بچے ہمارا مستقبل خدارا ان کا بچپن نہ چھینیں

دین اسلام نے غلامی کے تصور کا خاتمہ کیا، بچوں کو گھر پر ملازم رکھنا سنگین جرم اورغلامی کی جدید شکل ہے:حکومت

’’گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات اور ان کی روک تھام کیسے ممکن؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ ۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان میں کم عمر بچوں کو گھر پر ملازم رکھنا عام بات ہے۔ ان بچوں سے 24 گھنٹے درجنوں کام لیے جاتے ہیں۔ جوتے پالش کرنے سے لے کر گھر کی صفائی تک، تمام کاموں کی ذمہ داری ان کم سن ملازم بچوں پر ہوتی ہے جن کے والدین غربت کی وجہ سے انہیں کام پر لگا دیتے ہیں۔ ان کی تنخواہ تو بہت کم ہوتی ہے مگرایک ، دوبرس کی پیشگی تنخواہ ان کے والدین کو ادا کردی جاتی ہے اور اس طرح یہ بچے کہیں جا بھی نہیں سکتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ملازم بچے زر خرید غلام بن جاتے ہیں اور ان کے مالک جو چاہیں، جیسا چاہیں سلوک کرتے ہیں۔

چائلڈ ڈومیسٹک لیبر ملک میں اس لیے بھی عام ہے کہ آزادی سے لے کر اب تک اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ 2019ء میں پہلی مرتبہ پنجاب میں قانون سازی کی گئی مگر اس پر بھی عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔اس حوالے سے اگرچہ چائلڈ ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بیورو جیسے ادارے موجود ہیں مگر ان میں بھی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کا خاتمہ کر سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ آئے روز گھریلو ملازم بچوں پر بدترین تشدد، زیادتی، قتل جیسے افسوسناک واقعات سامنے آتے ہیں۔ اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے '' ایکسپریس فورم'' میں ''گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات اور ان کی روک تھام کیسے ممکن؟'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور علماء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سارہ احمد (چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب )


گزشتہ ایک برس میں ہماری ہیلپ لائن پر رپورٹ ہونے والے گھریلو ملازم بچوں پر تشدد اور بدفعلی کے250 واقعا ت رپورٹ ہوئے جن پر ہم نے فوری کارروائی کی، بچوں کو ریسکیو کیا، انہیں طبی سہولیات دی، ماہر نفسیات نے ان کی اور ان کے خاندان کی کونسلنگ کی، انہیں مکمل قانونی معاونت فراہم کی اور کیسز کا فالو اپ بھی کیا۔ اب تک رپورٹ ہونے والے ان تمام کیسز کے مجرمان کو سزا ہوچکی ہے اور بیشتر اب بھی قید میں ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے ایسے بچے جو اپنے گھروں یا ملازمت کی جگہ پر غیر محفوظ تھے، تو ہم نے ان کو اپنی تحویل میں لیا اور وہ بچے اب ہمارے پاس رہتے ہیں۔ ہماراایک سکول بھی ہے جہاں ان بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارے پاس ماہر نفسیات کی ٹیم ہے جو بچوں کی کونسلنگ کرتے ہیں لہٰذا ریسکیو کیے جانے والے ان بچوں کی شخصیت میں اب زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم صرف ان بچوں کو چھت یا کھانا پینا ہی نہیں دیتے بلکہ انہیں تعلیم اور ہنر بھی سکھایا جاتا ہے تاکہ وہ بڑے ہوکر معاشرے کا کار آمد شہری بن سکیں۔ افسوس ہے کہ رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔ ایسے کیس بھی سامنے آئے جن میں بچی کے ساتھ زیادی ہوئی مگر خاندانی دباؤ یا بے عزتی کے ڈر سے والدین معاملے کو دبا دیتے ہیں اور ایف آئی آر ہی نہیں کرواتے۔ اکثر تو خاندان کا ہی کوئی شخص ہوتا ہے لہٰذا خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ بہت سارے کیسز میں ہم نے متاثرہ بچے یا بچی کے والدین کی کونسلنگ کی اور پھر وہ درندہ صفت شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے پر رضا مند ہوئے۔ زہرہ شاہ کیس میں ملازم بچی پر صرف اس لیے تشدد کیا گیا کہ اس نے پرندے اڑا دیے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔ ہمارے ہاں غربت بھی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو ملازمت کروانے پر مجبور ہیں۔ ہم لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر مسائل ایک رات میں حل نہیں ہوسکتے اس میں برسوں درکار ہوں گے۔ چونیاں میں 4 بچوں کو پہلے اغوا کیا گیااور پھر انہیں زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون، آئی جی پنجاب اور میں، وہاں گئے۔ ہم متاثرہ خاندانوں سے بھی ملے ۔ وہاں جاکر پتہ چلا کہ وہاں بچپن سے ہی بچوں کے حوالے سے ایک خاص سوچ موجود ہے جس کی وجہ سے وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان سے بدفعلی کرتے ہیں۔ اس طرح کی خرابیوں کو آگاہی سے دور کیا جاسکتا ہے۔لوگوں کی تربیت اور آگاہی کیلئے حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی اور علماء کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ہمارے ادارے نے سول سوسائٹی کی مدد سے بڑے پیمانے پر گھریلو بچہ مزدوروں کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی، اس حوالے سے موجود قانون کی تشہیر بھی کی اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ ہم نے قصور میں یونین کونسل کی سطح پر علماء، اساتذہ،بیوروکریسی اور حکومتی نمائندوں پر مشتمل ''چائلد پروٹیکشن کمیٹیاں' تشکیل دی ہیں، اسی طرز پر تمام یونین کونسلوں میں کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ ہم اپنی کپیسٹی سے بڑھ کر دن رات کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بچوں کے معاملے میں کافی سنجیدہ ہیں،چائلڈ پروٹیکشن بیورو 8 اضلاع میں موجود ہے جبکہ حالیہ بجٹ میں 13 مزید اضلاع کے حوالے سے بجٹ منظور کیا گیا ہے، یہ اہم ڈیپارٹمنٹ ہے اس کا دائرہ کار پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں ہونا چاہیے۔ گھریلو بچہ مزدوروں کے حوالے سے قانون موجود ہے مگر عملدرآمد نہیں ہورہا ، قانون میں بہتری اورچائلڈ پروٹیکشن بیورو کے اختیارات کو وسیع کرنے کیلئے جلد وزیر قانون سے ملاقات کروں گی۔

مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمہ لاہور )

بچے قوم کے مستقبل کی نوید ہیں۔ اگر ان کی پرورش اچھی ہو، وہ اپنی ساخت اور اقدار میں بہتر ہو تو وہ بڑے ہوکر قوم کو مستحکم انداز میں پڑھوان چڑھائیں گے۔ہمارے معاشرے میں بچوں کو چائلڈ لیبر کی صورت میںبے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نبی کریم حضرت محمدﷺ کی تعلیمات اس بات کا احاطہ کرتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ ہمارا کس طرح کا سلوک، کردار اور اخلاق ہونا چاہیے۔ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی۔نبی کریمﷺ کا اپنے بچوں کے ساتھ انداز یہ تھا کہ آپؐ اپنے نواسوںؓ کو چومتے تھے، ان ؓکا بوسہ لیتے تھے، انہیںؓ اپنے کاندھوں پر سوار کرکے سیر کروایا کرتے تھے۔ نماز میں حضرت امام حسینؓ ، آپؐ کی پشت پر سوار ہو جاتے تھے اور جب تک سوار رہتے، آپؐ سجدے سے نہیں اٹھتے تھے۔ ایسے ہی حضرت زینبؓ جو آپؐ بیٹی تھیں، ان ؓ کا انتقال ہوا تو آپؐ کی نواسی حضرت امامہؓ چھوٹی تھیں، آپؐ انہیںؓ مسجد میں ساتھ لے کر آتے تھے، وہ آپؐ کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، دوران نماز کھیلتی تھیں مگر آپؐ نے انہیںؓ کبھی نہیں ڈانٹا۔ بچے غلطی کرتے ہیں،وہ شرارت کرتے ہیں۔ وہ بچہ ہی کیا ہے جس میں شرارت نہ ہو۔ شرارت بچے کی ذات کا لازمی جزو ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں گھریلو ملازمین بچوں کے ساتھ جو حسن سلوک ہونا چاہیے وہ نہیں ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیمات سے دور ہوچکے ہیں۔ دین اسلام نے غلامی کے تصور کا خاتمہ کیا اور غلاموں کو عزت و مرتبہ عطا فرمایا۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بھی حضور نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، شفقت نہیں کرتا اوربڑوں کی عزت و توقیر نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ ہمیں آپﷺ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اپنانا ہوگا۔ آپﷺ نے بچوں سے محبت، پیار، شفقت اور رحم کا درس دیا، وہ بچہ چاہے کسی کا بھی ہو۔ آپؐ کی تعلیمات تمام بچوں کے حوالے سے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک یہودی بچہ آیا کرتا تھا۔ وہ جب بیمار ہوا تو آپؐ اس کی تیمارداری کیلئے تشریف لے گئے۔ آپؐ کو جب محسوس ہوا کہ بچہ زندگی کے آخری لمحات میں ہے تو فرمایا کہ بیٹا تم اسلام قبول کر لو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ اس کے باپ نے کہا بیٹا جس طرح محمدﷺ فرما رہے ہیں،اس طرح کرلو اور پھر وہ مسلمان ہوگیا اور اللہ کو پیارا ہوگیا۔ آپؐ نے اس بچے کی لاش لے کر کفن دفن کا اہتمام کیا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ تعلیمات ملتی ہیں کہ بچے کسی کے بھی ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے ساتھ شفقت و محبت کا معاملہ کیا جائے۔ گھریلو ملازمین بچے انتہائی مجبوری کے عالم میں ملازمت کرتے ہیں اور استحصال بھی انہی کا ہوتا ہے۔ ان کے والدین پہلے ہی ایک، دو برس کا معاوضہ لے لیتے ہیں۔ یہ بچے گھر بھی نہیں جا پاتے اور اپنے مالکان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں لہٰذا مالکان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ یہ بچے قیامت والے دن خود پر ہونے والے مظالم کی گواہی دیں گے، کیا مالکان نے اللہ کے سامنے پیش نہیں ہونا؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو وہی اپنے ہاں کام کرنے والے کو کھلاؤ۔ آج گھروں میں جو بچے کام کر رہے ہیں انہیں وہی کھلانا پلانا چاہیے جو ہم اپنے بچوں کو کھلاتے پلاتے ہیں، جو سلوک اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا چاہیے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ گھریلو ملازمین بچوں کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانا ہوگی، اس حوالے سے علماء کام کر رہے ہیں، مساجد سے پیغامات بھی دیے جاتے ہیں۔ میں نے چند برس قبل اپنے ایک سٹوڈنٹ کی ڈیوٹی لگائی اور اس نے چائلڈ ویلفیئر بیورو میں بغیر معاوضہ بچوں کو مفت دینی تعلیم دی۔ زینب کیس میں ہم نے اپنے ادارے میں سیمینار بھی منعقد کروایا۔ میرے نزدیک اداروں اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان رابطے کی کمی ہے، تمام سٹیک ہولڈرز میں روابط کو موثر اور مضبوط بنایا جائے۔

افتخار مبارک (نمائندہ سول سوسائٹی )

گھریلو بچہ مزدوری، مزدوری کی وہ شکل ہے جس میں بچے گھرکی چار دیواری کے اندر مختلف ملازمتیں ایک ساتھ کرتے ہیں۔ کپڑے دھونا، استری کرنا، سکول بیگ تیار کرنا، کتابیں سمیٹنا، بستر ٹھیک کرنا، کھانا پکانے میں مدد کرنا، پانی بھرنا، بازار سے سودا سلف لانا و اس طرح کے بے شمار کام ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کیلئے چھوٹے بچوں کو ملازمت پر رکھ لیتے ہیں۔ ایسی ملازمت کو گھریلو مزدوری کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں بچہ کسی دوکان، فیکٹری ، کارخانے و غیرہ میں کام نہیں کرتا بلکہ گھر میں کام کرتا ہے۔ 2010ء میں گھریلو ملازمہ بچی شازیہ مسیح کیس سے لے کر اب تک تقریباََ 50 سے 60گھریلو ملازمین بچوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہے مگر وہ رپورٹ نہیں ہوتے جو افسوسناک ہے۔ راولپنڈی میں ملازم بچی زہرہ شاہ کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس سے پنجرہ کھل گیا تھا اور طوطے اڑ گئے تھے۔ لاہور میں چند برس قبل ایک مالکن نے کتے کو بروقت کھانا نہ ڈالنے پر کم عمر ملازم کو قتل کردیا۔ اسی طرح شاہ نور سٹوڈیو کے پاس ایک سٹوڈیو میں ڈیک چوری ہوگیا تو اس بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کی وجوہات کا جائزہ لیں تو وہ بہت معمولی اور قابل در گزر ہیں۔ میرے نزدیک اس کے پیچھے 'مالک' ہونے کی سوچ کارفرما ہے۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی یہ کہہ چکی ہیں کہ چائلڈ ڈومیسٹک لیبر غلامی کی جدید شکل ہے۔ اس میں بچوں کے کام کے اوقات کار مقرر نہیں ہوتے بلکہ وہ 24 گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں اور دن رات ان کا استحصال ہوتا ہے۔ انہیں تعلیم، سوشل سکیورٹی سمیت تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جاتاہے۔ ان سے ان کا بچن چھین لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین یہ مانتے ہیں کہ بچے کی پرورش میں والدین کا کردار اہم ہوتا ہے اور ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ یہ بچہ جب گاؤں یا کسی دور دراز علاقے سے ملازمت کیلئے آتا ہے تو اپنے خاندان سے دور ہوجاتا ہے۔ ان بچوں کے والدین مالک سے ایک یا دو سال کی پیشگی تنخواہ لے لیتے ہیں لہٰذا مالک انہیں غلام سمجھتے ہوئے بدترین سلوک کرتا ہے۔ بچوں کی ملازمت کے حوالے سے افراد اور ایجنسیاں بھی موجود ہیں جو انہیں گھروں میں ملازم رکھواتی ہیں اور اپنا حصہ وصول کرتی ہیں۔ یہ تمام لوگ بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور ان کا بچپن، ان کی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ بھٹہ مزدوری کے حوالے سے درشن مسیح کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ مزدوری میں پیشگی تنخواہ غلامی کو فروغ دیتی ہے لہٰذا بانڈڈ لیبر ابولشن سسٹم ایکٹ کے تحت پیشگی تنخواہ پر پابندی ہوگی۔ جب والدین گھریلو ملازم بچوں کی برسوں کی تنخواہ ایڈوانس لے لیتے ہیں تو وہ بچے سالہا سال غلامی کی زنجیروں میں بندھے رہتے ہیں اور ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ وہ تشدد کا نشانہ بھی بنیں تو اپنے والدین کو نہیں بتاتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والدین پیشگی تنخواہ لے چکے ہیں اور وہ انہیں اس مشکل سے نجات نہیں دلوا سکتے۔ گھر کے مالک کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ انہوں نے چونکہ ملازم بچے کی تنخواہ پیشگی ادا کر دی ہے لہٰذا یہ ان کا خریدا ہوا غلام ہے اور وہ جو چاہیں اس کے ساتھ سلوک کریں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔ پنجاب کے علاوہ کسی صوبے میں گھریلو بچہ مزدوری روکنے کا قانون نہیں ہے۔ 2019ء میں پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بنایا گیا جس کی شق 3 کے مطابق 15 برس سے کم عمر بچوں کو گھر پر ملازم نہیں رکھا جاسکتا، خلاف ورزی کرنے والے کو قیداور جرمانے کی سزاہوسکتی ہے۔اگر بچہ 12 سال سے کم عمر ہے تو مالک کو ایک ماہ کی قید ہوسکتی ہے اور اگر 12 سے 15 سال کا ہے تو 10 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ چائلڈ ڈومیسٹک لیبر جرم ہے مگر اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی اطلاع کے حوالے سے کوئی ہیلپ لائن موجود نہیں ہے۔ ابھی تک جتنے بھی مزدور بچے سامنے آئے وہ اس لیے نہیں آئے کہ انہیں غیر قانونی طور پر گھر میں ملازم رکھا گیا بلکہ اس لیے آئے کہ ا ن پر تشدد ہوا۔ چائلڈ ویلفیئر بیورو کو اس وقت رپورٹ ہوتی ہے جب بچے پر تشدد کیا گیا ہو اور پھر بیورو اس پر کارروائی کرتا ہے۔ چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کی اطلاع کیلئے کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے لہٰذا حکومت کو اس حوالے سے آسان اور بہترین رپورٹنگ سسٹم قائم کرنا ہوگا۔سول سوسائٹی گھریلو بچہ مزدوری کے خلاف کافی عرصہ سے آواز اٹھا رہی تھی۔ یہ مزدوری کی بدترین شکل ہے لہٰذا اس کے لیے کم از کم عمر 18 برس کی جائے تاکہ ان کے پاس شناختی کارڈ ہو اور نوکری کا معاہدہ ہوسکے جس کی کاپی لیبر ڈیپارٹمنٹ میں جمع کروائی جائے اور ان بچوں کو تمام بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ ملازمت کے حقوق بھی دیے جائیں۔اگر بچہ کم عمر ہوگا تو وہ معاہدے کے حق سے محروم رہے گا۔ آئین پاکستان اور پنجاب مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ، 16 برس کی عمر تک کے بچے کو مفت اور لازمی تعلیم کی ضمانت دیتے ہیں۔ میرے نزدیک 15 سال کی عمر کے بچے کو گھریلو ملازمت کی اجازت دینا آئین اور قانون سے متصادم ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اس پر نظر ثانی کرے اور اسے بہتر بنایا جائے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال پر دستخط کر رکھے ہیں اور اس پر عملی اقدامات کا پابند بھی ہے لہٰذا اس حوالے سے موثر اقدامات کرنے چاہئیں اور سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں، قانون پر عمل کریں اور بچوں کی زندگیاں برباد نہ کریں۔
Load Next Story