کرپشن کے جن کو قابو کرنے کیلیے قانونی منتر تجویز
10کروڑ روپے جرمانہ اور 10 سال قید کی سفارش کردی گئی
کھیلوں میں کرپشن کے جن کو قابو کرنے کیلیے پی سی بی نے قانونی منتر تجویز کردیے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کھیلوں میں کرپشن کی روک تھام کیلیے قانون سازی کی کوشش کررہا ہے،اس حوالے سے تجاویز وزیر اعظم اور پی سی بی کے چیف پیٹرن عمران خان کو پیش کردی گئی ہیں، نمائندہ ''ایکسپریس'' کے پاس بھی اس کی کاپی موجود ہے،''لیجسلیشن آن دی پریوینشن آف کرپشن ان اسپورٹس'' (کھیلوں کو بدعنوانی سے بچانے کیلیے قانون سازی) کے نام سے 77 صفحات پر مشتمل تجاویز تیار کی ہیں،اس میں بیشتر حصہ اپنے اینٹی کرپشن کوڈ اور سری لنکا میں حال ہی میں بننے والے قانون کا ہے۔
آغاز میں بتایا گیا کہ زمانہ قدیم کے اولمپکس سے ہی کھیلوں کے نتائج میں گڑبڑ کی مثالیں موجود ہیں، ریسنگ، باکسنگ، پینٹاتھلون اور ریسلنگ اس سے زیادہ متاثر ہوئے، پاکستان کرکٹ میں فکسنگ دہائیوں پہلے سامنے آئی اور اس نے ملکی امیج اور ساکھ کو نقصان پہنچایا، 1998میں جب یہ باتیں زیادہ بڑھیں تو اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جسٹس ملک محمد قیوم کی زیرسربراہی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا،اس کی رپورٹ مئی 2000میں سامنے آئی،اس کے نتیجے میں 8 کرکٹرز پرجرمانے عائد ہوئے جبکہ ایک پر تاحیات پابندی لگی،دیگر کے حوالے سے بھی کئی سفارشات سامنے آئیں۔
2010میں بھی تین پاکستانی کرکٹرز اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوئے اور ان پر نہ صرف پابندی لگی جبکہ بیرون ملک جیل تک جانا پڑا،اس سے دیگر کو سبق سیکھنا چاہیے تھا مگربدقسمتی سے ایسا نہ ہوا اور مزید کئی فکسنگ کے واقعات سامنے آئے جس میں پاکستانی کھلاڑی ملوث ہوئے۔
پی سی بی نے کرکٹ سے کرپشن کو ختم کرنے کیلیے کافی اقدامات کیے، اینٹی کرپشن کوڈ بنایا،ایجوکیشن دینے کا سلسلہ شروع کیا، کرپٹ کرکٹرز کو پابندیوں اور جرمانوں کی سزائیں سنائیں، حال ہی میں عمر اکمل مشکوک روابط کی رپورٹ نہ کرنے پر تین سالہ پابندی کی زد میں آئے، البتہ اب اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے۔ بورڈ نے نہ صرف کرپٹ کھلاڑیوں،بکیز اور سہولت کاروں کو سخت سزائیں دینے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دوسرے کے ساتھ تعاون کا پابند بنانے کی تجاویز بھی دی ہیں۔
مختلف ادوار میں متعارف کرائے جانے والے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاکہ پاکستان پینل کوڈ1860، شریعہ ایکٹ 1991،نیب آرڈیننس 1993، ایف آئی اے ایکٹ 1974 اور صوبوں کے طرف سے 80 کی دہائی کے اوخر میں متعارف کرائے جانے والے گیمبلنگ ایکٹ سمیت بیشتر قوانین کے تحت کھیلوں میں کرپشن کرنے والوں کو گرفت میں لانا اور جیلوں میں بھیجنا ممکن نہیں۔
پی سی بی اپنے اینٹی کرپشن کوڈ کے تحت صرف کرکٹرز، آفیشلز، فرنچائز ٹیموں سے وابستہ افراد کے خلاف مخصوص حد تک کارروائی کرتے ہوئے جرمانے اور پابندی کی سزائیں دے سکتا ہے،کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے بکیز، سہولت کار اور کھیل کو اپنے مفادات کیلیے استعمال کرنے والے افراد بچ جاتے ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے کہا گیاکہ تمام کھیلوں کو شامل کرتے ہوئے کرپشن کی اقسام کو واضح کرکے موثر قانون سازی کی جائے، میچ کے نتیجے، صورتحال کو تبدیل کرنے یا اس پر اثر انداز ہونے کیلیے رقم یا کوئی فائدہ حاصل کرنے والے کھلاڑیوں، ملوث یا راغب کرنے والے افراد، کسی بھی میچ یا ٹورنامنٹ میں جوا کرانے والوں، اس مکروہ دھندے میں ساتھ دینے والے امپائرز، میچ ریفریز، کیوریٹرز، سپورٹ اسٹاف میں سے کسی کا بھی جرم ثابت ہوجائے تو 10 کروڑ روپے جرمانہ یا 10 سال قید کی سزا یا دونوں دینے کا قانون بنا دیا جائے۔
ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ قانون نافذ کرنے والے متعلقہ ادارے قومی اور بین الاقوامی اسپورٹس تنظیموں کے ساتھ معاہدہ کریں، اس کے تحت ان سب کو کھیلوں میں کرپشن اور فکسنگ وغیرہ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے کا پابند کیا جائے، خفیہ شکایات درج کرانے کا نظام بنایا جائے، کھیلوں سے وابستہ افراد کو قبل از وقت خطرات سے آگاہی دینے کیلیے موثر اقدامات ہونے چاہئیں، کرپشن کی رپورٹنگ کا سسٹم بنایا جائے۔
کیسز کی پیش رفت میں سامنے آنے والے گواہوں کے تحفظ کا بھی انتظام کیا جائے، تمام اسٹیک ہولڈرزکھیلوں کو شفاف رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائیں،خصوصی اسٹاف کا تقرر اور ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے،رپورٹنگ سسٹم بھی بنایا جائے۔
پی سی بی کی جانب سے کہا گیاکہ ہم نے گذشتہ دنوں فکسنگ کے حوالے سے قانون سازی کرنے والے سری لنکا کے تجربے سے فائدہ اٹھایا ہے،پاکستان اپنی صورتحال کے مطابق فیصلے کرسکتا ہے، قانون اور بین الصوبائی رابطہ امور کی وزارتیں، پارلیمانی ڈرافٹسمین بخوبی اس مسودے کا جائزہ لینے اور حتمی شکل دینے کی صلاحیت و صوابدید رکھتے ہیں،ہماری درخواست ہے کہ آئندہ کارروائی میں پی سی بی کو بھی شامل رکھا جائے۔
یاد رہے کہ رکن اقبال محمد علی کچھ عرصے قبل کھیلوں میں فکسنگ کی روک تھام کیلیے قانون بنانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر چکے ہیں،اس کی تفصیلات چند روز قبل ''ایکسپریس'' میں شائع ہوئی تھیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کھیلوں میں کرپشن کی روک تھام کیلیے قانون سازی کی کوشش کررہا ہے،اس حوالے سے تجاویز وزیر اعظم اور پی سی بی کے چیف پیٹرن عمران خان کو پیش کردی گئی ہیں، نمائندہ ''ایکسپریس'' کے پاس بھی اس کی کاپی موجود ہے،''لیجسلیشن آن دی پریوینشن آف کرپشن ان اسپورٹس'' (کھیلوں کو بدعنوانی سے بچانے کیلیے قانون سازی) کے نام سے 77 صفحات پر مشتمل تجاویز تیار کی ہیں،اس میں بیشتر حصہ اپنے اینٹی کرپشن کوڈ اور سری لنکا میں حال ہی میں بننے والے قانون کا ہے۔
آغاز میں بتایا گیا کہ زمانہ قدیم کے اولمپکس سے ہی کھیلوں کے نتائج میں گڑبڑ کی مثالیں موجود ہیں، ریسنگ، باکسنگ، پینٹاتھلون اور ریسلنگ اس سے زیادہ متاثر ہوئے، پاکستان کرکٹ میں فکسنگ دہائیوں پہلے سامنے آئی اور اس نے ملکی امیج اور ساکھ کو نقصان پہنچایا، 1998میں جب یہ باتیں زیادہ بڑھیں تو اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جسٹس ملک محمد قیوم کی زیرسربراہی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا،اس کی رپورٹ مئی 2000میں سامنے آئی،اس کے نتیجے میں 8 کرکٹرز پرجرمانے عائد ہوئے جبکہ ایک پر تاحیات پابندی لگی،دیگر کے حوالے سے بھی کئی سفارشات سامنے آئیں۔
2010میں بھی تین پاکستانی کرکٹرز اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوئے اور ان پر نہ صرف پابندی لگی جبکہ بیرون ملک جیل تک جانا پڑا،اس سے دیگر کو سبق سیکھنا چاہیے تھا مگربدقسمتی سے ایسا نہ ہوا اور مزید کئی فکسنگ کے واقعات سامنے آئے جس میں پاکستانی کھلاڑی ملوث ہوئے۔
پی سی بی نے کرکٹ سے کرپشن کو ختم کرنے کیلیے کافی اقدامات کیے، اینٹی کرپشن کوڈ بنایا،ایجوکیشن دینے کا سلسلہ شروع کیا، کرپٹ کرکٹرز کو پابندیوں اور جرمانوں کی سزائیں سنائیں، حال ہی میں عمر اکمل مشکوک روابط کی رپورٹ نہ کرنے پر تین سالہ پابندی کی زد میں آئے، البتہ اب اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے۔ بورڈ نے نہ صرف کرپٹ کھلاڑیوں،بکیز اور سہولت کاروں کو سخت سزائیں دینے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دوسرے کے ساتھ تعاون کا پابند بنانے کی تجاویز بھی دی ہیں۔
مختلف ادوار میں متعارف کرائے جانے والے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاکہ پاکستان پینل کوڈ1860، شریعہ ایکٹ 1991،نیب آرڈیننس 1993، ایف آئی اے ایکٹ 1974 اور صوبوں کے طرف سے 80 کی دہائی کے اوخر میں متعارف کرائے جانے والے گیمبلنگ ایکٹ سمیت بیشتر قوانین کے تحت کھیلوں میں کرپشن کرنے والوں کو گرفت میں لانا اور جیلوں میں بھیجنا ممکن نہیں۔
پی سی بی اپنے اینٹی کرپشن کوڈ کے تحت صرف کرکٹرز، آفیشلز، فرنچائز ٹیموں سے وابستہ افراد کے خلاف مخصوص حد تک کارروائی کرتے ہوئے جرمانے اور پابندی کی سزائیں دے سکتا ہے،کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے بکیز، سہولت کار اور کھیل کو اپنے مفادات کیلیے استعمال کرنے والے افراد بچ جاتے ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے کہا گیاکہ تمام کھیلوں کو شامل کرتے ہوئے کرپشن کی اقسام کو واضح کرکے موثر قانون سازی کی جائے، میچ کے نتیجے، صورتحال کو تبدیل کرنے یا اس پر اثر انداز ہونے کیلیے رقم یا کوئی فائدہ حاصل کرنے والے کھلاڑیوں، ملوث یا راغب کرنے والے افراد، کسی بھی میچ یا ٹورنامنٹ میں جوا کرانے والوں، اس مکروہ دھندے میں ساتھ دینے والے امپائرز، میچ ریفریز، کیوریٹرز، سپورٹ اسٹاف میں سے کسی کا بھی جرم ثابت ہوجائے تو 10 کروڑ روپے جرمانہ یا 10 سال قید کی سزا یا دونوں دینے کا قانون بنا دیا جائے۔
ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ قانون نافذ کرنے والے متعلقہ ادارے قومی اور بین الاقوامی اسپورٹس تنظیموں کے ساتھ معاہدہ کریں، اس کے تحت ان سب کو کھیلوں میں کرپشن اور فکسنگ وغیرہ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے کا پابند کیا جائے، خفیہ شکایات درج کرانے کا نظام بنایا جائے، کھیلوں سے وابستہ افراد کو قبل از وقت خطرات سے آگاہی دینے کیلیے موثر اقدامات ہونے چاہئیں، کرپشن کی رپورٹنگ کا سسٹم بنایا جائے۔
کیسز کی پیش رفت میں سامنے آنے والے گواہوں کے تحفظ کا بھی انتظام کیا جائے، تمام اسٹیک ہولڈرزکھیلوں کو شفاف رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائیں،خصوصی اسٹاف کا تقرر اور ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے،رپورٹنگ سسٹم بھی بنایا جائے۔
پی سی بی کی جانب سے کہا گیاکہ ہم نے گذشتہ دنوں فکسنگ کے حوالے سے قانون سازی کرنے والے سری لنکا کے تجربے سے فائدہ اٹھایا ہے،پاکستان اپنی صورتحال کے مطابق فیصلے کرسکتا ہے، قانون اور بین الصوبائی رابطہ امور کی وزارتیں، پارلیمانی ڈرافٹسمین بخوبی اس مسودے کا جائزہ لینے اور حتمی شکل دینے کی صلاحیت و صوابدید رکھتے ہیں،ہماری درخواست ہے کہ آئندہ کارروائی میں پی سی بی کو بھی شامل رکھا جائے۔
یاد رہے کہ رکن اقبال محمد علی کچھ عرصے قبل کھیلوں میں فکسنگ کی روک تھام کیلیے قانون بنانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر چکے ہیں،اس کی تفصیلات چند روز قبل ''ایکسپریس'' میں شائع ہوئی تھیں۔