فنڈز کے استعمال والے منصوبوں کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں
سالانہ ترقیاتی منصوبے میں مناسب فنڈز والی گھوسٹ اسکیموں کو شامل کیا گیا،عہدیدار
سندھ اسمبلی کے آخری بجٹ اجلاس کے دوران بہت سے لوگوں کو بجٹ دستاویزات میں ترقیاتی منصوبوں کے ذکر پر حیرانی ہوئی تاہم اس رقم کو کبھی بھی اپنے اصل مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا،کچھ معاملات میں مناسب فنڈز والی اسکیمیں بجٹ میں شامل کی گئیں لیکن حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی منصوبے میں مناسب فنڈز والی گھوسٹ اسکیموں کو شامل کیا گیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے پاس دستیاب سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ محکمہ آبپاشی نے 2017 میں سیلاب اور بارش کی ہنگامی صورتحال کی پیش گوئی میں ہنگامی کاموں کے لیے اسکیم 954 وضع کی تھی، اس اسکیم کو 2018 میں منظور کیا گیا تھا اور متوقع تباہی کے2سال بعد2019 اور 2020میں رقوم کا استعمال کیا گیا تھا، جب محکمہ آبپاشی کے حکام سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو وہ اس لاعلم نکلے۔
سیکریٹری آبپاشی رفیق احمد بوریرو نے بتایا میں نے حال ہی میں محکمے کا چارج سنبھالا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس اسکیم کو بجٹ میں کس طرح شامل کیا گیا تھا، جب سندھ میں2017کے سیلاب کے بارے میں پوچھا گیا جو کبھی نہیں آیا تھا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس کے بارے میں نہیں جانتے، 2010 اور 2011 میں سندھ میں لگاتار دو سیلاب آئے جس کی وجہ سے تباہی مچ گئی تھی اس کے بعد سے صوبے میں کوئی سیلاب نہیں آیا۔
محکمہ آبپاشی ایک عہدیدار رنے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ مختص فنڈز بارش کی ہنگامی صورتحال کے لیے استعمال ہوئے ہیں، انھوں نے کہا کہ 2017 میں تیز بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی لہذا حکومت نے دریائے سندھ کے پشتوں کی مضبوطی کی بنیاد پر اخراجات ظاہر کیے، انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ ہر سال چھوٹے اور درمیانے درجے کے سیلاب کا سامنا کرتا ہے۔
محکمہ کے ایک اور عہدیدار نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ رقوم کو شہری علاقوں میں سیلاب کے لیے مختص کردیا گیا تھا، اس معاملے پر بات کرتے ہوئے جی ڈی اے کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر حسنین مرزا نے کہا کہ انھوں نے سندھ اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران فنڈز کے ناجائز استعمال کی نشاندہی کی تھی، بدین میں کیڈٹ کالج کے قیام کے حوالے سے فنڈز کا ایک اور استعمال سامنے آیا، اس اسکیم کو 2017 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اس مقصد کے لیے حکومت نے ابھی تک زمین حاصل نہیں کی تاہم بجٹ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اس منصوبے پر25 ملین روپے خرچ ہوئے تھے۔
وزیر تعلیم سندھ سے رابطہ نہیں ہوسکا جبکہ ڈپٹی کمشنر بدین حفیظ سیال نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے الزام لگایا کہ سندھ حکومت کے محکموں نے پچھلے کچھ سالوں میں کھربوں روپے کا غلط استعمال کیا ، انھوں نے کہا حکومت ہر سہ ماہی کے اخراجات کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرنے کی پابند ہے، ہم گذشتہ چھ ماہ سے حکومت سے تفصیلات شیئر کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن سب بیکار گیا،انھوں نے کہا کہ غبن چھپانے کیلیے بجٹ کے کاغذات میں بہت ساری اسکیمیں چل رہی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی منصوبے میں مناسب فنڈز والی گھوسٹ اسکیموں کو شامل کیا گیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے پاس دستیاب سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ محکمہ آبپاشی نے 2017 میں سیلاب اور بارش کی ہنگامی صورتحال کی پیش گوئی میں ہنگامی کاموں کے لیے اسکیم 954 وضع کی تھی، اس اسکیم کو 2018 میں منظور کیا گیا تھا اور متوقع تباہی کے2سال بعد2019 اور 2020میں رقوم کا استعمال کیا گیا تھا، جب محکمہ آبپاشی کے حکام سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو وہ اس لاعلم نکلے۔
سیکریٹری آبپاشی رفیق احمد بوریرو نے بتایا میں نے حال ہی میں محکمے کا چارج سنبھالا ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس اسکیم کو بجٹ میں کس طرح شامل کیا گیا تھا، جب سندھ میں2017کے سیلاب کے بارے میں پوچھا گیا جو کبھی نہیں آیا تھا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس کے بارے میں نہیں جانتے، 2010 اور 2011 میں سندھ میں لگاتار دو سیلاب آئے جس کی وجہ سے تباہی مچ گئی تھی اس کے بعد سے صوبے میں کوئی سیلاب نہیں آیا۔
محکمہ آبپاشی ایک عہدیدار رنے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ مختص فنڈز بارش کی ہنگامی صورتحال کے لیے استعمال ہوئے ہیں، انھوں نے کہا کہ 2017 میں تیز بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی لہذا حکومت نے دریائے سندھ کے پشتوں کی مضبوطی کی بنیاد پر اخراجات ظاہر کیے، انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ ہر سال چھوٹے اور درمیانے درجے کے سیلاب کا سامنا کرتا ہے۔
محکمہ کے ایک اور عہدیدار نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ رقوم کو شہری علاقوں میں سیلاب کے لیے مختص کردیا گیا تھا، اس معاملے پر بات کرتے ہوئے جی ڈی اے کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر حسنین مرزا نے کہا کہ انھوں نے سندھ اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران فنڈز کے ناجائز استعمال کی نشاندہی کی تھی، بدین میں کیڈٹ کالج کے قیام کے حوالے سے فنڈز کا ایک اور استعمال سامنے آیا، اس اسکیم کو 2017 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اس مقصد کے لیے حکومت نے ابھی تک زمین حاصل نہیں کی تاہم بجٹ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اس منصوبے پر25 ملین روپے خرچ ہوئے تھے۔
وزیر تعلیم سندھ سے رابطہ نہیں ہوسکا جبکہ ڈپٹی کمشنر بدین حفیظ سیال نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے الزام لگایا کہ سندھ حکومت کے محکموں نے پچھلے کچھ سالوں میں کھربوں روپے کا غلط استعمال کیا ، انھوں نے کہا حکومت ہر سہ ماہی کے اخراجات کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرنے کی پابند ہے، ہم گذشتہ چھ ماہ سے حکومت سے تفصیلات شیئر کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن سب بیکار گیا،انھوں نے کہا کہ غبن چھپانے کیلیے بجٹ کے کاغذات میں بہت ساری اسکیمیں چل رہی ہیں۔