کورونا وائرس اور فنکاروں کا مستقبل

گلوکار علی شیر، ممتاز علی اور ڈاکٹر سہیل ہاشمی کا کہنا تھا کہ مسائل جوں کے توں رہیں گے

فلمسٹار سارہ لورین، ریشم اور صبا قمر نے کہا کہ آج جب کورونا وائرس نے تمام شعبوں کو شدید متاثر کیا ہوا ہے، :فوٹو : فائل

آج کل جہاں دیکھو کورونا وائرس کا تذکرہ ہوتا نظر آتا ہے۔ اس وائرس نے جس طرح دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا اور لاکھوں لوگوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی جان لی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں جب انسان چاند پر رہنے کی باتیں کرتا ہے ، وہیں ایک نہ نظر آنے والے وائرس نے اپنے اثرات ایسے چھوڑے ہیں کہ آج ہرکوئی اس سے بچتا پھرتا ہے، چاند پر جانا تو دور اکثریت گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کرتی ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جاری ہے اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی گھروں سے باہر صرف اسی وقت نکلا جاتا ہے جب کوئی بہت ضروری کام ہو، وگرنہ گھر رہ کر اپنی اور فیملی کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ یورپی ممالک تیزی کے ساتھ معمولات زندگی کی جانب واپس لوٹ رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ جہاں مختلف شعبوں کو کام کرنے کی اجازت مل رہی ہے، اسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کی سرگرمیاں کی شروعات بھی ہونے لگی ہے۔ امریکہ جو اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، وہاں بھی معمولاتِ زندگی بحال ہونے لگے ہیں۔

حال ہی میں ہالی ووڈ کا مقبول ترین فلم سٹوڈیو یونیورسل بھی سیاحوں کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے دنیا بھر سے ہزاروں لوگ سٹوڈیو دیکھنے کیلئے یہاں پہنچتے تھے جبکہ اب احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہاں آنے کی اجازت دی گئی ہے اور دوسری جانب غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ فی الحال شروع نہیں ہوسکا ۔ مگر دنیا بھر میں بسنے والوں نے یونیورسل سٹوڈیو کھولنے کے اقدام کو سراہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی بات کریں تو شوبز کے علاوہ تقریباً تمام شعبوں کو کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے۔ اسی لئے تو پہلے یہاں تھیٹر سے وابستہ فنکار اور تکنیکار احتجاج کر رہے تھے لیکن اب میوزک کے شعبے سے وابستہ گلوکار، سازندے اور دیگر بھی سراپا احتجاج ہیں۔

انجمن اتحاد موسیقار نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں میوزک فیملی کے لوگوں نے شرکت کی، شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ، جن پر حکومت کی پالیسی اور موجودہ حالات میں نظر انداز کرنے کا شکوہ تحریر تھا۔ اب تو ان آوازوں کے ساتھ بہت سے بڑے فنکار بھی اپنی آواز بلند کرنے لگے ہیں۔

ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے گلوکار علی ظفر، سلمان احمد اور ساحر علی بگا کا کہنا تھا کہ ہم صدر پاکستان عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے متاثرہ آرٹسٹ ، موسیقاراور ٹیکنیشنز کی مدد کی جائے، پرفارمنگ آرٹس کا شعبہ کورونا کی وجہ سے بری طرح متاثرہے، لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا کورونا کا علاج دریافت ہونے کے بعد ممکن ہوگا ، ان حالات میں موسیقاروں اور ٹیکنیشنز کا گزارا کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔

کراچی آرٹس کونسل، زمان فاؤنڈیشن، اور علی ظفر فاؤنڈیشن مل کر ان لوگوں کو پیسے فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت نے آرٹسٹ ویلفیئر فنڈز 1 ارب تک کرکے بہت اچھا کام کیا ہے ،لیکن ضروری ہے کہ ان فنکاروں کو جلد یہ رقم فراہم کی جائے ، فنکاروں کو بغیر کسی لائن میں لگے رقم گھروں تک پہنچانے کے لیے مدد کی جائے ، اس مقصد کے لیے علی ظفر فاؤنڈیشن حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے، ہمارے پاس مستحق فنکاروں کا ڈیٹا بھی موجود ہے۔

صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکارہ شاہدہ منی، سارہ رضا خان اور حدیقہ کیانی کا کہنا تھا کہ ملک میں سال بھر مختلف شعبوں اور تنظیموں کے لوگ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، کوئی سڑک بلاک کرتا ہے تو کوئی اعلی ایوانوں کو، کوئی توڑ پھوڑ کرتا ہے تو کوئی عام عوام کو نقصان پہنچاتا ہے، لیکن حالات جیسے بھی ہوں فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کبھی سڑکوں پر نہیں نکلتے۔ کیونکہ اس شعبے سے وابستہ افراد پرامن ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں اور ان کی تربیت میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ ہم نے لوگوں کو اپنے بہترین فن سے انٹرٹین کرنا ہے ناکہ ان کو تکلیف پہنچانی ہے۔

قدرتی آفات ہوں یا امدادی پراجیکٹ ، فنکار کڑی دھوپ ہویا سخت سردی، بارش ہویا طوفانی ہوائیں، سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف عوام اور حکومت کی سپورٹ ہوتا ہے۔ اس طرح کے کاموں سے فنکاروں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے جس طرح 65ء کی جنگ کے دور میں فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے نغمے گائے اور سپورٹ کیا، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ دیار غیر کی بات کریں تو اینٹی پاکستان قوتیں تو ہمارے ملک اور قوم کو دہشتگرد قرار دلوانے میں لگی ہے لیکن یہ فنکار برادری ہی ہے جو اپنے فن کی بدولت دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرتی ہے اور منفی پراپیگنڈہ کرنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ ہم اور ہماری قوم دہشتگرد نہیں بلکہ امن پسند اور انسانیت سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔

فلمسٹار سارہ لورین، ریشم اور صبا قمر نے کہا کہ آج جب کورونا وائرس نے تمام شعبوں کو شدید متاثر کیا ہوا ہے، ناجانے حکومت اور لیڈران کو فنون لطیفہ کے شعبے دکھائی نہیں دیتے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ فنون لطیفہ کے شعبوں میں کام کرتے ہیں اور پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا میں پہنچاتے ہیں مگر افسوس کے اس مشکل گھڑی میں مالی سپورٹ تو ایک طرف کسی کو ان کا خیال تک نہیں ہے۔ ہم یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ فنون لطیفہ کے شعبوں سے وابستہ ہزاروں فنکار ایسے ہیں جو اس مشکل گھڑی میں ایک وقت کی روٹی بھی نہیں پوری کر سکتے لیکن وہ اتنے خوددار ہیں کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ لیکن اب صورتحال سب کے کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے ، اسی لئے اب فنکار برادری بھی احتجاج کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوچکی ہے۔

ہماری صدر پاکستان عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کی سرگرمیاں بھی کھولنے کی اجازت دیں، تاکہ اس شعبے کا مستقبل روشن دکھائی دے۔ فی الوقت تو یہ انتہائی تاریک دکھائی دینے لگا ہے، کیونکہ نہ حکومت اس کے بارے میں سوچ رہی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا قدم اٹھا رہی ہے کہ جس سے فنکاروں کو ریلیف مل سکے۔

اداکار جاوید شیخ، فردوس جمال اور عرفان کھوسٹ نے کہا کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں اور ان کو بھی اس ملک کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں امدادی رقوم سے دور ہی رکھیں، ہم کام کرکے بہتر روزگار کما سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد کی بات کریں تو وہ فنکاروں کو ملتی ہی نہیں اور نہ ہی اس کا طریقہ کار شفاف ہوتا ہے۔


