بزرگوں کا غیر محفوظ مستقبل

ہمارا مذہب بھی ہمیں اپنے والدین کی اطاعت، احترام اور ان کی خدمت اوربڑھاپے میں ان کا خصوصی طورپرخیال رکھنے کادرس دیتاہے


Muhammad Saeed Arain July 06, 2020
[email protected]

وہ دور تقریباً ختم ہی ہو چکا جب لوگ اپنی اولاد کو اپنے مستقبل بلکہ بڑھاپے کا سہارا سمجھتے تھے اور اپنی اولاد نرینہ سے یہ توقع رکھتے تھے کہ جیسے ہم نے اپنے بیٹوں کو پال پوس کر بڑا کیا۔

اپنی بساط کے مطابق انھیں تعلیم دلائی، اپنے طور ان کی تربیت کی اور ان کی شادی کے فرض کو ادا کرکے سمجھ بیٹھے کہ اب انھیں سکون میسر آجائے گا اور وہ جوان بیٹوں کے سہارے زندگی گزاریں گے اور باقی عمر اللہ اللہ کرکے عزت سے گزار لیں گے۔

ہمارا مذہب بھی ہمیں اپنے والدین کی اطاعت، احترام اور ان کی خدمت اور بڑھاپے میں ان کا خصوصی طور پر خیال رکھنے کا درس دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ اپنے والدین سے اونچی آواز میں بات بھی نہ کرو اور ان کی بزرگانہ زندگی میں ان کا اسی طرح خیال رکھو جیسا وہ تمہارے بچپن میں تم سب کا خیال رکھتے تھے۔

گزشتہ دنوں دنیا بھر میں فادر ڈے منایا گیا اور ماؤں کا عالمی دن بھی دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ عالمی دن ہمیں اپنے والدین کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے مغرب میں شاید اس لیے شروع کیے گئے ہوں گے کہ سال میں ایک دن ماں اور باپ کے لیے الگ الگ اس لیے مخصوص کیے کہ اولاد کو احساس ہو کہ ان کے والدین کو اب اپنی اولاد کی مدد کی ضرورت ہے،کیونکہ بڑھاپے میں اب وہ کمانے اور اپنا خیال رکھنے کے قابل نہیں رہے ہیں اور اب انھیں اپنی اولاد کے سہارے پر باقی زندگی بسرکرنی ہے اور اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں اپنے بچوں کے بچے انھیں اولاد سے زیادہ پیارے لگتے ہیں ، جو ان کا خیال بھی رکھتے ہیں۔

کئی عشروں سے مہنگائی اور بے روزگاری اور بگڑے ماحول میں یہ حالات ہو چکے ہیں کہ جو باپ غربت کے باوجود اپنے کئی بچوں کو پال لیتا تھا اب کئی بچے مل کر بھی اپنے ضعیف ماں باپ کو نہیں سنبھال پاتے اور مختلف وجوہات کے باعث انھیں ماں باپ بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔

اگر ماں باپ کا اپنا گھر نہ ہو تو اولاد ان کی زندگی کو مزید عذاب بنا دیتی ہے اور کرائے کے گھروں میں رہتے ہوئے وہ اپنے والدین کے لیے اپنے گھر میں جگہ نہیں پاتے یا ان کی بیویاں، ساس، سسر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں توگھر میں ایسا ماحول پیدا کردیا جاتا ہے کہ اگر وسائل ہوں تو والدین خود ہی الگ ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جن کے پاس مالی وسائل نہ ہوں تو ان کے پاس دارالامان ایدھی سینٹروں یا فلاحی اداروں کے خیراتی سینٹروں میں پناہ لینے کے لیے کوئی متبادل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔

یہ بھی ہو رہا ہے کہ اولاد اپنے بزرگوں سے دور رہنے کے لیے انھیں ایسے مراکز میں خود چھوڑ آتی ہے اور بعض لاوارث ہوجانے والے والدین کو وہاں جاکر تہواروں پر بھی نہیں پوچھا جاتا اور وہ اپنی اولاد ہونے کے باوجود ان سے دور اپنے بچوں کی محبت میں روتی اور ترستی رہتی ہے جس کے مناظر ٹی وی چینلز مذہبی تہواروں پر خاص طور پر دکھاتے ہیں۔

اسلام میں اولاد کو بڑھاپے تک ماں باپ کا ازحد خیال رکھنے کی تو تلقین کی گئی ہے اور ماں باپ کی نافرمانی پرگناہ کا عذاب ہے مگر دنیاوی قوانین ماں باپ کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہے نہ والدین کے ساتھ زیادتی اور نافرمانی کی کوئی سزا مقرر ہے جس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اسلامی ملک میں والدین کا مستقبل غیر محفوظ ہو چکا ہے اور والدین مجبور اور اپنی اولاد کے محتاج بن کر زندگی گزار رہے ہیں اور قانون میں اس کی کوئی سزا نہیں بس غیر اخلاقی ضرور تصور ہے۔

والدین کے اس اہم مسئلہ کو سندھ کے سابق آئی جی پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رانا مقبول احمد نے ضرور محسوس کیا اور انھوں نے سینیٹ آف پاکستان سے ایک قانون منظور کرالیا ہے اور ایوان بالا سے معمر والدین اور بزرگ شہریوں کی فلاح کے لیے یہ بل ملک کی تاریخ میں پہلی بار منظور ہوا ہے جس کا سہرا سینیٹ اراکین کے سر جاتا ہے۔

یہ بل سینیٹ نے 8 جون کے اجلاس میں منظورکیا جس میں بزرگ والدین کے لیے جامع اقدامات تجویزکیے گئے ہیں، جس کے تحت چھ ماہ میں اس سلسلے میں ویلفیئر کمیشن قائم کیا جائے گا، جو بزرگ شہریوں کی معاشرتی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی بہبود کے لیے پالیسی تشکیل دے گا۔ کمیشن میں 60 سال عمر سے زائد کے 3 سینیٹر، 3 قومی اسمبلی کے ارکان، ایک وزیر اور ایک سیکریٹری شامل ہوں گے اور ایسے شہریوں کے لیے خصوصی کارڈز جاری اور فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

وفاقی حکومت ضرورت کے مطابق اولڈ ایچ ہومز تعمیر کرے گی اور بزرگوں کے لیے مختص ایسے پارکوں، لائبریریوں اور میوزیم میں داخلہ مفت، اسپتالوں، بینکوں اور عوامی مقامات پر خصوصی کاؤنٹر اور والدین کی دیکھ بھال اور خرچے کی ذمے داری بچوں پر اور والدین سے توہین آمیز رویے پر سزا بھی مقرر ہوگی۔ اراکین سینیٹ نے تو اپنا کام کردیا ہے، اب اللہ ہی حکومت کو اس نیک کام کی توفیق دے مگر امید کوئی نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں