میرے عزیز ہم وطنو
سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے دور میں ’میرے عزیز وطنو!‘ کی جگہ شاید جدید طریقہ واردات کا استعمال کیا جائے گا
''میرے عزیز ہم وطنو!'' وہ جملہ ہے جو کسی جمہوری حکومت کو ختم کرتے وقت سنا جاتا تھا۔ 1953 سے 1999 تک، جب سوشل میڈیا اور پرائیویٹ چینلوں کا دور نہیں تھا، صرف ایک سرکاری ٹی وی ہوا کرتا تھا اور اس وقت سرکاری ٹی وی کی نشریات بند ہوجاتیں اور تواتر سے ملی نغمے شروع ہوجاتے تو یہ تبصرے شروع ہوجاتے تھے کہ ملک میں سیاسی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں ایک ہی مارشل لاء لگنے کا واقعہ یاد ہے۔ 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کو گرفتار کیا اور رات گئے ٹی وی پر قوم سے خطاب کے دوران اسمبلیاں اور آئین معطل کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن اس بار ''میرے عزیز ہم وطنو!'' کے الفاظ انگریزی میں ادا کیے: my dear countryman۔
انہوں نے اپنے خطاب میں مارشل لاء کا ذکر نہیں کیا لیکن جو حالات اس وقت ملک میں چل رہے تھے، وہ مارشل لاء کی ہی منظر کشی کررہے تھے۔ اس وقت صحافت میں آئے کچھ عرصہ ہی گزرا تھا، مقامی اخبار میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے 12 روز ہی گزرے تھے۔ کام سے فارغ ہوکر گھر پہنچا اور والد کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک ڈرامے کے دوران ہی میڈم نورجہاں کے نغمے نشر ہونا شروع ہوگئے۔ میرے والد نے بے ساختہ کہہ دیا کہ مارشل لاء لگ گیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں آفس سے فون آگیا کہ آفس جلدی پہنچیں۔ بعد میں والد محترم سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ ماضی میں جتنے بھی مارشل لاء لگے، ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ ''میرے عزیز ہم وطنو'' کے الفاظ مارشل لاء کے وقت سننے پڑتے ہیں۔
آج 5 جولائی ہے اور 1977 کو آج ہی کے دن اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرکے ملک میں آئین معطل کردیا، منتخب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو ختم کردیا اور 90 دنوں میں انتخابات کا اعلان کیا لیکن 90 دنوں سے معاملہ دس سال تک بڑھا۔ ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کے خلاف پیپلزپارٹی ہر سال 5 جولائی کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے اس وقت کے اقدام کی مذمت کی جاتی ہے، پیپلزپارٹی کی جانب سے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ملک میں سیاسی بساط لپیٹے جانے سے کسی ایک سیاسی جماعت کو نقصان نہیں پہنچتا۔ اگر دیکھا جائے تواس اقدام سے تمام سیاسی جماعتیں متاثر ہوتی ہیں کیونکہ ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگ جاتی ہے اور صرف مارشل لاء کی حمایت کرنے والے سیاستدان ہی اسکرین پر نظر آتے ہیں اور ''یس باس'' کرنے والے سیاستدان، ہم خیال سیاسی جماعت کی چھتری تلے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔
اُس وقت پیپلزپارٹی کے خلاف نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا اور 1999 میں نواز شریف کے خلاف نواز لیگ ہی کا دھڑا مشرف کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور ق لیگ کا وجود ہوا۔
1999 میں نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے مفادات ایک ہوگئے۔ دونوں سیاست میں فوج کے کردار کے خلاف ایک ہوگئیں اور ماضی میں ہونے والی غلطیوں کو نہ دوہرانے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی سیاستدانوں کی غلطیاں فوج کو کردار ادا کرنے کی دعوت دے دیتی ہیں۔ کچھ اسی طرح پیپلزپارٹی کے دور اقتدار کے بعد نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آصف علی زرداری کے دور اقتدار میں بھی سیاسی بساط لپیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن آصف زرداری چال پر چال چلتے رہے۔ انہوں نے وزیراعظم کی قربانی دی لیکن اپنی حکومت کا تختہ الٹنے نہیں دیا، اور پانچ سال مکمل کیے۔ مگر نواز شریف اپنے فیصلوں کے سامنے ڈٹ گئے اور آج تک نواز شریف کا ڈٹ جانا انہیں نقصان پہنچا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 1977 والے نواز شریف اور آج کے نواز شریف میں بہت فرق ہے، اسی لیے 2013 کے انتخابات میں بھی نواز لیگ کی ڈوبتی کشتی کو بچالیا گیا لیکن 2018 کے انتخابات میں وہی ہوا جس کا ڈر 2013 میں تھا۔
مارشل لاء کا شکار ہونے والی پیپلزپارٹی 5 جولائی اور نواز لیگ 12 اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں اور دونوں جماعتیں اب جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کی باتیں کرتی ہیں۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی پر یہی الزام ہے کہ وہ چھتری کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں 2013 کے انتخابات میں جمہوری اور قانونی عمل سے گزر کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور 2018 کے انتخابات میں مرکز میں بھی انتخابات کے ذریعے حکومت میں آئی۔ یہ الگ بحث ہے کہ پی ٹی آئی میں وہ ٹولہ غالب آگیا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایتی حکومتوں کا حصہ رہا ہے۔ اب اسے عمران خان کی مجبوری کہا جائے یا عمران خان کی اپنے پی ٹی آئی کے ارکان پر بے اعتمادی کہ کابینہ میں اکثریت ان ہی لوگوں کی ہے جو گزشتہ حکومتوں کا حصہ رہے اور اقتدار کے ایوانوں سے اب وہی آوازیں آنے لگی ہیں جو کسی بھی کمزور حکومت میں اٹھتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی اپوزیشن جماعتوں سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی ناراض ارکان کا مؤقف ہے کہ حکومت پر بیوروکریسی اور وقتی سیاستدانوں کا ٹولہ حاوی ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز اور نظریاتی ارکان اسمبلی کو نظرانداز کردیا گیا ہے، ایسے ناراض ارکان کے آواز اٹھانے پر اب ایک بار پھر ایسی باتیں سامنے آنے لگی ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف بھی چارج شیٹ تیار کرلی گئی ہے۔
کچھ حلقے عید قربان کے بعد قربانی کی باتیں کررہے ہیں تو کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ چارج شیٹ تیار ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں حکومت کو رخصت کرنے کا الزام اپنے سر لینا نہیں چاہتیں، اسی لیے مائنس ون فارمولے والی بات چل رہی ہے۔
موجودہ حکومت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کچھ بھی ہو، لیکن سوشل میڈیا، الیکٹرونک میڈیا کے بعد اب ''میرے عزیز وطنو!'' والی کہانی نہیں دہرائی جاسکتی۔ جدید دور میں اب جدید طریقہ واردات کا استعمال کیا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب میں مارشل لاء کا ذکر نہیں کیا لیکن جو حالات اس وقت ملک میں چل رہے تھے، وہ مارشل لاء کی ہی منظر کشی کررہے تھے۔ اس وقت صحافت میں آئے کچھ عرصہ ہی گزرا تھا، مقامی اخبار میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے 12 روز ہی گزرے تھے۔ کام سے فارغ ہوکر گھر پہنچا اور والد کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک ڈرامے کے دوران ہی میڈم نورجہاں کے نغمے نشر ہونا شروع ہوگئے۔ میرے والد نے بے ساختہ کہہ دیا کہ مارشل لاء لگ گیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں آفس سے فون آگیا کہ آفس جلدی پہنچیں۔ بعد میں والد محترم سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ ماضی میں جتنے بھی مارشل لاء لگے، ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ ''میرے عزیز ہم وطنو'' کے الفاظ مارشل لاء کے وقت سننے پڑتے ہیں۔
آج 5 جولائی ہے اور 1977 کو آج ہی کے دن اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرکے ملک میں آئین معطل کردیا، منتخب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو ختم کردیا اور 90 دنوں میں انتخابات کا اعلان کیا لیکن 90 دنوں سے معاملہ دس سال تک بڑھا۔ ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کے خلاف پیپلزپارٹی ہر سال 5 جولائی کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے اس وقت کے اقدام کی مذمت کی جاتی ہے، پیپلزپارٹی کی جانب سے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ملک میں سیاسی بساط لپیٹے جانے سے کسی ایک سیاسی جماعت کو نقصان نہیں پہنچتا۔ اگر دیکھا جائے تواس اقدام سے تمام سیاسی جماعتیں متاثر ہوتی ہیں کیونکہ ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگ جاتی ہے اور صرف مارشل لاء کی حمایت کرنے والے سیاستدان ہی اسکرین پر نظر آتے ہیں اور ''یس باس'' کرنے والے سیاستدان، ہم خیال سیاسی جماعت کی چھتری تلے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔
اُس وقت پیپلزپارٹی کے خلاف نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا اور 1999 میں نواز شریف کے خلاف نواز لیگ ہی کا دھڑا مشرف کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور ق لیگ کا وجود ہوا۔
1999 میں نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے مفادات ایک ہوگئے۔ دونوں سیاست میں فوج کے کردار کے خلاف ایک ہوگئیں اور ماضی میں ہونے والی غلطیوں کو نہ دوہرانے کا اعلان کیا لیکن پھر بھی سیاستدانوں کی غلطیاں فوج کو کردار ادا کرنے کی دعوت دے دیتی ہیں۔ کچھ اسی طرح پیپلزپارٹی کے دور اقتدار کے بعد نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آصف علی زرداری کے دور اقتدار میں بھی سیاسی بساط لپیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن آصف زرداری چال پر چال چلتے رہے۔ انہوں نے وزیراعظم کی قربانی دی لیکن اپنی حکومت کا تختہ الٹنے نہیں دیا، اور پانچ سال مکمل کیے۔ مگر نواز شریف اپنے فیصلوں کے سامنے ڈٹ گئے اور آج تک نواز شریف کا ڈٹ جانا انہیں نقصان پہنچا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 1977 والے نواز شریف اور آج کے نواز شریف میں بہت فرق ہے، اسی لیے 2013 کے انتخابات میں بھی نواز لیگ کی ڈوبتی کشتی کو بچالیا گیا لیکن 2018 کے انتخابات میں وہی ہوا جس کا ڈر 2013 میں تھا۔
مارشل لاء کا شکار ہونے والی پیپلزپارٹی 5 جولائی اور نواز لیگ 12 اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں اور دونوں جماعتیں اب جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کی باتیں کرتی ہیں۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی پر یہی الزام ہے کہ وہ چھتری کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں 2013 کے انتخابات میں جمہوری اور قانونی عمل سے گزر کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور 2018 کے انتخابات میں مرکز میں بھی انتخابات کے ذریعے حکومت میں آئی۔ یہ الگ بحث ہے کہ پی ٹی آئی میں وہ ٹولہ غالب آگیا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایتی حکومتوں کا حصہ رہا ہے۔ اب اسے عمران خان کی مجبوری کہا جائے یا عمران خان کی اپنے پی ٹی آئی کے ارکان پر بے اعتمادی کہ کابینہ میں اکثریت ان ہی لوگوں کی ہے جو گزشتہ حکومتوں کا حصہ رہے اور اقتدار کے ایوانوں سے اب وہی آوازیں آنے لگی ہیں جو کسی بھی کمزور حکومت میں اٹھتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی اپوزیشن جماعتوں سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی ناراض ارکان کا مؤقف ہے کہ حکومت پر بیوروکریسی اور وقتی سیاستدانوں کا ٹولہ حاوی ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز اور نظریاتی ارکان اسمبلی کو نظرانداز کردیا گیا ہے، ایسے ناراض ارکان کے آواز اٹھانے پر اب ایک بار پھر ایسی باتیں سامنے آنے لگی ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف بھی چارج شیٹ تیار کرلی گئی ہے۔
کچھ حلقے عید قربان کے بعد قربانی کی باتیں کررہے ہیں تو کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ چارج شیٹ تیار ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں حکومت کو رخصت کرنے کا الزام اپنے سر لینا نہیں چاہتیں، اسی لیے مائنس ون فارمولے والی بات چل رہی ہے۔
موجودہ حکومت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کچھ بھی ہو، لیکن سوشل میڈیا، الیکٹرونک میڈیا کے بعد اب ''میرے عزیز وطنو!'' والی کہانی نہیں دہرائی جاسکتی۔ جدید دور میں اب جدید طریقہ واردات کا استعمال کیا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