یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
ہمارے ایک وزیراعلیٰ نے بتایا ہے کہ وہ روزانہ صبح نہار منہ 2 گھنٹے اخبارات پڑھتے ہیں اور ان میں شایع ہونے۔۔۔
ہمارے ایک وزیراعلیٰ نے بتایا ہے کہ وہ روزانہ صبح نہار منہ 2 گھنٹے اخبارات پڑھتے ہیں اور ان میں شایع ہونے والی خبروں پر ہدایات جاری فرماتے ہیں اور ان کی کٹنگز بھی بقلم خود اپنے پاس رکھتے ہیں۔ البتہ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی ان ہدایات پر عمل بھی ہوتا ہے کہ نہیں اور اگر ہاں تو کتنا۔اور اگر نہیں ہوتا ، تو وہ عمل نا کرنے والو ں کے خلاف کیا عمل کرتے ہیں؟ ویسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم اور بقیہ وزراء اعلیٰ صاحبان بھی اخبارات پڑھتے ہوں اور ہدایات بھی جاری کرتے ہوں، لیکن تاحال ان میں سے کسی کا اس قسم کا کوئی بیان نظر سے نہیں گزرا۔
ضیاء الحق بھی اخبارات پڑھنے کا دعویٰ کرتے تھے ، لیکن لگتا ہے کہ ان کے زمانے میں پنجاب کے ایک گاؤں نواب پورکے ایک چوہدری کی طرف سے ایک کسان خاندان کی ایک خاتون کو ننگ دھڑنگ پوری بستی میں گشت کرانے والی خبر ان کی نظر سے نہیں گذری تھی ۔ہوسکتا ہے اس دن ان کا اخبار پڑھنے کا ناغہ ہو۔ لیکن اس خبر کی بازگشت کئی دنوں تک اخبارات میں شایع ہورہی تھی، لیکن ان سب دنوں میں ان کا اخبارات پڑھنے کا ناغہ تھا۔ ورنہ وہ اس چوہدری کا وہ حشر کرتے ، وہ حشر کرتے کہ ۔۔۔۔۔ ویسے ایسے اور بہت سے سانحات بھی ان کے دور حکومت میں ہوئے ، لیکن وہ سب دن ان کا ناغہ ہوتا تھا۔
خیر ماضی کو کیا کریدنا۔ اب حال پر آتے ہیں۔ اگر ہمارے وزیر اعظم اور بقیہ اعلیٰ صاحبان بھی اس وزیر اعلیٰ صاحب کی تقلید کریں تو بہت اچھا ہو گا۔ ان سب صاحبان کی ایک عدد معائنہ ٹیم ہوتی ہے ، جو کسی نہ کسی چیز کا معائنہ کرتی رہتی ہے ۔ اگر وہ اس معائنہ ٹیم کے دائرہ کارکو تھوڑا وسیع کریں اور ان کی دی ہوئی ہدایات کے بارے میں ان محکموں سے پتہ کرتے رہیں کہ ان پر عمل ہوا کہ نہیں اور نہیں ہوا توکیوں۔ اس عمل میں کیا اور کون رکاوٹ ہے؟ اس کے علاوہ اس ٹیم کے لوگ اسپتالوں، اسکولوں، سرکاری دفاتر میں چھاپے مار کر حاضری چیک کریں (بشرطیکہ وہ خود بھی اپنے دفتروں میں بھی صبح وقت مقررہ پر پہنچتے ہوں)۔
اس بات پہ یاد آیا کہ قائداعظم نے 3 اصول وضع فرمائے تھے ،اتحاد، یقین محکم اور تنظیم( جن کی ترتیب ان کے انتقال کے بعد دائرہ اسلام میں لانے کے لیے تبدیل کرکے یقین محکم، اتحاد اور تنظیم کردی گئی)۔ بہرحال میری ناقص سمجھ میں یہ آیا ہے کہ تنظیم سے ان کی مراد اخلاقیات تھی، یعنی برداشت، جس میں قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا، چاہے وہ سینیما کا ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں لگنا ہو یا ٹریفک کے دوران لال بتی پر رکنا ہو یا جلدی پہنچنے کے لیے دوسرے مسافروں کی گاڑیوں سے آگے نکلنے کی کوشش میں ان کا راستہ بند کرنا نہ ہو۔
