیوں کاحصہ بن رہے ہیں۔ملک میں نقص امن کے مسائل اپنی جگہ ،لیکن یہ کوششیں انفرادی اوراجتماعی طورپر ہم عوام کو ہی کرنا ہوں گی اورقلم کاروں،ثقافتی اداروں کی انتظامیہ کا کردار اس میں کلیدی اہمیت کاحامل ہوگا۔
نئی نسل کی جانب سے ان تمام شخصیات کاشکریہ ،جو بالاواسطہ یا بالواسطہ ادب وثقافت کے فروغ میں ایک ایسی دنیا کی تعمیر کررہے ہیں ،جہاں خواب دیکھنے والے نوجوان اپنے بزرگوں کا ہاتھ تھام کر تہذیب سے مضبوطی کا رشتہ استوار کریں گے۔جہاں دہشت گردی کی خبروں کی بجائے ادبی سرگرمیوں کو شہ سرخیاں بنایاجائے گا۔کتاب پڑھنے والوں کو بے تاب کیاکرے گی۔نئی نسل اپنے بزرگوں سے فیض حاصل کرے گی۔مادیت پرستی اوربے حسی کے موسم میں تخلیقی بہار سے ہمارا معاشرہ امن کی جانب مائل ہوگا۔باردو کی بدبو پر کتابوں کے صفحات کی خوشبو حاوی ہوجائے گی۔عالمی دنیا کے لیے یہی ہمارا تعارف ہے اورہماری شناخت بھی،جس کو ہم کہیں گم کربیٹھے تھے۔
میں نے بھی اس نوعیت کی کانفرنسوں کے بارے میں بہت سن رکھا تھا، مگر کسی کانفرنس میں باقاعدہ شرکت نہیں کی تھی۔یہ وہ زمانہ ہے،جب میں جامعہ کراچی میں زیرِ تعلیم تھااورایک روزنامے کے میگزین اورخصوصی ایڈیشن کے صفحات کے ادب وثقافت پرلکھاکرتاتھا۔میں نے ان سات دنوں کوآرٹس کونسل میں بسر کیا،اس کانفرنس پر مکمل صفحے کاخصوصی ایڈیشن شایع کیااور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹنگ اس کے علاوہ تھی،اس کام میں مجھے اپنے اخبارکے مدیر فاضل جمیلی کامکمل تعاون حاصل رہا۔وقت پر لگاکر اڑتاگیا اور رواں برس اس کانفرنس کو منعقد ہوتے ہوئے چھٹا برس ہوگیا۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کانفرنس میں کئی اتار چڑھاؤ بھی آئے،مگر اس کی سب سے بڑی کامیابی اس کا باقاعدگی سے منعقد ہونا تھا۔عالمی اردو کانفرنس کامیاب ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو،لیکن احمد شاہ ضرور کامیاب ہوتے رہے اوراب بھی وہ کانفرنس کو ایک تُرپ کے پتے کی طرح استعمال کرنا چاہیں گے۔ایک بات کااعتراف تو کرناپڑے گا،احمد شاہ نے جس طرح آرٹس کونسل کو آباد کیا،ایسی رونق پہلے دیکھنے میں نہ آئی، مگر بہت سے معاملات میں ان کا انداز کار ان کے مثبت شخصی تصور کونقصان پہنچاتا ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ان کانفرنسوں میں کئی مرتبہ نامور ادبی شخصیات کی شرکت کا اعلان کیاجاتارہا،مگر وہ نام کبھی اس فہرست میں شامل ہی نہیں تھے،جن میں انھیں رکھاگیا۔اخبارات میںشایع شدہ خبریں اس تناظر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔کئی ادبی شخصیات سے میری براہ راست بات ہوئی ہے،انھوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی،پوچھے بغیر اورپروگرام بتائے بغیر ان کانا م شامل کرلیاجاتاہے۔حتیٰ کہ رواں برس میں چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں ایک بڑی ادبی شخصیت کو کانفرنس شروع ہونے سے چند روز پہلے تک پتا نہیں تھا ،وہ اس میں شریک ہو پائیں گے کہ نہیں ، مگر پورے شہر کو خبر تھی، وہ اس میں شرکت کررہے ہیں۔
ایسے اوربہت سارے معاملات ہیں،جن میں ادیبوں کے حوالے سے بے ادبی کا عنصر کافی زیادہ ہے۔ یہاں ایک اوراہم بات گوش گزارنا ضروری ہے ،بقول سحر انصاری ''موجودہ دور میں دلہا کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ دلہا ہے۔''لہٰذا جو دولہے ان کو بتا دیتے ہیں،یہ انھی کو عالمی کانفرنس میں شامل کرلیتے ہیں،بس اس میں شرط یہ ہے کہ اس دولہے سے ان کی ذاتی وابستگی بھی ہو۔یہی وجہ ہے کہ مخصوص دولہوں کی شرکت سے اب یہ کانفرنس یکسانیت کا رنگ اختیار کرنے لگی ہے۔ چھ برس کی ریاضت کے بعد یقیناً اب ضرورت ہے کہ جان پہچان سے ماورا ہوکر اورسطحی فوائد سے بالاتر ہوکر کوئی قاعدہ اورپیمانہ مرتب کیاجائے،جس کے تحت شعبہ جات کے لحاظ سے قلم کاراپنی تخلیقات اورتجربے کی بنیاد پر شرکت کرسکیں۔
سینئر ادیب اورشعرا کی شرکت کے بغیر تو سب کچھ ادھورا ہے،لیکن کم از کم نوجوانوں کے لیے کوئی سیشن رکھاجائے،تو سفید بالوں والے نوجوانوںکی بجائے اُن نوجوانوں کو بلائیں ،جنہوں نے کم عمری میں کچھ کام کیا ہو اوران سے خدارا انتخابی طرز کے عہدوپیمان سے گریز کریں۔شاید یہ چند باتیں بہت سے لوگوں کو گراں گزریں ،مگر دوست پیٹھ پیچھے بات نہیں کیاکرتے۔
امید ہے بھیڑ جمع کرنے کی بجائے اس معیار کو واپس لایا جائے گا،جہاں سے اس عالمی اردوکانفرنس کی ابتدا ہوئی تھی اورآرٹس کونسل کی انتظامیہ سے آخری گزارش یہ ہے کہ پڑوسی ملک سے چند لوگ بلا کر اسے عالمی کانفرنس قرار دینا مذاق لگتاہے،اس سے پرہیز کیاکریں اورہوسکے تو اگلے برس کی عالمی کانفرنس کے لیے سب اہل دانش سے مشورہ کرکے اردو کے لیے کم ازکم ایک قرارداد منظورکریں۔جس میں ''کانفرنس ''کا کوئی متبادل اردو لفظ تلاش کیاجاسکے تاکہ عملی معنوں میں اردو زبان کی کوئی خدمت ہوسکے۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں عالمی کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہا۔کراچی ،لاہور،اسلام آباد ان کامرکز رہے، پھر ایک طویل عرصے کے بعد کراچی آرٹس کونسل میں یاور مہدی کے دور میں دوبارہ اس کاذکر چھیڑاگیااوراس تذکرے کو چھیڑنے والے احمد ہمیش مرحوم تھے۔انھوں نے یاور مہدی سے کہا کہ عالمی ادبی کانفرنس ہونی چاہیے، جس پر دونوں میں اتفاق بھی ہوگیامگر پھر نمایندگی پر اختلاف ہوا اوراحمد ہمیش بھی پیچھے ہٹ گئے۔
احمد ہمیش کی صاحب زادی انجلا ہمیش کے مطابق ''یہی وجہ یاور مہدی کے آرٹس کونسل میں زوال اوراحمد شاہ کاعروج ثابت ہوئی۔''لیکن ان کو یہ گلہ ہے کہ رواں برس یادرفتگاں کے سیشن میں احمد ہمیش کی شخصیت پر مضمون پڑھنے کے لیے شکیل عادل زادہ کا نام تجویز کیاگیا،مگر انھوں نے نہیں پڑھا،جس کی وجہ انجلا ہمیش انتظامیہ کادلچسپی نہ لینا اورشکیل عادل زادہ کو باقاعدہ طورپر دعوت نہ دینا بتاتی ہیں۔
ہمارے ایک صحافی دوست نے فیس بک پر ایک سطر لکھی''اس ادبی کانفرنس میں جانے سے بہتر ہے کہ گھر میں کوئی فلم دیکھ لی جائے۔''ایسے بے شمار تاثرات پڑھنے اورسننے کو ملے،مگر قابل تعریف بات یہ ہے کہ اردوکانفرنس کاانعقاد اتنا آسان نہیں اوریہ مشکل کام مشکل پسند احمدشاہ بہت آسانی سے کرگزرتے ہیں ، اردو سے ان کی کمٹمنٹ بے داغ ہے۔مگر خامیوں پر قابو پالیں توچارچاند لگ جائیں گے، ورنہ چاند پر دھبے توہوتے ہی ہیں۔
کراچی میں دوسری بڑی ادبی سرگرمی''کراچی لٹریچر فیسٹیول''ہے،جس کاانعقاد معروف اشاعتی ادارہ ''اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس''کئی برس سے باقاعدگی سے کررہاہے۔رواں برس فروری میںیہ چوتھی مرتبہ منعقد کیاگیا جس میں دنیا بھر سے ادیب ،محقق،تاریخ دان اور دیگر موضوعات پر لکھنے والے قلم کار شریک ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک کے سفارت خانے اس میں اشتراک کرتے ہیں اوریوں پاکستان اورخاص طور پر اہل کراچی کو حقیقی معنوں میں عالمی شخصیات سے ملنے اورانھیں جاننے کے مواقعے ملتے ہیں ۔امینہ سید اورآصف فرخی کی ریاضت رنگ لائی ہے اوراب پورے ملک کو اس ادبی میلے کاانتظار ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے بعد اب یہ اسلام آباد میں بھی منعقد کیا جانے لگا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے زیراہتمام بھی یکم اکتوبر 2011میں ''اُردو اورعصرحاضرعالمی کانفرنس''کا کامیاب انعقاد کیاگیا تھا جس میں احفاظ الرحمن،زاہدہ حنا،پیرزادہ قاسم اورامجد اسلام امجد کی قیادت میں یہ کانفرنس ایکسپو سینٹر کراچی میں منعقد کی گئی تھی ، اس قیادت کی امیدوں پر پورا اترنے والا نوجوان شاعر اورگیت نگارعلی معین تھا،جس نے کئی راتیں آنکھوں میں کاٹ کر اس کانفرنس کو اپنے سینئرز کے ساتھ مل کر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔رواں برس ایکسپریس کے زیراہتمام دوسری ادبی کانفرنس کاانعقاد کیاگیا،مگر اب کے یہ کراچی کی بجائے لاہور میں سجائی گئی۔
اب لاہور بھی اپنی عالمی ادبی وثقافتی کانفرنس کی وجہ سے ادبی خبروں میں رہنے لگاہے۔رواں برس عطاء الحق قاسمی کی قیادت میںسہ روزہ ''چوتھی عالمی الحمرا ادبی وثقافتی کانفرنس''کاانعقاد کیاگیا۔جس کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم پاکستان میاںمحمد نواز شریف نے نہایت ادب سے بڑے اورچھوٹے قیمے پرروشنی ڈالی۔قاسمی صاحب نے انھیں ادب پرہی مرکوز رہنے کی درخواست کی تو وزیراعظم صاحب کہنے لگے،ملکی مسائل پر بات کرنا بھی توادب ہی ہے۔اب اس کے بعد کیاکہاجائے۔
اب یہ سننے میں آرہاہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور نیا برس طلوع ہونے پر ایک اردو کی ادبی کانفرنس منعقد کرنے پر غور کر رہی ہے،اس کے لیے کاغذی کارروائی شرو ع کی جاچکی ہے اوریونیورسٹی کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر رضاعلی عابدی اورعلی معین اہل بہاولپور کے لیے اردو کی ادبی کانفرنس منعقد کرنے جارہے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان کا ایک انگریزی روزنامہ بھی لٹریچر فیسٹیول منعقد کروانے کے بارے میں غور کررہا ہے اور عنقریب ان کی طرف سے پاکستان کے مختلف شہروں میں لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد متوقع ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے،جن ادبی وثقافتی سرگرمیوں کاذکر ہم صرف کتابوں میں پڑھتے تھے یا اپنے سینئرز سے سنتے تھے آجکل ہم خود ان سرگرمیوں کاحصہ بن رہے ہیں۔ملک میں نقص امن کے مسائل اپنی جگہ ،لیکن یہ کوششیں انفرادی اوراجتماعی طورپر ہم عوام کو ہی کرنا ہوں گی اورقلم کاروں،ثقافتی اداروں کی انتظامیہ کا کردار اس میں کلیدی اہمیت کاحامل ہوگا۔
نئی نسل کی جانب سے ان تمام شخصیات کاشکریہ ،جو بالاواسطہ یا بالواسطہ ادب وثقافت کے فروغ میں ایک ایسی دنیا کی تعمیر کررہے ہیں ،جہاں خواب دیکھنے والے نوجوان اپنے بزرگوں کا ہاتھ تھام کر تہذیب سے مضبوطی کا رشتہ استوار کریں گے۔جہاں دہشت گردی کی خبروں کی بجائے ادبی سرگرمیوں کو شہ سرخیاں بنایاجائے گا۔کتاب پڑھنے والوں کو بے تاب کیاکرے گی۔نئی نسل اپنے بزرگوں سے فیض حاصل کرے گی۔مادیت پرستی اوربے حسی کے موسم میں تخلیقی بہار سے ہمارا معاشرہ امن کی جانب مائل ہوگا۔باردو کی بدبو پر کتابوں کے صفحات کی خوشبو حاوی ہوجائے گی۔عالمی دنیا کے لیے یہی ہمارا تعارف ہے اورہماری شناخت بھی،جس کو ہم کہیں گم کربیٹھے تھے۔