ایک طرف ہیں شادیاں آسان دوسری طرف تقاریب سے جڑی ’معیشت‘ کا بحران

’’یہ شادی نہیں ہوسکتی!‘‘ جیسے مکالمے فلموں میں تو سنتے آئے ہیں لیکن کورونا وائرس نے اس کو سچ بھی ثابت کردیا


Naveed Jaan July 07, 2020
فوٹو : فائل

KARACHI: ''یہ شادی نہیں ہوسکتی!'' جیسے مکالمے فلموں میں تو سنتے آئے ہیں لیکن کورونا وائرس نے اس کو سچ بھی ثابت کردیا،جس کی وجہ سے ایک دو شادیاں نہیں رکیں، بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ان رشتوں کو بریک لگ گیا ہے، پاکستان میں عموماً فروری اورمارچ کو شادیوں کا سیزن کہا جاتا ہے۔

اس دفعہ جوں ہی یہ سیزن شروع ہوا اور ہر سو شادیانے بجنے لگے، تو 'کورونا' کے طوفان نے گویا شادی کے لیے تنے ہوئے شامیانے اور قناتیں اکھاڑ کے رکھ دیں، جو شادیاں طے تھیں، وہ رک گئیں، بہت سے مہندی لگے ہاتھوں کا رنگ پھیکا پڑ گیا، مایوں بیٹھی لڑکیوں کے عروسی جوڑا زیب تن ہونے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی، جن شادی خانہ آبادیوں کے پروگرام طے ہوچکے تھے اس پر پانی پھر گیا۔۔۔ بہت سے مجبوروں نے قرض پر بچیوں کے لیے جو جہیزکا سامان خریدا تھا وہ پڑے پڑے گرد آلود اور زنگ آلود ہونے لگا، بڑے چاؤ سے خریدے گئے۔

عروسی جوڑے کی چمک دمک ماند پڑنے لگی، شہروں میں ایڈوانس بکنگ پر لیے گئے شادی ہالوں کی بکنگ منسوخ کر دی گئی، چوں کہ شادی ایک ایساموقع ہوتا ہے، جس میں دولھا دلہن سے لے کر ان کے گھر والوں تک سبھی بڑے شوق سے دوستوں اور رشتے داروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرتے ہیں، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن نے جوڑوں اور ان کے گھر والوں کے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔۔۔

ہمارے ہاں شادیاں بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کئی ماہ چلتی ہے، پھرشادی کی تقریبات کئی روز جاری رہتی ہیں، لیکن کورونا میں یہ ساری منصوبہ بندیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ دوسری جانب لاک ڈاؤن یاباالفاظ دیگر 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' کے دنوں میں شادی کا لباس تیارکرنے والی دکانوں سے لے کر زیورات، پھولوں، سجاوٹ، باورچیوں، کیٹرنگ اورخاص طور پر بیوٹی پارلروں کوبھی تالے پڑ گئے ہیں، اسی طرح اگرایک جانب شادی ہال ویران ہیں، تو دوسری جانب زیادہ تر نے ملازمین فارغ کردیے ہیں۔

جہاں دن اور سرشام قمقموں کی روشنی کے ساتھ ڈھول شہنائی، بینڈ باجوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا، وہیں اب ایک آدھ بلب کی روشنی میں صرف ایک پہرے دار بندوق گلے میں لٹکائے بوجھل قدموں سے وقت گزاری کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی تناظرمیںشادی ہال ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا کے عہدیداروں نے وزیراعظم عمران خان، چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ چار ماہ سے بند شادی ہالزکو 'ایس او پیز' کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی جائے جب کہ اسی مدت میں ہونے والے نقصان کے لیے امدادی پیکیج کااعلان کیا جائے۔

تاکہ شادی ہالوں سے جڑے ہوئے لوگوں کا مزید معاشی قتل عام نہ ہو، ایسوسی ایشن کے صدر خالد ایوب کہتے ہیں کہ کورونا کے لاک ڈاؤن کے باعث رواں سال 14 مارچ سے شادی ہال بند ہیں, جس کی وجہ سے اب تک ڈھائی ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے، ان کے مطابق پشاورمیں چار سو اور دیگر اضلاع میں 130 رجسٹرڈ اور 300 غیر رجسٹرڈ شادی ہال ہیں، ایک شادی ہال میں تقریباً 40 کے لگ بھگ ملازمین اپنی روزی روٹی کا سامان کرتے ہیں، تاہم چار ماہ سے بندش کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں سمیت ہال کے اخراجات نے شادی ہال کے کاروبار سے وابستہ افراد کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، اس لیے اب ان میں مزید خسارہ برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی، جب کہ بچے کچھے ملازمین کے سروں پربھی بے روزگاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔

بقول ان کے اگر صوبے بھر میں بینک، نادرا کے دفاتر اور دیگر کاروبار کھول دیے گئے ہیں، تو شادی ہال سے وابستہ افراد کو اجازت دینے میں کیا رکاوٹ ہے۔ ہمیں بھی 'ایس او پیز' کے تحت شادی ہال کھولنے کی اجازت دی جائے، اسی سلسلے میں 'شادی ہالز ایسوسی ایشن' کے صدر خالد ایوب کی سربراہی میں ایک وفد نے پچھلے دنوں وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان سے ملاقات میں وزیراعلیٰ کو موجودہ حالات میں اپنے مسائل سے آگاہ کیا، جس پر وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ وہ شادی ہال کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھائیں گے۔

انھوں نے شادی ہال کو ممکنہ 'حفاظتی اقدام' کے تحت کھولنے سے متعلق ایس اوپیز کے لیے صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایس اوپیز تیارہونے کے بعد معاملہ وزیراعظم کی زیرصدارت نیشنل کوآرڈی نیش کمیٹی کے اگلے اجلاس میں اٹھایاجائے گا۔ اس کے بعد شادی ہال کھولنے یا نہ کھولنے کا حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں مختلف کاروبارمتاثرہوئے وہیںشادی کے لیے رشتے ڈھونڈنے والی آنٹیاں اور 'ماسیاں' بھی اس کی زد میں آئیں، ان خواتین کے مطابق لاک ڈاؤن نے انہیں بھی کافی متاثرکیا، کیوں کہ رشتہ ڈھونڈنے اور کرانے کے لیے اول تو کوئی بھی اپنے گھر میں آنے کی اجازت نہیں دیتا، اجازت مل بھی جائے، تو سب سے پہلے یہ پوچھا جاتا ہے کہ مذکورہ خاتون یا ان کے اہل خانہ میں کوئی کورونا کا شکار تو نہیں، اس وباکے باعث شادی دفاتر بھی بند پڑے ہیں۔

جہاں ایک جانب بہت سوں نے شادی کے پروگرام ملتوی کیے وہیں چند موقع پرست یامجبورلوگوں نے موقع کوغنیمت جانتے ہوئے پھولوں کی سیج سجاکر شادیاں کیں یا کرائیں، شادی کے انتظارمیں بیٹھے دولھا نے سہرا سجایا تو لڑکی نے سرخ جوڑا پہن کر والدین کے ارمانوں کو حقیقت کاروپ دیا۔

کسی نے یہ فریضہ ڈنکے کی چوٹ پر تو کسی نے نہایت راز داری سے نبھایا، بعض نے منصوبہ بندی کے تحت ایسا کر کے ''کم خرچ بالانشین'' کا فارمولا اپناتے ہوئے نمودونمائش سے خود کو بچایا، تو بعض نے دل کے ارمان خوب پورے کیے، البتہ اس دوران ایک اچھی بات یہ بھی سامنے آئی کہ جن لڑکیوں یا لڑکوں کی شادیاں جہیز یا دیگر جھمیلوں کے باعث رکی ہوئی تھیں، انھوں نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چند رشتے داروں اوردوستوں کی موجودگی میں ایک نئی زندگی کا آغاز کر دیا۔

اس لیے ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوروناوائرس کے پیش نظر سادگی سے شادی کرنے کی ایک روایت ضرور پڑی ہے، انتہائی کم خرچ میں نمودونمائش کے بغیر دولھا اور دلہن والے گنے چنے افراد کی موجودگی میں شادی کااہتمام کرنے لگے ہیں، صوبائی دارالحکومت پشاور میں کورونا وائرس کے دوران ایک اندازے کے مطابق 1500 سے زائد جوڑے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، مہندی، نکاح، بارات، رخصتی، ولیمے کی تقریبات بھی گھروں کی چاردیواری میں منعقد ہونے لگیں، گھروں کو سجانے سے لے کر آتش بازی، ہوائی فائرنگ، بینڈ باجا اوردولھا کی گاڑی سجانے سمیت دیگرروایات ورسومات کو ترک کر دیا گیا، لاک ڈاؤن میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے بیش تر نوجوانوں کے مطابق شادی میں صرف چند قریبی رشتے داروں اور پڑوسیوں کو گھروں میں دعوت دی گئی۔

کورونا کی وجہ سے شادی پر صرف 50 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک خرچ آیا، یوں لاکھوں روپے کی بچت ہوئی، اس طرح کورونا کی وبا کم سے کم لوگوں کو یہ باور کرانے میں کام یاب ہوئی ہے کہ کم خرچ میں بھی فرائض نمٹائے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں