جنگ آزادی کی عظیم ہیروئن بودیکا

میں بھی اس عظیم انقلابی خاتون رہنما کو تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں

zb0322-2284142@gmail.com

لاہور:
آسینک سیلٹک قبیلے کی سربراہ جنھوں نے اکسٹھویں صدی میں رومیوں کے برطانیہ کی متعدد قوموں پر حملے کے خلاف اپنی مادر وطن کی حفاظت کے لیے جنگ لڑی۔ انھوں نے دو لاکھ تیس ہزار بریٹونین کے دفاع کی حمایت میں خواتین کی بہت بڑی تعداد کو مجتمع کیا، مگر وہ ناکام ہوئیں۔ تقریباً اسی ہزار بریٹونین یعنی سیلٹک مارے گئے۔ بودیکا کو کھلے عام رومیوں نے ان کی دو کم سن بچیوں سمیت جو نو اور گیارہ سال کی تھیں بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔ یہ بات معروف مصنف یوسف شاہین نے اپنی کتاب نیشنز انڈر برٹش مونارک میں بودیکا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہی ہے۔

میں بھی اس عظیم انقلابی خاتون رہنما کو تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں۔ تاج برطا نیہ کے ماتحت آج بھی تیس نو آبادیاں موجود ہیں۔ ان غلام قوموں میں سے چند کا میں تذکرہ کر رہا ہوں۔ پہلے آسڑیلیا۔ اس کے ساتھ تسمانیہ اور بے نام چھوٹے چھو ٹے جزیرے ہیں۔ سترہ سو اٹھاسی سے انیس سو تک قبضے کے دوران پچانوے فیصد مقامی آبادی کا قتل عام کیا اور تباہ و برباد کیا۔ انیسویں صدی کے برطانوی ماہر حیاتیات اور جغرافیہ داں چارلس ڈارون نے لکھا تھا کہ ہر جگہ پہ یورپیوں کے پاؤں کے نشان پائے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کی مقامی آبادی پر جدید ہتھیاروں سے ایسے گولیاں ماری جا رہی تھیں جیسے جانوروں کا شکار کیا جاتا ہو۔ مقامی آبادی بیماریوں کی شکار ہو رہی تھی۔ خواتین کی بے حرمتی کی جاتی رہی۔ بچوں کو ان کی ماؤں کی گود سے چھینا گیا۔

انیس سو ستر تک مسلسل تاج برطانیہ کے ماتحت انھیں اغوا کیا جاتا رہا۔ عملاً کینیڈا کے بعد آسٹریلیا تاج برطانیہ کی دوسری بڑی نوآبادی ہے۔ دو سو سولہ مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی دو کروڑ بیالیس لاکھ چورانوے ہزار ستاون تھی۔ نیوزی لینڈ مقامی مایوری کی سرزمین آیوٹیاروا اٹھارہ سو چالیس سے برطانیہ کی نو آبادی ہے۔ چھ فروری اٹھارہ سو چالیس سے نیوزی لینڈ کے آدھے باسییوں نے برطانیہ کی کوئین وکٹوریہ کے خلاف علم بغاوت کی۔

برطانیہ کے نمایندوں نے دھوکہ دہی کرکے ویٹنگی نام کا ایک معاہدہ کیا جس میں لکھا تھا کہ مقامی آبادی نے نیوزی لینڈ کو ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ اس دستاویز پر پانچ سو چالیس موروی عوام بشمول تیرہ عورتوں کے دستخط حاصل کیے اور نیوزی لینڈ بھر میں تقسیم کیے۔ بعد میں یہ بتایا گیا کہ مقامی آبادی نے اپنی زمین کا پچانوے فیصد حصہ برطانوی نوآباد کاروں کو فروخت کر دیا۔ بعدازاں برطانوی نوآباد کاروں نے یہ دعویٰ کیا کہ اٹھارہ سو چالیس میں ساری زمین برطانیہ کے حوالے کردی گئی تھی۔

اٹھارہ سو باسٹھ سے مقامی مایوری مقامی آبادی کا صفایا کر دیا گیا۔ صرف ایک سو ایک افراد اپنا وجود باقی رکھ سکے۔ انیس سو سات میں شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم نے دعویٰ کیاکہ نیوزی لینڈ اب برطانیہ کے ماتحت نوآبادی ہے۔ اس وقت ملکہ ایلزبتھ دوم اس کی سربراہ ہیں اور گورنر جنرل نیوزی لینڈ پر حکم رانی کرے گا۔ چار جون انیس سو سولہ کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی کل آبادی پینتالیس لاکھ انسٹھ ہزار تین سو اکہتر ہے۔ کینیڈا کو کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پارلیمانی نظام کے تحت چلنے والا ملک ہے لیکن حقیقت میں یہ برطانوی استعمار کی نوآبادی کے طور پہ اٹھارہ سو سڑسٹھ سے چلا آ رہا ہے۔

یہ ایک ایسا بڑا قبرستان ہے جہاں مقامی آبادی کو دفنایا گیا ہو۔ اب ملکہ الزبتھ دوم کے ماتحت دس صوبوں پر مشتمل ہے۔ وہ اس خطے کو ذاتی طور پر گورنر جنرل کی نمایندگی کے ذریعے چلاتی ہے۔ کینیڈا کا خطہ ایٹلانٹک سے پیسفک اور شمال بعید میں آرٹیک سمندر تک نو اعشاریہ آٹھ ملین اسکوائر کلو میٹر پہ مشتمل ہے۔ یہ رقبے کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے ۔ پندرہ سو تراسی میں ایلزبتھ اول کی حکمرانی میں نیو فاؤنڈ لینڈ منظر عام پر آیا، یوں شمالی امریکا میں پہلا برطانوی نوآبادی کے طور پر یہاں آیا۔ بعدازاں سولہ سو دس میں برطانوی نوآبادی کی توسیع ہوئی جبکہ جنوب میں نو آبادیاں قائم ہوئیں، بعد میں وہ بغاوت کر کے سترہ سو چھہتر میں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ضم ہوگئے۔


دو ہزار سولہ کی مردم شماری کے مطابق کینیڈا کی آبادی تین کروڑ تریسٹھ لاکھ اکیس ہزار چار سو تھی۔ ایک ہزار چھیاسٹھ میں ولیم نے نورمین جنگجوؤں کی جانب سے انگلینڈ پر قبضہ کیا۔ قبضے کے بعد پچانوے فیصد زمین نورمین جنگجوؤں نے اپنے ناموں پہ منتقل کرلی، شمالی انگلینڈ کی آدھی آبادی کو قتل کیا اور تباہ وبرباد کیا۔

دو ہزار سولہہ کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی ترپن لاکھ بارہ ہزار چار سو چھپن تھی۔ اسکاٹ لینڈ میں بڑی بے دردی سے ایک ہزار اکانوے میں ملکم کو اقتدار منتقل کرنے کوکہا گیا جس پر اس کے انکار سے اس کے لڑکے سمیت اسے تیرہ نومبر ایک ہزار ترانوے میں نارتھ تھمبرلینڈ کے ایک جنگی معرکے میں قتل کر دیا گیا۔ بعدازاں شاہ رچرڈ گیارہ سو نواسی تا گیارہ سو ننانوے میں دس ہزار مارکس میں ولیم اول کو فروخت کر دیا۔ بارہ سو نو میں انگلینڈ کے دوسرے بادشاہ جان لیک سے شاہ ولیم نے اسکاٹ لینڈ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ چھیاسٹھ سال کے بوڑھا بادشاہ ولیم کو انکار کی جرأت نہ ہوئی اور پندرہ ہزار مارکس اور دو لڑکیوں کو میزبانی کے لیے دے دیا۔

ویلز کے سیلٹک قوم کو ایک ہزار ستانوے میں جبراً انگلینڈ کا حصہ بنا لیا گیا۔ قبضے کے دوران سیلٹک قوم نے بغاوت کی اور بادشاہ کی تجویز ماننے سے انکار کر دیا۔ بارہ سو چھہتر میں کنگ ایڈوارڈ اول نے دوبارہ ویلز میں مداخلت کی اور گیارہ ستمبر بارہ سو بیاسی میں وہاں کے حکمران لیونین ایپ گرافڈ کو گرفتار کرلیا۔ ان کے جسد خاکی کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ پھر شمالی آئرلینڈ کو اٹھارہ سو ایک میں انگلینڈ کا حصہ بنایاگیا۔ چودہ سو چورانوے تا اٹھارہ سو اڑتیس تک اٹاوک اورٹاینو، جیمیکا کی قوموں جس کا نام اس وقت زیما کا تھا پر برطانیہ اور اسپین نے مشترکہ طور پہ قبضہ کیا۔ یہاں زیادہ تر افریقی غلام لائے گیے۔

سولہ سو پچپن میں برطانیہ نے اسپین کو شکست دے دی اور جیمیکا کو فتح کرلیا۔ اب یہ برطانوی بادشاہت کے ماتحت ہے۔ الزبتھ دوم یہاں اپناگورنر مقرر کرتی ہیں ۔ باربا ڈوس پر سولہ سو پچیس میں شہنشاہ جیمز اول کی سربراہی میں برطانیہ نے قبضہ کیا۔ یہاں کی مقامی ٹاینو اور ارواک کی کم آبادی کو پرکر نے کے لیے آئرلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ سے ہزاروں مزدوروں کو لایا گیا۔ ہزاروں آئرش غلاموں کو انگریز تاجروں کے ہاتھوں فروخت کرکے بارباڈوس بھیجا گیا۔

سولہ سو تینتالیس میں سینتیس ہزار دو سو سفید فام بارباڈوس میں موجود تھے جو وہاں کی آبادی کا چھیاسی فیصد تھے۔ بعدازاں انھیں ہٹا کر افریقی، چینی، بھارتی اور دیگر علاقوں سے لوگوں کو لایا گیا تھا۔ دو ہزارسو سو لہ کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی موجودہ آبادی دو لاکھ پچاسی ہزار اکاون تھی۔ دی باہاماس امریکی سر زمین پر اکانوے فیصد افریقی آبادی کا دیش ہے ، یہ تقریباً سات سو جزیروں پر مشتمل ہے۔ پندرہ سو تیرہ سے سولہ سو اڑتالیس تک مقامی آبادی لوکایان اور ٹاینو عوام کو ان کے وطن سے نکال باہرکیا گیا۔

اسپین کے حکام نے انھیں ہسپانوی و لا میں غلام کے طور پر منتقل کیا۔ باقی خالی جگہ کو برطانوی نوآبادی برمودہ سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا گیا۔ بعد میں یہ بحری قذاقوں کا ملک بن گیا۔ سترہ سو اٹھارہ میں یہ برطانوی بادشاہیت کے تحت ایک نوآبادی بن گئی۔ چونکہ ریاست ایک جبر کا ادارہ ہے اس لیے یہاں طبقات جنم لیتے ہیں اور چند لوگ باقی لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان مسائل کا واحد حل غیر طبقاتی سوسائٹی کے قیام میں مضمر ہے۔ یہ تحریک فرانس میں پیلی جیکیٹ اور امریکا میں سیاہ فاموں کی تحریک کی شکل میں رواں دواں ہے۔اسے منطقی نتیجہ تک پہنچنا چاہیے۔
Load Next Story