کیونکہ جن لوگوں کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے نہ وہ فنکاروں کو جانتے ہیں اور نہ ہی اصل حقداروں کو یہ رقوم ملتی ہیں۔ اس لئے حکومت ہمارے شعبے کیلئے بھی ایس او پیز تیار کرے اور ہمیں کام کرنے دیں، ہم احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنا کام کرینگے، ہم یہ بات جانتے ہیں کہ کورونا جان لیوا ہے اور احتیاط کے ساتھ ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، اسی لئے ہم اپنی برادری کی جانب سے حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں کام کی اجازت دے تاکہ ہم ملک وقوم کا نام روشن کرسکیں۔ جو نوجوان اس شعبے کی جانب آنے خواہش رکھتے ہیں وہ بھی موجودہ حالات میں فنون لطیفہ کی بے قدری دیکھ کر حیران ہیں۔ اس لئے پاکستان میں شوبز کے مستقبل کو بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں تاکہ اندھیرے میں چلی جانے والی انڈسٹری کی رونقیں بحال ہوں۔

گلوکار غلام علی، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور عارف لوہار نے کہا کہ کرونا وائرس کے اس دور میں خوف ، بھوک ، بیروزگاری سمیت دیگر مسائل کے سائے منڈلانے دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد کورونا سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ جہاں بہت زیادہ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے، وہیں مالی طور پر تباہی کا تخمینہ لگانا فی الحال ممکن نہیں۔ کیونکہ تاحال دنیا کے زیادہ تر ممالک کورونا وائرس سے متاثر ہیں اور وباء کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی ہے جہاں کورونا وائرس نے بڑی تیزی کے ساتھ لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس کی ذمہ دار حکومت ہے یا عوام ؟ مگر حقیقت بس اتنی ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ نیوز چینلز ہوں یا قومی اخبارات کی شہہ سرخیاں، صرف اور صرف کورونا کے بارے میں تفصیلات سنائی اور شائع نظر آتی ہیں۔ جہاں دیکھو خوف دکھائی دیتا ہے، لوگ پریشان ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جو فیصلے لے رہے ہیں وہ ہماری بہتری کیلئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم حکومت سے اپیل کرینگے کہ وہ فنکار برادری کے بارے میں سوچیں ، تاکہ اس شعبے کے لوگ بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہ بات سب کو سمجھنا ہوگی کہ ایک فنکار جب تک خود خوشحال نہیں ہوگا تب تک وہ لوگوں کو انٹرٹین نہیں کرسکے گا۔

سینئر اداکارہ شائستہ جبیں، عمران اشرف اور رؤف لالہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی رقم میں اضافے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ آرٹسٹوں کی اس فنڈ سے مالی مدد ہوگی اور حقدار فنکاروں کو ان کا حق ملنا بھی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس فنڈ کی تقسیم کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو مستحق فنکاروں تک یہ فنڈ پہنچائے۔

اس کمیٹی میں حکومتی ارکان کے ساتھ ساتھ فلم، ٹی وی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم صدر مملکت کے مشکور ہیں جو فنکاروں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ماضی میں بھی اس طرح کے اقدامات کے بعد فنکاروں کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے، اسی لئے ہم چاہتے ہیں کہ مستحق فنکاروں میں فنڈ تقسیم کرنے کیلئے بنائی جانیوالی کمیٹی میں بیوروکریسی کے ساتھ فنکاروں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ حقداروں تک ان کا حق پہنچ سکے۔

ویسے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے شوبز سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئی ہیں، ایسے میں آرٹسٹ ویلفئیر فنڈ کی مدد سے فنکاروں کو سپورٹ ہوگی جوکہ بہت ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا یہ اقدام فنکار برادری کیلئے تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ شوبز سرگرمیوں کی شروعات کے بارے میں بھی غور کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ فنکاروں کی اکثریت خود کام کرکے معاوضہ کمانے کو ترجیح دیتی ہے، وہ امداد نہیں لیں گے، اس لئے ان کے بارے میں بھی سوچا جائے، تاکہ وہ بھی مالی بحران کا شکار ہونے بچ سکیں۔

گلوکارہ سائرہ پیٹر، حمیرا ارشد اور ندیم عباس لونے والہ نے کہا کہ حکومت نے آرٹسٹ ویلفئیر فنڈ کی رقم بڑھا کر ایک تاریخی فیصلہ لیا تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ فنکار کب تک امدادی رقوم کے ساتھ زندگی بسر کرینگے؟ اس لئے ضروری یہ ہے کہ شوبز سرگرمیاں کھولنے کی حکمت عملی اپنائی جائے اور کام کے ایسے مواقع فراہم کئے جائیں، جس کی بدولت فنکاروں کو بہتر روزگار مل سکے۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک نے کورونا کے ساتھ ہی زندگی کے معمولات کو آگے بڑھایا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ہمیں بھی اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی چاہئے، ہوسکتا ہے کہ کوئی بہتر راہ نکل آئے اور پریشان حال فنکاروں کو کام کی شکل میں بہتر ریلیف مل جائے، وگرنہ رواں سال تو ہمیں بہتر دکھائی نہیں دے رہا، مسائل پہلے ہی زیادہ ہیں اور اگر کام کی اجازت نہ ملی تو پھر پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ شوبز ہی ہوگا۔

گلوکار علی شیر، ممتاز علی اور ڈاکٹر سہیل ہاشمی کا کہنا تھا کہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ کرونا وائرس آیا ہے تو تو آرام سے ہی اس کا خاتمہ ہوگا۔ جس طرح مغربی ممالک اور امریکہ نے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود زندگی کے تمام شعبوں کو کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے ، اگر اسی انداز سے یہاں پر بھی کام کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے بہتری آئے گی اور ہمارا ملک بھی بہت سے متاثرہ ممالک کے لیے ایک بہترین مثال بن سکے گا۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہو گی۔ ہماری قوم بڑی باشعور ہے وہ اس بات کو بخوبی سمجھتی اور جانتی ہے اور اس لیے اگر فنون لطیفہ کی سرگرمیاں دوبارہ سے سے شروع کر دی جائیں تو اس سے جہاں فنکار برادری کو بہت سپورٹ ملے گی وہیں پبلک بھی انٹرنیٹ ہو سکے گی۔

یونیورسل سٹوڈیو کو جونہی لوگوں کیلئے کھولا گیا تو وہاں آنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ ہمیں بھی زندگی کویہ سوچ کر آگے بڑھانا ہے کہ مسائل تو آتے رہتے ہیں لیکن زندگی کا پہیہ کبھی نہیں رکتا۔ انشاء اللہ بہتر نتائج آئینگے اور ہمارا ملک بہت جلد کورونا فری ممالک میں شامل ہوجائے گا۔

معروف کتھک ڈانسر شیما کرمانی نے کہا کہ شوبز کی دنیا نے ہمیشہ لوگوں کو تفریح کے بہترین مواقع فراہم کئے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے فنکار جہاں لوگوں کو انٹرٹین کرتے ہیں، وہیں ایجوکیٹ بھی کرتے ہیں۔ ہر کسی کا انداز الگ ہے لیکن مقصد ایک ہے کہ کس طرح سے معاشرے میں سدھار لایا جاسکتا ہے۔ ہماری فلموں ڈراموں میں جو موضوعات پیش کئے جاتے ہیں وہ کسی اور کے نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی کہانیاں ہیں ، ان کو دکھانے کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ لوگ اس کو دیکھیں اور سیکھ کر اپنی زندگی کو بہتر بناسکیں۔

اگر اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے کیلئے فنون لطیفہ کے تمام شعبوں کی خدمات حاصل کی جائیں تو اس شعبے سے وابستہ افراد بہتر انداز میں عام لوگوں کو کورونا وائرس بارے آگاہ کرسکتے ہیں۔ حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے تاکہ فنون لطیفہ کی رونقیں بحال ہوں اور مستقبل روشن نظر ائے۔
Load Next Story