اور سب سے زیادہ ان کی مراد تھی وقت کی پابندی۔ اور وہ پابندی ہر چھوٹے خواہ بڑے کے لیے لازمی تھی، جس میں وزراء اور بڑے بڑے سرکاری افسران کا اپنے دفاتر میں وقت مقررہ پر آنا اور ماتحتوں کو بھی اس کا پابند بنانا تاکہ جو لوگ اپنے مسائل لے کر دفاتر میں آتے ہیں ان کو متعلقہ وزیر یا افسر کی ناموجودگی کی وجہ سے انتظار کرنا نہ پڑے یا نا امید ہو کر واپس جانا نہ پڑے ۔ لیکن ان کے اس اصول پر کیا عمل ہوا، وہ ہم سب کو معلوم ہے ۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ گزشتہ 66 سالوں میں آج تک کسی بھی سربراہ نے اس مسئلے پر توجہ نہیں فرمائی۔وزیر صاحبان جلسے جلسوں میں لوگوں کو گھنٹوں اننتظارکرواتے ہیں اور اس کے بعد اس جلسے کے منتظمین اپنے سپاسناموں میں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ اپنی گوناگوں مصروفیات سے بمشکل وقت نکال کر عوام کو اپنا دیدار کروانے کے لیے جلوہ افروز ہوئے ہیں۔اس طرح افسرانِ بالا بھی اپنے دوروں میں دیر سے پہنچتے ہیں ۔
ہمیں اپنے حکمرانوں (جن میں سیاستدان اور حکام شامل ہیں) سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت علی کرم اللہ وجہ جیسی توقعات وابستہ رکھنے کا حق نہیں ہے ، وہ اس لیے کہ ہم خود بھی ایسی رعایا نہیں ہیں، جیسی ان کے زمانے میں تھی۔ کیلے کا چھلکا بیچ سڑک میں پھینکتے ہوئے یا لال بتی والا سگنل توڑتے ہوئے بھی ہمیں شکایت ہوتی ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کیوں نہیں رائج کیا جاتا؟ حضرت علی کرم اللہ وجہ کوجب قاضی نے عدالت میں طلب کیا تو وہ جاکر حاضر ہوئے ، انھوں نے کسی بھی استثنا کا دعویٰ نہیں کیا، جب کہ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا آئین اور ہمارے قوانین عین اسلام کے مطابق ہیں۔
ہم ان سے یہ بھی توقع نہیں رکھتے کہ وہ راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کے مسائل سے باخبر ہوں، لیکن ہم ان سے یہ توقع تو رکھ سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں جب کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر ملک کے دورافتادہ کونوں سے بھی خبریں چند منٹوں میں الیکٹرونک میڈیا تک پہنچ جاتی ہیں اور اسی وقت اسکرین پر بھی آجاتی ہیں، تو وہاں ہونے والے واقعات، جس میں لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی شامل ہوتی ہیں، تو اسی مستعدی سے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیوں نہیں ہو پا رہا ہے ۔ گزشتہ زمانے کے ایک بادشاہ کو ایک بڑھیا نے کہا تھا کہ اگر میرے علاقے تک تمہاری رسائی نہیں ہو سکتی، تو تم نے وہ علاقہ اپنی سلطنت میں کیوں رکھا ہواہے ؟ لیکن آج ہم اس قسم کی گستاخی نہیں کر سکتے ۔
ہم مانتے ہیں کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں جرائم بھی ہوں گے ، لیکن حکومت کا اولین فرض اور کام ہے لوگوں کی جان مال اور عزت کی حفاظت کرنا۔ کسی زمانے میں ایک نعرہ گونجا تھا ''پولیس کا ہے فرض، خدمت آپ کی'' اس نعرے کی تدبیر کیا ہوئی، وہ آپ سب جانتے ہیں۔ اگر واقعی ہمارے سب حکمران، صدر صاحب سے لے کر تحصیلدار تک ، روزانہ اخبارات میں لوگوں کی فریادوں والی خبریں اور آپ کے خطوط، مراسلات یا اس قسم کے کالم پڑھیں اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ ان میں شایع ہونے والی فریادوں کی سنوائی کرے ، تو لوگوں کی دعائیں ان کے لیے ہوں گی۔نیز یہ کہ جب وہ دوروں پر جائیں تو جلسے جلوسوں کی بجائے لوگوں سے ملیں ، ان میں گھل مل جائیں اور ان کے دکھ درد سنیں، سیکیورٹی اپنی جگہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تو اجتماعات میں لوگ انھیں کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کی سیکیورٹی والے ان کو ان ہی لوگوں سے دور بھگاتے ہیں۔
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے!
