محبت کرو یا خدمت کرو

کچھ ایسے موضوعات زندگی میں ہمیشہ زیر بحث رہتے ہیں جن میں تشنگی حضرت انسان کا مقدر ہوتی ہے۔


سید تیمور علی December 09, 2013

کچھ ایسے موضوعات زندگی میں ہمیشہ زیر بحث رہتے ہیں جن میں تشنگی حضرت انسان کا مقدر ہوتی ہے۔ ایسے موضوعات میں انسانی حیات، روح ،اس کے جذبات اور جذبات سے متعلق دیگر حوادث شامل ہیں۔ انھی میں سے ایک موضوع محبت ہے جس پر ادبی میدان میں بہت کچھ لکھا گیا لیکن آج تک انسان کی تشنگی پوری نہ ہوسکی اور یقینا آگے بھی اس پر قلم آرائی کی جاتی رہے گی۔ بنیادی طور پر یہ کام شعراء،ادیب،نثر نگار اور نقادوں کا رہا ہے لیکن بعض ایسی شخصیات بھی موجود ہیں جن کا تعلق شعر و ادب سے نہ تھا لیکن ان لوگوں نے ان موضوعات پر قلم اٹھایا۔ ایسی ہی ایک تقریب 30نومبر 2013ء کو کراچی میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں ایک کتاب جس کا عنوان فلسفہ محبت تھا، منظر پر آئی اور اس کی تقریب رونمائی انتہائی پر وقار انداز میں منعقد کی گئی۔

اس محفل کی صدارت سینئر صحافی اجمل دہلوی نے کی جب کہ مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے ایک اور کہنہ مشق صحافی محمود شام مدعو تھے جب کہ کلیدی خطبات کے لیے پیرزادہ قاسم بھی محفل میں رونق افروز تھے۔ اس موضوع کے حوالے سے کئی باتیں سامنے آئیں ۔ صاحب کتاب کی شخصیت بھی موضوع سخن بنی کیونکہ اس شخصیت کا تعلق نہ تو شعر و ادب سے تھا نہ نثر نگاری اور نہ ہی وہ کوئی نقاد تھا بلکہ یہ شخصیت ایک ایسی سیاسی جماعت کا قائد اور بانی ہے جس نے معاشرے میں ہونے والی ناہمواریوں کے خلاف آواز بلند کی۔ وفا، محبت اور عشق کا وہ پیغام پھیلانے کی کوشش کی جو سرزمین پاکستان کے صوفیا کا طریقہ رہا ہے۔ اس شخصیت کا نام الطاف حسین ہے۔ انھوں نے فلسفہ محبت کے عنوان سے 2003ء میں ایک لیکچر اپنے کارکنان کو دیا تھا جس میں لندن سیکریٹریٹ کے کارکنان شامل تھے۔

اس لیکچر کے اندر ان تمام جذبات کو مثالوں کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے جنھیں ہم مختلف مقامات پر محبت سے تعبیر کرتے ہیں اور محبت کے حقیقی پہلو کو بھی اپنے تئیں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب پر بہت سے شعراء، ادباء اور محققین نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ آج اس کتاب کا تعارف کراتے وقت گو کہ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں، راقم پیرزادہ قاسم کے وہ جملے یہاں رقم کرنا ضروری سمجھتا ہے جو انھوں نے اس کتا ب کو پیش نظر رکھ کر پیش کیے تھے۔ یہ استاد اورمحقق گویا تھے کہ محبت ایک ایسی انمول شے ہے کہ جو کسی سے محبت کرتا ہے تو باالفاظِ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محبت کرنے والے شخص نے اپنے قیمتی ہیرے جواہرات اس کے پاس گروی رکھ دیے ہیں لہٰذا اب جس سے محبت کی جارہی ہے اس کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ محبت کرے یا پھر خدمت کرے۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ اس اختصار اس کتاب کی خوبی ہے اور انتہائی مدلل انداز میں اس موضوع کو سمیٹنے کی سعی کی گئی ہے لیکن حوالوں کے اعتبار سے اب بھی اس میں مزید کام کرنے کی گنجائش باقی ہے۔

یہ جملہ کہہ کر انھوں نے شعراء، ادباء اور محققین کو یہ دعوتِ فکر دی ہے کہ وہ اس کتاب کو بنیاد بناکر اس موضوع کو آگے بڑھائیں اور معاشرے سے وہ مثالیں حوالے کے طور پر پیش کرکے ایک نئی بحث کو آگے بڑھائیں اور اس تشنہ موضوع کی تشنگی کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ حقیقت تو تقریباً عیاں ہے کہ اس موضوع کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ اس میں سے ہم تشنگی کو مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتے لیکن عہد حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس تشنگی کو کم ضرور کرسکتے ہیں اور عہد حاضر کے ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں جو نفرتوں ، خواہ وہ لسانی ہوں یا نسلی، ان کا تعلق مذہبی منافرت سے ہو یا فرقہ وارانہ کشیدگی سے ، ان کو کم کرسکتے ہیں۔

اختصار کے ساتھ اگر اس کتاب کا جائزہ لیاجائے تو یہ ایک ایسی کتاب ہے جو معاشرے میں محبت، وفا ، احساسِ ذمے داری کے حقیقی تصور کو اجاگر کرتی ہے۔ محبت کرنے کے تقاضوں کے دریچوں کو بھی ہویدا کرتی ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ اس کتاب کو کسی بھی نفرت یا اختلاف سے بالاتر ہو کر پڑھا جائے۔ اس کے پیغام کو آگے بڑھا کر معاشرے میں ہم محبت کو فروغ دیں اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک سیاسی قائد ہونے کے باوجود اس اہم معاشرتی موضوع پر قلم اٹھا کر ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے اور ان کی یہ کوشش یقیناً اس پر آشوب دور میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں