کورونا کے خلاف جنگ جیتنا ہو گی

اپنی سوچ وفکرکے ساتھ لائف اسٹائل کو بھی عوامی رنگ دینا ہوگا تب کہیں جاکر ہم کورونا وائرس کے خلاف یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔

اپنی سوچ وفکرکے ساتھ لائف اسٹائل کو بھی عوامی رنگ دینا ہوگا تب کہیں جاکر ہم کورونا وائرس کے خلاف یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وبا روکنے کے لیے اقدامات اور معیشت میں توازن کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے قیام کو100دن مکمل ہونے پر انھوں نے سینٹرکا دورہ کیا اورکورونا وائرس کے خلاف ملک بھر میں مربوط اقدامات کو یقینی بنانے میں ادارے کی کاوشوں کو سراہا۔

کورونا وائرس کے خلاف پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک نبرد آزما ہیں۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی اپنے اپنے طور پر اس وائرس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے اقدامات کررہی ہیں۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل جنگ ہے، جو بڑی جرات اور حوصلے سے لڑی جا رہی ہے، ہم اس بات سے قعطاً انکار نہیں کرسکتے کہ وزیراعظم عمران خان ملک اورعوام کی بہتری اور خوشحالی کے لیے کوشاں ہیں۔

قومی سطح پر ہمارا مقابلہ کورونا کے ساتھ ساتھ غربت، مہنگائی اوربیروزگاری کے ساتھ بھی ہے،اس لیے حکومت اور قیادت ہر فیصلہ زمینی حقائق سامنے رکھ کر کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وباء کے دوران غریب مزدور، دیہاڑی دار اور پسے ہوئے طبقے کو احساس پروگرام کے تحت ریلیف پیکیج دے کر عوام اور انسان دوستی کا ثبوت دیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے بالکل صائب کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی آج پوری دنیا اختیارکر رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے باعث کورونا کیسز میں کمی آئی اور کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی شرح تسلی بخش ہے۔ایس او پیز پر عملدرآمد سے کورونا پرکافی حد تک کنٹرول پالیا گیا ہے۔کورونا ابھی مکمل ختم نہیں ہوا خطرہ اب بھی موجود ہے۔

حکومتی موقف کے مطابق ملک میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے بہترین نتائج مل رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اعداد وشمار ظاہر کر رہے ہیں کہ کورونا مزید 68 زندگیاں نگل گیا ، وائرس سے سوا 2 لاکھ 25افراد ملک بھر میں متاثر ہوچکے ہیں،یعنی ابھی تک صورتحال کوحقیقی معنوں میں تسلی بخش قرارنہیں دیا جاسکتا ہے۔کورونا کوشکست دینے میں مددگار ثابت ہونے والی ادویات کہیں مہنگی توکہیں دستیاب ہی نہیں ہیں۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے صحافیوں سے گفتگوکے دوران بتایا کہ جب وہ کورونا وائرس کا شکارہوئے تو علاج میں معاون ایک انجکشن پانچ لاکھ روپے میں بھی دستیاب نہیں تھا اور بالآخر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے سربراہ نے، ان کے لیے انجکشن کی دستیابی کو ممکن بنایا۔جب ایک وفاقی وزیرکے ساتھ یہ صورتحال پیش آسکتی ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ عام آدمی کا توکوئی پرسان حال نہیں ہے۔کیا ملک میں ایک غریب یا متوسط طبقے کا آدمی پانچ لاکھ روپے کا انجکشن خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے یعنی عام آدمی کو سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جہاں میڈیکل اسٹورز پر ایسے بینرز بھی آویزاں تھے جن میںسونے کے زیورات یا جائیداد کے کاغذات کے بدلے ادویات کی دستیابی کا لکھا تھا۔ یہ کیسی بے حسی اور سفاکیت ہے ہماری منافع خور مافیازکی کہ ادویات خریدنے کے لیے عام آدمی کو اپنا تن، من، دھن رہن رکھنا پڑے۔ بخار،کھانسی، نزلہ اور زکام کی ادویات کو ڈاکٹرز اہمیت دے رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ طلب کا بڑھنا قیمتوں کو بڑھا دیتا ہے۔ ادویات کو ذخیرہ کردیا گیا ہے اور جو میڈیکل اسٹورز پرموجود ہیں وہ مہنگے داموں میں بک رہی ہیں۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ صحت کے معاملے میں بھی کرپشن کو روکنے اور دیکھنے والا کوئی نہیں ، ڈرگس انسپکٹر بھی آنکھیں موندے بیٹھے ہیں، چیک اینڈ بیلنس کا فقدان ہے۔کورونا کے ابتدائی ایام میں فیس ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر سمیت آکسیجن سلنڈزکی مہنگے داموں فروخت سے جہاں منافع خوروں نے فائدہ اٹھایا وہیں مجبور اور متاثرہ افراد کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید نقصان سے بچنے اور ادویات کی قیمتوں میں کمی پرعملدرآمد کروانے کے لیے ڈرگس انسپکٹرزکو حرکت میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومتی پالیسیوں پرکیا رائے دی جاسکتی ہے؟ وزیراعظم نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران تعمیراتی شعبے کوکھولنے کا اعلان کیا، لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو یہ شعبہ تاحال مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک جائیداد کی خریدوفروخت اور تعمیرات کے لیے عائد ٹیکسزکی بھاری شرح میں کمی نہیں لائی جائے گی اور حکومتی سطح پر ریلیف نہیں دیا جائے گا، اس وقت تک یہ شعبہ فعال نہیں ہوسکتا۔


اب ذرا بات کرتے ہیں اپنی قومی سیاسی قیادت کی۔ کیا ان بحران کے دنوں میں ہمارے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی نے اپنی مستحکم مالی حیثیت کے باوجود اپنے اپنے حلقے کے غریب عوام کی اپنی جیب سے مدد کی ہے؟ کیا انھوں نے اپنی تنخواہوں میں کٹوتی کروا کر کورونا وائرس کے خلاف فنڈز میں عطیات دیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر رکن اسمبلی اپنی مراعات کو مکمل طور پر انجوائے کررہا ہے۔

پالیسی ساز ادارے کے اراکین کو اس مشکل کی گھڑی میں صرف بیانات کی علت سے چھٹکارا پانا چاہیے تھا اور عملی طور پر اپنی ذاتی جیب سے کورونا سے متاثرہ گھرانوں کی بھرپورمددکرنی چاہیے تھی، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ بات چل نکلی ہے تو ذرا ذکر ہوجائے، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کا۔ وسیع وعریض عمارات جو محلات کے مترادف ہیں اوران پر آنے والے بھاری بھرکم اخراجات جوکروڑوں روپے ماہانہ بنتے ہیں، قومی خزانے پر بوجھ ہیں،جوتبدیلی کے دعوے کے ساتھ برسراقتدارآئے ہیں، انھیں چاہیے تھاکہ وہ سارا سیٹ اپ ایک عمارت میں منتقل کرتے جہاں پر تمام امورسرانجام پاتے۔

ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کی عمارتوں کی دیکھ بھال پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں، ان کی بھی بچت کی جاسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے قومی بجٹ پیش کردیا ہے لیکن اس میں عوامی دلچسپی اورمفادکا عنصر ناپید ہے،جب حکومت بجٹ میں پٹرول، بجلی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں تک تعین کرنے کی مجاز نہیں ہے تو پھرکیا بجٹ صرف عوام پر ٹیکس عائد کرنے کے لیے لایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پالتو جانوروں کتے اور بلیوں کی خوراک امپورٹ کی جاتی ہے حتیٰ کہ بعض پولٹری فیڈز بھی باہرسے منگوائی جاتی ہیں۔

خشک دودھ تک باہر سے امپورٹ کیے جارہے ہیں، یعنی ہمارا سرمایہ بیرون ملک جارہا ہے جب کہ المیہ یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک میں لائیو اسٹاک کا شعبہ مکمل طور پر نظراندازکردیا گیا ہے۔ حکومت سنجیدگی سے اس شعبہ پر توجہ مرکوزکرے تو نہ صرف ہم ملکی ضروریات کے مطابق دودھ کی فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ ڈیری کی اشیاء ایکسپورٹ کرکے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ بھینس کے دودھ میں فل کریم ہوتی ہے۔ ایسے میں بھلا ہم کیوں جاپان سے مہنگا خشک دودھ منگوا رہے ہیں۔

ہمیں ملکی ترقی کے لیے لائیو اسٹاک کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بجٹ میں فلاحی اداروں کے زیرانتظام چلنے والے پروجیکٹس کو 29 ارب روپے کی ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے، یعنی بلیک منی کو وائٹ کرنے میں حکومت معاون ثابت ہورہی ہے اور ٹیکسز کا بوجھ عوام پر براہ راست جی ایس ٹی ، ایکسائز اور انکم ٹیکس کی صورت میں ڈالاجارہا ہے۔

لاک ڈاؤن اور وائرس کے پھیلاؤکے سبب ہوٹلز انڈسٹری تباہی کے دہانے پرکھڑی ہے، وہیں پر ان میں کام کرنے والے ہزاروں ویٹرز اورکاریگر بے روزگار ہوچکے ہیں،گوکہ کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ملک بھر میں تمام کاروبارمخصوص اوقات میںکھل گئے ہیں لیکن ہوٹلزکو صرف پارسل کے لیے کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ملک بھر میں سورج آگ برسا رہا ہے جب کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھرکردیا ہے، لاہور سمیت پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اورگردونواح میں غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

بجلی کی گھنٹوں بندش نے عوام کو اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ کراچی میں پندرہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلزبھی بہت زیادہ آرہے ہیں،کراچی جیسے صنعتی شہر کو بجلی تواتر سے نہیں مل رہی ہے۔ بجلی کی مکمل سہولت فراہم کیے بغیر قیمت میں اضافہ عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے، عوام بل دیتے ہیں تو سروسز فراہم کرنا نجی پاورکمپنیوں کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر کراچی بجلی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے ۔

لاہور میں تندورمالکان نے روٹی اور نان کی قیمتوں میں ازخود اضافہ کردیا ہے ۔شہرکے بیشتر علاقوں میں روٹی کی قیمت میں دو روپے جب کہ نان میں تین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ روٹی دوروپے اضافے کے بعد آٹھ روپے جب کہ نان تین روپے اضافے کے بعد15روپے کا ہوگیا ہے۔

دوسری طرف شہریوں نے از خود اضافے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح غریب بھوکا مرجائے گا۔ گندم کی قیمت 1400 روپے سے بڑھ کر1800روپے فی من ہوگئی جب کہ فائن آٹے کے تھیلے کی قیمت 3900روپے سے بڑھ کر 4500روپے ہو گئی۔ جو مافیا آٹا مہنگا کررہی ہے اس کے خلاف حکومتی سطح پر کیا کارروائی ہورہی ہے، اس سے عوام لا علم ہیں۔

ہمارے حکمران طبقات خود توکئی کئی کینالز پر مشتمل محلات میں رہ رہے ہیں لیکن جب ٹیکس دینے کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہمارے ذرایع آمدن نہیں ہیں۔جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی عملی طور پر عوامی مفاد کے لیے کچھ کرنے میں ناکام ہیں، انھیں اپنی سوچ وفکرکے ساتھ لائف اسٹائل کو بھی عوامی رنگ دینا ہوگا تب کہیں جاکر ہم کورونا وائرس کے خلاف یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔
Load Next Story