ضیاء الحق بھی اخبارات پڑھنے کا دعویٰ کرتے تھے ، لیکن لگتا ہے کہ ان کے زمانے میں پنجاب کے ایک گاؤں نواب پورکے ایک چوہدری کی طرف سے ایک کسان خاندان کی ایک خاتون کو ننگ دھڑنگ پوری بستی میں گشت کرانے والی خبر ان کی نظر سے نہیں گذری تھی ۔ہوسکتا ہے اس دن ان کا اخبار پڑھنے کا ناغہ ہو۔ لیکن اس خبر کی بازگشت کئی دنوں تک اخبارات میں شایع ہورہی تھی، لیکن ان سب دنوں میں ان کا اخبارات پڑھنے کا ناغہ تھا۔ ورنہ وہ اس چوہدری کا وہ حشر کرتے ، وہ حشر کرتے کہ ۔۔۔۔۔ ویسے ایسے اور بہت سے سانحات بھی ان کے دور حکومت میں ہوئے ، لیکن وہ سب دن ان کا ناغہ ہوتا تھا۔
خیر ماضی کو کیا کریدنا۔ اب حال پر آتے ہیں۔ اگر ہمارے وزیر اعظم اور بقیہ اعلیٰ صاحبان بھی اس وزیر اعلیٰ صاحب کی تقلید کریں تو بہت اچھا ہو گا۔ ان سب صاحبان کی ایک عدد معائنہ ٹیم ہوتی ہے ، جو کسی نہ کسی چیز کا معائنہ کرتی رہتی ہے ۔ اگر وہ اس معائنہ ٹیم کے دائرہ کارکو تھوڑا وسیع کریں اور ان کی دی ہوئی ہدایات کے بارے میں ان محکموں سے پتہ کرتے رہیں کہ ان پر عمل ہوا کہ نہیں اور نہیں ہوا توکیوں۔ اس عمل میں کیا اور کون رکاوٹ ہے؟ اس کے علاوہ اس ٹیم کے لوگ اسپتالوں، اسکولوں، سرکاری دفاتر میں چھاپے مار کر حاضری چیک کریں (بشرطیکہ وہ خود بھی اپنے دفتروں میں بھی صبح وقت مقررہ پر پہنچتے ہوں)۔
اس بات پہ یاد آیا کہ قائداعظم نے 3 اصول وضع فرمائے تھے ،اتحاد، یقین محکم اور تنظیم( جن کی ترتیب ان کے انتقال کے بعد دائرہ اسلام میں لانے کے لیے تبدیل کرکے یقین محکم، اتحاد اور تنظیم کردی گئی)۔ بہرحال میری ناقص سمجھ میں یہ آیا ہے کہ تنظیم سے ان کی مراد اخلاقیات تھی، یعنی برداشت، جس میں قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا، چاہے وہ سینیما کا ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں لگنا ہو یا ٹریفک کے دوران لال بتی پر رکنا ہو یا جلدی پہنچنے کے لیے دوسرے مسافروں کی گاڑیوں سے آگے نکلنے کی کوشش میں ان کا راستہ بند کرنا نہ ہو۔
اور سب سے زیادہ ان کی مراد تھی وقت کی پابندی۔ اور وہ پابندی ہر چھوٹے خواہ بڑے کے لیے لازمی تھی، جس میں وزراء اور بڑے بڑے سرکاری افسران کا اپنے دفاتر میں وقت مقررہ پر آنا اور ماتحتوں کو بھی اس کا پابند بنانا تاکہ جو لوگ اپنے مسائل لے کر دفاتر میں آتے ہیں ان کو متعلقہ وزیر یا افسر کی ناموجودگی کی وجہ سے انتظار کرنا نہ پڑے یا نا امید ہو کر واپس جانا نہ پڑے ۔ لیکن ان کے اس اصول پر کیا عمل ہوا، وہ ہم سب کو معلوم ہے ۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ گزشتہ 66 سالوں میں آج تک کسی بھی سربراہ نے اس مسئلے پر توجہ نہیں فرمائی۔وزیر صاحبان جلسے جلسوں میں لوگوں کو گھنٹوں اننتظارکرواتے ہیں اور اس کے بعد اس جلسے کے منتظمین اپنے سپاسناموں میں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ اپنی گوناگوں مصروفیات سے بمشکل وقت نکال کر عوام کو اپنا دیدار کروانے کے لیے جلوہ افروز ہوئے ہیں۔اس طرح افسرانِ بالا بھی اپنے دوروں میں دیر سے پہنچتے ہیں ۔
ہمیں اپنے حکمرانوں (جن میں سیاستدان اور حکام شامل ہیں) سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت علی کرم اللہ وجہ جیسی توقعات وابستہ رکھنے کا حق نہیں ہے ، وہ اس لیے کہ ہم خود بھی ایسی رعایا نہیں ہیں، جیسی ان کے زمانے میں تھی۔ کیلے کا چھلکا بیچ سڑک میں پھینکتے ہوئے یا لال بتی والا سگنل توڑتے ہوئے بھی ہمیں شکایت ہوتی ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کیوں نہیں رائج کیا جاتا؟ حضرت علی کرم اللہ وجہ کوجب قاضی نے عدالت میں طلب کیا تو وہ جاکر حاضر ہوئے ، انھوں نے کسی بھی استثنا کا دعویٰ نہیں کیا، جب کہ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا آئین اور ہمارے قوانین عین اسلام کے مطابق ہیں۔
ہم ان سے یہ بھی توقع نہیں رکھتے کہ وہ راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کے مسائل سے باخبر ہوں، لیکن ہم ان سے یہ توقع تو رکھ سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں جب کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر ملک کے دورافتادہ کونوں سے بھی خبریں چند منٹوں میں الیکٹرونک میڈیا تک پہنچ جاتی ہیں اور اسی وقت اسکرین پر بھی آجاتی ہیں، تو وہاں ہونے والے واقعات، جس میں لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی شامل ہوتی ہیں، تو اسی مستعدی سے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیوں نہیں ہو پا رہا ہے ۔ گزشتہ زمانے کے ایک بادشاہ کو ایک بڑھیا نے کہا تھا کہ اگر میرے علاقے تک تمہاری رسائی نہیں ہو سکتی، تو تم نے وہ علاقہ اپنی سلطنت میں کیوں رکھا ہواہے ؟ لیکن آج ہم اس قسم کی گستاخی نہیں کر سکتے ۔
ہم مانتے ہیں کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں جرائم بھی ہوں گے ، لیکن حکومت کا اولین فرض اور کام ہے لوگوں کی جان مال اور عزت کی حفاظت کرنا۔ کسی زمانے میں ایک نعرہ گونجا تھا ''پولیس کا ہے فرض، خدمت آپ کی'' اس نعرے کی تدبیر کیا ہوئی، وہ آپ سب جانتے ہیں۔ اگر واقعی ہمارے سب حکمران، صدر صاحب سے لے کر تحصیلدار تک ، روزانہ اخبارات میں لوگوں کی فریادوں والی خبریں اور آپ کے خطوط، مراسلات یا اس قسم کے کالم پڑھیں اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ ان میں شایع ہونے والی فریادوں کی سنوائی کرے ، تو لوگوں کی دعائیں ان کے لیے ہوں گی۔نیز یہ کہ جب وہ دوروں پر جائیں تو جلسے جلوسوں کی بجائے لوگوں سے ملیں ، ان میں گھل مل جائیں اور ان کے دکھ درد سنیں، سیکیورٹی اپنی جگہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تو اجتماعات میں لوگ انھیں کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کی سیکیورٹی والے ان کو ان ہی لوگوں سے دور بھگاتے ہیں۔
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے!