بجٹ اور اپوزیشن کا کردار

موجودہ بجٹ کے لیے کہا جارہا ہے کہ یہ براہ راست آئی ایم ایف کی شرائط و ضوابط کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے



پی ٹی آئی کی حکومت نے 71کھرب 27 ارب کا سال 2020-21کا بجٹ قومی اسمبلی سے پاس کروالیا ہے ۔ بجٹ کی تیاریوں اور پیش کرنے سے لے کر منظور ہونے کے دوران ہونیوالے اجلاسوں اور میڈیا پر بجٹ پر سخت نکتہ چینی نظر آئی ۔ پھربی این پی کی علیحدگی اوردیگر اتحادیوں کے ناراض ہونے سے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے پی ٹی آئی حکومت بجٹ پاس کرانے میں ناکام رہے گی ۔

لیکن قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی حکومت کی کامیابی کے امکانات واضح طور پر نظر آنے لگے ، کیونکہ ایوان کے مجموعی 342ارکان میں سے صرف 279ارکان موجود تھے جن میں حکومت کے 160ارکان اور اپوزیشن جماعتوں اور آزاد ارکان کی تعداد 119تھی ۔ یوں اپوزیشن ارکان اور آزاد ارکان کی غیر حاضری نے حکومت کی مشکل کو آسان کردیا۔ ملک کے سب سے اہم معاملے پر ہونیوالے اسمبلی کے اجلاس سے بڑی تعداد میں اپوزیشن ارکان کی غیر حاضری اتفاقی تھی، پری پلاننگ تھی یا پری بارگیننگ یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے لیکن ملک میں عام رائے یہی ہے کہ ڈی چوک پر دھرنوں سے عام انتخابات تک ، سینیٹ انتخابات سے سینیٹ چیئرمین کے Vote of Confedence لینے تک عمران خان کو ایسی ہر مشکل صورتحال میں طاقتور اداروں کی خفیہ مدد حاصل رہی ہے۔ جب کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف متحد ہونے کے باوجود بھی کچھ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اب اسے اپوزیشن کی غیر مؤثر حکمت عملی کہا جائے یا بیک ٹو ڈور روابط کا کمال ، لیکن اس کا فائدہ بہرحال پی ٹی آئی کو ہی مل رہا ہے ۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی حکومت گذشتہ دو برس میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھاپائی ہے اور نہ ہی کوئی ایسے بولڈ اقدامات کیے ہیں جن سے مستقبل قریب میں ملکی ترقی میں اضافے اور عوامی خوشحالی کا کوئی امکان ہو یا اُس کے کوئی اشارے ملتے ہوں۔ الٹا اپنے سیکڑوں یوٹرن ، وزراء کی بھڑکیوں اور مافیائی روابط کے ساتھ ساتھ آئے روز بحرانوں اور اسکینڈلز سمیت مہنگائی کا طوفان برپا کرنے اور بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں نے پی ٹی آئی کے لیے عوام میں بھی یو ٹرن کا ماحول تیار کردیا ہے ۔

وہ لوگ جوملک میں مہنگائی اور کرپشن کے خلاف عمران خان کے نعروں اور دھرنوں کی بدولت جو تبدیلی کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے، انھوں نے جب اپنے خوابوں کو روندتے ہوئے دیکھا تو پہلے تو سکتے میں آگئے ، پھرآہستہ آہستہ ایسا ماحول بنتا گیا کہ اب عوام کی جانب سے پی ٹی آئی کے حکومتی ارکان ِ اسمبلی اور وزراء کو سڑکوں اور حلقوں میں گھیرنے کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں ۔

اس سطح تک عوامی غیض و غضب کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی ناراضگی اور خود حکومتی صفوں سے پالیسیوں پر شدیدنکتہ چینی اور اختلافات نے ایسا ماحول تیار کردیا ہے کہ اگر اپوزیشن تھوڑی سی سنجیدہ محنت کرتی تو شاید ملک میں پہلی بار ایسا ہوتا کہ حکومت بجٹ پاس نہ کرواسکتی اور اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کی پوزیشن میں بھی آجاتی ۔

پھر اپوزیشن کے لوگوں کے میڈیا پر سخت اور مؤثر کن موقف کو سن کر لگ رہا تھا کہ حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں ، عوام کو تو چھوڑیں خود حکومت کو یہی محسوس ہونے لگا تھا اور وہ حکومت کے جانے کے ساتھ جمہوریت کی بساط اُلٹ جانے اور مائنس عمران کے فارمولے کو ملک کے بدعنوانوں کے ہاتھوں لُٹ جانے کے بیانات دینے لگے لیکن اپوزیشن عملی طور پر ایسی کوئی حکمت عملی نہ بناسکی جو حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی یا کم از کم عوام کوکوئی مراعات یا سہولیات دلوانے میں کام آسکتی ۔

کسی بھی جمہوری ملک میں ایوان میں موجود اپوزیشن کا بنیادی کام حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر نظر رکھنا اور ان پالیسیوں میں ترمیم کروانے کے لیے کردار ادا کرنے کا تصور ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ برطانیہ، کینیڈا ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سمیت اکثر مغربی ممالک میں تو اپوزیشن کی جانب سے ایک شیڈو حکومت قائم کی جاتی ہے ، جو تمام ملکی اُمور پر منتخب حکومت کی طرح کام کرتی ہے ، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی شیڈو حکومت کے پاس کسی بھی پالیسی یا قانون کو فعال یا نافذ کرنے کے لیے مطلوبہ دستخط کے اختیارات نہیں ہوتے ، ورنہ وہ تمام ملکی اُمور پر اپنی پالیسی بناتی ہے اور تمام قوانین و اقدامات کو بہتر طور پر رائج کرنے کے لیے متبادل پیش کرتی ہے۔

پھر ایوان میں اپنے نمائندگان کی مدد سے حکومتی قانونسازی کے مقابلے میں اپنی متبادل قوانینی سفارشات پیش کرتی ہے اور مؤثر حکمت عملی اور بہتر متبادل ہونے کی صورت میں ایوان سے پاس بھی ہوجاتے ہیں۔ یوں عوامی مفاد میں بہتر قانونسازی کی بدولت ملک میں سیاسی و انتظامی استحکام اور عوامی سہولیات کا حامل معاشرہ پروان چڑھتا ہے ۔ جب کہ اس عمل سے حکومت سازی اور حکومتی اُمور میں اپوزیشن کی پختہ رائے و تجربہ اُن کے آیندہ حکومت میں آنے پر ملک و ملت اور جمہوریت کے استحکام کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ مفاد عامہ کے تحفظ کا بھی سبب بنتا ہے۔ اسی لیے شیڈو Shadow گورنمنٹ اپنا شیڈو بجٹ تیار کرکے اُس پر بحث کے بعد شیڈو کابینہ سے منظوری لیتی ہے ، جسے سفارشات کے طور پر ایوان میں پیش کیا جاتا ہے ۔

یوں تو ہمارا سیاسی و جمہوری نظام برطانوی نظام کی پیروی کرتا اور انھی خطوط پر استوار سمجھا جاتا ہے ، بلکہ ریاستی اداراتی ڈھانچہ بھی برطانوی طرز پر مبنی ہے لیکن اُس کے باوجود 73سالوں میں عملی طور پر ہمارے یہاں نہ تو وہاں جیسی جمہوریت پروان چڑھ سکی ہے اور نہ ہی وہاں جیسا جمہوری نظام تشکیل پاسکا ہے ۔

اس میں ملک پر مسلط بدترین آمریتیں تو رکاوٹ رہی ہی ہیں لیکن اس میں وہ نام نہاد جمہوریت کی علمبردار جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیں جو اب تک خود میں اتنی وسیع النظر اور وسیع القلب جمہوری روایات پیدا نہ کرسکی ہیں جو اختلاف رائے کو قبول کرکے مخالفین کے ساتھ چل سکیں اور سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلافات بنانے سے گریز کرتے ہوئے اُن اختلافات کو جمہوری طریقے سے جمہوری اداروں میں ہی دور کرسکیں ، اور نہ ہی جمہوری نظام کے لیے عوام کی تربیت کی گئی ہے اور نہ ہی سیاسی و جمہوری تعلیمات و روایات سے عوام کو روشناس کرایا گیا ہے ۔

حتیٰ کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کی بناء پر غیر جمہوری قوتوں کی سانجھی بن جاتی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کی اس تنگ نظری و تنگ قلبی روش نے ملک میں ایک طرف جمہوریت اور جمہوری اداروں کو کمزور اور غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط کیا ہے تو دوسری طرف آمریت کا راستہ ہموار کیا ہے ۔انھی کی بدولت غیر جمہوری قوتوں اورغیر منتخب افراد کو آگے آنے کا موقع فراہم ہوا ہے ۔ جس کا نقصان جمہوریت ، جمہوری قوتوں و تنظیموں کو تو ہوا ہی ہے لیکن اصل نقصان عوام کا ہوا ہے ، جو ایک طرف اس ماحول میں اپنے مسائل و حقوق سے جڑی اپنی حقیقی آواز کھو بیٹھے ہیں تو دوسری طرف جمہوریت و آمریت اور جمہوری و غیر جمہوری قوتوں کے مابین فرق کی تمیز بھی کھوبیٹھے ہیں ۔

اب کوئی بھی ڈھونگی عوامی حقوق کی جھوٹے دل سے بات کرکے آسانی سے عوام کو دھوکا دے سکتا ہے اور کوبھی قوت اپنے گروہی مفادات کو ملکی مفاد بتاکر ملک و ملت سے کھلوار کرسکتی ہے ۔ عوام اب جمہوری نظام کے جوہر اور اُس کے ثمرات سے ناآشنائی کی وجہ سے اپنے حقوق و مسائل سے زیادہ ملک میں برپا سیاسی نورا کشتی میں الجھے رہتے ہیں ۔ انتخابات ہوں یا کسی سیاسی جماعت سے وابستگی دونوں ہی صورتوں میں سیاسی نعروں کے زیر اثر عوام جذباتیت کی بناء پر اپنے مسائل کے حل اور اپنے حقوق کے تحفظ کے خیال سے دور بلکہ کوسوں دور ہوتا جارہا ہے ۔

جب کہ اس وقت بھی اتفاق سے ایسی جماعتیں اپوزیشن میں ہیں جوکہ سب کی سب نظریاتی سیاست کا ماضی رکھتی ہیںلیکن انھی تنظیموں کے ماضی قریب میں اختیار کیے گئے رویے کی بدولت آج ملک میں نہ تو عوامی Supermacy کا امین جمہوری نظام برقرار رہ سکا ہے اور نہ ہی عوامی مسائل پر مبنی عوامی جدوجہد کا رجحان باقی نظر آتا ہے ۔ جمہوریت کا حسن یہ بھی ہے کہ کبھی اپوزیشن کو حکومت سے مل کر بھی چلنا پڑتا ہے ۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک ایجنڈے پر کام کرنے کی اپیل کی مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں فریقین میں سے کہیں سے کوئی جوابی آواز سننے میں نہیں آئی ۔ یہی سیاسی ناپختگی اور غیر جمہوری روایات کا ثبوت ہے ۔

ورنہ جمہوری روایت تو اختلاف رائے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ساتھ چلنے پر زور دیتی ہے ۔ موجودہ بجٹ کے لیے کہا جارہا ہے کہ یہ براہ راست آئی ایم ایف کی شرائط و ضوابط کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے ، جوکہ یقینا عوامی و ملکی مفاد میں نہیں ہے ۔ کیونکہ آئی ایم ایف کا کردار عالمی سطح پر کمزور معیشت کے حامل ممالک کے حق میں کبھی نہیں رہا ۔ لیکن اُس کے باوجود اپوزیشن اسے مسترد کرنے کے لیے کوئی مناسب بندوبست یا حکمت عملی پیش نہیں کرسکی ۔

اس کی ناکام حکمت عملی تو اُس وقت کھل کر سامنے آگئی جب اجلاس کے دوران فنانس کی ایک شق پر ووٹنگ کروائی گئی تو وہ بری طرح شکست کھاگئی ، اگر وہ اپنے تمام ارکان اور حکومت سے ناراض ارکان سے بجٹ پر پہلے ہی مشاورت کرتی اور اُنہیں اعتماد میں لے کر لابنگ کرتی تو شاید اس رسوائی سے بچ جاتی اور عوام کو ریلیف دلانے کی کوئی ترمیم کروانے کے اہل ہوجاتی ۔ مافیا کے ہاتھوں یرغمال حکومت نے دوسال میں عوام کو آٹے ، چینی ، پیٹرول کی قلت کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے طوفان کے سامنے لاکھڑا کیا ، لیکن اس دوران بھی اپوزیشن کی جانب سے صرف میڈیائی بیانات پر ہی اکتفا کیا گیا ۔

عوام کو نچوڑنیوالے ان حکومتی اقدامات کو کہیں پر بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ اگر اپوزیشن اپنا سابقہ تجربہ، انتظامی و معاشی مہارت اور اثر و رسوخ استعمال کرکے حکومت کے مقابل اپنا شیڈو بجٹ بناتی اور اُسے ایوان میں پیش کرتی تو ہوسکتا ہے اس تقابلی ماحول سے ہی عوام کو کوئی ریلیف مل جاتا ۔لیکن اپوزیشن کی یہ ٹائم پاس کرنیوالی روش خود انھیں تو نقصان دے ہی رہی ہے لیکن عوام کو آیندہ سال بھر نچوڑنے کا حکومت کو لائسنس دینے کا باعث بن رہی ہے ۔ اگر ملک کی حقیقی جمہوری سیاسی جمہوری قوتوں کو ملک و ملت کے مستقبل کا تھوڑا سا بھی خیال دل میں باقی ہے اور وہ اپنی بقا چاہتی ہیں تو اُنہیں کسی ایمپائر کی انگلی کا منتظر نہیں رہنا چاہیے ، بلکہ اُنہیں اپنی اننگ خود اپنے بَل پر خالص عوامی پچ پر کھیلنی چاہیے ، نہ کہ 2014کے دھرنوں اور سینیٹ انتخابات کی طرح کسی کرائے کی پچ پرذاتی و گروہی وقتی فوائد کے چھکے ، چوکے لگانے چاہئیں۔

اُس کے ساتھ ساتھ اُنہیں عوام کا ریاست ، جمہوریت ، جمہوری نظام اور معاشرے پر سے اُٹھ جانے والا اعتماد بحال کرنے کے لیے خلوص و ایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور اس کی ابتدا موجودہ بجٹ کے اعداد و شمار کو سنجیدہ کوششوں سے غلط قرار دلوانا ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ طور پر خالص عوامی مفادات و حقوق کے تحفظ پر مبنی ایک شیڈو بجٹ تیار کرنی چاہیے جو کہ حکومتی ناکامیوں اور عوام پر بوجھ بن جانیوالی پالیسیوں اور شقوں کا بہتر متبادل ورژن (Version) ثابت ہو۔

حالانکہ یہ قدم اب موجودہ حکومتی بجٹ میں کوئی خاص ردو بدل کا باعث نہیں ہوگا لیکن ابھی تک اپوزیشن کے پاس سینیٹ جیسا مضبوط مورچہ باقی ہے ، جہاں اُس کی پوزیشن بھی مضبوط ہے۔ وہاں اگر بروقت کوئی اچھا متبادل پیش کیا جائے تو یہ نہ صرف اپوزیشن جماعتوں اور اپوزیشن کے وجود کو جلا بخشے گا بلکہ یہ ملکی سیاست کے لیے بھی ایک نیک شگون ہوگا ، اور اس سے عوام کا اپوزیشن ، جمہوری سیاست اور جمہوری قوتوں پر اعتماد بھی بحال ہوگا ، جوکہ آنیوالے وقت میں ملکی مسائل کو درست سمت میں دیکھنے اور حل کرنے کا بھی آغاز ثابت ہوسکتا ہے ۔

حکومت کے موجودہ عوام دشمن بجٹ پر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے لیکن ایسے رسمی اجلاس نہ پہلے حکومت کو کوئی ٹف ٹائم دے سکے ہیں اور نہ ہی ان اجلاسوں میں مہنگائی اور غیرجمہوری اقدامات جیسے عوام کے حقیقی مسائل کا کوئی ایجنڈہ طے ہوپاتا ہے اور نہ ہی عوامی مسائل پر اعلامیہ جاری ہوتا ہے ۔ بس ہوتا وہی رسمی رونا دھونا اور وہی غیر عملی باتیں ہیں ۔ یہاں تک کہ عملی جدوجہد یا بجٹ کا کوئی عملی متبادل دینے کی کوئی بات نہیں ہوتی ۔

یہ تو سچ ہے کہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی نے عوام کو انتہائی مایوس کردیا ہے ۔ عوام پر آئے روز مہنگائی کا بوجھ بڑھادیا جاتا ہے ،مہنگائی کی شرح بڑھ کر 8.59% پر پہنچ گئی ہے ۔پھر اسٹیل ملز اور پی آئی اے سمیت اہم ملکی اداروں کی تضحیک اور اداروں کو تین وال کرنا ، ملک میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں اضافہ ، آئے دن کوئی نہ کوئی مصنوعی بحران پیدا کرنا اور اُس کی آڑ میں اپنے من پسند لوگوں کو نوازدینا ، بے روزگاری میں اضافہ ، لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ، صوبوں میں کشیدگی۔ اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بغیر نئے ٹیکسوں کے بھاری بھرکم بوجھ کے ساتھ پیش کیے گئے بجٹ میں ترقیاتی ، تعلیمی و صحت جیسے خالص عوامی شعبوں کی بجٹ میں کٹوتی وغیرہ جیسے اقدامات سے حکومت نے خود اپوزیشن کو کوئی تحریک چلانے کا ماحول پیدا کرکے دیا ہے ۔

پھر دیکھا جائے تو کچھ دنوںسے ملک میں حکومت کے خاتمے یا مائنس عمران فارمولے کی گونج سنائی دی جارہی ہے لیکن یہ بھی اپوزیشن کی کس حکمت عملی یا سیاسی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ خود حکومت کی اپنی غلطیوں کی بدولت غیر جمہوری قوتوں کا پھیلایا ہوا موقف ہے ۔اس ملک میں اپوزیشن کے کردار کو محض حکومت کی جائز ناجائز مخالفت کرنا ہی سمجھا گیا ہے ۔ ہمارے یہاں اپوزیشن کو علم سیاسیات کیمطابق اپنا کردار عوام کے حقوق کے دفاع میں ادا کرنے کے لیے حکومتی پالیسیوں پر نظرثانی ، متبادل قوانین کی تیاری اور خاص طور پر سالانہ بجٹ پر مشاورت یا اپنے تئیں اعداد و شمار کا ریکارڈ بناکر شیڈو بجٹ پیش کرنے جیسے عوامل سے کوئی سروکار دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی ہمارے ملک میں میں ایسا تصور موجود ہے۔

اس لیے حالیہ بجٹ کے دوران ملک بھر میں موجود وفاقی و صوبائی ایوانوں میں یہی روایتی مخالفانہ ہُل ہنگامہ نظر آیا ۔ پی ٹی آئی جو وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے وقت اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لائی وہ سندھ اسمبلی میں گلا پھاڑ کر پی پی پی حکومت کی بجٹ کی مخالفت کرکے اپوزیشن کاکردار نبھانے کی اداکاری کرتی نظر آئی ۔ پھر سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کی مخالفت پر نالاں رہنے والی پی پی پی بھی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت میں نعرے لگاتی رہی ۔ دوسری طرف ن لیگ تو قومی اسمبلی و پنجاب کی صوبائی اسمبلی دونوں ہی جگہ لفظی مخالفت والی فیلڈنگ بڑے جوش و جذبے سے جاری رکھے ہوئے دکھائی دی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں